ڈاکٹرشبیرصاحب کے اعتراضات "اسلام کے مجرم"

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

السلام علیکم 

عزیز دوستوں منکرین حدیث کی جانب سے  مختلف موضوعات پر کتابیں لکھی جاتی ہیں جو یہاں مفت تقسیم ہوتی ہیں صرف ایک جملے کے ساتھ " آپ کا خیر خواہ بھائی " ان کتابوں کا مقصد صرف اور صرف لوگوں کو اسلام سے دور کرنا ہے ۔ انہی کُتب میں سے ایک کتاب "اسلام کے مجرم" ہے  اس کتاب میں جن احادیث پہ اعتراضات کئے گئے ہیں یہاں اس کا جواب دیا گیا ہے۔ 

خیر خواہی کے نام پر پہلا (1)اعتراض ،

''
اذا روی عنی حدیث فاعرضوا کتاب اللہ فان واقفہ فاقبلواہ ولا تذروہ'' (اسلام کے مجرم صفحہ 3)
''
تمہارے سامنے میرے اقوال پیش کئے جائیں گے تم انہیں قرآن کی کسوٹی پر پرکھ لینا، اگر وہ کتاب اللہ کے مطابق ہوں تو انہیں قبول کر لینااور اگر قرآن کے مطابق نہ ہوں تو انہیں ترک کر دینا'' (اسلام کے مجرم صفحہ15)

ازالہ:۔
ڈاکٹرشبیرصاحب کی پیش کردہ روایت درج ذیل کتب میں موجود ہے مفتاح الجنۃ صفحہ نمبر 52۔الفوائد المجموعہ صفحہ 291 اور امام شافعی کی کتاب الرسالہ صفحہ نمبر 170 اس روایت کی اسنادی حیثیت کااندازہ یحیی بن معین کے اس قول سے لگایا جاسکتا ہے :

قال یحیی بن معین ھٰذا حدیث وضعہ الزنادقہ وقال الخطابی کذٰلک ( تذکرۃ الموضوعات صفحہ 28الفوائدالمجموعہ صفحہ 201)
اس حدیث کو زنادقہ (زنادقہ سے مراد وہ فرقہ ہے جو اللہ کی وحدانیت پر اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اور کفر کو چھپاتا ہے اور ایمان کو ظاہر کرتا ہے اصلاً یہ لوگ مجوسی مذہب سے متاثر ہیں)۔ نے گھڑا ہے۔ لہٰذا یہ روایت جھوٹی ہے اور ہم صحیح حدیث کو ماننے والے ہیں ہمارا جھوٹ سے کوئی تعلق نہیں۔

ڈاکٹر شبیر جو روایت پیش کررہے ہیں وہ تو من گھڑت ہے ہی اور ساتھ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک جھوٹ بھی جس کو ڈاکٹرشبیر بغیر کسی حوالے کے نقل کررہے ہیں حیرت کی بات ہے کتاب کا نام رکھا ہے'' اسلام کے مجرم '' اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھ کر خود اسلام کے مجرم ثابت ہو گئے۔


خیر خواہی کے نام پر دوسرا(2) اعتراض،

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا وہ ایک کبوتری کا پیچھا کررہا ہے آپ نے فرمایا دیکھو ایک شیطان شیطانہ کا پیچھا کررہا ہے۔ (اسلام کے مجرم صفحہ22)

ازالہ:۔
یہ حدیث سنن ابی داؤد ، کتاب الادب باب فی اللعب بالحمام حدیث 4940 اور ابن ماجہ حدیث نمبر 3864ہے۔

قارئین کرام اس روایت کو پیش کرنے کے بعد موصوف نے خاموشی اختیار کی ہے گویا اس حدیث کو بھی کوئی جرم یا افسانہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ حالانکہ قرآن مجید میں بھی انسان کو شیطان کہا گیا ہے انسان اگر اللہ کے ذکر سے دور ہوجائے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے منحرف ہوجائے تو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو شیطا ن کہا ہے ملاحظہ کیجئے۔

وکذلک جعلنا لکل نبی عدواً شیاطین الانس والجن یوحی بعضھم الی بعض(سورہ انعام۔آیت 112)
''
اسی طرح ہم نے شیطان انسان اور جنوں کو نبی کا دشمن بنایا جو آپس میں ایک دوسرے کو وحی کرتے ہیں''

یعنی انسان اگراللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے تو وہ انسان شیطان ہوجاتا ہے کیونکہ نافرمانی وبغاوت شیطانی صفات ہیں اور جس حدیث میں ذکر ہے کہ وہ کبوتری کا پیچھا کررہا تھا تو وہ شخص کبوتر باز تھا اور کبوتر بازی کھیل تماشہ ہے جو کہ آج کل عام ہے اس تماشہ کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت نمازوں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل رہتی ہے اسی وجہ سے اس شخص کو شیطان کہا گیا ہے اور رہی بات اس کبوتری کو شیطان کہنے کی تو لغت میں الشیطان کے معنی ''سرکش اور نافرمان'' کے ہیں خواہ وہ انسان ہو جن ہو یا جانور ہو(المنجد صفحہ 528۔لسان العرب جلد 7 صفحہ 121۔)۔

صاحب عون المعبود فرماتے ہیں ''کبوتری کو شیطان اس لئے کہا کہ وہ کبوتری اس شخص کے لئے اللہ کے ذکر سے غفلت کا سبب بن رہی تھی''(عون المعبود شرح السنن ابی داؤد جلد ١٣صفحہ139)۔

لہٰذا کوئی شخص اگر شریعت کے منافی کام کرے اوراللہ کی یاد سے غافل رہے تو وہ انسانیت کے دائرہ سے نکل کر شیطان کے اوصاف میں داخل ہوجائے گا اور یہی اس حدیث مبارکہ کا مطلب ہے کہ شیطان شیطانہ کا پیچھا کررہا تھا لہٰذا حدیث پر اعتراض فضول ہے۔


خیر خواہی کے نام پر تیسرا(3)اعتراض:

فرمایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے :امت کا بہترین آدمی وہ ہے جس کی زیادہ بیویاں ہوں ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 22)

ازالہ:۔
اس روایت کو امام بخاری نے کتاب النکاح میں ذکر کیا ہے (صحیح بخاری کتاب النکاح حدیث نمبر 5069۔)۔

اس روایت کو نقل کرنے میں ڈاکٹرشبیر نے علمی خیانت کی ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں بلکہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کا قول ہے ۔جسے ڈاکٹرشبیر نے رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کی طرف منسوب کیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ

من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار (مسند احمد 454/1وقال احمد شاکر اسنادہ صحیح۔)
''
جس نے میری طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کی پس اس کو چاہیئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے''

قارئین کرام!۔ مندرجہ ذیل روایت پرغور کریںتو حقیت عیاں ہو جائے گی۔
عن سعید بن جبیر قال ابن عباس ھل تزوجت ،قلت لا،قال فتزوج کان خیر ھٰذہ الامۃ اکثرھاالنساء(صحیح بخاری مع فتح جلد٩صفحہ 140۔)

''
سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس نے مجھ سے کہاکہ کیاتم نے نکاح کرلیا؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں تو آپ نے فرمایا کہ نکاح کرو یقینا اس امت میں بہترین وہ ہے جس کی زیادہ بیویاں ہوں''

قرآن کریم مسلمانوں کوایک وقت میں چار نکاح کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنی وثلٰث وربٰع (سورہ نساء آیت نمبر3۔)
''
اور عورتوں سے بھی تمہیں جو پسند ہو دو دو تین تین چارچارسے نکاح کرو۔''

مندرجہ بالا آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں چارشادیوں کی اجازت موجود ہے اور یہ چار شادیاں اکثرھاالنساء کہلاتی ہیں (یعنی زیادہ عورتیں ) اور ابن عباس کا قول اکثرھاالنساء کا مطلب بھی یہی ہے کہ چار تک نکاح کیا جاسکتاہے اگر موجودہ زمانے کا مشاہدہ کیا جائے تو اس وقت پوری دنیا میں مردوں کی بنسبت عورتوں کی کثرت ہے اور عورتوں کے مقابلے میں مرد وں کی شرح اموات زیادہ ہوتی ہیں ۔ اس کی وجہ عورت خانہ داری کرتی ہے اور مرد زمانہ بھر میں گھومتا ہے حادثات کا شکار ہوتا ہے جنگ وجدل میں مارا جاتا ہے تو اس لئے مردوں کی آبادی کا تناسب عورتوں کے مقابلے میں کم ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں عورتوں کی آبادی مردوں کے مقابلہ میں 80 لاکھ زائد ہے (The Medical Guide.Columbia University) اور قیامت کی پیش گوئی میں سے ہے کہ ایساوقت آئے گا کہ 50 عورتوں کاکفیل ایک ہی مرد ہوگا یعنی عورتیں کافی حدتک مردوں سے تعداد میں بڑھ جائیں گی ۔

اسی بات کا ذکر سیدنا عبداللہ ابن عباس کے قول میں ہے کہ بہترین آدمی وہ ہے جس کی زیادہ عورتیں ہوں یعنی زیادہ سے مراد ایک سے زیاد ہ، ہوں نہ کہ چار سے زیادہ ہوں اگر ایک سے زیادہ بیویوں کا رکھنا برا ہے تو پہلے ڈاکٹر شبیر قرآن کریم کی اس آیت کاکیا جواب دیں گے کیونکہ وہ (یعنی قرآن)چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے ۔ 

خیر خواہی کے نام پر چوتھا(4) اعتراض،

''
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام بیویوں کے پاس ہررات میں دورہ فرمالیا کرتے تھے اور وہ تعداد میں ٩ تھیں۔''

مزید فرماتے ہیں کہ:
حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کو اُمت کی مصروفیات سے اتنی فرصت کہاں تھی اور وہ پاک ہستی تھے (معاذاللہ) جنسی مشین نہ تھے۔ (اسلام کے مجرم, ص22)

ازالہ:۔
امام بخاری نے یہ حدیث اپنی صحیح میں ذکرفرمائی اور حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں 
عن انس ان النبیی صلی اللہ علیہ وسلم طوف علی نسائہ فی لیلۃ واحدۃ ولہ تسع نسوا (صحیح بخاری کتاب النکاح باب 4 حدیث 5068۔)

''
انس سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک (یہاں ڈاکٹر شبیر نے ''لیلۃ واحدہ '' کا ترجمہ ہر رات کیا ہے جو ان کی خیانت ہے ) رات میں اپنی بیویوں کے پاس جایا کرتے تھے اور وہ تعداد میں نو تھیں''

قارئین کرام:۔ ڈاکٹر شبیر نے اس حدیث سے بڑا غلط مفہوم ومطلب اخذ کیاہے اور انکی غلط فہمی کی وجہ لفظ ''یطوف'' ہے جس کے معنی انہوں نے جماع مراد لیا ہے حالانکہ''یطوف'' کا معنی ''دورہ کرنا '' ہیں اس حدیث کی مزید وضاحت دوسری احادیث سے ہو جاتی ہے ملاحظہ ہو ۔

کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذانصرف من العصر دخل علی نسائہ(صحیح بخاری کتاب النکاح رقم الحدیث 5216 )
''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کے بعد اپنی ازواج کے ہاں تشریف لے جاتے ۔''
صحیح مسلم میں ہے:

اذا صلی العصر دار علی نسائہ (صحیح مسلم کتاب الطلاق باب رجوب الکفاراعلی من حرم رقم الحدیث 3679)
''
آپ جب عصر کی نماز سے فارغ ہوجاتے تو اپنی ازواج کے ہاں دورہ فرماتے ۔''

اور مزید تفصیل اور توضیح ام المؤمنین عائشہ کی اس روایت سے بھی ہوجاتی ہے کہ ۔
قل یوم الاورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یطوف علینا جمیعا قیقبل ویلمس مادون الوقاع (فتح الباری جلد 8صفحہ 386)
''
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر روزانہ ہم سب کے پاس تشریف لاتے آپ پیار ومحبت کرتے چھوتے تھے مگر ہم بستری نہیں فرماتے تھے۔''

یعنی آپ روزانہ صبح وشام کے اوقات میں اپنی ازواج کی گھریلو ضروریات کو پورا کرنے اور ان کی دل جوئی کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے اگر آپ ایسانہ کرتے تو ہر بیوی کے پاس ٩ دن بعد پہنچتے اور اتنے طویل عرصے تک آپ کو یہ خبر نہ ہوتی کہ وہ کس حال میں ہیں اوران پر کیاگزررہی ہے لہٰذا اس مشترک وقت میں جو لیل ونہار کی ایک گھڑی تھی آپ سب کے ہاں تشریف لے جاتے۔

اور جہاں تک بات ہے ''امت کی مصروفیات اور حقوق ازواج''کی اس کے جواب میں ہم ایک غیر مسلم مؤلف پال برنٹن کے الفاظ نقل کئے دیتے ہیں۔

I could not but respect the wisdom of the Prophet(S.A.W)for so deftly teaching his followers to mingle the life of the busy world.(A search in the secret Egypt page 134 )

''
میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دانائی کی تکریم کئے بغیر نہیں رہ سکتا جنہوں نے اپنے پیرو کاروں کو اتنی خوش اسلوبی کے ساتھ دینی زندگی کو دنیاوی مصروف زندگی کے ساتھ سمونا سکھا دیا۔''

خیر خواہی کے نام پر پانچواں(5)اعتراض :

ڈاکٹر شبیر نے ایک روایت نقل کی ہے کہ 
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تنہا (بے نکاح) ہونے کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کبوتری کو ساتھی(زوجہ) بنالو۔(اسلام کے مجرم صفحہ22)

ازالہ:۔
اس روایت کو حافظ ابن قیم نے اپنی کتاب''المنار المنیف''میں ذکر فرمایاہے۔(المنارالمنیف۔ص97)ڈاکٹر شبیر نے اس کتاب کا نام ''البحار الحنیف'' ذکر کیا ہے جو کہ غلط ہے حافظ ابن قیم کی کوئی کتاب اس نام سے دستیاب نہیں۔ ہوسکتا ہے ڈاکٹر شبیر سے اس کتاب کا نام لکھنے میں سہو ہوگیا ہو۔

حافظ ابن قیم نے اپنی تصنیف ''المنار المنیف'' میں ان روایات کو یکجا کیا ہے جو کہ موضوع یعنی من گھڑت ہیں۔ ان موضوع روایات کو مختلف لوگوں نے گھڑ کر اپنے باطل سیاسی و مسلکی نظریات کے لئے استعمال کیا ہے۔

زیر بحث حدیث اور اس کے متعلقہ عبارت ملاحظہ فرمائیں۔
مندرجہ بالا روایت کے متعلق حافظ ابن قیم جرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فمنھا:۔ احادیث الحمام۔ لایصح منھا شئی '' 
''
کبوتر سے متعلق تمام احادیث غلط ومن گھڑت ہیں''

آگے رقمطراز ہیں۔ومنھا شکا رجل الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الوحدة فقال لہ لواتخذت زوجا فآنسک۔
''
ان میں سے ایک حدیث ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے تنہا ہونے کی شکایت کی ۔۔۔۔۔الآخر''

آخر میں حافظ ابن قیم حکم لگاتے ہیں :
من وضع الکذاب وھب بن وھب البختری ۔(المنارالمنیف۔ص97)
کہ یہ روایت وھب بن وھب البختری کی وضع کردہ ہے۔

لہٰذا ڈاکٹر شبیرنے اس کو اپنی کتاب میں نقل کرکے کوئی نیا کام سرانجام نہیں دیاہے خود محدثین ایسی روایتوں کو ناقابل اعتبار قراردے کر رد کرچکے ہیں ۔ حیرت کی بات ہے کہ ڈاکٹر شبیر اس روایت کو جس کتاب سے نقل کرکے اس کو اسلام باور کرانا چاہتے ہیں یہ کتاب ہی اسلام کے مجرموں کے خلاف لکھی گئی ہے۔جیساکہ کے پیچھے گزر چکا ہے لہٰذا ایسی روایتوں سے اسلام پر کوئی حرف نہیں آتا اس لئے اعتراض کالعدم ہے۔

خیر خواہی کے نام پر چھٹا(6)اعتراض:

ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں،
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ایسی وادی میں اتریں جہاں بہت سے درخت ہوں لیکن ان کے پتے چرالئے گئے ہوںاور ایک درخت آپ ۖایسا بھی پائیں جس کے پتے چرائیں نہ گئے ہوں تو آپۖ اپنے اونٹ کو کس درخت سے چرائیں گے؟فرمایا اس درخت سے جس کے پتے چرائیں نہ گئے ہوں امام صحیح بخاری کہتے ہیں کہ عائشہ صدیقہ کی مراد یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں صرف وہ ہی کنواری تھیں۔ ( اسلام کے مجرم,صفحہ22,23)
ازالہ:۔ 
اس حدیث کو امام بخاری نے صحیح بخاری کتاب النکاح میں ذکر فرمایاہے۔(صحیح بخاری کتاب النکاح رقم الحدیث،5077)
اس حدیث کا مطلب بالکل واضح ہے کہ ایک مثال کے ذریعے ام المؤمنین عائشہ کے کنوارے پن اور فضیلت کو واضح کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات میں سے صرف عائشہ ہی کنواری تھی اورباقی سب شادی شدہ تھیں۔
قارئین کرام!آخر اس حدیث مبارکہ میں ایسا کون سا اعتراض یا برہنہ پن ہے کہ جس کی وجہ سے حدیث محل نظر بن گئی ہے۔
کیا ڈاکٹر شبیرکو قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات نظر نہیں آئیں کہ جن کو پڑھ کر کوئی شخص ایک اورکتاب'' قرآن کے مجرم '' تحریر کر دے کہ یہ آیات اس قدر برہنہ ہیں کہ اللہ کا کلام نہیں ہوسکتایہ کسی''اسلام کے مجرم'' کی سازش ہے۔ملاحظہ فرمائیں،

نساؤکم حرث لکم فأتو احرثکم انی شئتم (سورةالبقرة،آیت 223)
''
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں پس اپنی کھیتیوں میں سے جہاں سے چاہوں آؤ۔''
فلما تغشاھا حملت حملا خفیفا(سورةاعراف ،آیت189)
''
پس جب اس مرد نے عورت کو ڈھانپ لیا تو وہ حمل سے ہوگئی۔''
ڈاکٹر شبیر!اگر کسی کی آپ کی طرح سوچ ہو تو قرآن کی ان آیات کا بھی بڑا غلط اور فحش ترجمہ کیا جاسکتا ہے اور ان کو غلط معنوں میں استعمال بھی کیا جاسکتا ہے ۔مگر ہم عقیدت میںان آیات کو اللہ ہی کا کلام سمجھتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں تو پھر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اس طرح کے اعتراضات کی بوچھاڑ کیوں؟

خیر خواہی کے نام پر ساتواں(7) اعتراض:

ڈاکٹر شبیر رقمطراز ہیں۔
عمر فاروق روزے کا افطار صحبت سے کیا کرتے اور کھانا بعد کو کھاتے ۔ ماہ رمضان میںنماز عشاء سے پیشتر اپنی تین تین لونڈیوں سے صحبت کرتے۔ (اسلام کے مجرم ۔صفحہ23)
ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرنے یہ روایت علامہ ابو حامد محمد بن محمد الغزالی کی تصنیف '' احیاء علوم الدین '' سے نقل کی ہے جو دراصل تصوف پر تحریرکی گئی ہے ڈاکٹر شبیرنے اپنی تصنیف میں صوفیاء کی تحریر کردہ کتابوں کے بہت سے مندرجات واقتباسات پیش کئے ہیں جو کہ واقعی کافی شرمناک اور ناقابل بیان ہیں نام نہاد صوفیوں اور زاہدوں نے اسلام کے شعائر کا جس طرح مذاق اڑایا ہے 

اوردین اسلام کی بنیاد توحید الٰہی اور اسلام کی کوہان جہاد فی سبیل اللہ کے خلاف جو تلبیسات تصوف کے نام پر کی ہیں وہ واقعی اسلام کے خلاف ایک عظیم ترین جرم ہے . آپ کی نقل کردہ صوفیوں کی ان عبارات سے ہم کلّی اتفاق کرتے ہیں مگر آپ نے ان صوفیوں کے ساتھ ساتھ صحیح احادیث کوبھی طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا ہے اور دین اسلام کے ایک عظیم علمی مأخذ میں شک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس کے لئے ہمیں قلم اٹھانا پڑا۔اور اس کتاب میں ہم ان صحیح احادیث جنہیں آپ نے بڑی ڈھٹائی سے علمی خیانت ،معنوی تحریف ،اپنے رافضانہ انداز کے ساتھ نقل کیا ہے (جو کہ یقینا ایک جھوٹ اور فراڈ کا ملمع ہے) کاببانگ دہل دفاع کریں گے ۔اور جہاں تک احیاء علوم الدین کا تعلق ہے تو اس کے متعلق عرض ہے کہ احیاء دراصل تصوف کی معرکةالآرا کتاب ہے اسلام کی نہیں اسلام نام ہے قرآن وصحیح حدیث کا نہ کہ صوفیا مجذوبوں زاہدوں کے خودساختہ بے حیاء عارفانہ کلام کا۔ احیاء العلوم کی فنی حیثیت کیا ہے امام زین الدین عراقی نے جب اس کی تحقیق وتخریج کی تو تقریبا اس میں 950احادیث من گھڑت ثابت ہوئیں۔علامہ تاج الدین محمد السبکی نے طبقات الشافیعہ(طبقات الشافیعہ جلد6ص287,389)میں امام غزالی کی پیش کردہ بے سند احادیث پر مستقل ایک باب باندھا جو 100سے زائد صفحات پر مشتمل ہے ۔
لہٰذا ڈاکٹر شبیرکی پیش کردہ روایت کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور ہم ان سے اتفاق کرتے ہیں کہ واقعی یہ روایت اسلام کے مجرموں نے گھڑی ہے۔

خیر خواہی کے نام پر آٹھواں (8)اعتراض:

ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں:
عائشہ فرماتی ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورمیں ایک ٹب میں نہاتے تھے اور وہ ۖحالت حیض میں مجھ سے اختلاط کیا کرتے تھے۔ (اسلام کے مجرم،صفحہ26)


ازالہ:۔
یہ روایت صحیح بخاری میں ان الفاظ سے منقول ہے۔ 
عن عائشہ قالت کنت اغتسل أنا والنبیۖ من اناء واحد کلانا جنب(صحیح بخاری کتاب الحیض،رقم الحدیث 299)وکان یأمرنی فاتزرفیبا شرنی وأنا حائض(صحیح بخاری کتاب الحیض،رقم الحدیث 300)
''
عائشہ فرماتی ہیں کہ میں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل فرماتے تھے اور ہم حالت جنابت میں ہوتے ۔اور آپ مجھے ازار باندھنے کا حکم دیتے اور مجھ سے حالت حیض میں اختلاط فرماتے ''
ڈاکٹر شبیرنے یہاں حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے تلبیس سے کام لیا ہے اور ترجمہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں ایک ٹب میں نہاتے تھے حالانکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ایک ٹبـ سے نہاتے تھے۔
قارئین کرام !اس حدیث سے جس مسئلہ کی وضاحت ہوتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ غسل کرسکتا ہے آخر اس میں اعتراض کی کیا بات ہے ؟اگر ہم اس حدیث کا پس منظر دیکھیں تو اعتراض کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی۔
عن عائشہ زوج النبی ۖانھا اخبرتہ قالت کنت انام بین یدی رسول اللہ ۖورجلائی فی القبلة فاذا سجد غمزنی فقبضت رجلیَّ واذا قام بسطتھا۔۔۔۔والبیوت یومیئذلیس فیھا مصابیح(مؤطا امام مالک باب المرأةتکون بین الرجل یصلی۔۔۔۔رقم الحدیث288)
ّام المؤمنین عائشہ فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی ہوتی تھی اور میرے پیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلے کی جانب ہوتے تھے پس جب آپ سجدہ کرتے تو میرے پیر کو دباتے میں اپنے پیر سمیٹ لیتی پھر جب آپ کھڑے ہوجاتے تو میں پیر پھیلالیتی، والبیو ت یومئذ لیس فیھامصابیح اور ان دنوں گھر میں چراغ نہیں ہوا کرتے تھے۔
ایک اور روایت میں مزید وضاحت ملاحظہ فرمائیں۔
عن عائشہ قالت:۔فقدت رسول اللہ ۖلیلة من الفراش فالتمستہ۔فوقعت یدی علی بطن قدمیہ وھو فی المسجدوھما منصوبتان(صحیح مسلم کتاب الصلوة باب مایقال فی الرکوع والسجود رقم الحدیث۔1090)
''
عائشہ فرماتی ہیں:میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر پر نہیں پایا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹٹولنا شروع کیا تو میرے ہاتھ آپ ۖکے تلوؤں پر لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے۔
مندرجہ بالااحادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں عموماً اندھیرا رہا کرتا تھا ہفتوں چراغ نہیں جلتا تھا تو اس قدر اندھیرے میں ایک دوسرے کو دیکھنا محال تھا اور رہی بات پردہ پوش کی تو حدیث میں صراحت موجود ہے کہ '' من اناء بینی وبینہ واحد '' (صحیح مسلم کتاب الحیض باب قدر المستحب من الماء رقم الحدیث 732)
کہ ہم ایک ٹب سے نہاتے تھے جو ہمارے درمیان رکھا ہوتا تھا لہٰذا یہ ٹب دونوں کے درمیان پردہ کا کام کرتا تھا ۔
اگر اعتراض اس بات پر ہے کہ یہ فحش الفاظ۔ احادیث رسول اللہ ۖکس طرح ہوسکتے ہیں یا اس طرح کی حدیث کو بنیاد بناکر غیر مسلم اسلام پر بے ہودہ اعتراض کرتے ہیں وغیرہ۔ تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے مشرکین شروع دن ہی سے اسی طرح اسلام و مسلمان کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے رہے ہیں جیساکہ حدیث میں ہے۔ 
عن سلمان قال:قال بعض المشرکین وھم یستھزئ ون بہ لاری صاحبکم یعلمکم حتی الخرا ة قال سلمان اجل 
أمرناأن لانستقبل القبلة ولا نستنجی بأیماننا ولا نکتفی بدون ثلاثة أحجارلیس فیھا رجیع ولا عظم(مسند احمد 5/437رقم الحدیث 23593قال احمد شاکر اسنادہ صحیح۔)
''
سلمان فارسی سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ بعض مشرکوں نے بطور استہزاء کے کہا کہ میں تمہارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتا ہوں کہ وہ تمہیں ہر چیز کی تعلیم دیتے ہے یہاں تک کہ قضائے حاجت کے طریقے بھی بتاتے ہے ۔تو سلمان فارسی نے جواب دیا ۔بالکل درست بات ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم قبلہ کی جانب منہ نہ کریں اور نہ ہی دائیں ہاتھ سے استنجا کریں اور تین ڈھیلوں سے کم پر اکتفاء نہ کریں نیز ڈھیلوں میں گوبر اور ہڈی نہ ہو ۔''
مذکورہ روایت میں صحابی رسول نے کس قدر فخر کے ساتھ طہارت پر مبنی مسائل کو بیان فرمایا اور ذرہ برابر بھی احساس کمتری کا شکار نہیں ہوئے. ڈاکٹر شبیر !عرض یہ ہے کہ جس چیز کو آپ اسلام کا جرم سمجھ رہے ہیں ۔صحیح احادیث پر مبنی اس سرمائے پر ہم فخر کرتے ہیں اور'' ڈنکے کی چوٹ'' پر کہتے ہیں کہ دین اسلام ایک ایسا مکمل ضابطہ حیات ہے کہ ہمیں اپنی رہنمائی کے لئے باہر جانے کا تکلف نہیں کرنا پڑتا۔
ڈاکٹر شبیر !
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة (سورہ الاحزاب ۔آیت 21)
''
یقینا تمہارے لئے اللہ کے رسول ۖمیں بہترین نمونہ ہے'' ہی کا تقاضہ تھا کہ احادیث کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزو شب اعمال و اقوال خلوت وجلوت سے ضابطہ حیات تیار کروایا جارہا ہے ۔مسائل ڈھل رہے ہیں حرام وحلال جائز وناجائز میں احادیث وسنن کے ذریعے امتیاز کیا جارہا ہے آپ کو یہاںہر وہ چیز دستیاب ہوگی جس سے تہذیب وتمدن اور انسانی ضابطہ حیات پر روشنی پڑتی ہو ۔ایسے بیش بہا سرمائے پر فخر کرنا چاہئے نہ کہ احساس کمتری کا شکار ہوکر ان پر اعتراضات شروع کردئیے جائیں ۔
بالفرض اگر کوئی دشمن اسلام قرآن کی کسی آیت پر اعتراض کردے مثلاً ''افرأیتم ما تمنون(سور الواقعہ ۔آیت 58)
کہ اچھا ذرا یہ بتلاؤ کہ جو منی تم ٹپکاتے ہو .یا سورہ مریم میں مریم کا حاملہ ہونے کا ذکر ہے ۔تو ہم اس اعتراض کاکیا جواب دیں گے یقینا تاویل کریں گے تو جب قرآن مجید کے لئے تاویل کر#سکتے ہیں تو حدیث کے لئے کیوں نہیں ؟۔

