Monday, September 26, 2016

AITRAZ : OONTNI KE PESHAB AUR DOODH MILA KAR PINEWALI HADEES



اونٹنی کا پیشاب اور دودھ ملا کر پینے والی حدیث پر ملحدین کی چولیں اور حقیقت؟؟؟



__---__----___---__----__----__----___----__---___----__---_--

میرے نزدیک استاد کی تعریف یہی ہے کہ جس نے مجھے دین کی ایک بات بھی سکھا دی، وہ میری نگاہ میں میرا استاد ہی ہے۔
مذکورہ حدیث جو آیندہ سطروں میں بیان کی جائے گی، یہ معترضین اسلام کا ایک آزمودہ ہتھیار ہے، جس سے وہ مجھ جیسے سبھی کم علم مسلمانوں کو ایک ہی جست میں دفاعی لائن پہ دھکیل دیتے ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ ہماری ان تحاریر تک نارسائی ہے، جو اس حوالے اساتذہ کرام نے پچھلے کئی سو سال میں کئی سو بار لکھیں۔ لیکن جن لوگوں تک پہنچیں، انہوں نے اسے عام کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی۔
خیر۔ ہمیشہ کی طرح اساتذہ کی تحاریر سے اقتباسات اکھٹے کرنے کا آغاز میں اصل حدیث پیش کرکے کرنا چاہوں گی۔ ملاحظہ ہو:

عن أنس أن ناساًاجتووا فی المدینۃ فأمرھم النبی أن یلحقوا براعیہ ۔یعنی الابلفیشربومن ألبانھا وأبوالھا فلحقوا براعیہ فشربوامن ألبانھا وأبوالھاحتٰی صلحت أبدانھم (صحیح بخاری کتاب الطب باب الدواء بأبوال الإ بل رقم الحدیث 5686)

ترجمہ:
قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مدینے کی آب وہواموافق نہ آنے پر وہ لوگ بیمار ہوگئے (ان کو استسقاء یعنی پیٹ میں یا پھیپھڑوں میں پانی بھرنے والی بیماری ہوگئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینے کی دوا تجویز فرمائی ۔یہاں تک کہ اسے پی کروہ لوگ تندرست ہوگئے۔

جب بھی یہ حدیث کسی مسلمان کے سامنے کسی ایسے فورم پر پیش کی جاتی ہے، جو بنا ہی اسلام پر تنقید کرنے کے لیے ہے، تو اس کے ساتھ بہت سے تضحیک آمیز الفاظ بھی جزو لازم کی طرح ضرور ہوتے ہیں۔ نتیجتاً بہت سے ناواقف مسلمان پہلے تو اسے حدیث ماننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ اور جب بخاری شریف سے ہی یہ حدیث نکال کر پیش کردی جاتی ہے تو اکثر بہن بھائی حدیث کی سب سے مستند کتاب سے ہی بدظن ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے، عشق مصطفی ﷺ تقاضا بھی یہی کرتا ہے کہ حضور علیہ السلام کی ذات بابرکات و کمالات میں کوئی عیب تصور بھی نہ کیا جائے، تسلیم کرنا تو بڑی دور کی بات ہے۔

لیکن کیا یہ واقعی کوئی عیب ہے؟ اس حدیث پاک میں واقعی کوئی برائی موجود بھی ہے یا کسی نے کمال مکاری سے اسے پیش ہی کچھ اس طرح کیا ہے کہ ہم حضور علیہ السلام کی ذات سے ان الفاظ کا مترادف بھی نہ جوڑ پائیں؟ تو اس سوال کا جواب ہے، بالکل، صرف اس حدیث ہی کو نہیں، تمام نصوص شریعہ کو معترضین اسلام اپنے من گھڑت، بے سر و پا قیاسات کے ساتھ ملاکر پیش کرتے ہیں، تبھی ان کا چولہا جلتا اور کام چلتا ہے، ورنہ اسی حدیث پر چند سطروں بعد آپ کو اتنا غرور اور معترضین کو وہ سبکی ہونے والی ہے کہ سب دیکھتے رہ جائیں گے۔

