Wednesday, August 31, 2016

4.MAJMULAAT AUR MOHTMALAAT E QURAANI ME HADEES KI ZARURAT

مجملات قرآنی :
(
۱)"وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ"۔ (البقرۃ:۴۲)
نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو. نمازوں کی رکعات ترتیب، کیفیت ادا اور وسعت وقت یہ وہ مباحث ہیں جو قرآن کریم میں نہیں ملتے،زکوٰۃ کن کن چیزوں میں ہے سالانہ ہے، یا ماہانہ،اس کا نصاب اور مقدار کیا ہے؟ یہ تفصیل قرآن کریم میں نہیں ملتی؛ حالانکہ ان تفصیلات کے بغیر ان قرآنی حکموں پر عمل نہیں ہوسکتا۔
(
۲)"وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ"۔ (الحج:۲۹)
اور طواف کریں اس قدیم گھر کا طواف کے چکر سات ہیں یا کم و بیش؟ طواف حجر اسود کے کونے سے شروع ہوگا یا رکن عراقی وشامی یا یمانی سے؟ یہ تفصیل قرآن کریم میں نہیں ملتی، صفا و مروہ کے درمیان سعی کتنی دفعہ ہے؟ سعی کی ابتداء کوہِ صفا سے ہے یا کوہِ مروہ سے طواف پہلے کیا جائے گا یا سعی پہلے کرنا ہوگی؟ ان تفصیلات کے جانے بغیر ان احکام قرآنی کی عملی تشکیل نہیں ہوسکتی۔
(
۳)"کُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا"۔ (البقرۃ:۱۶۸)
".......وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ"۔ (الاعراف:
۳۲)
قرآن کریم نے حلال طیبات کو جائز قرار دیا اورخبائث اور ناپاک چیزوں کو حرام کہا، اب یہ موضوع کہ درندے اورشکاری پرندے طیبات میں داخل ہیں یا خبائث میں یہ تفصیل قرآن پاک میں نہیں ملتی،حدیث میں ارشاد ہے کہ "ذی ناب من السباع" کچلیوں والے درندے اور "ذی مخلب من الطیر" پنچوں سے کھانے والے پرندے مسلمان کے پاکیزہ رزق میں داخل نہیں۔
(
۴)"أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ"۔ (المائدہ:۹۶)
حلال کیا گیا تمہارے لیے دریائی شکار؛لیکن یہ بات کہ مچھلی کو پکڑنے کےبعد اس کو ذبح کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں،قرآن کریم میں اس کی وضاحت نہیں ملتی،حدیث میں ہے کہ دریا کے شکار کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں،سمک طافی(مری مچھلی جو تیر کر اوپر آجائے) کو حدیث میں ناجائز بتلایا گیا ہے،قرآن پاک نے خون کو مطلقا حرام کہا تھا،حدیث نے تفصیل کی اوربتایا کہ کلیجی اور تلی (کی صورت میں جما ہوا خون) حلال ہے۔
(
۵)"وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ"۔ (المائدہ:۴)
ترجمہ: اور جو سدھاؤ شکاری جانور شکار پر دوڑانے کو سکھاتے ہو تم انہیں جو اللہ نے تم کو سکھایا۔
اس آیت سے پتہ چلا کہ وہ کتا جو سکھایا ہوا نہ ہو اس کا پکڑا ہوا اور مارا ہوا شکار حرام ہے؛ لیکن شکاری کتا اگر اپنے شکار کو خود کھانے لگے تو اس کا حکم قرآن کریم میں نہیں ملتا، حدیث میں بتلایا گیا کہ یہ شکار کھانا جائز نہیں،کتے کا کھانا بتلارہا ہے کہ اس کی تعلیم صحیح نہیں ہوئی اوروہ کلب معلم ثابت نہیں ہوا ہے۔
ان جیسے اور سینکڑوں مسائل ہیں جن کی عملی تشکیل اور تفصیل قرآن پاک میں نہیں ملتی، ان موضوعات میں قرآن پاک کے ساتھ جب تک کوئی اور چیز شامل نہ کی جائے قرآن پاک کے یہ مجمل احکام منت پذیر عمل نہیں ہوسکتے۔
اس جزو لازم کی ضرورت سبھی نے محسوس کی ہے، کسی نے اس ضرورت کو حدیث سے پورا کیا، کسی نے اپنی رائے سے اور کسی نے قانون ساز اسمبلی کو اختیار دے کر اس خلاء کو پورا کرنے کی کوشش کی، تاہم اس احساس ضرورت میں سب متفق رہے کہ جب تک قرآن کریم کے ساتھ کوئی اور چیز نہ ملائی جائے،ان مجملاتِ قرآنی کی عملی تشکیل ممکن نہیں۔