خیر خواہی کے نام پر نواں (9) اعتراض:

ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جابر بن عبداللہ کو سرزنش کی کہ تم نے شوہر دیدہ (بیوہ )عورت سے نکاح کیوں کیا؟کنواری نو عمر لڑکی سے نکاح کیوں نہ کیا کہ تم اس سے کھیلتے وہ تم سے کھیلتی ۔
مزید فرماتے ہیں :آپ تو بیواؤں اور بے سہاروں کا سہارا تھے ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 26)
ازالہ:۔ 
یہ حدیث صحیح بخاری کتاب النکاح کا ایک جز ہے کہ ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر سے گھر کی جانب جلدی جانے کی وجہ دریافت فرمائی تو سیدنا جابر نے عرض کیا کہ
کنت حدیث عھد بعرس قال ابکرام ثیبا ؟قلت ثیبا قال فھلا جاریة تلاعبھا وتلاعبک(صحیح الصحیح بخاری کتاب النکاح باب تزویج الثیبات رقم الحدیث 5079)
ترجمہ:جابر فرماتے ہیں میری ابھی نئی نئی شادی ہوئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا کہ کنواری سے شادی کی ہے یا شادی شدہ (بیوہ یا طلاق یافتہ)عورت سے ۔تو میں نے عرض 
کیا کہ شادی شدہ عورت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کنواری لڑکی سے شادی کیوں نہ کی تاکہ تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی ۔''
ڈاکٹر صاحب کو اس حدیث پر اعتراض ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جابر کو کنواری عورت سے شادی نہ کرنے پر سرزنش فرمائی یعنی جابر کو بیواؤں سے نکاح کرنے سے منع فرمایا۔حالانکہ یہ بات غلط فہمی پر مبنی ہے ۔
اگر ہم اس حدیث مبارکہ کا پس منظر پر بغور نظر ڈالیں تو یہ حدیث باآسانی سمجھ میں آسکتی ہے ۔غزوہ احد میں سیدنا جابر کے والدگرامی سیدنا عبداللہ شہید ہوگئے تھے اور اپنے اوپر کچھ قرضہ اور نو بیٹیاں سوگوار چھوڑ گئے تھے تو اپنی بہنوں کی تعلیم وتربیت کے لئے جابر نے ایک ایسی عورت سے نکاح کیا جو عمر میں پختہ اور پہلے سے شادی شدہ تھیںجابر فرماتے ہیں:
کن لی اخوات فاحببت ان اتزوج امرأة تجمعھن وتمشطھن وتقوم علیھن(فتح الباری جلد 9صفحہ 152)
''
میری چاہت تھی کہ میں اپنی بہنوں کی تربیت کے لئے ایسی عورت سے شادی کروں کہ وہ ان کا خیال رکھے، ان کے بال وغیرہ سنوارے اور ان پر بڑی بن کر رہے ۔ ''
کنواری عورت سے شادی نہ کرنے کی وجہ بھی خود فرماتے ہیں کہ 
ھلک ابی وترک تسع بنات فتزوجت ثیبا کرھت ان اجیبھن بمثلھن ۔
''
اپنے والد کی شہادت کے بعد اپنی بہنوں کی تربیت کے لئے میں نے ایک شادی شدہ عورت سے نکاح کیا ۔مجھے یہ بات ناپسند تھی کہ میں اپنی بہنوں پر ان جیسی ہی کوئی لڑکی لے آؤں''(فتح الباری جلد 9صفحہ 152)
اس پس منظر سے جو مفہوم نکلتا ہے وہ یہ ہے ۔
''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر سے استفسار فرمایا کہ تم نے نکاح ثیبہ (شادی شدہ) سے کیا ہے یا باکرہ(کنواری)سے تو ان کا جواب سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ باکرہ سے نکاح کرتے کہ تم اس سے کھلیتے اور وہ تم سے کھیلتی ۔جابر نے ثیبہ سے نکاح کرنے کی وجہ بیان کیا کہ میں نے ثیبہ سے نکاح اپنے گھر کی دیکھ بھال اور بہنوں کی تربیت کے خاطر کیا تو آپ نے اس پر خوشی کا اظہار کیا اور دعا دی''بارک اللہ لک ''( فتح الباری جلد 9صفحہ 152
اللہ تجھے برکت دے ،
''
اگر جابر کے پاس یہ مجبوری نہ ہوتی تو آپ یقینا باکرہ سے ہی نکاح کرتے ''۔
اور رہی بات اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باکرہ سے نکاح کی ترغیب دلانا تو اس کے دو جواب ہیں ۔
(1)''
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
علیکم بالابکارفانھن اعذب افواھا وانتق ارحاما
وار ضی بالیسیر(ابن ماجہ کتاب النکاح باب تزویج الابکار رقم الحدیث 1861حسنہ الالبانی ۔)
''
کنواری لڑکیوں سے نکاح کرو اس لئے کہ وہ شیریںزبان ہوتی ہیں ، ان سے اولاد زیادہ ہوتی ہے اور وہ قلیل عطیہ پر خوش ہوجاتی ہیں''
(2)''
عرب میں کنواری لڑکیوں سے نکاح کو ترجیح دی جاتی ہے ''۔
ویر غب العرب فی التزوج بالابکار ،ویفضلون الأبکار الصغار علی الأبکار الکبار(المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام جلد 4صفحہ 474)
''
اہل عرب عمومی طور پر کنواری لڑکیوں سے نکاح کرتے تھے اور کم عمر کنواری لڑکیوں کو بڑی عمر کی کنواری لڑکیوں پر ترجیح دیتے تھے ۔

مندرجہ بالا بحث سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنواری لڑکیوں سے نکاح کی ترغیب دلائی مگر شادی شدہ عورت سے نکاح کرنے سے منع بھی نہیں فرمایا جیساکہ جابر کو نکاح کے بعد دعا دی اور خود آپکی گیارہ بیویوں میں سے صرف ایک ہی کنواری تھیں کاش ڈاکٹر شبیرتھوڑی بہت تحقیق کرلیتے تو احادیث پر اعتراض نہ کرتے ۔
بالفرض اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کے موافق عمل شروع کردیا جائے (یعنی شادی شدہ عورتوں سے نکاح )تو پھر کنواری عورتوں سے کون نکاح کرے گا اور خود ڈاکٹر شبیرکا اس بارے میں طرز عمل کیاہے ؟

خیر خواہی کے نام پر دسواں(10) اعتراض:

ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا'' میرے بعد لوگوں پر عورت سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں'' (اسلام کے مجرم صفحہ26)
ازالہ :۔
ڈاکٹر شبیرکی نقل کردہ حدیث صحیح بخاری میں ان الفاظ سے منقول ہے :
ماترکت بعد ی فتنة اضر علی الرجال من النساء (صحیح بخاری کتاب النکاح باب الاکفاء فی الدین رقم الحدیث 5096،)
''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ میرے بعد لوگوں پر عورت سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ''
ڈاکٹر شبیرکا اس حدیث پر اعتراض ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عورت کو فتنہ قرار دے رہے ہیں ۔اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہونہیں سکتی بلکہ کسی اسلام کے مجرم کی سازش ہے جس نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھا ۔
اس حدیث پر غور کیا جائے تو عمومی طور پر عورت کو فتنہ قرار نہیں دیا گیا بلکہ ان عورتوں کو فتنہ قرار دیا گیا ہے کہ جن کے سبب سے انسان اللہ کی یاد اورجہاد وغیرہ سے دور ہوکر دنیاوی شہوات میںپڑ جاتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ رب العالمین ارشاد فرماتا ہے
زین للناس حب الشھوات من النساء (آل عمران آیت نمبر 14)
''
مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لئے مزین کردی گئی ہیں جیسے عورتیں''
اسلامی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اسلام کے حکومتی زوال میں عورت (مسلم یہودونصرانی)نے اہم کردار ادا کیا ہے (تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیں تاریخ اندلس وبنات الصلیب ۔)یہی وجہ ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبی جنگوں کے لئے سپاہیوں کے انتخاب میں یہ شرط عائد کی تھی کہ انکی رغبت عورتوں میں کم ہو۔آج اس جدید میڈیا کے دور میں کسی چیز کی اشتہار بازی کے لئے عورت کی عریانی وفحاشی کو جس طرح ماڈل بناکر پیش کیا جارہا ہے وہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔اس قسم کی عورت فتنہ نہیں تو اور کیا ہے ؟
اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں کو فتنہ قرار دیاہے تو دوسری جگہ عورت کو ماں کی شکل میں عزت دے کر جنت اس کے قدموں میں لارکھ دی ۔اسی عورت ذات کے متعلق ارشاد فرمایا کہ :
الدنیا کلھا متاع وخیر متاع الدنیا المرأة الصالحة(رواہ صحیح مسلم بحوالہ مشکوة کتاب النکاح الفصل الاول رقم الحدیث 3083,)
''
تمام کی تمام دنیا ایک فائدہ ہے اور دنیا کا سب سے بہتریں فائدہ نیک عورت ہے ۔''
حیرت ہے ڈاکٹر شبیرکو اعتراض کے لئے صحیح بخاری کی حدیث تو نظر آگئی مگر صحیح مسلم کی مذکورہ روایت جو کہ عورت کے فضائل ومناقب میں ہے نظروں سے اوجھل ہوگئی ۔
ڈاکٹر شبیر!قرآن کی اس آیت کا آپ کیا جواب دیں گے ؟

یایھاالذین امنو اان من ازواجکم واولادکم عدوالکم
فاحذروھم (سورةالتغابن ۔آیت 14)
''
اے ایمان والوں تمہاری بیویاںاور تمہاری اولاد تمہارے دشمن ہیں ''
پس جو جواب آپ اس آیت کا دیں گے وہی اس حدیث کا ہے ۔

خیر خواہی کے نام پر گیارہواں (11) اعتراض :

ڈاکٹر شبیرحافظ ابن قیم کی کتاب زادالمعاد کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں کہ :اونٹنی کے تازہ دودھ اور پیشاب ملاکر پینا بہت سے امراض کے لئے شافی دوا ہے ۔ 
(
اسلا م کے مجرم صفحہ 27)
ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرنے جس قول کو نقل کیا ہے اس کی اصل صحیح بخاری میں موجود ہے ۔
عن انس أن اناساًاجتووا فی المدینة فأمرھم النبی ان یلحقوا براعیہ ۔یعنی الابل ۔فیشروبوا من البانھا وابوالھا حتی صلحت ابدانھم (صحیح بخاری کتاب الطب باب الدواء بابوال الابل رقم الحدیث 5686)
''
قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مدینے کی آب وہوا موافق نہ آنے پر وہ لوگ بیمار ہوگئے (ان کو استسقاء یعنی پیٹ میں یا پھیپڑوں میں پانی بھرنے والی بیماری ہوگئی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینے کی دوا تجویز فرمائی ۔اس کو پینے کے ساتھ ہی وہ لوگ تندرست ہوگئے ''
اس حدیث پر جو اعتراض وارد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو اونٹنی کا پیشاب پلوایا جوکہ حرام ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکباز ہستی سے ایسا حکم وکلام کا صادر ہونا بعیدازعقل ہے ۔غالباً ڈاکٹر شبیرکی بھی یہی منشاء ہے ۔
اس اعتراض کے دو جواب ہیں (1)نقلاً(2)عقلاً۔
قرآن مجید میں حلال وحرام سے متعلق کچھ اشیاء کا ذکر ہوا ہے ۔
انما حرم علیکم المیتة والدم ولحم الخنزیر وما اھل بہ لغیراللہ (سورة البقرة ۔آیت 173)
''
تم پر مردار ،خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے ''
اللہ تعالیٰ نے بالکلیہ اصولی طور پر مندرجہ بالا اشیاء کو اہل ایمان پر حرام کر ڈالا ہے مگر اس کے ساتھ ہی کچھ استثناء بھی کردیا ۔
''
فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فلااثم علیہ ''
''
جو شخص مجبور (بھوک کی شدت سے موت کا خوف)ہوجائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں پس وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو ''(سورة البقرة ۔آیت 173)
اگر آپ کے نزدیک اونٹنی کا پیشاب پینا ناجائز ہے تو اللہ رب العالمین نے جب مجبوری کی حالت میں حرام اشیاء کا استعمال حسب ضرورت جائز قرار دیا تو پھر بیماری اور مجبور ی کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر چند انسانوں کو اونٹنی کا پیشاب پلوادیا جس سے ان کو اللہ کے اذن سے شفاء بھی مل گئی تو آخر اس میں اعتراض کیا ہے ؟
ڈاکٹر شبیرنے حدیث رسول ۖکو پرکھنے کے لئے خود ساختہ اصول پیش کیا ہے کہ (ہر 
حدیث کو قرآن پر پیش کیا جائے ) قرآن میں توکسی بھی مقام پر اونٹنی کے پیشاب کو حرام قرار نہیں دیا گیا ۔لہٰذا یہ حدیث قرآن کے متعارض نہیں ہے ۔
خلاصہ:جس طرح اضطراری کیفیت میں قرآن حرام اشیاء کی رخصت دیتا ہے اسی طرح حدیث نے بھی اسی کیفیت کی بناء پر استثناء کیا ۔ اب جو اعتراض حدیث پر ہے وہی قرآن پر وارد ہوتا ہے ۔
عکل اور عرینہ کے لوگوں میں جو بیماری تھی اسے موجودہ طبی سائنس میں پلیورل ایفیوزن(Pleural Effusion)اور ایسائٹیز(Ascites)کہا جاتا ہے ۔یہ انتہائی موذی مرض ہیپلیورل ایفیوزن کے مریض کو بے حس کر کے پسلی کی ہڈی کے درمیان آپریشن کر کے سوراخ کیا جاتا ہے ،اس سوراخ سے پھیپھڑوں میں چیسٹ ٹیوب(Chest Tube)داخل کیا جاتا ہے اور اس ٹیوب کے ذریعہ مریض کے پھیپھڑوں کا پانی آہستہ آہستہ خارج ہوتا ہے ،اس عمل کا دورانیہ 6سے 8ہفتہ ہے(اس مکمل عرصے میں مریض ناقابل برداشت درد کی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے ۔ اور بعض اوقات تو وہ موت کی دعائیں مانگ رہا ہوتا ۔یہ حالت میں نے خود کراچی کے ہسپتالوں میں ان وارڈز کے دورے کے دوران دیکھا ہے)۔ایسائٹیز کے مریض کے پیٹ میں موٹی سرنج داخل کر کے پیٹ کا پانی نکالا جاتا ہے یہ عمل باربار دہرایا جاتا ہے ۔ان دونوں طریقوں میں مریض کو مکمل یا جزوی طور پر بے حس کیا جاتا ہے (Short Practice of Surgery page 698-703 & 948-950)
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیرالقرون میں اس بیماری کا علاج اونٹنی کا دودھ اور پیشاب تجویز فرمایا تھا جو کہ آج بھی کار آمد ہے ۔ڈاکٹر خالد غزنوی اپنی کتاب علاج نبوی اور جدید سائنس میں تحریر فرماتے ہیں ۔
ہمارے پاس اسی طرح کے مریض لائے گئے عموماً4 سال سے کم عمر کے بچے اس کا شکار تھے ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل کیا اونٹنی کا دودھ اور پیشاب منگوایا اور دونوں کو ملاکر ان بچوں کا پلادیا کچھ ہی عرصے بعدان کے پھیپڑوں اور پیٹ کا سارا پانی پیشاب کے ذریعے باہر آگیا اور بچے صحت یاب ہوگئے۔الحمد اللہ ،اور آج وہ جوان ہیں۔(علاج نبوی اور جدید سائنس جلد 3بابAscites) 

خیر خواہی کے نام پر بارہواں(12) اعتراض :

ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں ،
''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منگل خون کا دن ہے اس دن خون تھمتا ہی نہیں ''
(
اسلام کے مجرم صفحہ 27)
ازالہ:۔
یہ روایت سنن ابی داؤد میں موجو دہے :
ان ابا ھا کان ینھی اھلہ عن الحجامة یوم الثلاثا ء ویزعم عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یوم الثلاثاء یوم الدم وفیہ ساعة لایرقا۔(ابو داؤد کتاب الطب باب متی تستحب الحجامة 3858)
''
ان کے والد اپنے گھر والوں کو منگل کے روز حجامت سے منع فرماتے تھے ان کے زعم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ منگل کا دن خون کا دن ہے اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اس میں خون تھمتا ہی نہیں ۔''
ڈاکٹر شبیر کی نقل کردہ روایت ضعیف ہے صاحب عون المعبود نے امام جلاالدین سیوطی کا قول نقل کیا ہے کہ:
''
اوردہ ابن جوزی فی الموضوعات''(عون المعبود جلد 10صفحہ 192)
''
اس حدیث کو ابن جوزی نے تذکرة الموضوعات مین ذکر کیا ہے ۔''
اس کی سند میں بکار بن عبدالعزیز بن ابی بکرة الثقفی ہے ۔جو کہ اس روایت کے قبول کرنے کے لئے حجت نہیں ۔اس روایت کو قبول کرنے کی راہ میں حائل ہے۔
امام محمد بن عمروالعقیلی فرماتے ہیں ۔
لایتابع علی حدیثہ فی ترک الحجامة یوم الثلاثا ء الذی فیہ ساعة لایرقأ فیھا الدم (کتا ب الضعفاء جلد 1صفحہ 172،تھذیب التھذیب جلد 1صفحہ 499)
بکاربن عبدالعزیز کی وہ روایت جس میں منگل کے روز حجامت سے منع فرمایا گیا ہے متابعت نہیں اس لئے ضعیف ہے ۔
مزید اس کی سند میں کیسة بنت ابی بکرة کے متعلق حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ 
لا یعرف حالھا (تقریب التھذیب 11748)
''
اس کا حال معروف نہیں ۔''
والحدیث ضعفہ البیھقی (انوارالصحیفہ ۔صفحہ98)
''
اس حدیث کو امام بیہقی نے ضعیف کہا ہے ۔''
الغرض جب یہ روایت ضعیف ہے تو اس کا جواب دینا ضروری نہیں ۔
ڈاکٹرشبیر خود کو اپنا تئیں بہت بڑا محقق گردانتے ہیں ان کو مختلف زبانوںمیں بڑا عبورحاصل ہے احادیث وآثار نقل کرتے وقت کافی تساہل اور بے احتیاطی سے کام لیتے ہیں اکثر ان احادیث پر اعتراض کرتے ہیں جن کو محدثین کرام نے پہلے ہی من گھڑت وموضوع کہہ کر ردہے ۔
مذکورہ بالا حدیث بھی اسی قبیل کی ہے کاش ڈاکٹر شبیرتحقیق کی عینک سے مطالعہ فرماتے تو اعتراض نہ کرتے ۔

خیر خواہی کے نام پر تیرہواں (13)اعتراض :

ڈاکٹر شبیررقمطرازہیں ،
ایک حسین عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے مسجد نبوی میں نماز پڑھنے آیا کرتی تھی کچھ صحابہ 
جان بوجھ کر پیچھے کی صف میں شریک ہوتے تھے تاکہ رکوع کی حالت میں اسے دیکھتے رہیں ۔ہم اگلوں کو بھی جانتے ہیں اور پچھلوں کو بھی (اس آیت کا یہی مطلب امام ترمذی بیان کرتے ہیں یعنی اس عورت کو تاکنے والے)کیا صحابہ کا یہی کردار تھا ظاہر ہے کہ یہ روایت دشمنوں کی وضع کردہ ہے۔ 
(
اسلام کے مجرم صفحہ 29
ازالہ :۔
جامع ترمذی میں یہ روایت منقول ہے 
عن ابن عباس کانت امرأة تصلی خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسنا ء من احسن الناس فکان بعض القوم یتقدم حتی یکون فی الصف الأول لئلا یراھا ، ولیستاخر بعضھم حتی یکون فی الصف الموخر ،فاذا رکع نظر من تحت ابطیہ فانزل اللہ (جامع ترمذی کتاب التفسیر تفسیر سورة الحجر رقم الحدیث 3122)(ولقد علمنا المستقدمین منکم ولقد علمنا المستأ خرین (الحجر آیت 24)
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ایک خوبصورت سی عورت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھنے آیا کرتی تھی پس بعض لو گ صف اول میں داخل ہوجاتے تاکہ اس عورت کو نہ دیکھیں اور بعض پچھلی صفوں میںہوجاتے پس جب رکوع کرتے تو اپنی بغلوں سے جھانک کر اس عورت کو دیکھتے پس اللہ رب العالمین نے یہ آیت نازل فرمائی ''ہم خوب جانتے ہیں تم میں سے ان لوگوں کو جو آگے بڑھنے والے ہیں اور ان لوگوں کو جو پیچھے ہٹنے والے ہیں ''
ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرنے اس حدیث کا ترجمہ میں بہت زیادہ علمی خیانت کی ہے ۔حدیث کے الفاظ ''بعض القوم '' (کچھ لوگ)کا ترجمہ ''کچھ صحابہ ''کیا ہے جس سے ان (ڈاکٹر شبیر)کی حدیث وصحابہ دشمنی ظاہر ہوتی ہے۔مزید براں ''اس آیت کا یہی ملطلب امام ترمذی بیان کرتے ہیں یعنی اس عورت کو تاکنے والے ''یہ عبارت ڈاکٹر بشیر کی وضع کردہ ہے۔یہ ایک جھوٹ ہے جو ڈاکٹر شبیر نے امام ترمذی پر چسپاں کیا ہے یہ قول جامع ترمذی میں کہیں منقول نہیں ۔
زیر بحث روایت پر ایک نظر :۔
یہ روایت ابوالجوزاء اوس بن عبداللہ (تقریب التھذیب جلد 1صفحہ 95)سے منقول ہے جو کہ ثقہ ہونے کے باوجود بہت زیادہ مرسل روایات بیان کرتے ہیں امام بخاری ان کے متعلق فرماتے ہیں '' فی اسنادہ نظر ''(تاریخ الکبیر 16/1)''اس کی سند میں کلام ہے''یہ روایت بھی خود ان کا اپنا قول ہے نہ کہ ابن عباس کا جیساکہ امام ترمذی نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ:
وروی جعفر بن سلیمان ھذا الحدیث عن عمروبن مالک عن ابی الجوز اء نحوہ ولم یذکرفیہ عن ابن عباس وھذا اشبہ ان یکون اصح من حدیث نوح (جامع ترمذی مع تحفة جلد 8صفحہ 528)
''
جعفر بن سلیمان نے اس حدیث کو عمروبن مالک عن ابی الجوزاء کے طریق سے روایت کیا ہے مگر اس میں ابن عباس کا ذکر نہیں ۔اور جعفر بن سلیمان والی حدیث نوح بن قیس کی روایت سے زیادہ صحیح ہے''
جعفر بن سلیمان والی روایت تفسیر عبدالرزاق میں موجود ہے (تفسیر عبدالرزاق جلد 2صفحہ 256رقم 1445)
حافظ ابن کثیر اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں '' ھذا فیہ نکارة شدیدة''(تفسیر ابن کثیر جلد 3صفحہ 195 )اس کا متن شدید منکر ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ روایت صحیح نہیں ۔
بالفرض اگر اس کو صحیح مان بھی لیں تو اس روایت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین پر کوئی حرف نہیں آتا کیونکہ روایت میں ہے '' ولیستا خر بعضھم '' بعض لوگ پیچھے صف میں ہوتے تھے ۔ تو یہاں مرادصحابہ نہیں ہیں بلکہ ابو داؤد الطیالسی کی روایت میں ہے کہ :
فکان احدھم ینظرالیھامن تحت ابطہ (ابوداؤد الطیالسی رقم الحدیث 2712)
''
ان میں سے کوئی ایک اپنی بغلوں میں سے جھانک کر دیکھتا تھا ۔''
ڈاکٹر شبیرہم بھی یہی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کا کردار ایسا نہیں تھا وہ نہایت پاکباز ہستیاں تھیں جن کو اللہ رب العالمین نے معیار ہدایت بنایا ہے ۔'' فان امنو ا بمثل ما امنتم بہ فقداھتدوا(سورہ بقرة ۔آیت 137)
''
اگرہد ایت چاہتے ہو تو ان (صحابہ) جیسا ایمان لاؤ۔''
صحابہ کرام تو صف اول کے لئے بڑی جدوجہد کیا کرتے تھے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے وہ بھلا ایسی حرکت کس طرح کرسکتے تھے ۔ پچھلی صف تو منافقین کی ہوتی تھیں جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے ۔
''
واذا قاموا الی الصلوة قاموا کسالی'' (سورة نساء ۔آیت 143)
''
جب منافقین نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی سے کھڑے ہوتے ہیں ۔''
عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں:
ولقد رأیتنا وما یتخلف عن الجماعة الامنافق معلوم النفاق (رواہ صحیح مسلم فی کتاب المساجد ومواضع الصلاة باب صلاة الجماعة من سنن الھدی حدیث1488
''
ہم جانتے ہیں کہ جماعت میں پیچھے صرف منافقین ہوتے تھے کہ جن کا نفاق واضح تھا ''
عظیم محدث محمد ناصرالدین البانی فرماتے ہیں ''
ثم ماالمانع ان یکون اولٰئک الناس المستاخروں من المنافقین الذین یظھرون الایمان ویبطنون الکفر (سلسلة الاحادیث الصحیحة جلد 5صفحہ 612رقم الحدیث 2472)
''
پس اس بات کو کیا مانع ہے کہ پچھلی صفوں والے منافقین میں سے ہوں جو اپنے ایمان کا اظہار کرتے اور اپنے کفر کو چھپاتے ہوں ۔''
الحمد اللہ حدیث اعتراض سے پاک ہے ۔