سب سے پہلی بات اس ضمن میں یاد رکھنے کی یہ ہے کہ یہ حکم تب بھی علاج کی غرض سے تھا۔ اور اس کا اطلاق اب بھی صرف اور صرف علاج ہی کی غرض سے ممکن ہے۔ اسی تناظر اب آیئے یہ دیکھتے ہیں کہ جدید میڈیکل سائنس اس معاملے میں کہیں اسلام سے پیچھے تو نہیں رہ گئی؟ کہیں ایسا تو نہیں ہوگیا کہ اسلام نے لوگوں کو علاج کے لیے اونٹنی کا پیشاب پلا دیا اور سائنس اب تک گرائپ واٹر سے ہی سب امراض کا علاج فرما رہی ہو؟ یقیناً ملحدوں کو یہ جان کر بہت خوشی ہوگی کہ آج ایک مسلم خاتون اس حوالے سے سائنس کے آگے، بلکہ بہت آگے ہونے کا ناصرف اقرار کرنے چلی ہے، بلکہ ثبوت بھی خود پیش کر رہی ہے۔ ملاحظہ ہوں جدید انگریزی طریقہ علاج کی ان ادویات میں سے چند کا تعارف جو پیشاب سے حاصل کی جاتی ہیں۔

1. Premarin.
یہ دوائی مادہ ہارمون estrogen کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ Pfizer مشہور کمپنی اس کی ڈسٹریبیوٹر ہے اور یہ گولیوں، انجکشن اور کریم کی صورت میں استعمال کی جاتی ہے۔
یہ عورتوں میں menopausal syndrome کی موجودگی میں دی جاتی ہے۔ عورتوں میں ماہواری کے ختم ہونے کے بعد ہونے والی تبدیلیوں جیسے بلڈ پریشر، ہڈیوں کا بھر بھرا پن وغیرہ میں استعمال کی جاتی ہے۔ یہ جان کر آپ کو بہت لذت اور پاکیزگی محسوس ہوگی کہ اس دوائی کو حاملہ گھوڑی کے پیشاب سے حاصل کیا جاتا ہے۔
ابتدائی طور پر اس کا حصول ان عورتوں کا پیشاب لینا ہوتا تھا جن کی ماہواری رک گئ تھی کیونکہ ایسی عورتوں کے پیشاب میں estrogen کافی مقداد میں پایا جاتا ہے۔
2. Menotropin.
اس دوائی کا بھی اصل ماخذ ان عورتوں کا پیشاب ہے جن کی ماہواری رکی ہوئی ہو۔
یہ دوائی ان بے اولاد جوڑوں کو دی جاتی ہے جن میں خاص کر Follicle Stimulating Hormone کی کمی ہو یا اس عورت کو جس کا ovum اس کی ovary سے جدا نہ ہوتا ہے جسے ovulation کہتے ہیں۔ اس دوائی کے استعمال سے دیکھا گیا ہے کہ ان عورتوں میں حمل ٹھہر جانے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔ 

سن کر لذت تو آرہی ہوگی ملحدین کو؟

3. Urine derived iPluripotent Stem Cells. iPSC.

دل کے پٹھے کمزور ہونا جسے cardiomyopathy کہا جاتا ہے، معاشرے کی ایک بہت عام بیماری ہے اور اس کا واحد علاج دل کا ٹرنسپلانٹ کروانا ہے۔
اب ایسے مریضوں کے پیشاب کا معائنہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس میں ایسے خاص cells موجود ہیں جو pluripotent ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یعنی ان cells کو استعمال کر کے دل کے کمزور پٹھوں کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ Mack DLکی یہ تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور مستقبل میں ممکن ہے کہ پیشاب کو بطور دل کے خلیہ جات حاصل کرنے کا ایک ماخذ جانا جاۓ۔

4. Pergonal .

یہ دوائی بھی انسانی پیشاب سے حاصل کی جاتی ہے اور اس کا بھی وہی استعمال ہے جو Menatropin کا ہے۔

5.Amphetamine .

