Thursday, September 1, 2016

TAVSIYAT-QURAN (विस्तृति EXTENTION ) ME HADEES KI ZARURAT

٭٭توسیعات قرآن میں حدیث کی ضرورت٭٭

قرآن پاک کی بعض آیات میں کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں،جب یہ دریافت ہوجائیں تو ان کا پھیلاؤ اپنی لپیٹ میں کچھ اورجزئیات کو بھی لے آتا ہے، یہ ساری ذمہ داری مجتہدین پر نہیں چھوڑی گئی ؛بلکہ حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بعض قرآنی اصول کی توسیعات فرمائی، قرآنی توسیعات میں حدیث کی رہنمائی یقین کا فائدہ بخشتی ہے۔ 
(
۱)"أَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّامَاقَدْ سَلَفَ"۔ (النساء:۲۳)
ترجمہ: اوریہ حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرو، ہاں جو پہلے ہوچکا، ہوچکا۔
ایک شخص کے نکاح میں جمع ہوکر دو بہنوں میں کھچاؤ پیدا ہونے کا قوی مظنہ تھا،قرآن کریم کے اس حکم میں یہ حکمت تھی کہ وہ صلہ رحمی جو بہنوں میں ہونی چاہئے پامال نہ ہو اور ایک خاندان (بیوی کے خاندان) سے دو متقابل رشتے قائم نہ ہو اورنہ باہم مودت پامال ہو۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصل شرعی کی پوری حفاظت فرمائی اوراس علت کو پھوپھی بھتیجی اورخالہ بھانجی تک پھیلادیا کہ یہ بھی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتیں، آپ نے اس قرآنی اصل "أَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ" کی توسیع فرمادی،محدث ابن حبان (
۳۵۴ھ) روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"انکن اذا فعلتن ذلک قطعتن ارحامکن"۔ (نیل الاوطار:۶/۱۵۷) ترجمہ: اگر تم نے ایسا کیا تو تم نے قطع رحمی کی۔
قرآنی اصل کی توسیع میں حدیث کا فیصلہ قطعی اور یقینی ہوتا ہے،مجتہد اصل حکم دریافت کرکے اسے کتنی ہی جزئیات پر پھیلائے، ظنیت پھر بھی قائم رہتی ہے،حدیث صریح والی قطعیت اس میں نہیں آتی ۔قرآنی احکام کی توسیع میں صرف حدیث قطعی ہے۔
(
۲)شریعت اسلامی میں نسب و صہر کے رشتوں کے ساتھ دودھ کے رشتے حرام کئے گئے ہیں،ان سے نکاح جائز نہیں، قرآن کریم میں ہے:
"وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ مِنَ الرَّضَاعَةِ"۔ 
(النساء:۲۳)
ترجمہ: تمہاری دودھ کی مائیں اور بہنیں بھی تم پر حرام کی گئی ہیں،یعنی تم ان سے نکاح نہیں کرسکتے۔
قرآن کریم نے دودھ کے رشتوں میں صرف ماں اور بہن کا ذکر کیا ہے،اس قرآنی اصل کی توسیع میں رضاعی خالہ اور رضاعی پھوپھی بھی آجاتی ہیں، حدیث نے اسے بیان کرکے قرآنی اصول کو پھیلادیا اورایک بڑی ضرورت پوری کردی، رضاعی حرمت کا تعلق صرف اس دودھ پلانے والی ہی سے نہیں رہے گا؛ بلکہ اس کا خاوند بھی دودھ کے رشتے میں باپ تسلیم کیا جائے گا اور اس کے لیے یہ دودھ پینے والی بچی حکماً بیٹی ہوگی، اس قسم کے مسائل جو اصول و علل پر مبنی ہوں اپنی توسیع میں کئی جزئیات کو شامل ہوتے ہیں، ان توسیعات قرآنی میں حدیث کی اشد ضرورت ہے۔
(
۳)قرآن کریم نے سود کی حرمت بیان کی،اس حکم کے تحت اور کئی کاروبار بھی آتے تھے، حدیث نے اس حکم کی علت کو پھیلادیا،قرآن کریم نے تو اتنا فرمایا:
"وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا"۔ (البقرۃ:
۲۷۵)
ترجمہ: اللہ تعالی نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔
یہ سود کی حرمت کا بیان ہے،لیکن اس حکم کی علت اورحرمت اپنی لپیٹ میں کئی تجارتوں کو بھی شامل تھی،حضوراکرمﷺ نے سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور اور نمک چھ چھ چیزوں کی بیع و شراء میں حکم دیا کہ اگر ان کا باہمی تبادلہ کیا جائے تو برابر سرابر اورنقد دست بدست ہونا چاہئے، ان میں ادھار کیا گیا یا مقدار میں کمی بیشی کی گئی تو وہ بھی سود ہوجائے گا، آنحضرتﷺ نے درخت پر لگے پھلوں اورٹوٹے پھولوں کے مابین اورکئے ہوئے صاف غلے اورکھڑی فصلوں کے باہمی سودے کو بھی سود میں داخل کیا ؛کیوں کہ ان میں صورتوں میں کمی بیشی کا امکان بہر صورت موجود رہتا تھا، قرآن کریم میں جس سود کا ذکر ہے اس سے جلی طور پر وہی سود مراد ہے جو قرض پر لیا جاتا تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ایک دوسری قسم کے سود کا علم ہوا جو عنواناً سود نہ تھا، لیکن اس میں سود کی اصل لپٹی تھی،امام طحاویؒ (