خیر خواہی کے نام پر چودھواں(14)اعتراض:

ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں ۔
خولہ بنت حکیم نے خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تحفتاً پیش کیا ۔ام المؤمنین عائشہ بولیں ۔ ''عورت کو ایسا کہتے شرم نہیں آتی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی تو ام المؤمنین عائشہ بولیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو یہ دیکھتی ہوں کہ آپ کا رب آپ کی خواہشات کو پورا کرنے میں بہت جلدی کرتا ہے۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 27)
ازالہ :۔
یہ روایت صحیح بخاری میں ان الفاظ سے منقول ہے ۔
کانت خولة بنت حکیم من اللائی وھبن انفسھن للنبی صلی اللہ علیہ وسلم 
(1)(2)
فقالت عائشہ اما تستحی المرأة ان تھب نفسھا للرجل؟فلما نزلت (ترجی من تشاء منھن)قلت یا رسول اللہ مااری ربک الا یسارع فی ھواک(صحیح بخاری کتاب النکاح باب ھل للمرأة ان تھب نفسھا لاحد؟ رقم الحدیث 5113)
خولہ بنت حکیم ان عورتوں میںسے تھیں جنھوں نے اپنے آپ کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہبہ کیا تھا پس عائشہ نے (خبر ہونے پر )فرمایا کہ عورت کو ایسا کرنے میں حیا نہیں آتی ۔
جب یہ آیت نازل ہوئی کہ (جس کو آپ چاہیں دور کردیں اور جس کو چاہیں قریب کرلیں) تو میں (عائشہ) نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دیکھتی ہوں کہ آپ کا رب آپ کی خواہشات پوری کرنے میں جلدی کرتا ہے ۔
ڈاکٹر شبیرنے خوامخواہ حدیث کو اعتراضاً نقل کیا ہے اس لئے کہ حدیث کاجواب قرآن میں بعینہ موجود ہے ۔
وامراة مومنة ان وھبت نفسھا للنبی ان ارادالنبی ان یستنکحھا ۔خالصة لک من دون المؤمنین ۔(سورةالاحزاب ۔آیت 50 )
''
وہ مسلمان عورت بھی جو اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہبہ کردے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کواپنے نکاح میں لینا چاہیں تو یہ رعایت صرف آپ کے لئے ہے کسی مومن کے لئے نہیں ۔
اب جو اعتراض حدیث پر ہورہا ہے وہی قرآن پر وارد کیا جاسکتا ہے ۔
ڈاکٹر شبیرنے مغالطہ دے کر حدیث کومختصراً ذکر کیا ہے حالانکہ حدیث میں اس کا مفصل جواب موجود ہے جب خولہ بنت حکیم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ذات ہبہ کی تو اس کی اجازت کے لئے اس آیت کا نزول ہوا ''ترجی من تشاء منھن وتؤوی الیک من تشائ''(سورةالاحزاب ۔آیت 51)
''
آپ جس بیوی کو چاہیں علیحدہ رکھیں اور جسے چاہیں اپنے پاس رکھیں اور علیحدہ رکھنے کے بعد جسے چاہیں اپنے پاس واپس بلائیں آپ پر کوئی مضائقہ نہیں ۔''
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا اختیا ر دیا گیا تھا ۔ جہاں تک عائشہ کا قول ہے کہ (عورت کو ایسا کہتے حیاء نہیں آتی)تو یہ اس وقت کی بات ہے جب آیت کا نزول نہیں ہوا تھا اور جب آیت نازل ہوگئی تو ام المؤمنین عائشہ نے ایسے الفاظ کا اعادہ نہیں کیا ۔
ڈاکٹر شبیرنے حدیث کا ترجمہ کیا ہے (خود کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تحفتاً پیش کیا )اس طرز کے ترجمے کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف فحاشی اور بے ر اہ ر وی کا انتساب کیا جارہا ہے ۔
ہبہ کا لغوی معنی Giftاور تحفے کے ہیں مگر اس کا شرعی معنی عقد ونکاح کے ہیں (فتح الباری جلد 9صفحہ 204) اور اسکی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے کہ (أن یستنکحھا)کہنبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے نکاح کریں۔کاش ڈاکٹر شبیردیانت اور تحقیق کا دامن نہ چھوڑتے اور قرآن وحدیث کا صحیح مطالعہ کرتے تو اس طرح کی فحش غلطیوں کا ارتکاب نہ کرتے ۔

خیر خواہی کے نام پر پندرہواں (15)اعتراض :

ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی صفیہ سے کہا او سر منڈی ہلاک ہوئی۔
(
اسلام کے مجرم صفحہ 31)
ازالہ:۔
صحیح بخاری میں یہ روایت ان الفاظ سے منقو ل ہے ۔
''
لما أراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن ینفراذا صفیة علی خبائھا کئیة فقال لھا عقری ۔او حلقی انک لحا بستنا أکنت أفضت 
یوم النحر ؟ قالت نعم قال فانفری اذاً (1)
''
عائشہ فرماتی ہیں کہ جب (حج وداع سے فارغ ہوکر )کوچ کا ارادہ فرمایا تو خیمے کے دروازے پر ام المؤمنین صفیہ کو رنجیدہ کھڑے دیکھا تو آپ ۖنے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ ''او سر منڈی ہلاک ہوئی '' تو شاید ہم کو روک کر رکھے گی کیا تو نے دسویں تاریخ کو طواف زیارت کیا تھا انہوں نے کہا جی ہاں کرچکی ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر ہمارے ساتھ کوچ کرو ۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جس جملے پر اعتراض کیا گیا ہے وہ ہے ''او سرمنڈی ہلاک ہوئی '' اور غالباً اعتراض یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کے الفاظ کیونکر استعمال کرسکتے ہیں ؟یہ الفاظ تو بددعا کے لئے ہے اور آپکو تو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا گیا تھا ذاتی تکالیف پہنچانے والوں کے لئے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بد دعا نہیں کی
ڈاکٹر شبیرنے تو حدیث کا ایک حصہ نقل کیا ہے اگر وہ حدیث مکمل نقل کرتے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین صفیہ کو بددعا نہیں بلکہ محاورةً اس طرح کے الفاظ استعمال فرمائے تھے ۔
اہل عرب اس طرح کے محاورے عموماً استعمال کیا کرتے تھے ۔ بعض احادیث میں اس طرح کے دیگر محاورے منقول ہیں ۔مثلاً ۔
(1)
تربت یداک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں ۔
(2)
رغم انفک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیری ناک خاک آلود ہو ۔
(3)
ثکلتک امک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیری ماں تجھ کو گم کردے ۔
یہ الفاظ کلام عرب میں محاورة تنبیہ اور کسی کام کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ ان کو کہنے کا مقصد نہ تو بددعا ہوتا ہے اور نہ ہی طعن زنی مراد ہوتی ہے ۔
ڈاکٹر شبیرنے خوامخواہ تحقیق ومطالعہ سے روگردانی کرتے ہوئے پوری حدیث 
ذکرنہیں فرمائی بلکہ حدیث کا ٹکڑ ا ذکر کرکے حدیث رسول ۖکومحل اعتراض بنادیا ۔حالانکہ اردو زبان میں بھی اس طرح کے محاورات عام ہیں ۔
(1)
دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا ۔
(2)
ساون کے اندھے کو ہرا ہی نظر آتا ہے ۔
(3)
اپنے منہ میاں مٹھو بننا ۔
اگر ان محاورات کا انتساب کسی شخص کی طرف کیا جائے تو کیا اس سے یہ بات لازم آئے گی کہ منسوب الیہ شخص کو کتا اندھا یا طوطا کہہ کر اسکو مطعون کیا جارہا ہے یقینا ایسی بات نہیں تو پھر حدیث پر اعتراض چہ معنی ؟
بالفرض اگر اس سے مرادبدعا بھی لی جائے جوکہ محال ہے تو اس بددعا کو دعا پر محمول کیا جائے گا جیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے ۔
''
میں نے اپنے رب سے شرط کرلی ہے کہ اگر میں کسی کو بدعا دوں اور وہ اس کا مستحق نہیں تو میری بددعا کو اس کے حق میں طہارت پاکیزگی اور اپنے تقرب کا ذریعہ بنادے ۔(صحیح مسلم کتاب البر والصلة)

خیر خواہی کے نام پر سولہواں(16) اعتراض:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''ساتویں آسمان کے اوپر ایک سمندر ہے اسکے اوپر سات پہاڑی بکرے ہیں ان بکروں پر عرش الٰہی ہے ۔'' اگر ہندو کہے کہ زمین گائے کے سینگوں پر قائم ہے تو اعتراض کیوں؟ (اسلام کے مجرم صفحہ 27)
ازالہ:۔
یہ روایت جامع ترمذی میں موجود ہے ( جامع ترمذی کتاب التفسیر \تفسیر سورہ الحاقة )
ڈاکٹر شبیرنے یہاں بھی تحقیق سے کام نہیں لیا بلکہ اس حدیث کو تنقید برائے تنقید کے تحت نقل کردیا حالانکہ محدثین اور اصحاب فنون اس روایت کو ضعیف کہہ کر پہلے ہی رد کر چکے ہیں کیونکہ مذکورہ حدیث کی سند میں ایک راوی ہے ''عبداللہ بن عمیدہ '' جس کا سماع احنف سے ثابت نہیں اور نہ ہی اس نے احنف کا دور پایا ہے ۔
امام بخاری فرماتے ہیں 
''
لانعلم لہ سماعاً من الاحنف (تاریخ الکبیری جلد 5صفحہ 159)
عصر حاضر کے عظیم محدث علامہ ناصرالدین البانی نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے (ضعیف ترمذی تفسیر الحاقة رقم الحدیث 3554)دوسری وجہ یہ ہے کہ ''سماک '' جو کہ مذکورہ حدیث کا ایک راوی ہے اگر کسی روایت میں متفرد ہو تو قابل حجت نہیں اور یہاں سماک متفرد ہے ۔
امام نسائی فرماتے ہیں :
''
کان ربما لقن فاذا انفرد بأصل لم یکن حجة (تھذیب التھذیب جلد 3صفحہ 517-518)
''
یہ بعض اوقات تلقین کرتا تھااور جب اصل روایت میں متفرد ہو تو حجت نہیں ۔''
اما م ابن العربی اس حدیث کے تحت حاشیہ میں فرماتے ہیں ۔یہ روایت اہل کتاب سے ماخوذ ہے ان کی کوئی اصل صحیح نہیں ۔(عارضة الاحوذی بشرح الترمذی )
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے اور ضعیف حدیث پر اعتراض فضول ہے ۔

خیر خواہی کے نام پر ستر ھواں(17) اعتراض:

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا تو ان کی عمر 6سال تھی جب ان سے خلوت کی گئی تو عمر 9سال تھی ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 31)
ڈاکٹر شبیر اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ۔
''
قرآن کے مطابق ذہنی اور جسمانی بلوغت نکاح کے لئے لازم ہے قرآن نکاح کو انتہائی سنجیدہ معاہدہ کہتا ہے بچے سنجیدہ معاہدہ کیسے کرسکتے ہیں اگر آپ کی بیٹی یا بہن 6یا 9سال کی ہے تو آپ اس موضوعہ روایت کا زہر محسوس کرسکتے ہیں'' ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 31
ازالہ:۔
زیر بحث روایت صحیح بخاری میںموجود ہے جو کہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بلکہ عائشہ کا اپنا قول ہے کہ :
ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم تزوجھا وھی بنت ست سنین وبنی بھا وھی بنت تسع سنین (صحیح بخاری کتاب النکاح باب تزویج الأب ابنة من الامام رقم الحدیث 5134)
''
عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے چھ برس کی عمر میں نکاح کیا اور نو برس کی عمر میں رخصتی کی گئی ''
(1)
روایت کا ترجمہ کرتے وقت ڈاکٹر شبیرنے بنٰی کا ترجمہ خلوت کیا ہے جو کہ غلط ہے بنٰیکا معنی رخصتی ہے نہ کہ خلوت (النھایہ فی غریب الحدیث جلد 1صفحہ156)
(2)
اس روایت کوڈاکٹرشبیرنے موضوع کہا ہے اگر ہم غلط نہیں تو ڈاکٹرشبیر ائمہ جرح وتعدیل کی ۔ا،ب،ج بھی نہیں جانتے اور حدیث پر موضو ع کا حکم لگارہے ہیں ۔این بو العجبی است۔
(3)
کیا عائشہ بوقت رخصتی نابالغہ تھیں اور اگر نا بالغہ تھیں تو قرآن نے کہاں نابالغہ سے نکاح ممنوع قرار دیا ہے ۔
(4)
ڈاکٹر شبیرتحریر فرماتے ہیں ۔''قرآن کے مطابق ذہنی اور جسمانی بلوغت نکاح کے لئے لازم ہے ''۔ ھذا بھتان عظیم ۔قرآن حکیم میں ا یسا حکم کہیں موجودنہیں۔ حالانکہ 
قرآن مجید تو اس کے بالکل برعکس اصول بیان کرتا ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
''
والیٔ یئسن من المحیض من نسا ئِ کم ان ارتبتم فعدتھن ثلثة اشھروالیٔ لم یحضن'' (سورہ الطلاق ۔آیت 4)
''
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے ما یوس ہوچکی ہیں اگرتمہیں کچھ شبہ ہو تو انکی عدت تین ماہ ہے اور ان کی بھی جنہیں حیض شروع نہ ہوا ہو ۔''
مندرجہ بالا آیت میں اللہ رب العالمین عدت کے قوانین بیان کررہا ہے کہ ،
(1)
وہ عورتیں جنہیں حیض آنا بند ہوگیا ہو ۔ان کی عدت تین ماہ ہے ۔
(2)
وہ عورتیں جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو ان کی عدت بھی تین ماہ ہے (یعنی جو ابھی بالغ نہیں ہوئیں)
عورت پر عدت کے احکام خاوند کے انتقال کے بعد لاگو ہوتے ہیں ۔
یعنی ۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔نکاح ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔شوہر مر گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر عدت ہوگی۔
اب وہ لڑکی جس کو ابھی حیض نہیں آیا (یعنی بالغ نہ ہوئی )نکاح کے بعد اس کی عدت کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور عدت منکوحہ کے لئے ہے لہٰذا کم سن کا نکاح اور عدت کا بیان قرآن مجید میں موجود ہے اب جو اعتراض حدیث پر ہے وہی قرآن پر ہوتا ہے ۔
مزید برآں
ہر ملک وعلاقے کے ماحول کے مطابق لوگوں کے رنگ وروپ جسمانی وجنسی بناوٹ عادت واطوار جس طرح باہم مختلف ہوتے ہیں اسی طرح سن بلوغت میں بھی کافی تفاؤت وفرق ہوتا ہے ۔ جن ممالک میں موسم سرد ہوتا ہے وہاں بلوغت کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور جہاں موسم گرم 
ہوتا ہے وہاں بلوغت جلد وقوع پذیر ہوجاتی ہے ۔ مثلاً عرب ایک گرم ملک ہے اور وہاں کی خوراک بھی گرم ہوتی ہے جوکہ عموماً کھجور اور اونٹ کے گوشت پر مبنی ہوتی ہے اس لئے ام المؤمنین عائشہ کا 9سال کی عمر میں بالغ ہوجانا بعید از عقل نہیں ۔ماضی قریب میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ رونما ہوا کہ 8سال کی بچی حاملہ ہوئی اور 9سال کی عمر میں بچہ جنا ۔(روزنامہ 29 DAWNمارچ1966)دور حاضر کے نامور اسلامک اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے ایک انٹر ویو میں فرماتے ہیں ''حدیث عائشہ کے بارے میں میرے ذہن میں بھی کافی شکوک وشبہات تھے۔بطور پیشہ میں ایک میڈیکل ڈاکٹر ہوں۔ ایک دن میرے پاس ایک مریضہ آئی جس کی عمر تقریباً 9سال تھی اور اسے حیض آرہے تھے تو مجھے اس روایت کی سچائی اور حقانیت پر یقین آگیا ''(ARYپر ڈاکٹر شاھد مسعود کے ساتھ ایک نشست ، )اب بھی اگر اعتراض باقی ہے تو قرآن میں اللہ رب العالمین نے نوح علیہ السلام کی طویل العمری کا ذکر فرمایا ہے کہ :
''
فلبث فیھم الف سنة الاخمسین عاما ''(سورہ عنکبوت ۔آیت 14)
''
نوح اپنی قوم میں ساڑھے نو سو سال ٹہرے ''
یہ بات بھی ناقابل اعتبار اور عقل کے خلاف نظر آتی ہے تو اس کا آپ کیا جواب دیں گے ؟پس جو جواب آپ دیں گے وہی حدیث کا سمجھ لیں ''فما جوابکم فھوجوابنا فللہ الحمد ''

خیر خواہی کے نام پر اٹھارہواں(18) اعتراض :

خیبر کا قلعہ فتح ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (یہودی عورت )صفیہ کا حسن وجمال بیان کیا گیا ۔ اس کا شوہر مارا گیا تھا اور وہ نئی دلہن تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے لئے منتخب کرلیا
پھر آپ نے خیبر اور مدینہ منورہ کے درمیان ٹہر کر صفیہ سے خلوت وصحبت کی (خلاصہ حدیث) نہ صرف ان دونوں احادیث میں نکاح کا ذکر نکال دیا گیا ہے بلکہ یہ تک کہا گیا ہے کہ صحابہ کو معلوم ہی 
خلوت کے بعد ہوا کہ صفیہ ام المؤمنین بن گئی ہیں ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ33)
ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرنے جس حدیث کا خلاصہ پیش کیا ہے اس روایت کو امام بخاری نے تقریبا 32جگہ مختصر ومفصل ذکر فرمایا ہے ۔
حیرت کی بات ہے کہ ڈاکٹر شبیرنے حدیث کا سرسری مطالعہ کرکے اور حدیث کے اختصار کو سامنے رکھ کر حدیث کو محل اعتراض بنادیا اگر وہ صرف تھوڑی سی تحقیق کرلیتے اور صحیح بخاری میں موجود اس حدیث کے تمام طرق جمع کرلیتے تو ان کو اس قسم کے بے ہودہ اعتراض اور غلط بیانی سے کام نہ لینا پڑتا ۔
ڈاکٹر صاحب کو اس حدیث پر جو اعتراض ہیں وہ درج ذیل ہیں ۔
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صفیہ کا حسن جمال بیان کیا گیا ۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر نکاح ام المؤمنین صفیہ سے خلوت کی ۔
(3)
صحابہ کو خلوت کے بعد معلوم ہوا کہ صفیہ ام المؤمنین بن چکی ہیں ۔
اب صحیح بخاری کی حدیث کا جزء ملاحظہ فرمائیں ۔
''
فاصبنا ھا عتوة مجمع السبی فجاء دحیة فقال یا نبی اللہ اعطنی جاریة من السبی قال اذھب فخذ جاریة فا خذ صفیہ بنت حیی فجاء رجل الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا نبی اللہ اعطیت دحیة صفیة بنت حیی سیدة قریظة والنضیر؟ لاتصلح الالک قال ادعوہ بھا ۔ فجاء بھا فلما نظر الیھا النبی قال وخذ جاریة من السبی غیرھا قال فأعتقھا النبی صلی اللہ علیہ وسلم وتزوجھا (صحیح بخاری کتاب الصلوة باب مایذکر فی الفخذ رقم الحدیث 321)
انس فرماتے ہیں :
''
پس جب ہم نے لڑ کر خیبر فتح کرلیا اور قیدیوں کو جمع کرنا شروع کردیاگیا تو سیدنا دحیہ آئے اور عرض کیا کہ قیدیوں میں سے کوئی باندی مجھے عنایت کیجئے ۔آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور کوئی باندی لے لو تو انہوں نے صفیہ بنت حیی کو اپنے لئے پسند کرلیا ۔ اتنے میں ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفیہ قریضہ اور نضیرکے سردار کی بیٹی ہیں انہیں آپ نے دحیہ کو دے دیا ہے وہ تو صرف آپ ہی کے لئے مناسب تھیں اس پر آپ نے فرمایا کہ دحیہ کو صفیہ کے ساتھ بلاؤ پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو دحیہ کو فرمایا کہ قیدیوں میں سے کوئی اور باندی لے لو ۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو آزاد کرکے انہیں اپنے نکاح میں لے لیا ۔''
قارئین کرام !
ڈاکٹر شبیرنے خلاصہ حدیث کے نام پر جو مغالطہ دینے کی کوشش کی تھی صحیح بخاری کی اس روایت نے ان کو بالکل صاف اور واضح کردیا ہے ۔
(1)
مذکورہ حدیث نہ صرف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کا ذکر موجود ہے بلکہ اسی روایت کے اخیر میں ولیمہ کا تذکرہ بھی ہے ۔فتدبر ۔
(2)
مذکورہ حدیث میں صفیہ بنت حیی کا حسن وجمال نہیں بلکہ حسب ونسب بیان کیا گیا تھا۔ جس کو اہل عرب بڑے عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اسی وجہ سے اس شخص نے عرض کیا تھا کہ'' لاتصلح الا لک ''۔ کہ یہ صرف آپ کے لئے ہی مناسب ہیں ۔ اور پھر اس نکاح کی برکات کا ثمرہ تھا کہ تمام صحابہ نے ام المؤمنین صفیہ کے قبیلے کے تمام قیدیوں کو آزاد کردیا ۔
(3)
چند صحابہ جن کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کا علم نہ ہوا تو انہوں نے ایک اندازہ لگایا کہ اگر صفیہ پردہ کرتی ہیں تو ام المؤمنین ہیں وگرنہ انکو باندی شمار کیا جائے گا اور جب صفیہ نے پردہ کیا تو وہ سمجھ گئے کہ آپ نے نکاح کرلیا ہے اور جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمہ کی 
دعوت کی اور تمام اصحاب اس میں شریک ہوئے تو تمام اصحاب رسول ۖکو خبر ہوگئی کہ صفیہ ام المؤمنین بن گئی ہیں ۔
ڈاکٹر شبیرکا یہ کہنا کہ اصحاب رسول کو خلوت کے بعد معلوم ہوا کہ صفیہ ام المؤمنین بن گئی ہیں سراسر غلط بیانی ہے ۔اس لئے کہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی آپ کی توجہ اس طرف دلائی اور صحابیہ ام سلمہ نے ان کو دلہن بنایا اور دحیہ کو صفیہ کے عوض سات لونڈیاںعطا کی گئیں ۔ پھر بھی یہ کہنا کہ اصحاب رسول کو خبر نہ ہوئی ۔ چہ معنی دارد ۔
اب خلاصہ حدیث یہ ہے کہ ،
فتح خیبر کے بعد جب قیدیوں کو جمع کیا گیا تو ان میں ام المؤمنین صفیہ بھی تھیں اور وہ ابھی نئی نویلی دلہن تھیں ان کا شوہر جنگ میں مارا گیا تھا دحیہ نے ان کو اپنی لونڈی بنالیا ۔ بعض اصحاب رسول نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ام المؤمنین صفیہ کا تذکرہ کیا کہ وہ قبیلہ قریظہ ونضیر کے سردار کی بیٹی ہیں اور آپ کے لئے ہی مناسب ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو اپنے لئے منتخب فرمالیا اور ان کے بدلے دحیہ کو سات لونڈیاں عنایت فرمائیں پھر آپ نے صفیہ سے نکاح فرمایا ام سلمہ نے آ پ کو دلہن بنایا اور آپ نے خلوت فرمائی اور دوسرے دن آپۖ نے دعوت ولیمہ کیا ۔
مندرجہ بالا خلاصہ حدیث کو غور سے دوبارہ پڑھیں آپ کو اس میں کوئی اعتراض نظر نہیں آئے گا ۔ انشا ء اللہ ۔
اگر کوئی محض تنقید وتعصب کی نگاہ سے کسی بھی چیز کا مطالعہ کرے گا جیساکہ ڈاکٹر شبیر نے کیاتو اسے ہر بات میں اعتراض ہی نظر آئے گا اگر قرآن مجید کا اسی نگاہ سے مطالعہ کریں جو ڈاکٹرشبیر نے حدیث کے لئے استعمال کی ہے تو یقینا قرآن مجید بھی نہیں بچ سکتا ۔

خیر خواہی کے نام پر انیسواں (19) اعتراض :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا'' عورت پسلی کی مانند ٹیڑھی ہے اگرا سے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو ٹوٹ جائے گی اسے ٹیڑھی رہنے دو اور فائدہ اٹھاتے چلے جاؤ ۔''صاحبو! یہاں یوں لگتا ہے کہ یہود ونصاری نے بائبل کی روایت ہماری صحیح بخاری میں ڈال دی ہے قرآن نہیں کہتا کہ عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ33 )
ازالہ:۔ 
صحیح بخاری میں یہ روایت ان الفاظ سے منقول ہے ۔
''
عن ابی ھریرة ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال المرأة کالضلع ان اقمتھا کسرتھا وان استمتعت بھا استمتعت بھا وفیھا عوج (صحیح بخاری کتاب النکاح باب مدارة مع النساء رقم الحدیث 5184 )
''
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت پسلی کی مانند ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کروگے تو توڑدوگے اس سے فائدہ اٹھاؤ اسے ٹیڑھی ہی رہنے دو ۔''
قارئین کرام
(1)
ڈاکٹر شبیرکو اس حدیث پر اعتراض ہے کہ عورت کو پسلی سے تشبیہ دی گئی ہے اور اسکو''ٹیڑھی ''کہا گیا ہے۔
اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی کہ عورت سے زیادہ سختی نہ کرو اس کو سیدھا کرنے کے چکر میں کہیں اس کو توڑ نہ بیٹھنا کہ جس طرح پسلی کو سیدھا کرنے سے وہ سیدھی تو نہیں ہوتی مگر ٹوٹ جاتی ہے تو اسی طرح عورت کو توڑ نہ بیٹھنا اور عورت کو توڑنا کیا ہے وہ طلاق ہے جیساکہ صحیح مسلم کی روایت ہے ''وان ذھبت تقیمھا کسرتھا ۔وکسرھا طلاقھا'' ( صحیح مسلم بحوالہ فتح الباری جلد 6صفحہ 445