یہ دوائی نفسیاتی مریضوں یعنی ملحدوں کو، جنہیں narcolpsy یا جہاں neural disorders ہوں، اس وقت تجویز کی جاتی ہے۔ اگرچہ اس کو بعض کیمیکل ری ایکشنز کے ذریعے لیبارٹری میں تیار کیا جاتا ہے، مگر جب اس کے سائڈ ایفیکٹس زیادہ ہونے لگے تو 70 کی دہائی میں اس کی ترسیل اور بنانے پر کڑی پابندیاں لگنا شروع ہو گئیں۔
آج کل اس کی زیادہ سے زیادہ پروڈکشن کو ممکن بنانے کے لیے بعض یورپی ممالک اسے پیشاب سے extract کرنے کے تجربات کر رہے ہیں اور HPLC کا استعمال اس معاملے میں کافی مفید ثابت ہوا ہے۔

6. Penicillin.

پینسلین سے کون واقف نہیں۔ فلیمنگ کو اس نے دنیا کا سب سے بڑا مسیحا بنا دیا اور antibiotics کی دنیا میں اس نے ایک انقلاب برپا کر دیا۔ اس دوائی کی تیاری میں moulds یعنی پھپھوندی کا استعمال کرنا عام بات ہے جس کی وجہ سے اس کی پروڈکشن کم ہے۔
حال ہی میں ڈاکٹر کرسٹین نے محسوس کیا جو مریض پینسلین استعمال کرتے ہیں ان کے پیشاب میں اس کے مواد کافی پاۓ جاتے ہیں اور اگر اس پیشاب کو ریسائکل کیا جاۓ تو پینسلین کا حصول قدرے آسان ہو جاۓ گا۔

7. Urine as purified water.

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ اس پر ناسا اپنا ایک پورا بجٹ پانی کی ترسیل پر لگا دیتا ہے۔ اس کا ایک آسان حل یہ نکالا گیا ہے کہ خلابازوں کے پیشاب کو ہی ریسائکل کرنے کے بعد اسے بطور پانی استعمال کیا جاۓ۔

اب تو منہ میں پانی آرہا ہے نا ملحدو؟

8. Tumor therapy.
Waltor H.
آسٹریا کے مشہور فارماسسٹ ہیں اور انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ صبح کے وقت کیے جانے والے پیشاب میں ایسے مواد شامل ہیں جو کہ کینسر کے خلیوں کے خلاف مدافعت رکھتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ اگر پیشاب کو اچھی طریقے سے بلنڈ کرنے کے بعد اس کے مواد کو استعمال کیا جاۓ تو وہ کینسر جیسے موذی مرض پر قابو پا سکتے ہیں۔ فی الحال یہ بات ابھی تحقیقی مراحل میں ہے جس کے نتائج آنا باقی ہیں۔

نتیجہ؟؟؟ گھوڑی اور انسان کا پیشاب ہمممم ہمممم، اونٹنی کا پیشاب تھو تھو؟؟؟ واہ رے ملحد تیری ریا کاریاں، مکاریاں تے عیاریاں۔

اور بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ مرض استسقاء، جس کا علاج میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کا پیشاب اور دودھ تجویز فرمایا، وہ ہے کتنی بڑی بلا اور جدید میڈیکل سائنس اس کا کتنا تکلیف دہ علاج تجویز کرتی ہے، ذرا یہ تحقیق بھی ملاحظہ ہو:

اگر آپ کو واقعی کیمسٹری کے اصول یاد ہیں تو آپ کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ دو مختلف کیمیکلزکے ملنے سے ایکشن اور ری ایکشن ہوتا ہے۔ یاد دہانی کے لئے میں کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں۔

پانی کے لئے H2O ہائیڈروجن کے دو مالیکیول اور اکسیجن کا ایک مالیکیول مل کر پانی بنتا ہے۔

نیلا تھوتھا زہر ہے اور آپ کو پتہ ہو گا کہ اگر نیلا تھوتھا کی قلمیں بنا لی جائیں تو پھر نیلا تھوتھا سے زہر کا اثر ختم ہو جاتا ہے اور اسے پھرکچھ بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
سوڈیم” اسے اگر کھولیں تو ہوا سے آکسیجن ملتے ہی اسے آگ لگ جاتی ہے ، اور ” سوڈیم کلورائیڈ” جو ہم روزانہ کھانے میں استعمال کرتے ہیں۔ انسان کو کچھ نہیں ہوتا۔

اونٹنی کے دودھ میں “ پوٹاشیم ” بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پروٹین، آئرن، فیٹ، پانی، فاسفورس ، کیلشیم، اور وٹامن سی، کیکٹوس/قدرتی مٹھاس اور ڈیوریٹک/پیشاب آور، ہوتے ہیں۔