۳۲۱ھ) لکھتے ہیں:
"اس سود کے حرام ہونے پر بھی حضورﷺ کی متواتر احادیث وارد ہیں،اس قسم کے سود کی تفصیل پہلے موجود نہ تھی،اس لیے صحابہ کرامؓ کو اشکال ہوا اور فقہاء کے بھی اختلاف ہوئے"۔
(شرح معانی آلاثار:
۲/۲۳۲)
جاہلیت میں سود کا لفظ پورا متعارف تھا اور اس سے وہ زیادتی مراد تھی جو قرض ادھار پر لی جاتی تھی، حدیث نے اس کی علت اورسبب کی نشاندہی بھی کردی اورجس جس بیع و شراء میں اس کا اثر آتا تھا اسے بھی حرام قرار دے دیا،حدیث قرآنی اصل کی توسیع میں بنیادی کام کرتی ہے اوراس سے مسئلہ میں قطیعت بھی آجاتی ہے جو صرف اجتہاد و مجتہد سے نہیں آتی۔
اس ساری بحث (Discussion) کا حاصل یہ ہے کہ قرآن پاک کے لیے ایک ایسے جز ولازم کی ضرورت ہے جو اس کے مجملات کی عملی تشکیل کرے،اشارات کی تفصیل کرے،مشکلات کی توضیح کرے،اصول و علل کی توسیع کرے اور زندگی کے ان ہزار ہا مسائل کو جو قرآن پاک میں منصوص نہیں،ایسا استناد مہیا کرے جس کے تحت ہزاروں جزئیات قرآن پاک کے تحت جمع ہوجائیں اوران کا واضح اورکامیاب حل سامنے آجائے اور قرآن پاک کی شان جامعیت اپنی جگہ قائم رہے۔
حضور اکرم صلیﷺ کی ذات گرامی نے اپنی حدیث/ سنت اورقرآنی معاشرے کے پاکیزہ افراد صحابہ کرامؓ کے ذریعہ اسلام کووہ استناد مہیا کیا کہ اس میں ہر ضرورت کا حل ہر سوال کا جواب، ہرالجھن کا سلجھاؤ ملا اورہر اضطراب کو شفاء ملی،آنحضرتﷺ کی بعثت کا مقصد قرآن پاک پہچانا ہی نہ تھا، کتاب الہٰی کی تعلیم بھی تھی اوراللہ تعالی کی نگرانی میں ایک قرآنی معاشرے کی تشکیل بھی تھی، آپ نے قرآن وحکمت کی تعلیم اورصحابہؓ کے تزکیہ باطن سے ایک اچھا معاشرہ بھی تشکیل دیا،آپ نے زندگی کے لا تعداد مسائل کو ایسا استناد بخشا کہ ہم زندگی کے کسی گوشے میں بھی اپنے آپ کو تشنہ کام نہیں پاتے،یوں کہیے حدیث علم کے ہر باب میں ہمیں شفا بخشتی ہے۔
حدیث نبوی دین میں حرفِ آخر ہے
حدیث نبوی ہر صاحب بصیرت انسان کے لیے دین کا حرف آخر ہے،یہ صحیح ہے کہ قرآن کریم شریعت کا اول علمی ماخذ ہے؛ لیکن قرآن کریم کی کسی آیت میں اگر مفہوم کا کہیں اختلاف ہو اوروہاں دورائیں قائم ہوسکتی ہوں اور نبوت کسی ایک معنی کی تعیین کردے تو حرف آخر پھر کس کی بات ہوگی؟ صحابہ کرام کسی آیت کی تشریح میں مختلف ہوں تو جس کی بات بھی لے لی جائے، اس میں ہدایت ہے، کسی کی بات حرفِ آخر نہیں؛ لیکن جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کسی ایک معنی کی تعیین کردیں تو پھر اورکسی سے پوچھنے کا کسی کو حق نہیں، آپ کی بات دین میں حرف آخر ہے، قرآن پاک میں بیان قرآن کا حق آپ کوہی دیا گیا ہے۔
"وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ"۔
(النحل:
۴۴)
ترجمہ:اور(اے پیغمبر!)ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُن باتوں کی واضح تشریح کردو جو اُن کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔
ایک صورت استثناء
ہاں اگر کسی کو کسی حدیث کے حدیث ہونے میں ہی شک ہو یا اس کے مفہوم میں کوئی تردد ہو اور وہ بایں جہت اس کا انکار کردے کہ یہ ارشادنبوت نہیں تو وہ حدیث بے شک اس کے لیے حرف آخر نہ ہوگی؛لیکن اگر اسے حدیث نبوی مانا جائے اوریہ واضح ہو کہ یہ واقعی ارشاد نبوت ہے، تو پھر اس کے انکار کی کسی کو گنجائش نہیں، حدیث نبوی بلاشبہ دین میں حرف آخر تسلیم ہونی چاہئے، عامی اگر کسی حدیث کا انکار کرے اورکہے جب تک میں اپنےکسی معتمد عالم سے نہ پوچھ لوں اور اس حدیث اوراس کی دلالت کے بارے میں تسلی نہ کرلوں اسے قبول نہ کروں گا تو یہ انکار حدیث شمار نہ ہوگا، اسے ایک علمی اختلاف سمجھا جائے گا۔

No comments:

Post a Comment