''
اگر تم عورت کو سیدھا کرنا چاہو گے تو اسکو توڑ بیٹھو گے اسکو توڑنا اسکو طلاق دے دینا ہے ۔''
اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے '' استو صوا با لنساء ''(صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب خلق آدم رقم الحدیث 3331
''
عورتوں سے اچھا سلوک کرو ۔''
یہ حدیث عورتوں کے حقوق کے لئے ہے نہ کہ ان کی تنقیص کے لئے جیساکہ ڈاکٹر شبیرنے مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے ۔
(2)
دوسرا اعتراض '' عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے (صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب خلق آدم رقم الحدیث 3331)یہ بات قرآن مجید میں موجود نہیں ''۔تو اسکا جواب یہ ہے کہ قرآن میں یہ بھی نہیں کہ عورت کو پسلی سے پیدا نہیں کیا گیا ۔ بلکہ قرآن مجید میں اسکا اشارہ موجود ہے کہ عورت کو آدم سے پیدا کیا گیا ہے ۔
''
یا ایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منھا زوجھا وبث (سورة النساء ۔آیت 1)
''
اے لوگوں اپنے پر ور دگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اسکی بیوی کو پیدا کیا ۔''
اب اگر حدیث نے اس کی تشریح پسلی سے کردی تو اس پر اعتراض کیو ں؟
(3)
ڈاکٹر شبیرکا تیسرا اعتراض کہ یہود ونصاری نے بائبل کی روایت کو صحیح بخاری میں ڈال دیا ۔
قرآن مجید میں اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے ۔
اذقال یوسف لابیہ یابت انی رأیت احد عشر کوکبا والشمس والقمر رأیتھم لی سٰجدین (سورہ یوسف ۔آیت 4)
''
جب یوسف نے اپنے والد سے کہا کہ میںنے گیارہ ستاروں اور سورج وچاند کو (خواب میں) دیکھاکہ وہ سب مجھے سجدہ کررہے ہیں ۔''
یوسف کے اس خواب کی تعبیریہ ہے کہ جب ایک طویل حادثاتی عرصے کے بعد جب ان کے تمام بھائی اور والدین ان کے پاس مصر پہنچے تو ان کے لئے سجدہ ریز ہوگئے ۔(سورہ یوسف ۔آیت 100)اس واقعہ سے قطع نظر اب اگر کوئی اعتراض کرے کہ سجدہ تو صرف اللہ کے لئے ہے یہاںتو ایک نبی دوسرے نبی کو سجدہ کررہے ہیں۔ 
اب اگر اعتراضاً عبارت یوں ہو۔
صاحبو یہاں یوں لگتا ہے کہ یہود ونصاری نے بائبل(کیا میں اور تیری ماں اور تیرے بھائی سچ مچ تیرے آگے زمین پر جھک کر سجدہ کریں (بائبل پیدائش 10:37) کی روایت ہمارے قرآن میں ڈال دی ہے ۔
ہم اس اعتراض کا کیا جواب دیں گے ؟ہم صرف تاویل کریں گے اور یقینا کریں گے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے لئے الگ معیار کیوں؟

خیر خواہی کے نام پر بیسواں(20) اعتراض:

''
سلیمان نے ایک رات میں سوبیویوں کے ساتھ مباشرت کی ۔ ''ملاحظہ فرمائیے ایک رات چند گھنٹے اور اللہ کا ایک عالی مقام پیغمبر (اسلام کے مجرم ،صفحہ 34)
ازالہ:
ڈاکٹر شبیرکو سلیمان کے اس عمل پر اعتراض ہے کہ سلیمان ایسا کیسے کرسکتے ہیں یعنی ایک رات میں سو 100بیویوں سے مباشرت چند گھنٹوں میں کیسے ممکن ہے ۔ہم اگر قرآن مجید کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں سلیمان کے کچھ مزید انفراد نظر آتے ہیں۔مثلاً
غدوھا شھر ورواحھا شھر (سورہ سبا ۔ آیت 12)
''(
ہوا سلیمان کے تابع کردی گئی )وہ صرف صبح کے وقت ایک مہینے کی مسافت طے کیاکرتی تھی اور شام کے وقت بھی ایک مہینے کی مسافت طے کرتی تھی ''
علمنا منطق الطیر (سورہ النمل ۔آیت 16)
''
مجھے پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے ''
اب تاریخ انسانی میں کوئی ایسا انسان نہیں جس کے لئے ہوا کو تابع کردیا گیا ہو یا وہ پرندوں سے باتیں کرتا ہو چیونٹیوں کی باہمی گفتگو سنتا ہو ۔یہ چیزیں تو ہمیں ''امیر حمزہ''الف لیلیٰ'' حاتم طائی بے سر وپا قصوں میں ملتی ہیں اور اگر قرآن مجید کو'' تنقید کی نگاہ''سے دیکھا جائے تو مندرجہ بالا آیات عقلی معیار پرپورا نہیں اترتیںاور محل نظر محسوس ہوتی ہیں مگر اس کے باوجود ہم صرف اس لئے ان پر ایمان ویقین رکھتے ہیں کہ یہ تمام قصص قرآن میں موجود ہیں اور وہ سچی کتاب ہے تو اب اگر حدیث میں ایسا کچھ آگیا تو اعتراض کیوں ؟
الغرض جب اسطرح کی ماورائے عقل باتیں سلیمان میں پائی جاتی ہوں تو یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں بے پناہ مردانہ قوت بھی ہو ۔ کیونکہ قرآن کے عمومی بیان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انبیاء کو بے پناہ طاقت حاصل تھی ۔مثلاً، موسی کے متعلق قرآن مجیدمیںآتا ہے کہ :
فوکزہ موسی فقضی علیہ (سورہ القصص ۔آیت 15)
''
موسی نے اس کو مکہّ مار ا اور وہ مرگیا ۔''
کیا ہم کسی کو مکہّ مار کر قتل کرسکتے ہیں ؟ مگر ایک نبی کی جسمانی طاقت سے ایسا ممکن ہوگیا۔ داؤ د کے متعلق قرآن مجید میں ذکر ہے :

والنا لہ الحدید (سورہ سبا ۔آیت 10)
''
ہم نے اس کے لئے لوہے کو نرم کردیا ''
لوہے جیسی سخت چیز داؤد کے ہاتھ میںآکر نرم ہوگئی کیا دنیا کا کوئی طاقت ورترین انسان ایسا کرسکتا ہے مثلا آرنلڈ شیواز ینگر سے7مرتبہ دنیا کا طاقت ور ترین انسان تسلیم کیا گیا کیا وہ لوہے کو ہاتھ سے موڑ توڑ کر ذرہ بنا سکتا ہے ؟مگر انبیاء کو ایسی قوت وصلاحیتیں عطاء فرمائی گئیں ۔
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ :
انہ اعطی قوة ثلاثین (صحیح بخاری کتاب الغسل باب اذا جامع ثم عاد رقم الحدیث 268)
''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیس مردوں کے برابر قوت عطاء کی گئی ۔''
دوسرا اعتراض کہ چند گھنٹوں کی رات میں ایسا کس طرح ممکن ہے تو اسکا جواب یہ ہے کہ رات عموماً 12گھنٹوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔بالفرض اگر 3منٹ کا اوسطاً حساب لگایا جائے (جو کہ ایک صحت مند انسان کے لئے بہت ہوتا ہے )تو وقت تقریباً100سے 3کو ضرب دیا جائے تو 5گھنٹے بنتے ہیں ۔پھر بھی 7 گھنٹے فاضل بچتے ہیں ۔خلاصہ کلام یہ کہ حدیث پر اعتراض بالکل فضول ہے ۔

خیر خواہی کے نام پر اکیسواں (21)اعتراض:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب بنت جحش کے پاس شہد پیا ۔دیگر امہات المومنین نے منصوبہ بنایا کہ جس بیوی کے پاس جائیں گے وہ یہی کہے گی ہمیں آپ کے منہ سے بدبو آرہی ہے۔ 
(
اسلام کے مجرم صفحہ35)

ازالہ:۔
مذکورہ روایت صحیح بخاری میں ان الفاظ سے منقول ہے کہ۔
سمعت عائشہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یمکث عند زینب ابنة جحش ویشرب عندھا عسلا فتوا صیت انا وحفضة ان أیتنا دخل علیھا النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلتقل أنی لا جد منک ریح مغافیر اکلت مغافیر فدخل علی احداھما فقالت لہ ذلک فقال لابأس شربت عسلا عند زینب ابنة جحش ولن اعودلہ فنزلت۔(یاایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک )الی (ان تتوبا الی اللہ (صحیح بخاری کتاب الطلاق باب لم تحرم ما احل اللہ لک رقم الحدیث 5267)
''
عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت جحش کے پاس ٹہرتے اور شہد نوش فرماتے تھے تو میں نے اور حفصہ نے مل کر یہ صلاح کی کہ ہم میں سے کسی کے گھر میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوں تو وہ یہ کہے ''میں آپ کے پاس سے مغافیر (ایک بو والا پھل ) کی بو محسوس کررہی ہوں کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے ''۔پس جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی ایک کے پاس گئے تو انہوں نے ایسا ہی کہا ۔پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی بات نہیں میں نے تو زینب کے ہاں شہد پیا ہے اور اب ہر گز نہیں پیوں گا پھر یہ آیت نازل ہوئی ۔ یا ایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک (سورہ ۔تحریم آیت 1)
ڈاکٹر شبیرنے اس روایت کو بغیر کسی تبصرے کے نقل کیا ہے شاید انہیں اس بات پر اعتراض ہے کہ روایت مذکورہ سے ازواج مطہرات پر الزام آتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلا ف منصوبہ بندی کرتی تھیں ۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس واقعہ کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے ۔
یا ایھا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک تبتغی مرضات ازواجک (' اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کردیا اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں (کیا) آپ اپنی بیویوں کی رضامندی چاہتے ہیں '')
'
اس آیت میں یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی چیز اپنے اوپر بیویوں کی ضا مندی کے لئے حرام کرلی تھی ۔جس پر اللہ کی طرف سے تنبیہ نازل ہوئی ۔ مزید ارشاد ہے
''
واذ اسرالنبی الی بعض ازواجہ حدیثا فلما نات بہ واظھرہ اللہ علیہ عرف بعضہ واعرض عن بعض ،فلما نباھابہ قالت من انبأک ھذاقال نبانی العلیم الخبیر (سورہ تحریم ۔آیت 3(2)سورة تحریم ،آیت4)
''
اور (یاد کرو) جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض بیویوں سے ایک پوشیدہ بات کہی ۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی خبر دی اور اللہ نے اپنے نبی کو آگاہ کردیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی سی بات تو بتادی اور تھوڑی سی ٹال گئے پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بیوی کو یہ بات بتائی تو وہ کہنے لگی اس کی خبر آپ کو کس نے دی ۔ کہا سب جاننے والے اور پوری خبر رکھنے والے اللہ نے مجھے بتادیا ۔''
مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیویوں نے کچھ خفیہ منصوبہ بندی کی تھی جس کی خبر اللہ رب العزت نے بذریعہ وحی فرمادی ۔ اور یہ منصوبہ بندی کس کے خلاف تھی اگلی آیت واضح کررہی ہے ۔
''
ان تتوبا الی اللہ فقد صغت قلوبکما وان تظٰھر ا علیہ فان اللہ ھو مولٰہ وجبریل وصالح المؤمنین ۔والملٰئکة بعد ذلک ظھیر''(2)
''(
اے نبی کی دونوں بیویوں) اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کرلو ۔ یقینا تمہارے دل جھک پڑے ہیں ۔ اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی گٹھ جوڑ کرو گی پس اس کا کارساز یقینا اللہ ہے اور جبریل ہیں اور صالح مومنین اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں ۔''
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کی بیویوں سے کچھ سرزد ہوا تھا اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم 
کے خلاف صلاح کی تو اس پر اللہ کی طرف تنبیہ نازل ہوئی ۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کچھ ازواج کی رضامندی کے لئے اپنے اوپر کچھ حرام کرلیا اور پس منظر میں یہ منصوبہ ازواج مطہرات میں سے دوبیویوں نے بنایا تھا جس کی خبر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی کردی گئی بعد میں ان ازواج کو سخت تنبیہ کی گئی ۔
زیر بحث حدیث ان آیات کی تشریح وتوضیح کرتی ہے ۔ بلکہ جس قدر سخت الفاظ قرآن نے استعمال کئے ہیں حدیث میں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے اب جو اعتراض حدیث پر وارد ہوتا ہے قرآن مجید پر بھی وہی اعتراض لازم آتا ہے پس جو جواب قرآن کا ہے وہی حدیث کا بھی سمجھ لیں ۔

خیر خواہی کے نام پر بائیسواں (22)اعتراض:

ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں ۔
عائشہ بولیں ہائے سر پھٹا ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش میری زندگی میں ایسا ہوجاتا عائشہ بولیں آپ میری موت چاہتے ہیںکہ اگلی رات دوسری بیوی کے پا س گزاریں ۔ 
(
اسلام کے مجرم صفحہ 36)
ازالہ :۔
بہت افسوس کی بات ہے کہ ڈاکٹر شبیرنے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں خرد برد اور تحریف کا ارتکاب کیا ہے حدیث کو کچھ کا کچھ کر ڈالا ہے ۔اب ہمیں ''مجید نظامی '' چیف ایڈیٹر نوائے وقت کے یہ الفاظ محل نظر محسوس ہوتے ہیں ''وہ (ڈاکٹرشبیر ) سادگی سچائی شفقت ومحبت امانت ودیانت اور صاف دلی کے پیکر کے چنڈے ہوئے ہیں '' (اسلام کے مجرم صفحہ 7)
اب آتے ہیں حدیث زیر بحث کی طرف جو صحیح بخاری میں مرقوم ہے ۔
''
قالت عائشہ ورأسا فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذاک لوکان وانا فی فأستغفرلک وادعو لک فقالت عائشہ واثکلیا ہ واللہ انی لأ ظنک تحب موتی ولوکان ذاک لظلت آخر یومک معرسا ببعض ازواجک فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم بل أنا وراساہ ۔الحدیث (صحیح بخاری کتاب المرضی باب مارخص المرضی رقم الحدیث 5665)
''
سیدہ عائشہ کے سر میں درد تھا اور وہ کہہ رہی تھیں کہ ہائے میرا سر پھٹا جارہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔(کہ تجھ کو کیا فکر ) اگر تو میری زندگی میں مرجائے گی تو میں تیرے لئے دعا اوراستغفارکرونگا۔تب وہ کہنے لگیں ہائے مصیبت اللہ کی قسم آپ میری موت چاہتے ہیں ۔ میرے مرتے ہی اسی دن شام کو دوسری بیوی کے ساتھ ہوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہائے میرا سر ۔''
قارئین کرام!اس حدیث میں کیاکوئی اعتراض ہے ؟نہیں!اس روایت کے مزید کچھ طرق جمع کئے جائیں تو خلاصہ یہ ہوتا ہے۔
سیدہ عائشہ کے سر میں در دتھا جس کی وجہ سے وہ کہہ رہی تھیں کہ ہائے میرا سر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا کہ تجھ کو کیا فکر ہے اگر تو میری زندگی میں مرگئی تو میں تیرے لئے استغفار کرونگا ایک روایت میں ہے ۔میں تیرا جنازہ پڑھوں گا اور تجھ کو دفن کرونگا ۔(فتح الباری جلد 10صفحہ 155) اس پر عائشہ فرمانے لگیں کہ آپۖ تو میری موت چاہتے ہیں تاکہ اس شام اپنی دوسری زوجہ کے پاس ہوں ۔ ''قالت فتبسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ''(فتح الباری جلد 10صفحہ 155)یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے آپ نے بھی کہا کہ ہائے میرا سر ۔ (ماخوذ فتح الباری )
خلاصہ حدیث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ سے ان کی بیماری میں ازراہ مذاق محبت و الفت فرمارہے تھے ۔اس پر بھی ڈاکٹر شبیرکو اعتراض ہے کہ یہ اسلام دشمنوں کی سازش ہے جنہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اس طرح کی باتیں منسوب کردیں کہ آپ اپنی ازواج سے محبت ودلگی فرماتے تھے ۔

خیر خواہی کے نام پر تئیسواں (23) اعتراض:

مدینہ آنے والے کچھ لوگ بیمار ہوگئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ اونٹوں کے چرواہے کے پاس چلے جائیں اور اونٹنیوں کا دودھ اور پیشاب پیتے رہیں وہ لوگ تندرست ہوگئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹوں کو ہانک کر لے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آدمی انہیں پکڑ لائے ۔ ان کے ہاتھ پیر کاٹ دئیے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھر وادی گئی ایک اور حدیث میں ہے کہ ان کی آنکھیں نکلوادی گئیں پھر ان کو تپتی ریت پر لٹادیا گیا وہ پیاس کی شدت سے پانی مانگتے تھے اور اپنی زبان سے زمین چاٹتے تھے لیکن انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا یہاں تک کہ وہ مرگئے ۔
صاحبو ! کیا رحمة اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ایسی ایذا رسائی فرماسکتے تھے؟کیا اونٹنی کا پیشاب لوگوں کو پلاسکتے تھے ؟ کیا یہ دشمنان اسلام کی شازش نہیںہے۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 36-37)
ازالہ :۔
ڈاکٹر شبیرنے خوامخواہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا ہے اگر وہ کھلی نگاہوں سے قرآن مجید کا مطالعہ کرتے تو انہیں یہ آیت مبارکہ ضرور نظر آتی ۔
''
ان النفس بالنفس والعین بالعین والانف بالانف والاذن بالاذن والسن بالسن والجروح قصاص ''(سورہ المائدہ ۔آیت 45)
''
جان کے بدلے جان آنکھ کے بدلے آنکھ کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا بھی قصاص ہے ''
اب قرآن مجید خود یہ اصول پیش کرتا ہے کہ جیسا زخم دیا گیا ہو ویسی ہی سزا دی جائے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے بعینہ وہی سلوک کیا کہ جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 
کے چرواہے کے ساتھ کیا تھا ۔
علامہ عینی فرماتے ہیں کہ :
وانما فعل بھم ذلک لانھم فعلوا بالراعی کذلک (عمدة القاری جلد 21صفحہ 361)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے ایسا سلوک اس لئے کیا کہ انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے سے وہی برتاؤ کیا تھا یعنی( اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے آنکھوں میں گرم سلائی پھیردی اور ایسی حالت میں کھلی جگہ پر چھوڑ کر چلے گئے )یہ بات بالکل حق ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام جہانوں کے لئے رحمت تھے مگر کفار پر بڑے سخت تھے ۔
محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار رحماء بینھم (سورہ الفتح ۔آیت 29)
''
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور ان کے اصحاب کفار پر بڑے سخت اور آپس میں بڑے نرم ہیں ''
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان منافقین سے بالکل اس آیت کے مطابق عمل کیا ۔
مزید برآں :قرآن مجید بھی ایسی سزا کا (بدلہ برابری کے اصول پر)بیان کرتا ہے ۔
''
وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ (سورہ النحل 16آیت 126)
''
اور اگر بدلہ لو تو اتنا ہی لینا جتنا انہوں نے تمہیںصدمہ پہنچایا ہے ۔''
خلاصہ کلام :۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ بالکل قرآن مجید کے احکامات کے موافق تھا لہٰذا حدیث پر اعتراض کالعدم ہے ۔پیشاب پلانے کا مسئلہ اور اس کا مفصل جواب اعتراض (١١) کے ازالہ پر ملاحظہ فرمائیں۔

خیر خواہی کے نام پر چوبیسواں (24)اعتراض:

ڈاکٹر شبیر رقمطراز ہیں کہ :
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ چھوت یعنی متعدی بیماری کوئی ہے نہیں ،لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ کوڑھی سے یوں بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔
(
اسلام کے مجرم صفحہ 37)
ازالہ :۔
صحیح بخاری میں یہ حدیث مبارکہ ان الفاظ سے منقول ہے ۔
''
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاعدوی ولاطیرة ولا ھامة ولاصفر ۔وفرمن المجذوم کما تفر من الاسد'' (صحیح بخاری کتاب الطب باب الجذام رقم الحدیث )
''
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کوئی بیماری چھوت (ایک سے دوسرے کو بیماری لگ جانا )نہیں ہوتی اور نہ نحوست کچھ ہوتی اور نہ الو کا بولنا نحوست ہوتا ہے اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہوتا ہے ۔کوڑھی مریض سے ایسے دور رہو جیسے شیر سے دور رہتے ہو ۔''
ڈاکٹر شبیرکو اس حدیث پر اعتراض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں تضاد اور ٹکراؤ پایا جاتا ہے کہ ایک جگہ تو آپ کا فرمان ہے کہ کوئی بیماری چھوت (متعدی )نہیں ہوتی ۔جبکہ دوسری طرف فرمارہے ہیں کہ کوڑھی کے مریض سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو ۔ جب بیماری چھوت ہی نہیں ہوتی تو کوڑھی سے دور رہنے کا کیا مطلب ؟یہ روایت بظاہر متعارض ہے مگر اصلاً اس میں کوئی تعارض نہیں ہے اگر آپ غور فرمائیں تو حدیث کے پہلے جز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امت کے عقیدے کی تعمیر وتوثیق فرمارہے ہیں کہ بیماری اللہ رب العزت کی طرف سے ہی ہوتی ہے کسی کو چھولینے سے یا کسی کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے کسی کو کوئی بیماری نہیں لگتی ۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے کہ :
قل کل من عند اللہ (سورة النساء ،آیت 78)
''
کہہ دوسب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ''
اور صحیح بخاری میں اسی موضوع کی ایک اور روایت موجود ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا '' لا عدوی ولاصفر ولا ھامة '' کہ کوئی بیماری چھوت نہیں ہوتی صفر کا مہینہ منحوس نہیں ہوتا اور الوکابولنامنحوس نہیں ہوتا تو ایک اعرابی (دیہاتی )نے عرض کیا کہ ،
''
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابلی تکون فی الرمل کانھا الظباء فیاتی البعیر الاجرب فیدخل بینھا فیجر بھا ''۔
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے اونٹوں کے بارے میں کیا خیال ہے کہ وہ ریگستان میں چرنے چگنے والے ہرنوں کی طرح ہوتے ہیں پھر اچانک ان میں کوئی خارش زدہ اونٹ آجاتا ہے اور ان میں سے مل کر ان کو بھی خارش زدہ کردیتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ 
''
فمن اعدی الاول '' (صحیح بخاری کتاب الطب باب لاصفر رقم الحدیث 5717)
''(
یہ بتاؤ ) اس پہلے اونٹ کو کس نے خارش زدہ کیا ؟''
یعنی جس ذات باری تعالیٰ نے پہلے اونٹ کو خارش زدہ کیا اسی کے حکم سے دیگر اونٹ بھی خارش زدہ ہوئے ہیں۔اس بات کو مزید اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ بعض اوقات ہمارے شہر میں وائرس وغیرہ پھیل جاتا ہے توآبادی کا بیشتر حصہ اس سے متاثر ہوتا ہے اور ایک کثیر تعداد ان لوگوں کی بھی ہوتی ہے کہ جو اس سے محفوظ رہتے ہیں ۔ایک مسلم ہونے کے ناطے کیا ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ جو لوگ بیماری کا شکار ہوئے ہیں ان کی بیماری اللہ کی طرف سے اور جو محفوظ رہے ہیں ان پر اللہ کا کرم ہوا ہے ۔اور جہاں تک تعلق ہے حدیث کے اس جزء کا کہ جس میں جذام زدہ سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے تو اس میں احتیاطی تدابیر کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ جذام زدہ مریض سے اختلاط نہ کرو اس لئے کہ اللہ رب العزت نے تمہیں بھی یہ بیماری لگادی تو کہیں تمہارے عقیدہ میں یہ بات 
نہ آجائے کہ یہ بیماری مجھے اس مجذوم کی وجہ سے لگی ہے اور اس غلط عقیدہ کی وجہ سے توکل علی اللہ کی مضبوط دیوار میں دراڑ نہ پیدا ہوجائے جیساکہ اس دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اشکال بیان کیا تھا اور آپ نے اس کا فوراً ازالہ فرمادیا تھا ۔
خلاصہ کلام یہ ہے حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی تعارض وتضاد نہیں ۔ فللہ الحمد 
ڈاکٹر شبیراگر اس طرح کے ظاہری تضاد کی بناء پر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رد کیا جاسکتا ہے تو پھر قرآن مجید کی ان دو متعارض آیات کاآپ کیا جواب دیں گے ؟
انک لا تھدی من احببت(سورہ القصص ۔آیت 56)
''
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ۔''
جبکہ دوسری جگہ ارشاد ہے کہ :
وانک لتھدی الی صراط مستقیم (سورہ الشوری ۔آیت 52)
''
اور بے شک آپ ہی صراط مستقیم کی طرف ھدایت دیتے ہیں ۔''

خیر خواہی کے نام پر پچیسواں (25) اعتراض:

نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے بیوی میں ،گھرمیں، اور گھوڑے میں ۔ 
(
اسلام کے مجرم صفحہ 37)
ازالہ :۔
ڈاکٹر شبیرنے اس روایت کو صحیح بخاری کتاب الطب سے تحریف کر کے نقل فرمایا 
ہے۔ 
حدیث مذکور میں لفظ المرأة (عورت ) کا ترجمہ '' بیوی '' کیا ہے جو کہ قابل افسوس ہے ! اس سے ڈاکٹر شبیرکی حدیث دشمنی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔
ڈاکٹر شبیرنے جس حدیث پر اعتراض کیا ہے وہ اصل میں مجملاً بیان ہوئی ہے ۔ اگر ڈاکٹر شبیرصحیح بخاری کا مفصل مطالعہ کرتے تو ان کو یہ روایت مل جاتی جو کہ عبداللہ بن عمر سے ہی مروی ہے ۔
''
ان کان الشوم فی شئی ففی الدار والمرأة والفرس '' (صحیح بخاری کتاب النکاح باب مایتقی من شوم المرأة رقم الحدیث 5094)
''
اگر نحوست ہوتی تو گھر عورت اور گھوڑے میں ہوتی ''
اب دونوں روایتوں کو جمع کیا جائے تو اس کا خلاصہ یہ ہوتا کہ ،نحوست کچھ نہیں ہوتی ۔ اگر نحوست ہوتی تو گھر عورت اور گھوڑے میں ہوتی ۔زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا نظریہ تھا کہ فلاں فلاں چیزوں میں نحوست ہوتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلط نظریہ کی تردید فرمادی نحوست کا کوئی تصور نہیں۔ اگر ہوتی تو عورت گھر اور گھوڑے(سواری) میں بھی ہوتی کہ جن کو انسان بہت محبوب رکھتا ہے۔الغرض حدیث میں نحوست کے وجود کا کوئی تصورنہیںہے البتہ قرآن میں نحوست کا تذکرہ ملتا ہے ۔کہ جن ایام میں قوم عاد پر عذاب بھیجا گیا اللہ رب العالمین نے ان ایام کو نحوست سے تعبیر فرمایا ۔
فارسلنا علیھم ریحا صرصراً فی ایام نحسات لنذیقھم عذاب الخزی فی الحیوة الدنیا ۔(سورہ حم سجدہ ۔آیت 16)
''
بالآخر ہم نے ان پر ایک تیز وتند آندھی منحوس دنوں میں بھیج دی کہ انھیں دنیاوی زندگی میں ذلت کے عذاب کا مزہ چکھادیں ۔''
ڈاکٹر شبیراس آیت مبارکہ کا کیا جواب دیں گے ۔
یا ایھا الذین امنواان من ازواجکم واولادکم عدوالکم (سورہ التغابن ۔آیت 14)
''
اے ایمان والوں تمہاری بیویاں اور تمہاری اولاد تمہاری دشمن ہیں ۔''

خیر خواہی کے نام پر چھبیسواں (26)اعتراض:

ابو ہریرہ نے کہا کہ بیمار اونٹ کو تندرست اونٹوں کے پاس نہ لے جاؤ ۔ لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت نہیں کی کہ چھوت کی بیماری کوئی چیز نہیں تو ابو ہریرہ حبشی زبان میںنہ جانے کیا بکنے لگے ۔ (اسلام کے مجر م صفحہ 37)
ازالہ :۔
یہ روایت صحیح بخاری میں ان الفاظ سے مرقوم ہے ۔
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لایوردن ممرض علی مصح وانکر ابو ہریرة حدیث الاول ۔ وقلنا الم تحدث انہ لا عدویٰ فرطن بالحبشة ۔ قال ابو سلمہ فما رأیتہ نسی وغیرہ (صحیح بخاری کتاب الطب باب لاھامة ۔ رقم الحدیث 5771)
''
ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیمار اونٹوں کو تندرست اونٹوں کے قریب نہ لاؤ راوی حدیث کا کہنا ہے کہ ابو ہریرہ نے پہلی حدیث (لاعدویٰ ) کو روایت کرنے کا انکار کیا (یعنی میں نے یہ حدیث نہیں بیان کی )تو ہم نے کہا کیا آپ نے یہ حدیث لا عدوی بیان نہیں کی تو ابو ہریرہ حبشی زبان میں کچھ بات کرنے لگے ۔''
ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کہ ابوہریرہ اس حدیث کے علاوہ کوئی حدیث بھولے ہوں ۔
قارئین کرام
ڈاکٹر شبیرنے حدیث کا ترجمہ کرتے وقت بہت زیادہ تو ہین آمیز الفاظ استعمال کیا ہے کہ جس کی امید ایک باشعور مہذب اور تعلیم یافتہ مسلمان سے تو کجاایک عام انسان سے بھی نہیں کی جاسکتی ۔
ڈاکٹر شبیرنے حسب سابق حدیث کو نقل کرنے میں تلبیس سے کام لیا ہے اور معنوی تحریف کا ارتکاب کرتے ہوئے فطری دیانت کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے ملاحظہ فرمائیں 
(1)
حدیث کا پورا ترجمہ نقل نہیں کیا ۔
(2)
روایت کو ابو ہریرہ کا قول کہاحالانکہ وہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
(3)
حدیث زیر بحث میں لفظ '' رطن '' کا ترجمہ'' بکنے '' درج کیاہے حالانکہ '' رطن '' کا اصل معنی عجمی زبان میں بات کرنے کے ہیں ۔(المنجد صفحہ 391مادہ رطن )
قارئین کرام !
امام المحدثین سید الفقہا مجتہد مطلق امام ابو ہریرہ کے متعلق اس قدر گھٹیا اور غلیظ الفاظ کا استعمال کرکے نیز احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تحریف کرکے ڈاکٹر شبیرکس کو ''اسلام کا مجرم '' گردان رہے ہیں اس کا فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں ۔
اب حدیث مبارکہ کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔
ابو ہریرہ نے حدیث بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیمار اونٹوں کو تندرست اونٹوں کے پاس لے جانے سے منع فرمایا تو بعض لوگوں نے کہا کہ آپ نے تو یہ حدیث لاعدوی (بیماری چھوت نہیں ہوتی )اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرمائی تھی تو ابو ہریرہ نے اس کے بیان سے انکار فرمادیا (بھول جانے کی وجہ سے )اور حبشی زبان میں کچھ بات کرنے لگے وہ الفاظ کیا تھے خود ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ
''
فقال الحارث أتدری ما ذاقلت ؟ قال لا قال انی ابیت ''(فتح الباری جلد 10صفحہ 297
''
ابو ہریرہ نے حارث (راوی حدیث) کو کہا کہ تمہیں پتہ ہے میں نے کیا کہا ؟ حارث نے جواب دیا کہ نہیں معلوم ۔ تو ابو ہریرہ نے فرمایا کہ میں نے (حبشی زبان میں )کہا تھا کہ میں انکار کرتا ہوں ۔''
اور جہاں تک ابو ہریرہ کے انکار کا تعلق ہے تو وہ ان سے نسیان ہوگیا تھا ابوسلمہ فرماتے ہیں کہ ابو ہریرہ سے اس حدیث کے علاوہ اور کہیں پر بھی بھول نہیں ہوئی ۔(صحیح بخاری کتاب الطب رقم الحدیث 5771) ابوہریرہ بہر کہف ایک انسان تھے جس کے ناطے ان سے بھول ہوگئی مگر اس سے حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس لئے کہ یہ روایت دیگراصحاب رسول سے بھی مروی ہے ۔

خیر خواہی کے نام پر ستائیسواں (27) اعتراض:

حضرت علی کی خدمت میں زندیق پیش کئے گئے تو آپ نے انہیں جلا دیا ۔سیدنا علی علم وسخاوت وعدل کا پیکر زندہ انسانوں کو ہر گز نہیں جلا سکتے ۔ (اسلام کے مجر م صفحہ 40)
ازالہ:۔
یہ روایت صحیح بخاری میں ان الفاظ سے منقول ہے ۔
''
عن عکرمة قال اتی علی بزنادقة فأحرقھم فبلغ ذلک ابن عباس ۔ فقال : لوکنت انا لم احرقھم لنھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاتعذبوا بعذاب اللہ ولقتلتھم لقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من بدل دینہ فاقتلوہ (صحیح بخاری کتاب استتابہ المرتدین باب حکم المرتد رقم الحدیث 6922)
''
سیدنا علی کے پاس زنادقہ لائے گئے تو ان کو سیدنا علی نے جلوادیا ۔ سیدنا ابن عباس کوجب یہ خبر ملی تو فرمایا اگر میں ہوتا تو ان کو نہ جلاتا اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ اللہ کے عذاب سے کسی کو عذاب نہ دو ہاں ان کو قتل ضرور کردیتا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم 
کا فرمان ہے کہ جس نے اپنا دین تبدیل کیا اسے قتل کردو ۔
اس حدیث سے نکلنے والے نتائج پر غور فرمائیں ۔
(1)
سیدنا علی نے زنادقہ کو جلادیا ۔
(2)
زنادقہ عبداللہ بن سبا(جوکہ حدیث کا انکار اور تحریف کرتا تھا )کے پیروکار تھے ۔
(3)
ابن عباس نے فرمایا کہ میں ایسا نہ کرتا ( کیونکہ ان کے پاس اس مسئلے کی حدیث موجود تھی
(4)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ آگ کے عذاب سے کسی کو عذاب نہ دو (یہ روایت ابن عباس کی دلیل تھی جس کی وجہ سے ابن عباس آگ کا عذاب دینے سے منع فرماتے تھے ۔)
قارئین کرام
سیدناعلی کو اس حدیث کا علم نہ تھا جو کہ ابن عباس کے پاس تھی کہ آگ کے عذاب سے کسی کو سزا نہ دو اگر سیدنا علی کو اس روایت کا علم ہوتا تو آپ ضرور با لضرور اس حدیث پر عمل فرماتے کیونکہ آپ تو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کے شیدائی تھے اور اس کے خلاف کچھ ہوتا دیکھ کر احتجاج فرماتے تھے۔
جیساکہ سنن ابی داؤد کی روایت ہے کہ ، 
اتی عمر بمجنو نة قد زنت فاستشار بھا اناسا ۔ فامر بھا عمر ان ترجم فمر بھا علی بن ابی طالب فقال ماشان ھذہ مجنونة بنی فلان زنت فامربھاعمر ان ترجم ۔ فقال ارجعوبھا ثم اتاہ فقال یاامیر المؤمنین اما علمت ان القلم رفع عن ثلاثة عن المجنون حتی یبرأ وعن النائم حتی لیستفیظ وعن الصبی حتی یعقل ؟ قال بلی قال فما بال 
ھذہ ترجم قال لاشئی قال فارسلھا قال فارسلھاقال فجعل یکبر (ابو داؤد کتاب الحدود باب المجنون یسرق ۔رقم الحدیث 4399)
''
عمر کے پاس ایک پاگل عورت کو لایا گیا کہ جس نے زنا کیا تھا عمر نے لوگوں سے مشورہ کرکے اس کے رجم کا حکم دے دیا اسی دوران علی کا وہاں سے گذرہوا تو انہوں نے پوچھا کہ اس کو کیوں پکڑ رکھا ہے تو لوگوں نے کہا کہ اس پاگل عورت نے زنا کیا ہے اور عمر کے حکم کے مطابق اسے رجم کے لئے لے جارہے ہیں تو علی نے فرمایا کہ اس کو واپس لے کر چلو اور عمر کے پاس پہنچ کر آپ نے کہا کہ اے امیر المؤمنین کیا آپ کو معلوم نہیں کہ تین لوگ مرفوع القلم ہیں (١) پاگل جب تک صحیح نہ ہوجائے (٢)سوتا ہوا شخص جب تک بیدارنہ ہوجائے (٣) بچہ جب تک بالغ نہ ہوجائے ۔عمر نے کہا کیوں نہیں ایسا ہی ہے ۔ پھر علی نے کہا کہ اس عورت کو رجم کیوں کیا جارہا ہے ؟تو عمر نے اسے چھوڑ دیا اور آپ تکبیر کہہ رہے تھے ۔''
ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ علی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف خود کچھ ہوتا دیکھیں اور مخالفت نہ کریں اور پھر خود ہی حدیث کے خلاف عمل کریں یقینا سیدنا علی تک یہ حدیث نہیں پہنچی تھی جس کی وجہ سے آپ غلطی کر بیٹھے ۔ اور رہی بات سیدنا علیکے عدل وسخاوت کی تو اس غلطی سے ان اوصاف پر کوئی حرف نہیں آتا ۔
قرآن میں ارشاد ہے :
وعصی آدم ربہ فغوی (سورہ طہ ۔آیت 121)
''
اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور بھٹک گئے ''
اب اگر آدم کی غلطی اور نافرمانی کے باوجود ان کی قدر منزلت میں کوئی فرق نہیں آسکتا تو سیدنا علی بھی ایک صحابی رسول ہیںعشرہ مبشرہ میں سے ہیں قرآن نے ان کی ضمانت دی ہے کہ ''رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ''(سورہ البینہ ۔آیت 8) تو ان کی قدر منزلت عدل وسخاوت اپنی جگہ برقرارہے اور رہے گی۔انشاء اللہ۔ 

خیر خواہی کے نام پر اٹھائیسواں(28) اعتراض:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ غلام مجھ سے کون خریدتا ہے ؟ حضرت نعیم نے 800درہم میں خرید لیا۔ڈاکٹر شبیرتبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم غلام فروخت کرتے تھے ؟ 
(
اسلام کے مجرم صفحہ 40)
ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرنے حدیث نقل کرنے میںحسب عادت تلبیس سے کام لیا ہے اور حدیث کا جزء نقل کرکے اس کو اسلام دشمن سازش بنا ڈالا۔حالانکہ صحیح بخاری میں موجود اس روایت کو پس منظر کے تناظر میں دیکھا جائے تو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم قابل اعتراض نہیں بلکہ قابل تعریف نظر آئے گی ۔
''
عن جابر ان رجلا من الانصار دبر مملوکا لہ ولم لکن لہ مال غیرہ فبلغ ذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال من یشتر بہ منی ؟فاشتراہ نعیم بن النحام بثمانما ئة درھم''(صحیح بخاری کتاب الاکراہ باب اذا اکرہ حتی وھب رقم الحدیث 6947)
''
جابر سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک شخص نے اپنے غلام کو مدبر کرلیا (مدبر کا معنی ہے کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ اگر میں مرجاؤں تو میرا غلام آزاد ہے ۔)اور ان کے پاس غلام کے علاوہ اور کچھ مال متاع نہ تھا پس جب اس بات کی خبر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے (اس غلام کو لے کر)فرمایا کہ اس غلام کو مجھ سے کون خریدے گا ؟ تو اس کو نعیم بن النحام نے آٹھ سو درھم میں خرید لیا ۔''
صحیح بخاری کی اس مکمل روایت سے جو نکات سامنے آتے ہیں وہ درج ذیل ہیں 
(1)
انصار صحابی نے اپنے غلام کی تدبیر کی ۔
(2)
اس غلام کے علاوہ ان کے پاس کوئی دوسرا مال ومتاع نہیں تھا ۔
(3)
اس صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد وہ غلام آزاد ہوجاتا اور ان کے گھر والے وراثت سے محروم رہتے اور تنگ دستی کا شکا ررہتے ۔
(4)
اس بات کی خبر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اہل وعیال کی تنگ دستی کا خیال رکھتے ہوئے اس غلام کو فروخت کردیا اور اس کی قیمت ان کو دے دی تاکہ وہ اس مال سے اپنے اہل وعیال کی کفالت کرسکیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گھرانے کی کفالت کی خاطر اس غلام کو فروخت فرمایا ۔ ڈاکٹر شبیرنے اس حدیث کا ایک جز نقل کرکے حدیث کو محل نظر قراردے دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت ذات کو غلام بیچنے والا بناڈالا ۔نعوذ با اللہ من ذلک 

خیر خواہی کے نام پر انتیسواں (29) اعتراض:

صحابہ کرام کو ایک غزوے میں لونڈیاںحاصل ہوئیں چاہا کہ ان کے ساتھ صبحت کریں لیکن حمل نہ ٹہرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں سوال کیا(یعنی برتھ کنٹرول) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذبا اللہ فرمایا: حل تفعلون بالفرج؟ کیا تم ۔۔۔۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 40)
ازالہ:۔
صاحبو!ہمیں بڑے افسوس اور رنج کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ڈاکٹر شبیرنے خیانت وکذب بیانی کی انتہاء کردی ہے ۔ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ کا کچھ بناکر پیش کیا ہے ۔حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم (جو دین اسلام کا دوسرا سب سے بڑا ماخذ ہے )میں تحریف کرکے اپنے آپ کو ان ملحدوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے کہ جن کے متعلق ارشاد ربانی ہے :
''
ومن اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا اوکذب بالحق لما جاء ہ ''(سورہ عنکبوت ۔آیت 68)
''
اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو اللہ پر افتراء بازی کرتا یا اس حق کے اس کے پاس آئی ہوئی چیز کی تکذیب کرتا ''
ڈاکٹر شبیرنے جن الفاظ اور حوالے سے حدیث نقل کی ہے وہ صحیح بخاری میں کہیں موجود نہیں بلکہ صحیح بخاری کتاب التوحید میں ان الفاظ سے مرقوم ہے ۔ 
''
عن ابی سعید الخدری فی غزوة بنی المصطلق انھم اصابوا سبایا فارادو ان یستمتعو بھن ولا یحملن فسئلواالنبی صلی اللہ علیہ وسلم عن العزل فقال ماعلیکم ان لا تفعلوا فان اللہ قد کتب من ھو خالق الی یوم القیامہ (صحیح بخاری کتاب التوحید باب قول اللہ ھو اللہ خالق الباری رقم الحدیث 7409)
''
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ غزوہ بنو مصطلق میں ان کو (صحابہ کرام)بہت لونڈیاں حاصل ہوئی پس انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ ان سے صحبت کریں لیکن ان کو حمل نہ ٹہرے (تو انہوں نے )عزل(2)سے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایسا نہ کرو پس بے شک اللہ تعالیٰ نے قیامت تک پیدا ہونے والوں کو لکھ دیا کہ جن کو وہ پیدا کرے گا ۔''
قارئین کرام !
ڈاکٹر شبیر کی پیش کردہ روایت اور مذکورہ حدیث کو ایک بار پھر مطالعہ کرکے تقابل کریں تو آپ کو حدیث کے الفاظ اور ڈاکٹر شبیرکی نقل کردہ روایت میں واضح فرق نظر آئے گا جس کی وجہ سے ہمیں اپنے قلم کی زبان میں ذراسختی کرنا پڑی وگرنہ ہمیں ڈاکٹر شبیرسے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے۔ اور رہی بات عزل کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عزل کی اجازت کسی خاص مقصد کے تحت عطاء فرمائی تھی ۔
سیدنا اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی بیوی سے عزل کرتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم 

ایسا کیوں کرتے ہو ۔ اس آدمی نے عرض کیا کہ میں اپنے بچے پر شفقت کے باعث ایسا کرتا ہوں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر یہ مضر ہوتا تو اہل روم وفارس کو بھی ضرر دیتا (ذادالمعاد جلد 4صفحة 100)
مذکورہ روایت میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عزل کرنے کی وجہ اپنے بچے پر شفقت بتلایا ۔ لیکن بنیادی طور پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
''
مامن نسمة کائنة الی یوم القیامة الاوھی کائنة ''
جس جان کو آنا ہے قیامت تک وہ آکر رہے گی ۔
جہاں تک معاملہ لونڈی رکھنے اور ہمبستری کاہے تو اس کی اجازت خود قرآن کریم دیتا ہے :
والذین ھم لفروجھم حافظونo الا علی ازواجھم اوماملکت ایمانھم فانھم غیرملومینO (سورہ المؤمنون ۔آیت 5.6)
''
اور وہ لوگ(مومنین )اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں یا اپنی لونڈیوں کے پس ان پر کچھ ملامت نہیں ۔''

خیر خواہی کے نام پر تیسواں (30) اعتراض:

ایسی عورت سے نکاح کرنا چاہیئے جس کی خوب اولاد ہو ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 42)
ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرنے اس روایت کو بھی جزوی طور پر نقل کیا ہے اور عوام الناس کو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے ۔حالانکہ یہ روایت مشکوٰة میں ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے ۔
''
عن معقل بن یسار قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تزوجوا الودودالولود ۔ فانی مکاثر بکم الامم''(صحیح مشکوة کتاب النکاح الفصل الثانی رقم الحدیث 3091)
''
معقل بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا محبت کرنے والی اور بچہ جننے والی عورتوں سے نکاح کرو تاکہ میں دیگر امتوں پر تمہاری( کثرت کی ) وجہ سے فخر کر سکوں ''
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسی عورت سے نکاح کی ترغیب دے رہے ہیں کہ جو محبت کرنے والی ہو اور بانجھ نہ ہو ۔تو اس حدیث میں ایسی کونسی بات ہے جو قابل اعتراض ہے ۔ انسان نکاح محبت اور اولاد کے حصول کے لئے ہی کرتا ہے ۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمادی تو اعتراض کیوں ؟


خیر خواہی کے نام پر اکتسواں (31) اعتراض:
ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں کہ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ مجھے دوزخ دکھلائی گئی اور وہاں زیادہ تر عورتیں پائیں گئیں ۔ 
(
اسلام کے مجرم صفحہ 44)
ازالہ:۔
صحیح بخاری میں یہ روایت ان الفاظ سے مرقوم ہے ۔
''
عن ابن عباس قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ریت النار فاذا اکثر اھلہا النساء یکفرن (صحیح بخاری کتاب الایمان باب کفر ان العشیر رقم الحدیث 29)الحدیث 
''
ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے جہنم دکھائی گئی پس اس میں اکثریت عورتوں کی تھی جو کفر کرتی ہیں ''
ڈاکٹر شبیرنے حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں مغالطہ پیدا کرنے کے لئے لفظ ''یکفرن'' حذف کردیا کہ جس کے ،معنی ''کفر کرنے کے ہیں '' ۔
اب حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء یہ ہے کہ جہنم میں عورتوں کی کثرت ان کے کفر اور نافرمانی کی وجہ سے ہوگی بلاوجہ نہیں ۔لہٰذا اعتراض کالعدم ہے ۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ دنیا میں عورتوں کی تعداد مردوں کی بہ نسبت زیادہ ہے اگر جہنم میں زیادہ ہوں گی تو حیرت کیوں ہے ؟ کیا قرآن مجید نے منع کیا ہے کہ عورتوں کی اکثریت جہنم میں نہیں ہوگی ۔
خیر خواہی کے نام پر بتیسواں (32) اعتراض:
محمود بن ربیع فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے منہ میںکلی کی جب میں پانچ سال کا تھا ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 44)
ازالہ :۔
قارئین کرام !
ڈاکٹر شبیرنے یہاں پربھی حدیث کا ترجمہ کرنے میں خیانت سے کام لیا ہے اور حدیث میں موجود لفظ ''وجھہ''(چہرہ ) کا ترجمہ ''منہ '' کیا ہے حالانکہ عربی میں ''منہ '' کے لئے '' فم '' آتا ہے ۔
حدیث ملاحظہ فرمائیں :
عن محمود بن ربیع قال : عقلت من النبی صلی اللہ علیہ وسلم مجة مجھا فی وجھی وانا ابن خمس سنین من دلو(صحیح بخاری کتاب العلم باب متی سماع الصغیر رقم الحدیث 77)
''
محمود بن ربیع فرماتے ہیں کہ مجھے یاد ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے پر کلی فرمائی 
تھی اور میں پانچ سال کا تھا ۔''
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھوٹے میں اللہ رب العالمین نے شفاء رکھی تھی اس لئے آپ نے اس صحابی پر کلی فرمائی تاکہ اللہ ان کے چہرے کوبیماری سے بچائے اور تروتازہ رکھے ۔ حیرت کی بات ہے کہ صحابی اس کو فخر سے بیان فرمارہے ہیں مگر ڈاکٹر شبیرکو یہ بات قابل اعتراض نظر آرہی ہے ۔ مدعی سست گو اہ چست ۔اگر کوئی اعتراض کردے کہ عیسیٰ علیہ السلام کسی کوڑھی اور اندھے وغیرہ کے ہاتھ پھیر کر باذن اللہ شفاء دیتے تھے اب کوئی ہاتھ پھیرنے کو غلط معنوں میں استعمال کرے تو ہم اس شخص کو یقینا اس گھٹیا اور سطحی سوچ پر ملامت کریں گے۔ پھر اگر کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معجزاتی کیفیات کے متعلق ایسا ذہن رکھے تو اس بارے میں کیا خیال ہے ؟
خیر خواہی کے نام پر تینتسواں (33) اعتراض :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا غصہ آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں گال سرخ ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ لال ہوگیا ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ44)
ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرکو اس پر بھی اعتراض ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ کیوںآگیا ۔لگتا ہے موصوف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسان ہی نہیں سمجھتے ۔حالانکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک بشر اور انسان تھے ۔ 
قل انما انا بشر مثلکم (سورہ کہف ۔آیت 110)
''
اے نبی کہہ دیں کہ میں تمہاری طرح ایک بشر ہوں ''
چونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے اور غصہ انسانی فطرت میں داخل ہے لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ میں آجانا ایک فطری عمل تھا رہی بات ایک نبی کا غصہ میں آجانا یہ بات قرآن کریم سے ثابت ہے ۔
''
ولما رجع موسی الی قومہ غضبان اسفا ''(سورہ اعراف ۔آیت 150 )
''
جب موسی اپنی قوم کی طرف واپس آئے تو غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے تھے ۔''
بلکہ غصہ کا یہ عالم تھا :
''
والقی الالواح واخذ برأس اخیہ یجرہ الیہ ''(سورہ اعراف ۔آیت 150)
''
اور (توریت)کی تختیاں پھینک دی اور اپنے بھائی کا سر پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹنے لگے ۔''
ڈاکٹر شبیرکو اس حدیث پر اعتراض اس وجہ سے ہے کہ اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ کی حالت کا ذکر ہے تو ڈاکٹر شبیراس آیت پر کیا رد عمل ظاہر کریں گے جس آیت میں نبی کے غصے کے ساتھ غصے کا ردعمل بھی ذکر ہے تو ثابت ہوا کہ ڈاکٹر شبیرکا اعتراض عبس ہے ۔
خیر خواہی کے نام پر چونتیسواں (34) اعتراض:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات فرمایا کہ حجرے والیوں (یعنی امہات المؤمنین)کو جگادو بہت سی لباس والیاں ایسی ہیں کہ آخرت میں ننگی ہونگی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج کے بارے میں درشت نہ تھے ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 45)
ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرکو اس حدیث پر اعتراض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس روایت کے مطابق اپنی ازواج سے درشت رویہ رکھتے تھے اور ان کو رات میں جگا دیا کرتے تھے ۔
اگر ہم پوری روایت کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں یہ بات معلوم ہوگی کہ آپۖ نے اپنی ازواج کے ساتھ درشت (سخت) رویہ اختیار نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ بھلائی کی کہ ان کو صلاة تہجد کے لئے بیدار کیا ۔اور''رب کاسیة فی الدنیا ''(بہت سے کپڑے والی آخرت میں ننگی ہوگی ) کے الفاظ ازواج مطہرات کے متعلق نہیں بلکہ ان عورتوں کے متعلق فرمائے جو اپنے شوہروں کی خیانت کرتی ہیں ۔