اب دودھ کے اندر پائی جانے والے ان کیمیکلز کو سامنے رکھیں تو پیشاب میں پائے جانے والے ٹاکسس کے اثر کو ختم کرنے کے لیئے یہی کافی ہیں۔ کیمسٹری فارمولہ کے مطابق اونٹنی کا پیشاب اس وقت تک پیشاب رہے گا جب تک وہ دوسرے اجسام کے ساتھ نہیں ملا، جونہی اونٹنی کا پیشاب اونٹنی کے دودھ میں شامل ہوا تو پھر دونوں اجسام میں پائے جانے والے کیمیکلز سے جو ری ایکشن ہو گا اس سے پیشاب نام اور مقام کھو بیٹھے گا۔ اور ایک الگ مکسچر بنے گا۔
یہاں ایک اور بات واضح کرتی چلوں کہ پانی کے ایک گلاس کو میٹھا کرنے کے لئے چینی کی کچھ مقدار/ ایک چمچ ڈالی جاتی ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ پانی کے ایک گلاس میں چینی کا ایک گلاس ڈالا جائے۔ اسی طرح دودھ میں پیشاب ملا کر پینے کا مطلب یہ نہیں کہ دودھ کا ایک گلاس اور پیشاب کا ایک گلاس، بلکہ دودھ کے ایک گلاس میں پیشاب کی کچھ مقدار جو کہ ڈراپس بھی ہو سکتے ہیں اور چمچ بھی۔ بالکل اسی طرح جیسے ہائیڈروجن کے دو مالیکول اور آکسیجن کا ایک مالیکیول ان کو اکٹھا کریں تو دونوں اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں اور اس سے جو تیسری چیز بنتی ہے جسے ہم پانی کہتے ہیں۔

عکل اور عرینہ کے لوگوں میں جو بیماری تھی اسے موجودہ طبی سائنس میں پلیورل ایفیوزن (Pleural Effusion) اور ایسائٹیز (Ascites) کہا جاتا ہے۔ یہ انتہائی موذی مرض ہے۔پلیورل ایفیوزن کے مریض کو بے حس کر کے پسلیوں کے درمیان آپریشن کر کے سوراخ کیا جاتا ہے۔ اس سوراخ سے پھیپھڑوں میں چیسٹ ٹیوب (Chest Tube) داخل کی جاتا ہے اور اس ٹیوب کے ذریعہ سے مریض کے پھیپھڑوں کا پانی آہستہ آہستہ خارج ہوتا ہے۔ اس عمل کا دورانیہ 6 سے 8ہفتہ ہے۔ اس مکمل عرصے میں مریض ناقابل برداشت درد کی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے ۔ اور بعض اوقات تو وہ موت کی دعائیں مانگ رہا ہوتا ہے۔ (بہت سوں نے خود اسپتالوں میں ان مریضوں کی یہ حالت شاید دیکھی بھی ہو)۔ایسائٹیز کے مریض کے پیٹ میں موٹی سرنج داخل کر کے پیٹ کا پانی نکالا جاتا ہے۔ یہ عمل باربار دہرایا جاتا ہے۔ ان دونوں طریقوں میں مریض کو مکمل یا جزوی طور پر بے حس کیا جاتا ہے۔ (Short Practice of Surgery page 698-703 & 948-950)
اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیں خیرالقرون میں اس بیماری کا کتنا آسان سا علاج، یعنی اونٹنی کا دودھ اور پیشاب تجویز فرمایا تھا، جو آج بھی کار آمد ہے۔ ثبوت ملاحظہ ہوں:

ڈاکٹر خالد غزنوی اپنی کتاب علاج نبوی اور جدید سائنس میں تحریر فرماتے ہیں:

ہمارے پاس اسی طرح کے مریض لائے گئے عموماً۔4 سال سے کم عمر کے بچے اس کا شکار تھے۔ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل کیا اونٹنی کا دودھ اور پیشاب منگوایا اور دونوں کو ملاکر ان بچوں کا پلادیاکچھ ہی عرصے بعدان کے پھیپھڑوں اور پیٹ کا سارا پانی پیشاب کے ذریعے باہر آگیا اور بچے صحت یاب ہوگئے۔وللہ الحمد،اور آج وہ جوان ہیں‘‘۔ (علاج نبوی اور جدید سائنس جلد 3بابAscites  