محتملاتِ قرآنی :
قرآن پاک میں جو امور مذکور ہیں ان میں بھی بہت سے ایسے مقامات بھی ہیں جہاں آیات قرآنی کئی کئی وجوہ کی محتمل ہیں، ان کی تعیین بھی بدون اس جزولازم کے کسی طرح قطعی واضح اورآسان نہیں اور اس پہلو پر بھی ہر مکتب خیال کی شہادت موجود ہے، سیدنا حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا:ترجمہ: بیشک تمہارے پاس کچھ ایسے لوگ بھی آئیں گے جو قرآنی شبہات پیش کر کے تم سے جھگڑنے لگیں گے، ایسے وقت میں تم سنتوں سے تمسک کرنا؛ کیونکہ اصحاب سنن ہی کتاب اللہ کو زیادہ جانتے ہیں۔(سنن الدارمی،باب التورع عن الجواب فیما،حدیث نمبر:
۱۲۱)
قرآن کریم کی آیات جہاں کئی کئی وجوہ کی محتمل ہوں وہاں ان کا حل پائے بغیر ہم دین کی پوری سمجھ پا نہیں سکتے۔جو لوگ اس ضرورت کو حدیث سے پورا کرنا نہیں چاہتے وہ اس ضرورت کا حل مرکز ملت اور قوم کی پنچایت تجویز کرتے ہیں،گویہ بات غلط ہے ؛لیکن اس میں بھی اس بات کا اقرار ہے کہ قرآن پاک کے ساتھ ایک جز و لازم کی بہرحال ضرورت باقی تھی، جسے وہ اب اس طرح پورا کررہے ہیں۔
پیغمبرﷺ کی مرکزی حیثیت
یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے جو مسلمانوں کو خواہ وہ کسی ملک کے ہوں، کسی دور کے ہوں، کسی نسل کے ہوں، کسی رنگ کے ہوں اور کسی طبقے کے ہوں ایک لڑی میں پروتی ہے،یہ حدیث کا فیضان ہے کہ ہندوستان، انڈونیشیا، ترکی، مصر، شام، انگلستان، افغانستان، جرمنی اورامریکہ کے رہنے والے سب مسلمان ایک طرح نماز پڑھتے ہیں، ایک طرح روزے رکھتے ہیں،سب ایک نصاب سے زکوٰۃ دیتے ہیں، نکاح و طلاق اورپیدائش واموات میں سب ایک ہی راہ پر چلتے ہیں، مادیت کے اس دور میں یہ تو ہو رہا ہے کہ کئی لوگ عملاً مذہب سے دور چلے گئے؛ لیکن اگر کوئی دین کی طرف رجوع کرے اوراس پر عمل کرنا چاہے تو راہ وہی ملے گی جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہؓ نے قائم کی اوراس راہ کے چراغ وہی ہوں گے،جو حضور اکرمﷺ نے روشن کئے، تاریخ میں نہیں ملتا کہ ان نجوم ہدایت کے بغیر کسی طبقے یا فردنے اسلام کی کوئی راہ عمل طے کی ہو۔
جو لوگ قرآن پاک کے ساتھ مرکز ملت کے فیصلوں کو جزو لازم ٹھہراتے ہیں اور وہ اس طرح قرآنی مجملات کی تشکیل چاہتے ہیں، ان کی یہ رائے محض ایک نظری درجے میں ہے جس نے اسلام کی پوری تاریخ میں کبھی حقیقت واقعہ کا لباس نہیں پہنا اور نہ تاریخ کے کسی دور میں کبھی اس طرح قرآنی معاشرے کی تشکیل ہوئی ہے، اس کی تائید مزید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس تجویز کےحامیوں نے اسے اشاعت اسلام کے عنوان سے نہیں، ہمیشہ طلوع اسلام کے نام سے پیش کیا ہے،جو اسلام آج سے چودہ سو سال پہلے طلوع ہوا تھا، اس میں قرآن کریم کے ساتھ جزو لازم حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اورصحابہ کرام کی عملی راہیں تھیں اور اب اسلام کے نئے طلوع میں یہ تجویز ہے، کہ قرآن کریم کے ساتھ مرکز ملت کو جزولازم ٹھہرایا جائے اور حدیث سے جان چھڑا لی جائے۔
یہ نئی تجویز محض نظری بات ہے، اس نئے تخیل سے اسلام کی چودہ سو سالہ عملی تاریخ کو چھوڑا نہیں جاسکتا، جب اسلام کے سنہری زمانے Golden Age (خلافت راشدہ) میں بھی حدیث ہی قرآن کے ساتھ جزو لازم تھی تو آج کے بے عمل دور میں وہ کون سانیا چراغ ہوگا جو قوم میں زندگی کی حرارت پیدا کرسکے گا۔
(جاری ہے)

No comments:

Post a Comment