مکمل حدیث درج ذیل ہے :
''
عن ام سلمة قالت استیقظ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ذات لیلة فقال سبحان اللہ ماذا انزل اللیلة من الفتن ۔وماذا فتح من الخزائن ایقظوا صواحبات الحجر فرب کاسیة فی الدنیا عاریة فی الآخرة ''(صحیح بخاری کتاب العلم باب العلم والعظة باللیل رقم الحدیث 115)
''
ام سلمہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ سبحان اللہ آج رات کیا کیا فتنے نازل ہوئے ہیں ۔ اور آج کن کن خزانوں کے دروازے کھلے ہیں۔ حجرے والیوں کو جگادو ۔ بہت سی لباس والیاں آخرت میں بے لباس ہونگی ''
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل چارباتیں بیان فرمائی ہیں ۔
(1)
آج کی رات بہت سے فتنے نازل ہوئے ہیں ۔
(2)
آج کی رات بہت سے خزانوں کے دروازے کھولے گئے ہیں ۔
(3)
حجرے والیوں (امہات المؤمنین ) کو جگادو ۔تاکہ وہ عبادت کریں ان فتنوں سے پناہ مانگیں جو آج رات نازل ہوئی ہیں اور ان (رحمت کے) خزانوں کا سوال کریں جن کے منہ آج رات کھول دئیے گئے ہیں ۔
(4)
بہت سی لباس والی عورتیں قیامت کے روز بے لباس ہونگی ۔
ڈاکٹر شبیرنے غلط فہمی کی بناء پر سمجھ لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو بلاوجہ رات میں بیدار کرکے درشتگی کا رویہ اختیار فرمایا (نعوذ بااللہ)بلکہ جگانے کا مقصد صرف عبادت تھا جیساکہ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ:
''
واشارہ بذلک الی موجب وایقاظ ازواجہ الی ینبغی لھن أن لا یتغافلن عن العبادة ویعتمدن علی کونھن ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم (فتح الباری جلد 1صفحہ 279)
'' (
اس حدیث)میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ازواج کو رات میں بیدار کرنا اس لئے تھا کہ وہ عبادت سے غافل نہ رہ جائیں اور صرف اس پر ہی اعتماد نہ کرلیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں ''
ڈاکٹر شبیرکا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ''رب کاسیة'' کہنا ازواج مطہرات کے لئے تھا ۔یہ بھی بہت بڑی غلط فہمی ہے حدیث میں کہیں یہ بات موجود نہیں کہ آپ نے یہ بات ازواج مطہرات کے متعلق فرمائی ۔ بلکہ دوسری احادیث میں یہ بات موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدکار عورتوں کے متعلق یہ الفاظ استعمال فرمائے تھے ۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قوم کو مخاطب کیا:
''
یا رب کاسیة فی الدنیا والآخرة''(صحیح بخاری کتاب لاتھجد باب تحریض النبیۖ علی صلوة الیل رقم الحدیث 1126)
علامہ بدرالدین عینی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں ۔
''
یارب کاسیة ای قوم رب کاسیة''(عمدة القاری جلد7صفحہ 260
''
اے قوم والوں بہت سی لباس والیاں آخرت میں بے لباس ہونگی ''
بالفرض اگر تسلیم بھی کرلیا کہ یہ الفاظ ازواج مطہرات کو کہے گئے تو اس سے مراد صرف ترغیب وتنبیہ ہے ناکہ وعید۔
جیساکہ قرآن مجید میں اللہ رب العالمین نے ازواج مطہرات کو مخاطب کرکے فرمایا :
یا نساء النبی من یات منکن بفاحشة مبینة یضٰعف لھا لعذاب ضعفین(سورہ الاحزاب ۔آیت 30)
''
اے نبی کی بیویوں تم میں سے جو کوئی کھلی بے حیائی کرے گی تو اس کو دہرا عذاب دیا جائے گا ''
اب اس آیت کا منشاء یہ نہیں کہ ازواج ایسا کریں گی بلکہ محض تنبیہ مراد ہے تو حدیث کامنشاء بھی یہی ہے ۔الغرض حدیث اعتراض سے پاک ہے ۔
خیر خواہی کے نام پر پیتسواں (35) اعتراض:
ام سلمہ نے فرمایا اگر عورت کو احتلام نہ ہوتو بچہ اس کا ہم شکل کیوں ہوتا ہے ؟
(
اسلام کے مجرم ،صفحہ45)
ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرنے اس روایت کو بھی نقل کرنے میں بے احتیاطی اور تساہل سے کام لیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول مبارک کو ام سلمہ کا کلام بناکر پیش کردیا ۔اور یہ اعتراضاً نقل کردیا کہ ام سلمہ جنسیات کی باتیں بیان فرمارہی ہیں اصل حدیث ملاحظہ فرمائیں ۔
صحیح بخاری میں یہ روایت ان الفاظ سے مرقوم ہے ۔
عن ام سلمة قالت جاء ت ام سلیم الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ لا یستحی من الحق فھل علی المرأة من غسل اذا احتلت ؟ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا رأت الماء : فغظت ام سلمة ۔ نفی وجھھا ۔ وقالت ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتحتلم المرأة ؟ قال نعم تربت یمینک ،فبم یشبھھا ولدھا؟ 
''
ام سلمہ سے روایت ہے کہ ام سُلَیْم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور انہوں نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بے شک اللہ حق سے نہیں شرماتا ۔ کیا عورت پر غسل واجب ہے جب اسے احتلام ہوجائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ہاں جب وہ پانی دیکھے پس ام سلمہ نے اپنا چہرہ شرم کے مارے چھپالیا اور سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ۔ تیرا دایاں ہاتھ خاک آلود ہو پس بچے کی شباہت اپنی ماں سے کیسے ہوتی ہے؟''
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر شبیرکے نقل کردہ الفاظ ام سلمہ کا قول نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع روایت ہے اور اس پر عمومی طور پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر عورت کو احتلام ہوتا ہے اور ماہرین اس بات کی و ضاحت کرتے ہیں کہ عورت کا نطفہ مقدار میں کم ہوتا ہے لہٰذا ہمیشہ لڑکا پیدا ہونا چاہئیے لیکن یہاں تو اکثریت ہی عورتوں کی ہے یعنی زیادہ عورتیں ہی پیدا ہوتی ہیں آخر کیوں ۔۔۔۔۔۔۔؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اولاد کا ہونا نطفہ کی مقدار پر نہیں ہوتا بلکہ منشاء الہی پر ہوتا ہے ۔ کیمیاکے طالب علم جانتے ہیں Titration کرتے وقت ایک قطرہ بہت بڑے محلول پر غلبہ حاصل کرلیتا ہے لہٰذا غلبہ قوت کی وجہ سے ہوتا ہے نہ کہ مقدار کی مناسبت سے ۔
خیر خواہی کے نام پر چھتیسواں (36) اعتراض:
حضرت علی نے فرمایا مجھے جریان تھا جس سے میری مذی نکلا کرتی تھی ۔
(
اسلام کے مجرم صفحہ 45)
ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرکو نہ معلوم احادیث وآثار سے اس قدر دشمنی کیوں ہے ؟ بلاوجہ صحیح روایات کو اسلام دشمن ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیںایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ غیرمسلم ان احادیث کو محل اعتراض بناکر اسلام پر تنقید کرتے ہیں ۔(خلاصہ اسلام کے مجرم صفحہ43)
توعرض ہے کہ غیر مسلم صرف احادیث کی ان روایات پر ہی نہیں بلکہ قرآن مجید کی آیات پر ایسی ہی تنقید کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیے ''ستیارتھ پرکاش'' وغیرہ ۔ تو کیا اب ان غیر مسلموں کی تنقید کا علمی طور پر منہ توڑ جوا ب دینا چاہئیے یا پھر ''اسلام کے مجرم ''جیسی کتاب کی دوسری قسط شائع کرکے قرآن مجید کی آیات پر بھی ایسی تنقید کرنی چاہئیے اس کا جواب ہم آپ پر چھوڑتے ہیں ۔
جہاں تک علی کے قول کا تعلق ہے'' مجھے مذی آتی تھی ''جریان اور مذی ایک قسم کی بیماری ہے جو انسان کو لاحق ہوجاتی ہیں ۔ تو سیدنا علی بھی ایک انسان تھے اگر ان کو یہ بیماری لگ گئی تو یہ کوئی اچھنبے کی بات تو نہیں ۔لگتا ہے ڈاکٹر شبیربھی سیدنا علی کے متعلق شیعہ وروافض جیسا باطل نظریہ رکھتے ہیں یعنی انسان نہیں سمجھتے ۔اگر ڈاکٹر شبیرکو یہ اعتراض ہے کہ سیدنا علی نے ایسی جنسی بیماری کے متعلق بیان کیوں کیا؟تو اس کا جواب حدیث میں موجود ہے جس کو ڈاکٹر شبیرحذف کرگئے ہیں کہ سیدنا علی نے مسئلہ پوچھنے کے لئے اس بیماری کا اظہار فرمایا تھا ۔
مکمل روایت ملاحظہ فرمائیں :
''
عن علی قال کنت رجلا مذاء فامرت المقدادان لیسأل النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال فیہ الوضوء ''(صحیح بخاری کتاب العلم باب من استحیا فامرغیرہ باالسوال رقم الحدیث 132)
''
سیدنا علی سے روایت ہے کہ مجھے کثرت سے مذی(شہوت کی وجہ سے شرمگاہ سے نکلنے والے پانی کو مذی کہا جاتا ہے ۔)آتی تھی میں نے مقداد بن اسود کو حکم دیا کہ وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کریں(کہ اس پر غسل ہے یا وضوئ)پس مقداد نے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کو وضو کرنا چاہیئے ''
خیر خواہی کے نام پر سیتیسواں (37) اعتراض:
عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف منہ کئے دو کچی اینٹوں پر رفع حاجت کے لئے بیٹھے ہیں ۔ کیا صحابہ ایسی باتیں کہہ سکتے ہیں ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 45)
ازالہ:۔
قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے ۔
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة(سورہ احزاب ۔آیت 21)
''
یقینا تمہارے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے''
لہٰذا قرآن کریم ہمیں زندگی کے ہر شعبہ، ہر لمحہ اور ہر معاملہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو بطور اسوہ اختیار کرنے کا حکم ارشادفرماتا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر مرحلہ میں امت کی رہنمائی فرماتے تھے اسی لئے عبداللہ بن عمر نے اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کو بیان کیا نہ کہ غلط نظریہ سے ۔
جہاں تک ڈاکٹر شبیرکا یہ اعتراض کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسی بات نہیں کہہ سکتے تو یاد رکھیں ہر چیز کے دو معانی ہوتے ہیں ایک صحیح اور ایک غلط یہ آپ کے تقویٰ پر منحصر ہے کہ آپ کو نسا مطلب اختیار کرتے ہیں ۔مثلاً قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے :کہ لوط علیہ السلام اپنی قوم کو اغلام بازی سے روک رہے تھے ۔ اور قرآن کریم ذکر کرتا ہے ۔
''
قال ھٰؤلاء بناتی ان کنتم فا علین ''(سورہ حجر ۔آیت 71)
''
لوط (علیہ السلام) نے کہا اگر تمہیں کرنا ہی ہے تو میری بیٹیاں موجود ہیں ''
اب بتائیے اس آیت کا صحیح مطلب کیا ہوگا ۔۔۔۔۔؟
خیر خواہی کے نام پر اڑتیسواں (38) اعتراض:
ابو موسی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالے میں اپنے دونوں ہاتھ اور منہ دھویا اور پھر اس میں کلی کی پھر ابو موسی اور بلال سے کہا اس میں سے کچھ پی لو۔
(
اسلام کے مجرم صفحہ 45)
اس اعتراض کا مفصل جواب گذشتہ اوراق میں کزر چکا ہے ۔
خیر خواہی کے نام پر انتالیسواں(39) اعتراض :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کے گھوڑے پر آئے اوروہیں کھڑے کھڑے پیشاب کیا۔
(
اسلام کے مجرم صفحہ 45)
ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرکا دعوی ہے کہ وہ عربی ،اردو، انگریزی وغیرہ زبان پر مہارت رکھتے ہیں ۔(اردو عربی انگریزی فارسی کی کتابیں تو شبیر احمد خود پڑھ لیتا ہے) (اسلام کے مجرم صفحہ 32۔)ڈاکٹر شبیرکی علمی قابلیت کی حالت یہ ہے کہ حدیث میں مذکورلفظ'' سباطة'' (کوڑے دان ) کا ترجمہ ''گھوڑے ''سے کیا ہے جو عربی زبان میں ڈاکٹر شبیرکی ''علمی'' مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے اس طرح کے کچھ ''علمی شاہکار''تو آپ نے پچھلے اوراق میں بھی ملاحظہ کئے ہونگے اور مزید شاہکار آپ کو اگلے صفحات میں جابجا نظر آئیں گے۔(انا للہ وانا الیہ راجعون )
زیر بحث روایت صحیح بخاری میں موجود ہے :
:''
عن حذیفہ قال انی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سباطة قوم فبال قائما الحدیث ''(صحیح بخاری کتبا ب الوضوئ،باب البول،رقم الحدیث،224)
''
حذیفہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قوم کے کوڑے دان پر آئے اور آپ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا ''
ڈاکٹر شبیرکو اس حدیث پر اعتراض اس لئے ہے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا ذکر ہے ۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ ہی تھا کہ آپ بیٹھ کر پیشاب کرتے ۔ مگر جس جگہ آپ نے پیشا ب کیا وہ کوڑا کرکٹ گندی جگہ تھی بیٹھ کر پیشاب کرنے سے 
گندگی آپ کے کپڑوں کو خراب کرسکتی تھی تو اس سے بچنے کے لئے آپ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا ۔
خیر خواہی کے نام پر چالیسواں (40) اعتراض:
ابو سلمہ کہتے ہیں کہ میں اور عائشہ کے بھائی عائشہ کے پاس گئے اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت کے بارے میں پوچھا ۔ انہوں نے غسل کرکے دکھایا اور اپنے سر پر پانی بہایا ہمارے اور ان کے درمیان ایک پردہ حائل تھا ۔
ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں ۔
مظاہرہ کرنا قطعی ضروری نہ تھا زبانی بتادیا ہوتا یا ابو سلمہ اپنی بیوی کو بھیج کر صحیح غسل کا پتہ چلا سکتا تھا بعد میں خود ان سے سیکھتا ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 45.46)
ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرکو یہاں پر فاش غلط فہمی ہوئی ہے ۔ غسل کے معنی صرف نہانے کے نہیں بلکہ غسل کے معنی ''پانی'' کے بھی ہیں اور ان معنوں میں یہ لفظ احادیث میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ سیدہ میمونہ فرماتی ہیں کہ 
وضعت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم غسلا(صحیح بخاری کتاب الغسل باب من افرغ بیمینہ علی شمالہ رقم الحدیث266)
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غسل کا پانی رکھا ۔
خود امام بخاری نے اس حدیث پر باب باندھا ہے کہ 
''
باب الغسل باالصاع ونحوہ''
''
غسل ایک صاع پانی سے کرنا چاہئیے ۔''
اب فسألھا عن غسل النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے نہانے کے پانی 
کے متعلق سوال کیا ؟ اس سوال کے جواب میں ام المؤمنین عائشہ نے جوجواب دیا خود ان ہی الفاظ کے آگے مذکور ہے کہ ''فدعت باناء ''(صحیح بخاری کتاب الغسل باب الغسل بالصاع ونحوہ رقم الحدیث 251)انہوں نے ایک برتن پانی منگوایا اور اس برتن کے ذریعے یہ سمجھادیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے پانی سے نہایا کرتے تھے ، حدیث میں غسل کی کیفیت کا بیان نہیں بلکہ غسل کے پانی کا بیان ہے غسل کی کیفیت تو ام المؤمنین عائشہ نے زبانی بتلادی تھی ۔
ابو سلمہ فرماتے ہیں :
''
قالت عائشہ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا غسل بدأ بیمینہ فصب علیھا من الماء فغسلھا ثم صب الماء علی الاذی الذی بہ بیمینہ وغسل عنہ بشمالہ حتی اذا فرغ من ذلک صب علی رأسہ'' (صحیح مسلم کتاب الحیض باب القدر المستحب من الماء فی غسلا لجنابة رقم الحدیث 729)
ام المؤمنین عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل فرماتے تو دائیں ہاتھ سے شروع کرتے اور اس پر پانی بہاکر اسے دھوتے پھر شرم گاہ کے اطراف کی گندگی پر دائیں ہاتھ سے پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے دھو ڈالتے پھر فارغ ہوکر اپنے سر پر پانی بہالیتے ۔
غرض یہ کہ غسل کی کیفیت بتانے کے لئے عائشہ نے غسل تو نہیں کیا بلکہ جب انہوں نے پانی کی مقدار کا ذکر کیا تو ابو سلمہ وغیرہ نے تعجب کا اظہار کیا کہ اتنے کم پانی سے کیسے نہایا جاسکتا ہے تو سیدہ عائشہ نے کہا کہ یہ ممکن ہے اور اب میں نہانے جارہی ہوں اور اتنے ہی پانی سے نہاؤں گی پس انہوں نے پردہ ڈالا اور غسل فرمایا اور ثابت کردیاکہ اتنے کم پانی سے غسل ممکن ہے ۔
اور رہی بات ڈاکٹر شبیر کے تبصرے کی کہ ،
''
مظاہرہ کرنا قطعی ضروری نہ تھا زبانی بتادیا ہوتا یا ابو سلمہ اپنی بیوی کو بھیج کر صحیح غسل کا پتہ چلا سکتا تھا بعد میں ان سے خود سیکھ لیتا ''
1))
اسکا جواب یہ ہے کہ، ابو سلمہ سیدہ عائشہ کے رضاعی بھانجے تھے اور دوسرے شخص سیدہ عائشہ کے سگے بھائی اور دونوں محرم تھے۔
2))
سیدہ عائشہ سے غسل کے پانی کی مقدار پوچھنے آئے تھے ڈاکٹر شبیرفرماتے ہیں کہ سیدہ عائشہ نے غسل کا مظاہرہ کیا تھا یہ بات سراسر امہات المؤمنین کے خلاف ذہن میں بھری ہوئی گندگی کا اظہار ہے ۔
3)
مسئلہ تو درپیش آیا ابو سلمہ کواور بھیج اپنی بیوی کو دیں اب اس کو اس مثال سے سمجھیں ۔ ڈاکٹر شبیر اگر میڈیکل ڈاکٹر ہیں تو یقینا انہوں نے Embryologyکے مسائل ضرور پڑھیں ہونگے اور انکو پڑھانے والے اساتذہ یقینا لیڈی ڈاکٹر زبھی ہونگی تو ڈاکٹرشبیر کو جنسیات کے متعلق سوال کرتے ہوئے یقینا شرم بھی محسوس ہوتی ہوگی تو ان مسائل کے لئے ڈاکٹر صاحب نے اپنی بیوی کو کیوں نہ بھیجا ۔ تاکہ وہ Embryologyکے مسائل ''صحیح طریقے'' سے سیکھ کر ڈاکٹر صاحب کو آکر با خبر کرتی۔
خیر خواہی کے نام پر اکتالیسواں (41) اعتراض:
عائشہ فرماتی ہیں کہ ہم میں سے کسی کو حیض آتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اختلاط کرنا چاہتے تو حیض کے غلبہ کے دوران ازار (لونگی،تہمد) باندھنے کا حکم دیتے اور پھر اختلاط فرماتے ۔قرآن اس سے منع کرتا ہے ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 46)
ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرکو یہاں بھی غلط فہمی ہوئی ہے قارئین کرام ! قرآن کریم میں ایسی کونسی آیت ہے جو اس سے روکتی ہے ڈاکٹر شبیرنے یہاں دو علمی خیانتیں کی ہیں ۔

1)
حدیث کا ترجمہ غلط کیاہے ۔
2)
آیت مبارکہ سے غلط استدلال کیا ہے ۔
اب قرآن کریم کا حکم ملاحظہ فرمائیں :
یسئلونک عن المحیض قل ھو اذی فاعتزلواالنساء فی المحیض ولاتقربوھن حتی یطھرن فاذا تطھرن فاتوھن من حیث امرکم اللہ (سورہ البقرہ ۔آیت 222
''
اور لوگ آپ سے حیض سے متعلق سوال کرتے ہیں کہہ دیجئے حیض ایک قسم کی تکلیف ہے اس لئے دوران حیض عورتوں سے دور رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب مت جاؤ اور پاک ہونے کے بعد ان کے پاس جاؤ جیسے اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا ''
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ :
1 )
حیض عورت کے لئے تکلیف کا باعث ہے ۔
2)
اس حالت میں ان سے جماع کرنا منع ہے ۔
3)
جب وہ اس سے پاک ہوجائیں تو ا ن سے جماع کرنا اللہ کے حکم سے جائز ہے ۔
یہ تین نکتے اس آیت سے سمجھ میں آتے ہیں ۔اب آئیں حدیث کی طرف :
''
عن عائشہ کان یأمرنی فأتذر قیبا شرنی وانا حائض ''
''
عائشہ فرماتی ہیں کہ حیض کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تہہ پوش پہننے کا حکم دیتے اور اس کے بعد مجھ سے مباشرت کرتے ۔''
قارئین کرام ! یہ ہے وہ حدیث جسے ڈاکٹر شبیرنے خلاف قرآن کہہ کر ٹھکرادیا حالانکہ یہ ڈاکٹر شبیرکی کم علمی کی ایک اور بہت بڑی دلیل ہے کیونکہ یہ قرآن کے موافق ہے نہ کہ مخالف۔ یہاںسب سے بڑی جو غلط فہمی ہوئی ہے وہ مباشرت کے الفاظ سے ہوئی ۔ ڈاکٹر شبیرنے 
اس کے معنی اختلاط یعنی ہمبستری کے کئے ہیں لیکن عربی میں اس کا معنی کچھ اور بنتا ہے اور اردو میں مباشرت کے الفاظ کچھ اور معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔
صاحب عون المعبود (شرح سنن ابی داؤد ) ذکر فرماتے ہیں کہ :
''
معنی المباشرة ھنا المس بالیدمن اللمس ''
''
مباشرت سے یہاں صرف ہاتھ سے چھونا اور دو جسموں کا ملنا مراد ہے (نہ کہ جماع)
مزید وضاحت امام شوکانی فرماتے ہیں : یہ قول ہے ۔''
''
ان المباشرة فی الاصل التقاء ''
''
مباشرت اصل میں دو جسموں کے ملنے کو کہتے ہیں ۔''
لہٰذ ا حدیث کے معنی یہ ہوئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کے پاس جوبحالت حیض(اور دوسری حدیث میں روزے کے بھی الفاظ ہیں جسے ڈاکٹر شبیرنے آگے تنقید کا نشانہ بنایا ہے )اٹھتے بیٹھتے تھے اور ہاتھ لگاتے تھے اور پیار بھی کرلیا کرتے تھے (نہ کہ جماع) لہٰذا اب بتائیں یہ کہاں قرآن کے خلاف ہے ؟اگر آپ کہیں کہ اس آیت میں قریب جانے سے منع کیا گیا ہے تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کتنا قریب ؟ اگر آپ کی بات تسلیم بھی کرلی جائے تو معنی یہ ہونگے کہ عورت کو ایسی حالت میں اپنے گھر وںسے نکال دیا جائے ۔ اس لئے کہ ایک گھر میں رہتے ہوئے قربت لازمی چیز ہے ۔کیا آپ ایسا کرسکتے ہیں ہرگز نہیںتو حدیث کو ماننے میں کیا اختلاف ہے ۔۔۔۔؟؟
خیر خواہی کے نام پر بیالیسواں (42) اعتراض:
عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں ہمارے بوسے لیا کرتے تھے اور مباشرت کیا کرتے تھے۔ (اسلام کے مجرم صفحہ47)
اس حدیث کا جواب گزشتہ اعتراض پر تفصیل سے گزر چکا ہے ۔ اب تکرار کی ضرورت نہیں ۔
خیر خواہی کے نام پر ترالیسواں (43) اعتراض:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نماز کی اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر گوز کرتا ہے یعنی ہوا خارج کرتا ہوا بھاگتا ہے۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 47)
ڈاکٹر شبیراس حدیث کو ذکر کرکے لکھتے ہیں ۔
کیا یہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ہوسکتی ہے ۔
ازالہ:۔
قرآن کریم میں شیطان کے لئے یہاں تک الفاظ استعمال ہوا ہے ۔
قال فاخرج منھا فانک رجیم(سورہ حجر ۔آیت 34)
''
جنت سے نکل جا تو مردود ہے۔ ''
کیا یہ الفاظ اللہ کے ہوسکتے ہیں ؟
قارئین کرام ! شیطان انہی الفاظ کے لائق ہے اور یہ صفات اس میں موجود ہیں اس لئے اس کو انہی الفاظ کے ساتھ باورکرادیا گیا ہے ۔ لیکن ہمیں نہیں معلوم ڈاکٹر شبیرکی اللہ کے مجرم سے کیا خاص رشتہ داری ہے کہ جس کو متفقہ طور پر دنیا کی ہر زبان میں برا کہا جاتا ہے ڈاکٹر کو اس کے خلاف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ویسے اللہ تعالیٰ نے سچ ہی فرمایا ہے کہ :
ومن یعش عن ذکر الرحمان نقیض لہ شیطانا فھولہ قرین (سورہ زخرف آیت 36)
''
اورجو رحمان کے ذکر (قرآن وحدیث)سے اعراض کرتا ہے ہم شیطان کو اس کا دوست بنادیتے ہیں۔''

تو اب لازم ہے کہ دوست کی برائی میں دوست کا دل تو جلے گا ۔۔۔۔۔۔
خیر خواہی کے نام پر چوالیسواں (44) اعتراض:
عمروبن میمون کہتے ہیں کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندر کو دیکھا کہ بہت سے بندر اس کے گرد جمع ہوگئے تھے اس نے بندریا کے ساتھ زنا کیا تھا سب بندروں نے سنگسار کیا میں نے بھی ان کے ساتھ اسے سنگسار کیا ۔ ایک اور حدیث میں یہ بیان بھی ہے کہ وہ بندریا ایک ادھیڑ عمر بندر کے ساتھ لیٹی تھی ایک جوان بندر آیا اور آنکھ مارکر اسے اپنے ساتھ لے گیا پھر انہوں نے زنا کیا ۔
ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں کہ جانور پر شرعی قانون ؟ (اسلام کے مجرم صفحہ 47
ازالہ :۔
قارئین کرام !
صحیح بخاری کی یہ روایت کوئی مرفوع حدیث نہیں بلکہ ایک تابعی کا مشاہدہ ہے جو انہوں نے بیان کردیا ثانیاً اللہ تعالیٰ نے جب بنی اسرائیل پر عذاب نازل کیا تو ان کی شکل کو مسخ کرکے بندر بنادیا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بندر کی حرکات وسکنات بہت حد تک انسانوں سے ملتی جلتی ہیں تو اگر عمربن میمون نے ایک ایساہی واقعہ دیکھ کر بیان کردیا تو اعتراض کیوں ؟جدید تحقیق اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ کچھ گوریلے بندر ایسے ہوتے ہیں جو بالکل انسانوں کی طرح رہن سہن رکھتے ہیں کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے ودیگر معاملات میں ان میں کسی حد تک انسانوں کی سی یکسانیت پائی جاتی ہے ۔ بلکہ بعض اوقات تو انسانوں کو دیکھ کر بالکل ہوبہو ان کی بہترین نقالی بھی کرتے ہیں۔تویہ بعید از عقل نہیں کہ عمر بن میمون کے سامنے اس طرح کا واقعہ پیش آگیا ہو ۔اور رہی بات جانور پر شرعی قانون ؟تو اس کے متعلق قرآن میں بھی ایک واقعہ مذکورہے کہ :
فبعث اللہ غرابا یبحث فی الارض لیریہ کیف یواری سوء ة اخیہ قا ل یویلتی اعجزت ان اکون مثل ھذا الغراب فاواری سوئة اخی فاصبح من النادمین (سورہ مائدہ ۔آیت 31)
''
پھر اللہ نے ایک کوّے کو بھیجا جو زمین کھود رہا تھا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ کس طرح اپنے بھائی کی نعش کو چھپائے وہ کہنے لگا ہائے افسوس ! کیا میں ایسا کرنے سے بھی گیا گزرا ہوں کہ اس کوّے کی طرح اپنے بھائی کی لاش کو دفنا دیتا پھر تو اور شرمندہ ہوگیا ۔''
مذکورہ آیت میں ایک کوا جو کہ شرعاً مکلف نہیں مگر اس کے باوجود ایک شخص کو شرعی عمل دکھلارہا ہے اور وہ شخص اس سے وہ عمل سیکھ رہا ہے ۔تو اگر ایک شرعی حد کے مثل بندروں نے کوئی عمل کردیا تو اعتراض کیوں؟