محترمہ ڈاکٹر فاتن عبدالرحمٰن خورشیدکا سعودی عرب کی قابل سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ یہ کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کی فیکلٹی ممبر ہونے کے علاوہ کنگ فہد سنٹر میں طبی تحقیق کے لیے قائم کردہ Tissues Culture Unit کی صدر ہیں۔ وہ میڈیکل ڈاکٹر تو نہیں ہیں تاہم اسی حدیث سے متاثر ہو کر انہوں نے اس پر تحقیقی کام کیا اور اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملا کر کینسر سے متاثرہ افراد کو پلایا ۔ انہوں نے لیب کے اندر اپنے ان تجربات اور ریسرچ کوسات سال تک جاری رکھا اور معلوم کیا کہ کہ اونٹ کے پیشاب میں موجود نانو ذرات کامیابی کے ساتھ کینسر کے خلیات پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اس دوا کا معیار انٹرنیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کی شرائط کو پورا کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کو کیپسول اور سیرپ کی شکل میں مریضوں کو استعمال کروایا ہے اور اس کا کوئی نقصان دہ سائیڈ ایکفیکٹ بھی نہیں ہے۔
محترمہ ڈاکٹر خورشید صاحبہ کا کہنا ہے کہ وہ اونٹنی کے دودہ اور پیشاب کو مخصوص مقدارون میں ملا کر مزید تجربات کے ذریعے اپنی دوا کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور اپنی توجہ اس جانب مرکوز کئے ہوئے ہیں کہ اسی دوا سے کینسر کی بعض مخصوص اقسام جیسے پھیپھڑوں کے کینسر، خون کے کینسر، بڑی آنت کے کینسر، دماغ کے ٹیومر اور چھاتی کے کینسر کا علاج تسلی بخش طریقے سے کیا جاسکے۔

اور اگر اتنے فوائد اور وضاحتیں پڑھنے کے بعد بھی کسی کو تسلی نہ ہوئی ہو تو پیش خدمت ہے یوریا، یعنی کھاد کی تیاری کا عرف عام میں نسخہ۔
پورے شہر کی گندگی، جس میں انسانی فضلات بھی شامل ہوتے ہیں، کو ڈیفرٹیلائز کرنے کے بعد، اس میں سبزیوں کےمصنوعی بیج شامل کرکے، جو انتہائی بدبودار مکسچر ہمیں حاصل ہوتا ہے اسے یوریا کہتے ہیں۔ اسی سے پیدا ہونے والی سبزیاں اکثر ملحدین کی مرغوب غذا ہیں۔ (ہن آرام اے ملحدو؟)
آخر میں قرآن مجید کی ایک آیت مسلمان بہن بھائیوں کے لیے۔

فَمَنِ اضْطُرَّ غَیرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلٓا إِثْمَ عَلَیہِ

یعنی:

جو شخص مجبور (بھوک کی شدت سے موت کا خوف) ہوجائے تو اس پر (حرام چیز کے کھانے میں) کوئی گناہ نہیں بس وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو 
سورۃ البقرۃ ۔آیت 173

لہذا جان بچانے کے لیے اونٹنی کا پیشاب پینے میں نصوص ہرگز مانع نہیں، بلکہ جیسا عرض کیا گیا کہ دودھ سے ملنے کے بعد وہ پیشاب رہتا بھی نہیں۔
اس تحریر کے لیے سارا مواد و رہنمائی فرمانے کے لیے طلحہ بھائی آپ کا بے حد شکریہ۔ اللہ پاک آپ کی محنت قبول فرمائے۔
و آخر دعونا ان الحمد اللہ رب العالمین

 :REFERENCES
https://en.wikipedia.org/wiki/Gonadotropin_preparations

Gonadotropin preparations are drugs that mimic the physiological effects of gonadotropins, used therapeutically mainly as fertility medication for ovarian hyperstimulation and reversal of anovulation. For example, the so-called menotropins consist of LH and FSH extracted from 
.human urine from menopausal women1There are also recombinant variants.

FSH and LH preparations

hMG (human Menopausal Gonadotrophins), FSH and LH prepared from human urine collected from postmenopausal women. First extracted in 1953. Injected intra-muscularily (IM) or subcutaneously (SC).


No comments:

Post a Comment