خیر خواہی کے نام پر پینتالیسواں (45) اعتراض:
آفتاب شیطان کے دونوںسینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 48)
ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرنے اس حدیث کے الفاظ کو ظاہری طور پر عقل کی کسوٹی پر پرکھا ہے اس لئے غلط فہمی کا شکار ہوگئے ۔حالانکہ بات صرف اتنی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے طلوع ہوتے وقت عبادت کرنے سے منع فرمایا ہے اس لئے کہ سورج کے پجاری اس وقت سورج کی پوجا کرتے ہیں اور شیطان طلوع شمس کے وقت پر سورج کے بالکل اس طرح سامنے آجاتاہے کہ گویا سورج اس کی سینگوں کے درمیان طلوع ہورہا ہے ڈاکٹر شبیرحدیث کے ظاہری الفاظ سے غلط فہمی کا شکار ہوگئے حالانکہ بعض دینی امور انسان کی عقل وفہم سے بالاتر ہوتے ہیں جن پر یقین کرنے کے لئے ایک مذہبی انسان کو مادی سوچ سے دستبردار ہونا پڑتا ہے ۔
مثلا ً قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے کہ :
حتی اذا بلغ مغرب الشمس وجدھا تغرب فی عین حمئة ووجد عندھا قوما (سورہ الکہف ۔آیت 86)
''
یہاں تک کہ وہ سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچ گیا اور اسے ایک دلدل کے چشمے میں غروب ہوتا پایا''
یہ آیت عقل ،نقل، سائنس ہر چیز کے خلاف ہے ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ سورج اگر ایک جگہ غروب ہوتا ہے تو دوسری جگہ طلوع ہوتا ہے اگر پاکستان میں غروب ہوگیا تو امریکہ میں چمکتا ہو ا موجود ہوتا ہے ۔اگرایک مسلمان کو جو قرآن کی اس آیت کا علم نہیں رکھتا یہ بتایا جائے کہ سورج دلدل میں ڈوبتا ہے تو وہ مذاق اڑائے گااور کہنے والے کی عقلی حالت پر شبہ کرے گا ۔مگر ہم کیا کریں قرآن میں اس طرح سے موجود ہے اورہمارا اس پر ایمان ہے تو اگر صحیح حدیث میں کچھ اسی طرح آگیا تواسے اسلام دشمن سازش کہہ کر کیوں رد کردیا جاتا ہے ؟
قارئین کرام !ہمیں چاہیے کہ ہم بحیثیت مسلمان اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کو من وعن تسلیم کریں کیونکہ یہی ایمان بالغیب ہے بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو احادیث کو سائنس کی نظر سے دیکھتے ہیں اگرسائنس تسلیم کرے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو مانیں گے وگرنہ ردکردیتے ہیں یاد رکھیں کے نظریات میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں وہ کبھی ایک حالت پر نہیں رہتے لیکن اللہ کا قرآن اور اسکے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اپنی جگہ اٹل ہے ۔
مشہور نومسلم سائنسدان موریس بکائی اپنی مشہور زمانہ کتاب میں رقمطرازہے:
سیدنا ابو ذر غفاری سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا جب سورج غروب ہورہا تھا کہ جانتے ہو یہ کہاں جاتا ہے میں نے جواب دیا اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتے ہیں فرمایا یہ جاکر عرش الٰہی کے نیچے سجدہ کرتا ہے اور اجازت طلب کرتا ہے تو اسے اجازت دے دی جاتی ہے قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے گا مگر قبول نہ ہوگا تو اسے کہا جائے گا کہ جہاں سے آئے ہو وہیں لوٹ جاؤ تو وہ مغرب سے طلوع ہوگا ۔(The Bible Quran and scince page.244)اس حدیث کو ڈاکٹر موریس بکائی نے 
اپنی کتاب میں درج کرنے کے بعد اپنی کم علمی اور ناقص تحقیق کی بنا ء پر انکار کردیا لیکن موجودہ سائنس دانوں نے اس حدیث کے اثرات دیکھ لئے ہیں ۔آج سائنسدان سیارہ ''مریخ '' پر تحقیق کررہے ہیں اور اس میں پانی وزندگی کے آثار تلاش کئے جارہے ہیں کیونکہ مریخ زمین کا پڑوسی سیارہ ہے اور سورج سے بہت فاصلہ پر ہے اس لئے ممکن ہے کہ اس میں بھی زمین کی طرح زندگی وپانی موجودہو ۔ چناچہ سائنسدانوں کو ان کی فلکی حساب وکتاب میں تحقیق ومہارت کی وجہ سے یہ بھی معلوم تھا کہ مریخ اپنے مدار میں گردش کرتا ہوا ایک طویل عرصے بعد 2003ء میں زمین سے قریب ترین ہوگا اس لئے مریخ کی یہ گردش دنیا کی تمام رصد گاہوں کی توجہ کا مرکز بن گئی اس کی ہر حرکت کو نوٹ کیا جانے لگا اور اسکے قریب ہونے کا انتظار ہونے لگا تاکہ اس کی واضح تصاویر حاصل کی جاسکیں ۔ جب مریخ قریب ترین ہوا تو اس کے متعلق بہت سی معلومات حاصل کیںگئیں۔ ان میں ایک سب سے عجیب بات جو سائنسدانوں کو معلوم ہوئی وہ یہ تھی کہ مریخ کی اپنے محور میں مشرقی جانب رفتار کم ہونے لگی یہاں تک کہ 30جولائی کو مریخ کی حرکت بالکل رک گئی اس نے دوبارہ الٹا گھومنا شروع کردیا اور 29ستمبر تک یہی ہوتا رہا ۔ یعنی 30جولائی سے 29ستمبر تک مریخ میں سورج مغرب سے طلوع ہوتا رہا ۔ سائنسدانوں نے اس حیرت انگیز عمل کا نام (Retrograde Motion)رکھا اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نظام شمسی کے ہر سیارے پر یہ عمل ایک نہ ایک دن ضرور رونما ہوگا ۔ چونکہ زمین بھی نظام شمسی کا ایک سیارہ ہے ۔ اس لئے زمین پر بھی سورج ایک دن مغرب سے ضرور طلوع ہوگا ۔(www.space.com)
الحمدللّٰہ !
1400
سال قبل ہی نظام شمسی کی اس بہت بڑی تبدیلی کے بارے میں اللہ کے سچے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کو آگاہ فرمادیا تھا جبکہ اس وقت نہ توسائنس نے اتنی ترقی کی تھی اور نہ ہی جدید وسائل اور رصد گاہیں دستیاب تھیں ۔لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اللہ رب العزت 
کے قرآن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث کو تسلیم کریں یہی ایمان بالغیب کا تقاضہ ہے ۔
خیر خواہی کے نام پر چھیالیسواں (46) اعتراض:
امام طبری کی تاریخ میںمذکورہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم میں ایک دفعہ نماز ادا کی کفار بھی موجود تھے شیطان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ نکلوادئیے ۔ یہ بت یعنی لات منات اور عزیٰ محترم ہیں اور ان کی شفاعت مقبول ہے ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 51)
ازالہ: ۔
ڈاکٹر شبیرکی اس بات سے ہم اتفاق کرتے ہیں کہ یہ واقعی اسلام دشمن گروہ ہے (زنادقہ) کی سازش ہے کہ انہوں نے یہ گھٹیا بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردی ۔ اسکا صحیح احادیث سے کوئی تعلق نہیں ۔ الحمد للہ جس چیز کو اب آپ پیش کررہے ہیں محدثین کرام اس کو سینکڑوں سال قبل اپنی تحریروں میں رد کر چکے ہیں ۔
امام ابن خزیمة متوفی311ھ فرماتے ہیں :
''
ھذہ القصة من وضع الزنادقہ (فتح القدیر للشوکانی جلد 3صفحہ 462)
''
یہ روایت زندیقوں کی گھڑی ہوئی ہے ''
کسی بھی جھوٹی روایت کا تعلق صحیح حدیث سے نہیں ہوتا اور اس کو حدیث سمجھنا نبوت پر نقص لگانے کے مترادف ہے ۔
مزید برآں :
اس واقعہ کو ڈاکٹر شبیرنے (سیرة النبی ازشبلی نعمانی )کے حوالہ سے نقل کیا ہے مگر اس کونقل کرنے میں بھی ڈاکٹر شبیرنے ڈنڈی ماردی ۔ روایت تو پوری نقل کردی مگر اس میں علامہ شبلی نعمانی کا تبصرہ حذف کرگئے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے ۔
''
یہ قصہ ناقابل ذکر ہے اور اکثر کبار محدثین ،مثلاً ،قاضی عیاض ، علاّمہ عینی ، حافظ منذری اور علامہ نووی نے اس کو باطل اور موضوع قراردیاہے ''(سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم جلد 1صفحہ 146)
کاش ڈاکٹر شبیراس عبارت کو بھی نقل کردیتے یا خود تحقیق کرلیتے تو اعتراض کی نوبت نہ آتی۔ صدافسوس ۔۔۔۔
خیر خواہی کے نام پر سینتالیسواں (47) اعتراض:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ کے سامنے قسم کھائی کہ اپنی کنیز سے مقاربت نہ کریں گے حضرت حفصہ اپنے گھر میں گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماریہ کے ساتھ ہمبستر دیکھا اس پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا (بہت ڈانٹ پلائی ) ۔ (اسلام کے مجرم،صفحہ51,52)
نوٹ:۔ اصل روایت میں لفظ ''معاتب'' ڈانٹ ہے ڈاکٹر شبیرنے ''مخاطب '' کر دیا ۔
ازالہ :۔
قارئین کرام!ڈاکٹر شبیرنے ر وایت تو نقل کردی مگر اس روایت پر علامہ شبلی نعمانی کا طویل علمی تبصرہ شیر مادر سمجھ کر ہضم کرگئے ہمیں کچھ ایسا لگتا ہے کہ ڈاکٹر شبیران من گھڑت وضعیف احادیث کا سہارا لے کر عوام الناس کو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور کرنا چاہتے ہیں اور اس امت کو جو پہلے ہی تباہی وگمراہی کے دہانے پر کھڑی ہے اس کے تابوت میں آخری کیل (فتنہ انکار حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) ٹھوک رہے ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ احادیث وروایات نقل کرتے وقت اس کی صحت وضعف پر کئے گئے علماء ومحدثین کے تبصرے وتنقید کو حذف کردیتے ہیں جو کہ اس روایت پر حق وباطل ہونے پر فیصل ہوتے ہیں یہاں زیر بحث روایت پر کی گئی علامہ شبلی نعمانی کی بھرپور علمی تنقید کو ہم من وعن نقل کررہے ہیں تاکہ عوام الناس کو ڈاکٹر شبیر کی 
تلبیسات وعلمی خیانت کا بغور اندازہ ہوجائے ۔
علامہ شبلی نعمانی نے اس بحث پر ''روایات کاذبة'' کے نام سے باب باندھا ہے ۔
یہ بات اس قدر مسلّم ہے اور خود قرآن مجید میں مذکور ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کی خاطر اپنے اوپر کوئی چیز حرام کرلی تھی ۔ اختلاف اس میں ہے کہ وہ کیا چیز تھی ؟ بہت سی روایتوں میں ہے کہ وہ ماریہ قبطیہ ایک کنیز تھیں جن کو عزیز مصر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تحفہ بھیجا تھا ۔ماریہ قبطیہ کی روایت تفصیل کے ساتھ مختلف طریقوں سے بیان کی گئی ہے جس میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو راز سیدہ حفصہ نے فاش کردیا تھا وہ انہی ماریہ قبطیہ کے متعلق تھا اگر چہ یہ روایتیں بالکل موضوع اور ناقابل ذکر ہیں ۔ لیکن چونکہ یورپ کے اکثر مؤرخوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معیار اخلاق پر جو حرف گیری کی ہے ان کا گل سرسر ی ہی ہے اس لئے ان سے تعرض کرنا ضروری ہے ۔ ان روایتوں میں واقع کی تفصیل سے متعلق اگرچہ نہایت اختلاف ہے لیکن اس قدر سب کا قدر مشترک ہے کہ ماریہ قبطیہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موطورة کنیزوں میں تھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حفصہ کی ناراضگی کی وجہ سے ان کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا ۔
حافظ ابن حجر شرح صحیح بخاری تفسیر سورہ تحریم میں لکھتے ہیں ۔
''
ووقع عند سعید بن منصور باسناد صحیح الی مسروق قال حلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لحفصة لایقرب امة ''(فتح الباری جلد 8صفحہ 837)
''
اور سعید بن منصور نے صحیح سند کے ساتھ جوامام مسروق تک منتہیٰ ہوتی ہے یہ روایت کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ حفصہ کے سامنے قسم کھائی کہ اپنی کنیز سے مقاربت نہ کریں گے ''
اس کے بعد موصوف نے مسند (ہیثم بن کلیب )اور طبرانی سے متعدد روایتیں نقل کی ہیں۔ 
جن میں سے ایک یہ ہے ۔
''
وللطبرانی من طریق ضحاک عن ابن عباس قال دخلت حفصة بیتھا فوجدہ یطاء ماریة فعاتبة ''(فتح الباری جلد 8صفحہ 837)
''
اور طبرانی نے ضحاک کے سلسلے میں سیدنا ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ سیدہ حفصہ اپنے گھر گئیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوسیدہ ماریہ کے ساتھ ہمبستر دیکھا اس پر انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معاتب کیا ۔''
ابن سعد اور واقدی نے اس روایت کو مزید بدنما پیرایوں میں نقل کیا ہے ہم ان کو نظر انداز کرتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ تمام روایتیں محض افتراء اور بہتان ہیں ۔
علامہ عینی شرح صحیح بخاری باب النکاح جلد 5صفحہ 548میں لکھتے ہیں کہ :
''
والصحیح فی سبب نزول الآیة فی قصة العسل لا فی قصة ماریة المروی فی غیر الصحیحین وقال النووی ولم تات قصة ماریة من طریق صحیح ''
''
اور آیت کے شان نزول کے باب میں صحیح روایت یہ ہے کہ جو شہد کے واقعہ میں ہے ماریہ کے قصے کے بارے میں نہیں ہے جو کہ صحیحین کے سوا اور کتابوں میں مذکور ہے نووی نے کہا کہ ماریہ کا یہ واقعہ کسی صحیح طریق سے مروی نہیں ہے ۔''
یہ حدیث تفسیر ابن جریر ، طبرانی ومسندہیثم میں مختلف طریقوں سے مروی ہے ان کتابوں میں عموماً جس قسم کی رطب یا بس(صحیح ضعیف)روایتیں مذکور ہیں اس کے لحاظ سے جب تک ان کی صحت کے متعلق کوئی خاص تصریح نہ ہو لائق التفات نہیں ۔ حافظ ابن حجر نے ایک طریقے کی توثیق کی ہے یعنی وہ روایت جس کے اخیر میں مسروق ہے لیکن اولاً تو اس روایت میں ماریہ قبطیہ کا نام مطلق نہیں ۔ صرف اس قدر ہے کہ آپ نے سیدہ حفصہ کے سامنے قسم کھائی تھی کہ میں اپنی 
کنیز کے پاس نہ جاؤں گا اور وہ مجھ پر حرام ہے اس کے علاوہ مسروق تابعی ہیں یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا تھا اس لئے یہ روایت اصول حدیث کی رو سے منقطع ہے ۔ یعنی اس کا سلسلہ سند صحابی تک نہیں پہنچتا اس حدیث کے ایک اور طریقہ(سند) کو حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں صحیح کہا ہے لیکن اس طریقے(سند) کے ایک اور راوی عبدالملک رقاشی ہیں جن کی نسبت دارقطنی نے لکھا ہے 
''
کثیر الخطاء فی الاسناد والمتون یحدث عن حفظہ ''
''
سندوں میں اور اصل الفاظ حدیث میں بہت خطا کرتے ہیں ۔''
علامہ شبلی نعمانی مزید رقمطراز ہیں کہ:
امام نووی نے جو ائمہ محدثین میں سے ہیں صاف تصریح کی ہے کہ ماریہ کے باب میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں ۔ حافظ ابن حجر اور ابن کثیر نے جن طریقوں (سند)کو صحیح کہا ہے ان میں سے ایک منقطع اور دوسرا کثیرالخطا ء ہے۔ ان واقعات کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ یہ روایت استناد کے قابل ہے ۔
یہ بحث اصول روایت کی بناء پر تھی درایت کا لحاظ کیا جائے تو مطلق کدوکاوش کی حاجت نہیں جو دقیق واقعہ ان روایتوں میں بیان کیا گیا ہے خصوصاً طبری وغیرہ میں جو جزئیات مذکور ہیں وہ ایک معمولی آدمی کی طرف (بھی )منسوب نہیں کئے جاسکتے نہ کہ اس ذات پاک کی طرف جو تقدس ونزاہت کا پیکر تھا صلی اللہ علیہ وسلم (سیرة النبی صلی اللہ علیہ وسلم جلد 1صفحہ 322.321
یہ وہ تبصرہ اور نقد تھا جو علامہ شبلی نعمانی نے اس روایت پر کیا تھا جس کو ڈاکٹر شبیر نے حذف کرتے ہوئے یہ من گھڑت روایت تحریر کرکے عوام الناس کو دھوکہ دینے کی سعی نا تمام کی ہے ۔ اللہ ہمیں ایسے شر سے محفوظ رکھے ۔آمین 
خیر خواہی کے نام پر اڑتالیسواں (48) اعتراض:
سورة البقرة کی آیت نمبر 36نازل ہونے کے بعد بھی لوگ شراب پیتے رہے۔ کھانے کے بعد مغرب کا وقت آگیا اور حضرت علی نے نماز پڑھائی لیکن نشے کی خمار میں کچھ کا کچھ پڑھ گئے ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 52)
ازالہ: ۔
قارئین کرام!
ڈاکٹر شبیرنے پھر عبارت نقل کرنے میںتساہل سے کام لیا ہے سورة البقرة کی آیت نمبر 219(یسئلونک عن الخمر والمیسر )کو آیت 36بنادیا ہے ہوسکتا ہے غلط فہمی سے ایسا ہوگیا ہو ۔
ڈاکٹر شبیرکی نقل کردہ عبارت کی اصل ابو داود میں کچھ اس طرح موجود ہے ۔
''
عن علی بن ابی طالب ان رجلا من الانصار دعاہ وعبدالرحمان بن عوف فسقاھما قبل ان تحرم الخمر فانھم علی فی المغرب فقرأ مخلط فیھا فنزلت لاتقربوالصلوة وانتم سکاری حتی تعلمو ا ماتقولون ''( ابوداؤد کتاب الاشربة باب فی تحریم الخمر رقم الحدیث )
''
علی سے روایت ہے کہ انصار میں سے ایک شخص نے ان کی اور عبدالرحمان بن عوف کی دعوت کی پس انہوں نے ان دونوں کو شراب پلائی (یہ بات شراب کی حرمت سے قبل کی ہے)علی نے انکو مغرب کی نماز پڑھائی ''اور قل یاایھالکافرون '' کی تلاوت کی اور اس کوخلط ملط کردیا تو قرآن کی آیت نازل ہوگئی ''لاتقربوالصلوة وانتم سکاری حتی تعلمو ا ماتقولون ''(نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ جو کہہ رہے ہو اس کو سمجھنے لگو )۔
قارئین کرام !
سیدنا علی سے مروی یہ واقعہ شراب کی حرمت سے قبل کاہے جیساکہ خود اس روایت میں صراحت اور سورة البقرة کی آیت 219جس کا ذکر ڈاکٹر شبیرنے کیا ہے اس میں بھی شراب قطعی طور پر حرام نہیں ہوئی تھی جیساکہ ارشاد ہے :
''
یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیرومنافع للناس (سورہ البقرة ۔آیت 219)
''
لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کو اس سے دنیاوی فا ئدہ بھی ہوتا ہے ۔''
اس آیت میں کہیں شراب کی حرمت اور اس سے منع کا ذکر نہیں ہے ۔یاد رہے کہ اسلام سے قبل اور ابتدائی ایام میں بھی کثرت سے شراب نوشی کی جاتی تھی بلکہ اہل عرب تو اس وجہ سے مشہور بھی تھے ۔سورة البقرة 219کے نزول کے بعد بھی اصحاب رسول شراب نوشی فرماتے تھے جس کی بناء پر سیدنا علی سے یہ واقعہ سرزد ہوگیا۔ پھر اس کے بعد اللہ رب العالمین نے ''لا تقربوالصلوة '' نازل فرماکر نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع فرمادیا مگر اس روایت سے بھی شراب کو حرام نہیں کیا گیا بلکہ تخصیص کردی گئی کہ نشے کی حالت میں نماز نہ پڑھو ۔ پھر کچھ عرصے بعد مطلق شراب کی حرمت نازل کردی گئی کہ :
یاایھا الذین امنوا انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ (سورہ المائدہ ۔آیت 90)
''
اے ایمان والوں بے شک شراب اور جوا اور بت پانسے (یہ سب )گندے شیطانی کام ہیں سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ۔''
اس آیت کے نزول کے بعد مدینے میں پھر منادی کرادی گئی کہ شراب آج سے حرام 
ہوگئی ہے لہٰذا اس کے بعد صحابہ نے اس سے مکمل اجتناب برتنا شروع کردیا ۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں ابوداؤد کتاب الاشربة ۔
ڈاکٹر شبیرکو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ سورة البقرة کی آیت 219میں شراب کی حرمت موجودہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ :
''
یا ایھا الذین امنوا لاتقربوالصلوة وانتم سکٰری '' ''ویسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر و منافع للناس ''نسختھا التی فی المائدہ ''انما الخمر والمیسر والانصاب ''الایة (ابوداؤد کتاب الاشربة باب فی تحریم الخمر رقم الحدیث 3672)
''
یاایھا الذین امنو الاتقربوالصلوة اور یسئلونک عن الخمر ان دونوں آیتوں کو سورة المائدہ کی آیت'' انما الخمر والمیسر ''نے منسوخ کردیا۔
مندرجہ بالا قول صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا کہ شراب کی اصل حرمت سورة المائدہ کی آیت میں ہوئی نہ کہ البقرة میں لہٰذا ڈاکٹر صاحب کی یہ تحقیق بھی صحیح نہیں ۔رہا سیدنا علی کا قرآن غلط پڑھ جانا تو شراب چیز ہی ایسی ہے کہ اس کو نوش کرنے سے انسان اپنے آ پ کو بھول جاتا ہے اسی لئے اس کو عربی میں خمر کہا گیا ہے یعنی عقل کو ڈھانپ لینے والی ۔ اور سیدنا علی بھی ایک انسان تھے لہٰذا ان سے اس معاملہ میں چوک ہوگئی۔
خیر خواہی کے نام پر انچاسواں (49)اعتراض:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن خلافت کے جھگڑے کی منظر کشی یوں ہے ۔ سعد بن معاذ نے حضرت عمر کی داڑھی پکڑ لی ۔عمر نے کہاچھوڑواگراس کا ایک بال بھی بیکا ہوا تو تمہارے منہ میں 
ایک دانت بھی نہیں رہے گا ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 52)
ازالہ:۔
اولاً: ڈاکٹر شبیرنے اس روایت کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے مگر کتاب کا نام غلط لکھا ہے ''ام التواریخ '' حالانکہ کتاب کا نام ہے ''تاریخ الامم والملوک ''المعروف تاریخ طبری۔
ثانیاً: یہ روایت من گھڑت ہے جسکو ڈاکٹر صاحب نے بڑے دھڑلے سے ذکر کردیا ہے اسنادی حیثیت سے قطع نظر اگر صرف عبارت پر ہی غور کیا جائے توتاریخ کا ایک عام طالب علم بھی اس کے جھوٹ کو محسوس کرلے گا ۔
مذکورہ عبارت میں ہے کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے دن سیدنا سعد بن معاذ نے سیدنا عمر کی داڑھی پکڑلی۔ (اسلام کے مجرم صفحہ52
حالانکہ سعد بن معاذ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی وفات پاگئے تھے ۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :
''
سعد بن معاذ النعمان بن امریٔ القیس بن زید بن عبدالاشھل ۔۔۔۔۔سیدالاوس شھربدراً باتفاق ورمی بھم یوم الخندق فعاش بعد ذلک شھراً حتی حکم فی بنی قریظہ وأصیبت دعوتہ فی ذلک انقض جرمہ فمات وفی الصححین وغیرھما من طرق النبی صلی اللہ علیہ وسلم اھتزالعرش لموت سعد بن معاذ''(الاصابة فی تمیز الصحابة صفحہ 494)
''
سعد بن معاذ بن نعمان ۔۔۔۔۔اوس قبیلے کے سردار تھے بالاتفاق بدری صحابی ہیں غزوہ خندق کے دن ان کو تیر لگا تھا اس کے تقریباً ایک مہینے بعد تک زندہ رہے یہاں تک کہ بنوقریظہ 
کے متعلق فیصلہ کیا اور اس دوران ان کی دعا مقبول ہوئی پھر ان کا زخم بہہ پڑا یہاں تک کہ انتقال فرماگئے ۔
صحیح بخاری وصحیح مسلم ودیگر کتب میں روایت موجودہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سعد بن معاذ کی موت سے عرش لرزگیا ۔
کاش ڈاکٹر شبیرتھوڑی بہت تحقیق فرمالیتے ۔
خیر خواہی کے نام پر پچاسواں (50) اعتراض:
کیا تم کسی جانور کو دیکھتے ہو کہ وہ ناقص الاعضاء یعنی بغیر کان آنکھ یا ناک یا بغیر پنجے کے پیدا ہوا ہو (یعنی ایسا کبھی نہیں ہوتا) ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلاف حقیقت بات کیسے فرماسکتے ہیں ؟جانور ناقص الاعضاء آئے دن پیدا ہوتے ہیں ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ55 ،54)
ازالہ :۔
ڈاکٹر شبیرنے حسب عادت اس روایت کا جزء نقل کیا ہے مکمل روایت سے بات واضح ہوجاتی ہے ۔
''
ان اباھریرة قال قال رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مامن مولود الایولدعلی الفطرة فابواہ یھودانہ او ینصر انہ اویمجسا نہ کما تنتج البھیمة بھیمة جمعاء ھل تحسبون فیھا من جدعاء ؟ ثم یقول ابو ھریرة (فطرة اللہ التی فطرالناس علیھا لاتبدیل لخلق اللہ ذٰلک الدین القیم'' (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب اذااسلم الصبی بذات ھل یصلی علیہ رقم الحدیث 1359)
''
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جتنے بچے پیدا ہوتے ہیں وہ اپنی فطرت (اسلا م) پر پیدا ہوتے ہیں پھر ان کے ماں باپ ان کو یہودی عیسائی یاپارسی بنادیتے ہیں جیسے چوپایہ جانور پورے 
جسم کا ہوتا ہے کہیں تم نے کان کٹا بھی پیدا ہوتے دیکھا ہے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد ابو ہریرة نے یہ آیت تلاوت کی ''اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اس فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں(اس لئے کہ )یہی سیدھا راستہ ہے ۔''
قارئین کرام ! اس صحیح حدیث میں جو وضاحت ملتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر بچے کو دین اسلام پر پیدا فرماتا ہے یعنی وہ پیدائشی یہودی عیسائی پارسی نہیں ہوتا بلکہ ایک مسلم ہوتا ہے بعد میں اس کے والدین اس کو غیر مسلم بنادیتے ہیں یہی اس حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء ہے ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مثال بیان فرمائی کہ (جیسے یہ جانور سالم ہوتا ہے کہیں تم نے کان کٹا بھی پیدا ہوتے دیکھا ہے )یہ مثال بھی عین فطرت وحقیقت ہے ۔یعنی:''کیا کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ جانور کا بچہ ایسا پید اہوا ہو کہ اس کا کان کٹا ہوا ہو اور اس کی جگہ ناک لگی ہو یا سینگ لگا ہو اہو یقینا ایسا نہیں ہوا تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان کا بچہ یہود ی عیسائی اور مجوسی پیدا ہو وہ تو مسلم پیدا ہوتا ہے اور اس آیت کا مفہوم بھی یہی ہے کہ اللہ نے لوگوں کو فطرت (اسلام )پر پیدا فرمایا اور اس فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ۔
ڈاکٹر شبیرنے خومخواہ اپنی کم علمی کی وجہ سے حدیث کو اعتراض کا نشانہ بنایا ۔ 
خیرخواہی کے نام پر اکیاونواں (51) اعتراض:
فرشتہ ماں کے پیٹ میں ہی تقدیر لکھ لیتا ہے یعنی زندگی موت اور رزق اعمال بدہونا اور اچھا ہونا ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 55)
ازالہ: ۔
ڈاکٹر شبیرکو اعتراض ہے کہ جب سب کچھ لکھا ہوا ہے تو قرآن نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ خود قرآن تقدیر کے مسائل بیان کرتا ہے مثلاً،
وما کان لنفس ان تموت الا باذن اللہ کتابا مؤجلا(سورہ آل عمران ۔آیت 145)
''
اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی جاندار نہیں مرسکتا ۔مقررشدہ وقت لکھا ہوا ہے ۔''
مزید ارشاد ہوتا ہے :
وکل شئی احصینٰہ فی امام مبین(سورہ یٰس ۔آیت 12)
''
ہم نے ہر چیز کا حساب امام مبین میں رکھا ہوا ہے ۔''
اب اس اعتراض کا رخ قرآن کی جانب ہوگیا ہے ۔اور عبارت یہ ہوتی ہے کہ جب سب کچھ لکھا ہوا ہے تو پھر قرآن نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔
خیر خواہی کے نام پر باونواں (52) اعتراض:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان کا مطلب یہ ہے کہ دو طرح کے سانپ ایسے ہیں سفید دھاریوں والا دم کٹا کہ وہ انسان کی آنکھوں کو دیکھ کر اسے اندھا کردیتے ہیں ۔
صاحبو ! ایسا کوئی سانپ دنیا میں موجودنہیں ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 58)
ازالہ: ۔
قارئین کرام !
ڈاکٹر شبیرنے نجانے کن معلومات کے بل بوتے پر ایسا عجیب وغریب دعوی کیا ہے ؟ حالانکہ اس وقت جب حشرات الارض پر تحقیق جاری ہے اور اس کام پر تحقیق کرنے والوں نے بھی ابھی تک کوئی ایسا دعوی نہیں کیا کہ دنیا میں موجودتمام جانوروں کے بارے میں معلومات حاصل کرلی گئیں ہیں ۔ مگر ڈاکٹر شبیردعوی کررہے ہیں کہ ایسا کوئی سانپ موجود نہیں ہے حالانکہ صرف امریکہ وافریقہ میں سانپوں کی دوسو سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں جو مختلف قسم کے عادات واطوار کے مالک ہیں کوبرا Cobra(سانپ کی ایک قسم )انتہائی خطرناک ہے جو دور سے انسان کی 
آنکھوں پر زہر آلود مواد پھیکتا ہے تو انسان اس کے زہر کی شدت سے اندھا ہوجاتاہے شاید ڈاکٹر شبیرکواس بارے میں علم ہوگا ۔ اس سانپ کے متعلق مزید معلومات کے لئے ہماری ویب سائٹ Visitکریں ۔
قرآن کریم میں بھی اللہ رب العالمین نے ایک جانور کا ذکر کیا ہے ۔
''
واذاوقع القول علیھم اخرجنا لھم دابة من الارض تعکلھم ان الناس کانوا بأیتنا لا یوقنون ''(سورہ النمل ۔آیت 82)
''
اور بات پوری ہونے کا وقت آجائے گا تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے کلام کرے گا ۔''
اب یہاں ایسے جانور کا ذکر موجود ہے کہ جو کلام کرے گا تو کیا اس پر ایسے تبصرے نہیں ہوسکتے کہ :
صاحبو !'' ایسا کوئی جانور دنیا میں موجودنہیں ۔''
اس کا جواب صرف یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے تو یقینا ہوکر ہی رہے گا اسی طرح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سانپ ہے تو وہ یقینا ہے اور یہی ہمارا یمان ہے ۔
خیر خواہی کے نام پر ترپنواں (53) اعتراض:
امام احمد بن حنبل نے (170/4)میں جابر سے روایت فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کے بیٹے کو ''نکل اللہ کے دشمن میں اللہ کارسول ہوں '' فرماکر بدروح کونکال دیا وہ بچہ اچھا ہوگیا ۔ اس عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو مینڈھے پنیر اور گھی پیش کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یعلی بن مرة سے فرمایا ایک مینڈھا پنیر اور گھی لے لو اور ایک مینڈھا اسے واپس کردو ۔
دم کرنا اور قیمت لینا قرآن کے خلاف ہے ۔ (اسلام کے مجرم صفحہ 59)
ازالہ:۔
ڈاکٹر شبیرنے اس حدیث کے ذریعے مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ ''دم کرنا قرآن کے خلاف ہے '' حالانکہ قرآن مجید میں کہیںبھی ایسا حکم موجود نہیں ۔ اور رہی بات قیمت کی تو اس عورت نے قیمت نہیں بلکہ تحفہ پیش کیا تھا جس میں سے بعض تو آپ نے قبول کرلیا اور بعض واپس کردیا۔کیونکہ قیمت وہ ہوتی ہے جو پہلے طے کی جائے اور ایسا حدیث میں ذکر موجود نہیں ۔
لہٰذا حدیث پر اعتراض غلط ہے ۔
خیر خواہی کے نام پرچونواں(54) اعتراض:
ابو ہریرہ حدیث کے سب سے زیادہ روایت کرنے والے تھے وہ جب چاہتے احادیث گھڑ لیا کرتے تھے انہوںنے بے شمار من گھڑت حدیثیں لوگوں تک پہنچائیں ۔
(
اسلام کے مجرم صفحہ 69)
ازالہ:۔
بالآخرڈاکٹر شبیر نے اپنی صحابہ دشمنی دکھا ہی دی کہ صحابہ ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھا کرتے تھے ۔اور اس غلیظ وگندی بات کو امام بخاری کے ذمے لگادیا اور وہ بھی ایک نامعلوم رسالے کے حوالے سے حالانکہ صحیح بخاری میں صرف اتنا ہے ۔
''
ابو ہریرہ زیادہ روایات بیان کرنے والے تھے ۔''
اب اگر کوئی ڈاکٹر شبیرکو اپنے آرگن میں کذاب دجال اور اس جیسے دوسرے القابات سے نوازے اور میں اسے اپنی کتاب میں بغیر تحقیق نقل کردوں تو کیا یہ صحیح بات ہوگی ؟
''
خیر خواہی '''کے نام پچپنواں(55)اعتراض:
''
ابوہریرہ نے حدیث بیان کی کہ جس نے کہا لالہ لا اللہ وہ جنت میں ضرور جائے گا(صحیح مسلم)۔جب عمر نے ابو ہریرہ کو یہ حدیث بیان کرتے سنا تو انہوں نے بڑھ کر ابوہریرہ کے سینے پر اتنے زور سے مکاّ مارا کہ ابوہریرہ زمین پر گرپڑے۔''(صحیح مسلم :کتاب الایمان،البلاغ،صفحہ:2) (اسلام کے مجرم صفحہ70)
ازالہ:۔
قارئین ِکرام !معلوم نہیں ڈاکٹر شبیرکو اس حدیث میں کونسا اعتراض نظر آیا ہے ؟اس حدیث پر کوئی اعتراض ہے ہی نہیں اس لئے مصنف نے بھی اپنی طرف سے کوئی اعتراض نقل نہیں کیا بس حدیث ذکر کرکے خاموشی اختیار کی ہے ۔
لیکن میں وضاحت کرتا چلوںکہ اس حدیث پر کافی لوگوں نے (جو احادیث کو دین تصور نہیں کرتے)اعتراض کیا ہے کہ عمر نے ان کو مکا ّکیوں مارا؟میں پوچھتا ہوں کہ آپ جواب دیجئے کہ عمر نے ابوہریرہ کو مکا ّکیوں مارا؟
قارئین ِکرام!ڈاکٹر شبیرنے یہاں پربھی حسب سابق بددیانتی سے کام لیتے ہوئے حدیث کو ادھورا نقل کیا ہے،حالانکہ صحیح مسلم کی اسی روایت میںمکمل وضاحت موجود ہے کہ ابوہریرہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ سننے کے بعد لوگوں کو یہ خوشخبری سنانے جارہے تھے کہ
''
جس نے لالہ لا اللہ کا اقرارکیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔''
ابو ہریرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین لیکر لوگوں کو یہ خوشخبری سنانے نکلے تھے کہ راستے میں سیدنا عمر سے ان کی ملاقات ہوئی ،انہوں نے پوچھا کہاں جارہے ہو؟آپ نے انہیں یہ حدیث سنائی اور ارشادفرمایا میں لوگوں کو یہ خوشخبری سنانے جارہا ہوں۔تو عمر نے ان کے سینے پر اپنا ہاتھ مارا ،تاکہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس جائیں اور بات کی تحقیق ہوجائے ۔
بس یہی وجہ تھی کہ عمر نے انہیں مکاّ مارا ،نہ کہ کسی دشمنی یا ان پرعدم اعتماد کی وجہ سے جیسا کہ مصنف نے اس حدیث کو پیش کرنے کے بعد خاموشی اختیار کر کے یہ مقصد لوگوں کوبیان کرنے کی کوشش کی ہے۔(شرح صحیح مسلم للنووی ،ج:1صفحہ:278)
لہٰذا حدیث پر اعتراض فضولیات پر مبنی ہے۔
''
خیر خواہی '''کے نام پرچھپنواں56))اعتراض:
ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں :
''
ترمذی میں حدیث بیان ہوئی ہے ،بحوالہ رسول اللہ (ۖ)اور انس کہ جنت میں مرد کو 100مردوں کے برابر قوت عطا کی جائے گی ،تاکہ وہ زیادہ عورتوں سے جماع کرے۔''
(
اسلام کے مجرم،صفحہ77)
ازالہ:۔
قارئین ِکرام!میرے خیال میں ڈاکٹر شبیر نے اس حدیث کو بھی قرآن کے خلاف ہی سمجھا ہوگا۔100آدمیوںکی طاقت کوئی غیرفطری عمل نہیں ،کیونکہ اس کا اشارہ قرآنِ کریم سے بھی ملتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
(
ولکم فیہا أزواج مطہرة)
''
تمہارے لئے جنت میں جوڑے ہونگے۔''
قارئین ِکرام!عربی زبان میں ''زوج''کی جمع ''أزواج''ہے ،یعنی ''جوڑے''(بیویاں ) اور عربی میں جمع تین سے شروع ہوتی ہے ،لیکن اس کی انتہاء کوئی نہیں ہوتی۔اگر مصنف کو اعتراض ہے کہ 100بیویاں یا ان کی طاقت کیسے ہو سکتی ہے ؟تو وہ اٹکل کی جگہ پر قرآن سے دلیل پیش کریں کہ یہ ناممکن ہے ،وگرنہ حدیث تسلیم کریں۔
''
خیر خواہی '''کے نام پرستاونواں(57)اعتراض:
''
قرآن کی دو آیتیں کھجور کے پتوں پرلکھی ہوئی تھیں …میری بکری آئی اور انہیں کھاگئی۔''
اس کے بعد ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں :
''
حالانکہ اللہ فرماتا ہے یہ قرآن میں نے نازل کیا ہے اور میں ہی اس کا محافظ ہوں۔'' (اسلام کے مجرم صفحہ 77)
ازالہ:۔
الحمدللہ مصنف نے خود ہی اس روایت کا جواب دیدیا ہے جب اللہ ہی محافظ ہے تو مصنف کو فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟فکر تو وہاں ہو جہاں اللہ محافظ نہ ہو!
دوسری بات یہ عرض کرتا چلوں کہ آخر یہ کونسی آیات تھیں جن کو بکری کھاگئی؟یہ آیات رضاعت اور رجم کی تھیں اور ان دونوں آیات کی تلاوت منسوخ ہوچکی تھی، لیکن حکم منسوخ نہیں ہوا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(
ماننسخ من أیة أو ننسہا نأت بخیر منہا أو مثلہا )(سورہ البقرہ،آیت106)
''
جب بھی کسی آیت کو منسوخ کرتے یا بھلا دیتے تو اس جیسی یا اس سے بہتر آیت لاتے (بھی )ہیں۔''
معلوم ہوا کہ اللہ کسی آیت کو منسوخ بھی کرتا ہے اور اسے لوگوں کے ذہنوں سے بھلا بھی دیتا ہے ۔یقینا عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جو صحیفہ موجود تھا وہ منسوخ شدہ تھا ،کیونکہ ناسخ نسخہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حفظ تھا۔
لہٰذا اگر بکری نے کھابھی لیاتو اس میں کوئی حرج نہ تھااور نہ ہی دین پرکوئی حرج آیا۔اگر آپ کہیں گے حرج آیاہے تو آپ اس کی اب دلیل دیں۔ 
''
خیر خواہی '''کے نام پراٹھاونواں(58)اعتراض:
ڈاکٹر شبیررقمطراز ہیں:
''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے تشریف لائے صفیں کھڑی ہوگئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم امامت کیلئے کھڑے ہوگئے ،یاد آیاکہ جنبی ہیں (یعنی بیوی سے مباشرت کے بعدغسل نہیں کیا)آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ گئے اور غسل کیا۔''(تفسیر سورة نمبر:7آیت:87،تفہیم القرآن ، سید مودودی،بحوالہ :صحیح بخاری :روایت نمبر:264جلد:1) (اسلام کے مجرم صفحہ 79)
قارئین ِکرام!اس صحیح حدیث کے ذکر کرنے کے بعد ڈاکٹر شبیر اپنی سوچ کا اظہار کرتے ہیںکہ:
''
رسول اللہ (ۖ)رہبر ِانسانیت تھے غائب دماغ نہ تھے۔''
ازالہ:۔
قارئین ِکرام!نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی چیز میں بھولنا کوئی عیب نہیں ،اس لئے کہ قرآنِ کریم ذکر کرتا ہے کہ:
(
قل انما أنا بشر مثلکم)(سورہ الکہف،آیت110)
''
آ پ صلی اللہ علیہ وسلم فرمادیجئے کہ میں بھی تمہارے جیسا انسان ہوں ۔''
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رہبر ِانسانیت یقینا تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسان بھی تھے اور قرآنِ کریم سے یہ بات ثابت بھی ہے کہ انبیاء علیہم السلام سے بھول واقع ہوسکتی ہے ۔ اگر آپ قرآنِ کریم پڑھیں (مگر افسوس کہ ڈاکٹر شبیرکا مطالعہ قرآن پر بھی بہت کمزور ہے)تو قرآنِ کریم فرماتا ہے:
(
سنقرئک فلا تنسیٰoلا ماشاء اللہ )(سورہ الأعلیٰ،آیت 6,7)
''
ہم آپ کو پڑھائیں گے پھر آپ بھولیں گے نہیں ،مگر جو اللہ چاہے۔'' (یعنی جو اللہ چاہے گا وہ خود ہی بھلا دے گا۔)
قارین ِکرام!اب غور کریں صحیح بخاری کی اس حدیث پر جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرنا 
بھول گئے ۔اس میں کتنی بڑی حکمت ہے ؟اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
''
یقینا تمہارے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین اُسوہ ہے۔''( سورہ الاحزاب،آیت21 )
معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص نماز کیلئے آئے اور اسے یاد آجائے کہ اس پر غسل فرض ہے تو وہ غسل کرنے چلا جائے ۔یہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ سے معلوم ہوتا ہے ۔
لہٰذا اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلواکر یہ مسئلہ بتا نا چاہا تھا کہ اگر کسی کے ساتھ یہ مسئلہ ہوجائے تو وہ اس کے حل کیلئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سیرت کو دیکھ لے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بہترین اسوہ ہے۔
لہٰذا حدیث پر اعتراض فضول ہے۔
''
خیر خواہی '''کے نام پرانسٹھواں(59)اعتراض:

''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایاکہ '':جاؤ اور اس شخص کو قتل کردو''… وہ کنویں میں نہارہا تھا حضرت علی نے اس کو باہر نکالادیکھا کہ اس کا عضو کٹا ہوا تھا۔''(صحیح مسلم :بحوالہ:سیدنا انس ،باب برأت حرم النبی صلی اللہ علیہ وسلم )
اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد مصنف لکھتا ہے :''تحقیق کے بغیر سزا،ام ولد پر اتنا بڑا الزام اور پھر مذاق!'' (اسلام کے مجرم صفحہ٨٠
ازالہ:۔
اس حدیث کو امام مسلم رحمہ اللہ اپنی صحیح میں ذکر فرماتے ہیں:
''
انس سے روایت ہے کہ :ایک شخص سے لوگ تہمت لگاتے تھے (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ام ولد لونڈی کو)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی سے فرمایا کہ جاؤ اس 
شخص کی گردن ماردو ۔(شاید وہ منافق ہویا کسی اور وجہ سے قتل کے لائق ہو) سیدنا علی اس کے پاس گئے ،دیکھا کہ وہ ٹھنڈک کیلئے ایک کنویں میں غسل کررہا 
ہے سیدنا علی نے اس سے کہا کہ باہر نکل ،اس نے اپنا ہاتھ علی کے ہاتھ میں دیا ، انہوں نے اسے کنویں سے باہر نکالا ،دیکھا تو اس کا عضو تناسل کٹا ہوا ہے ،سیدنا علی نے اس کو مارا ،پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ وہ تو مجذوب تھا ۔ (یعنی اس کا ذکر کٹا ہوا تھا)''
قارئین ِکرام!اس حدیث کا تعلق سزا اور تحقیق کے ساتھ ہے ۔اس حدیث سے جوباتیں معلوم ہوئیں ہیں اس کے نتائج قابل ِغور ہیں:
-1
لوگوں نے ام ولد رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی ۔
-2
اس کا حل بھی اس طرح کرنا تھا کہ لوگوں کی غلط فہمی دور ہوجائے ۔
-3
قتل کا حکم اس لئے دیا کہ ام ولد پر الزام بہت بڑا لگایا گیا اور اس کی روک تھا م کی 
جائے ، تاکہ بعد میں آنے والا کوئی اور ایسی جرأت نہ کرے۔
-4
اگر لوگوں کی غیر موجودگی میں قتل کیا جاتا تولوگوں کی غلط فہمی کا ازالہ کیسے ہوتا؟
-5
قتل نہ کرنے میں حکمت یہ تھی ، کہ بات واضح ہوجائے کہ یہ صرف بہتان ہی ہے اس 
لئے کہ وہ شخص نامرد تھا ۔
قارئین ِکرام!مندرجہ بالا نکاط پر غورکریں،تاکہ اس حدیث کو سمجھنے میں آسانی ہو ۔اس حدیث کو مکمل پڑھنے کے بعد لوگوں کا ذہن صاف ہوا اور یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ صرف الزام ہی تھا ۔
باقی رہا مسئلہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کا حکم کیوں دیا ؟تو اس کا جواب کئی طریقوں سے دیا جاسکتا ہے ،لیکن مختصراً عرض کرتا چلوں کہ وحی کی قسمیں قرآن کے علاوہ بھی ثابت ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بھی وحی کے ذریعے علم دیا گیا ہو۔جس طرح کہ سورة الکہف آیت :74، میں ذکر ہے کہ :
''
چنانچہ وہ دونوں (موسیٰ و خضر )چل کھڑے ہوئے ،حتیٰ کہ ایک بچے کو ملے جسے خضر علیہ السلام نے مار ڈالا ۔''(یعنی خضر علیہ السلام نے ایک بچے کو اللہ کے حکم سے قتل کردیا اور کوئی ظاہری وجہ قتل سے پہلے نہیں بتائی)
اوریا اس کی تطبیق ہو کہ قتل کا حکم دیا جائے ،تاکہ اس جرم کی سزا،یعنی امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن پر الزام کی سزا قتل کرنا ثابت ہوجائے ۔اور لوگوں کے سامنے یہ بات بھی واضح ہوجائے کہ وہ شخص نامرد ہے ۔
اس کی ایک اور مثال کچھ ایسے ہے کہ اگر آپ قرآنِ کریم کی تلاوت کریں تو اللہ تعالیٰ سیدنا یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے کہ:
(
فلما جھزھم بجھازھم جعل السقایة فی رحل أخیہ ثم أذن مؤذن أیتھاالعیر نکم لسارقون)(یوسف12:70)
''
پھر انہیں ان کا سامان واسباب ٹھیک ٹھا ک کرکے دیدیا تو اپنے بھائی کے اسباب میں پانی کا ایک پیالہ رکھدیا،پھر آواز دینے والے نے پکار کر کہا کہ تم لوگ چور ہو۔ ''
قارئین ِکرام!غور فرمائیں اس آیت ِمبارکہ پر اور اس کی حکمت پر کہ یوسف علیہ السلام نے خودہی یہ پیالہ رکھدیا اور پھر اعلان بھی کروادیا کہ تم چور ہو،حالانکہ بتایئے کہ پیالہ رکھنے والے خود یوسف ہیں اور جن کو چورباو رکروایاگیا وہ ان کے اپنے بھائی ہیں ۔ اب اگر کوئی اعتراض کرنے والا حدیث کی طرح اس پر بھی اعتراض کرے تو اس کیلئے اللہ کا یہی جواب کافی ہوگا کہ :
(
کذالک کدنا لیوسف)(یوسف12:76)ْْْْْ
''
اسی طرح ہم نے یوسف کیلئے تدبیر کی۔''
بالکل اسی طرح اللہ نے اپنے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی ارشاد فرمایا ہے کہ:
(
وماینطق عن الھویٰ oان ھو الا وحی یوحیٰ)(النجم:3-4)
''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے ،بلکہ جو کہتے ہیں اللہ کی وحی سے کہتے ہیں۔''
اس آیت کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کسی بھی قسم کا الزام براہِ راست اللہ تعالیٰ کی ذات پر الزام ہے۔اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہربات اور ہر عمل کو اپنی طرف منسوب کیا ہے ۔لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام اللہ پر الزام ہے۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قتل کی حقیقت سے پردہ نہیں اٹھایا تو ہمیں اس پردے میں جھانک کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر شک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔اور نہ ہی یہ دنیا کا پہلا یا انوکھا واقعہ تھا کہ اس کو اپنی ناقص عقل کی آزمائش کیلئے مشق ِستم بنایاجائے۔
خضر وموسیٰ علیہما السلام کے واقعے میںبھی یہی ''بے گناہ''قتل موجود ہے ،فرق صرف یہ ہے کہ وہاں موسیٰ علیہ السلام کے سوال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس راز سے پردہ اٹھا دیا۔مگر اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی کو اتنی جرأت نہ تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی عمل کے بارے میںسوال کریں ، اسلئے کہ وہ جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی کام اپنی مرضی اور منشاء سے نہیں ہوتا ،بلکہ اللہ کے حکم ہی سے ہوتا ہے۔ ہمیں اس معاملے میں صرف ایمان لانے کا حکم ہے اور ہم اللہ کے حکم کے پابند ہیں۔ 
لہٰذا حدیث اعتراض سے پاک ہے ۔اور جہاں تک مصنف کی بات ہے تو ان کا مسئلہ کچھ ایسا ہے کہ ان کو آج تک Spitting Snakeنہیں ملا تو انہیں حدیث کی حکمت کیسے مل سکتی ہے؟؟

و ما علینا لا البلاغ المبین.

2 comments:



  1. من گھڑت اور جعلی احادیث کی بنیادی بدعنوانی اس کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جھوٹا جواز ہے۔ احادیث کی جھوٹ کی وجہ سے بہت سے پہلوؤں پر منفی اثر پڑتا ہے جیسے کہ عقیدہ ، مذہبی قانون اور عبادت کا عمل۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جعلی احادیث کو گھڑنا پہلی صدی ہجری کے وسط میں شروع کیا گیا تھا۔ کوفہ ، عراق ، یمن ، بصرہ ، شام ، خراسان وغیرہ حدیث سازی کے مراکز تھے۔ ہجرہ کی دوسری صدی کے آغاز میں جعلی احادیث کا گھڑنا عروج پر تھا۔

    عراق ، بصرہ ، کوفہ ، بغداد ، شام ، خراسان ، یمن وغیرہ میں ہجری کی دوسری صدی کے آغاز کے بعد سے 6500 سے زائد (چھ ہزار پانچ سو) راوی احادیث کے گھڑنے میں دن رات مصروف تھے۔ مساجد ، گلیوں ، بازاروں ، پارکوں میں وہ من گھڑت اور جھوٹے لوگوں نے قال رسول اللہ کی بلند آوازوں سے لوگوں کو جمع کیا اور پھر من گھڑت احادیث پڑھنا شروع کیں۔

    دوسری صدی ہجری کے وسط میں ، ان جھوٹے اور دھوکہ باز محدثوں نے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ من گھڑت احادیث بنائیں جو کہ دن بدن بڑی مقدار میں بڑھ رہی تھیں۔


    اسناد کے بغیر حدیث کا حوالہ دینا اب ایک فیشن ہے ، لوگوں کے پاس اسناد ، متون اور درایت کے بارے میں علم کی سطح صفر ہے لیکن وہ اپنی بری خواہشات پوری کرتے ہیں کہ انہیں حدیث کے بارے میں بہت مذہبی اور علمی سمجھا جائے گا۔ وہ نہیں جانتے کہ حدیث جعلی اور من گھڑت کہانیوں کی کائنات ہے ، جو خفیہ مجوسی راوی بیان کر رہے تھے۔ ان مجوسی رافضی جھوٹوں کا بنیادی ہدف القرآن ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھی تھے۔

    صحاح ستہ میں تقریبا ایک سو چالیس سے زائد شیعہ ، رافضی راوی ہیں۔ انہوں نے ہزاروں جعلی اور من گھڑت احادیث بیان کیں۔ رافیدیوں اور مجوسیوں نے مضبوط اسناد قائم کرکے احادیث گھڑیں اور ان من گھڑت باتوں کو صحابہ کرام سے جوڑ دیا۔
    حدیث جعلی اور من گھڑت کہانیوں کی کائنات ہے ، جسے مجوسی رافضی نے ایجاد کیا ہے۔


    ان جھوٹوں کا اصل ہدف قرآن ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ رضی اللہ عنہم تھے۔

    احادیث کی کتابیں مرتب کرنے والے قرآن کے دشمن ، حضور کے دشمن اور صحابہ کے دشمن ہیں۔ بخاری ، مسلم وغیرہ رافضی شیعوں کے پیروکار اور حمایتی تھے۔



    شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ احادیث کی کتابیں قرآن کے دشمنوں ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کی پناہ گاہیں ہیں۔ احادیث میں زہریلے مجوسی ہیں ، رافضی شیعہ سانپ چھپے ہوئے ہیں جن کی شناخت غیر فرقہ وارانہ اور غیر جانبدار احادیث کے ماہرین ہی کر سکتے ہیں۔


    جیسا کہ میں نے کہا ، وہ تمام لوگ جو ان تمام شیطانی ، جعلی اور گمراہ کن بیانیوں پر یقین رکھتے ہیں وہ اسلام کے مجرم ہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جنہیں "علمائے اسلام" سمجھا جاتا ہے۔


    آخر میں ، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بخاری ، مسلم ، الترمذی ، ابوداؤد ، نسائی اور ابن ماجہ کے چھ مجموعوں کی صداقت بہت زیادہ مشکوک ہے۔ ان سب کو مجوسیوں ، رافضیوں اور شیعوں کی ہزاروں جعلی اور من گھڑت روایات کو اپناتے ہوئے شرم نہیں آئی۔


    ReplyDelete
  2. صحاح ستہ میں ہزاروں جعلی اور من گھڑت احادیث پائی جاتی ہیں ، بعض اعلیٰ درجے کی جعلی روایتیں جو کہ غلیظ مجوسی رافضیوں نے گھڑی تھیں۔

    الحديث المتعة
    اللحوم والحبر
    الحديث قرطاس وقلم
    حدیث سحر على النبي صلى الله عليه وسلم
    حديث لوح فاطمة
    حدیث الثقلین
    حديث مهدي
    جميع الأحاديث عن آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَقِيلٍ وَآلُ جَعْفَرٍ وَآلُ عَبَّاسٍ
    حدیث المنزلة
    لَاوَاِنِّیْ اَوْتیت الْقُرْاٰنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ
    حَدِيثُ اَلكِسَاء
    اثنا عشر خلفاً
    كل الروايات عن الحروف وقراءات القرآن
    أحاديث الفتن والملاحم

    ReplyDelete