نبی اکرمﷺ پر جادو


نبی اکرمﷺ پر جن احادیث میں جادو کیے جانے کا بیان ہے۔ انھیں منکرین حدیث خلافِ قرآن کہہ کر بہت اچھالتے ہیں۔ اس پر کبھی ’’اصل بات تو وہ ہے جو قرآن کے خلاف نہ ہو‘ کا عنوان قائم کرتے ہیں اور کبھی ’آپﷺ پر جادو ہونے کے سلسلے میں بخاری کی تفصیل اور قرآن کی تردید‘ کی سرخی جماتے ہیں۔ اور یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے مخالفین کو لاجواب کر دیا ہے ۔
منکرین حدیث کا مقدمہ :
غلام احمد پرویز لکھتے ہیں:
اِذۡ یَقُوۡلُ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا﴿۴۷﴾ (۱۷؍بنی اسراء یل:۴۷) کی وضاحت میں قرآن خود یہ بتا رہا ہے کہ یہ کفار کا قول تھا اورقرآن کی اس کی نفی کر رہا ہے ۔‘‘ مطالب الفرقان فی دروس القرآن (سورۃ بنی اسراء یل) ص: ۲۳۲)
 
اس سے وہ یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ قول کفار کے مطابق آپ رجل مسحور تھے جبکہ حدیث میں بھی آپ کو رجل مسحور بتایا گیا ہے تو اس طرح تو یہ کفار کے قول کی تصدیق یا موافقت ہوئی۔ آگے لکھتے ہیں 
 ’’
اس سے اس لیے انکار ہے کہ اول تو بہر حال عقل و بصیرت کی بناء پر یہ چیز آ جاتی ہے۔ عقیدت و احترام کو تو چھوڑیے، عزیزانِ من! خالص اس بناء پر یہ لیجیے کہ جو شخص دنیا کے اندر اتنا عظیم انقلاب پیدا کرتا ہے، لاکھوں انسانوں کے دل کے اندر اور پھر باہر کی دنیا کے اندر بھی اتنا عظیم انقلاب پیدا کرتا ہے، اس کی کیفیت یہ ہے۔ جادو کا مارا ہوا اِنسان خود تو وہ کسی اور کے لیے یہ کچھ کرنا ایک طرف رہا، اپنے لیے بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ جسے یہ بھی یاد نہ رہا ہو کہ میں نے نماز بھی پڑھ لی یا نہیں، وہ اتنی عظیم مملکت کا بھی انتظام کر لے گا؟ کتنے عظیم انسانوں کے قلب و نگاہ کی دنیا کو بدل کے رکھ دے گا۔ کیا وہ رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا ہو گا؟ معاذ اللہ! نہیں، قطعاً نہیں۔‘‘(ایضاً ص:۲۳۳)
یہی ساری باتیں منکرین حدیث سے مستعار لے کر آج کے متجددین بھی دوہراتے ہیں اور خیر خواہی  کی آڑ میں عوام سے حدیث کا انکار کرواتے ہیں ۔اس انکار حدیث کی بنیاد دو باتیں ہیں :
11.
روایت کا بیان یہ ہے کہ اس جادو کا حضورﷺ کی نبوت اور روحانیت پر بھی اثر ہوگیا تھا ، یہ باتیں عصمت نبوت کے خلاف ہیں ۔
2.
چونکہ قرآن کہتا ہے کہ 'رجلا مسحورا 'کفار نے حضور ﷺ کو کہا تھا اس لیے اگر کوئی  ایسا کہتا ہے تو وہ کفار کے بیان کی تائید کرتا ہے۔
اس مسئلے کی تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ کیا درحقیقت مستند تاریخی روایات کی رو سے یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہوا تھا؟ اور اگر ہوا تھا تو وہ کیا تھا اور کس حد تک تھا؟ اس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ جو کچھ تاریخ سے ثابت ہے اس پر اعتراضات وارد بھی ہوتے ہیں یا نہیں جو کیے گئے ہیں؟
 
جہاں تک تاریخی حیثیت کا تعلق ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہونے کا واقعہ قطعی طور پر ثابت ہے اور علمی تنقید سے اُس کا اگر غلط ثابت کیا جاسکتا ہو تو پھر دنیا کا کوئی تاریخی واقعہ بھی صحیح ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ اسے حضرت عائشہؓ ، حضرت زیدؓبن ارقم اور حضرت عبد اللہؓ بن عباس سے بخاری، مسلم، نَسائی، ابن ماجہ، امام احمد، عبد الرزاق، حُمَیدی، بیقہی،طَبرانی، ابن سَعد، ابن مردویہ، ابن ابی شیبہ، حاکم ، عبد بن حمید وغیرہ محدثین نے اتنی مختلف اور کثیر التعداد سندوں سے نقل کیا ہے کہ اُس کا نفس مضمون تو اُتر کی حد کو پہنچا ہوا ہے۔
حضور ﷺ پر جادو کا اثر اور اسکی نوعیت:
صحیح بخاری میں یہ حدیث کئی مقامات پر آئی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں :
 
رسول اللہﷺ پر جادو کیا گیا اور کیفیت یہ ہوئی کہ نبیؐ سمجھنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کر لیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا تھا اور نبیﷺ نے اپنے رب سے دعا کی تھی، پھر آپ نے فرمایا: تمھیں معلوم ہے، اللہ نے مجھے وہ بات بتا دی ہے جو میں نے اس سے پوچھی تھی۔عائشہؓ نے پوچھا: اللہ کے رسول ! وہ خواب کیا ہے؟فرمایا: میرے پاس دو مرد آئے اور ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے پاس۔ پھر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا:ان صاحب کی بیماری کیا ہے؟دوسرے نے جواب دیا، ان پر جادو ہوا ہے۔پہلے نے پوچھا: کس نے جادو کیا ہے؟جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے۔پوچھا: وہ جادو کس چیز میں ہے؟جواب دیا کہ کنگھی پر کھجور کے خوشہ میں۔پوچھا: وہ ہے کہاں ؟کہا کہ ذروان میں اور ذروان بنی زریق کا ایک کنواں ہے۔عائشہؓ نے بیان کیا کہ پھر نبیؐ اس کنویں پر تشریف لے گئے اور جب عائشہؓ کے پاس دوبارہ واپس آئے تو فرمایا:واللہ! اس کا پانی تو مہندی سے نچوڑے ہوئے پانی کی طرح تھا اور وہاں کے کھجور کے درخت شیطان کے سر کی طرح تھے۔بیان کیا کہ پھر نبیﷺ تشریف لائے اور انھیں کنویں کے متعلق بتایا۔میں نے کہا:اللہ کے رسول ! پھر آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں ؟نبیؐ نے فرمایا: مجھے اللہ نے شفا دے دی اور میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ لوگوں میں ایک بری چیز پھیلاؤں۔( بخاری، الدعوات ۸۰، تکریر الدعاء۵۷، ح: ۶۳۹۱، نیز دیکھیے الطب ۷۶، السحر ۴۷، ح: ۵۷۶۳، ھل یستخرج السحر ۴۹، ح: ۵۷۶۵، ح: ۵۷۶۶، الادب ۷۸، ۵۶، ح: ۶۰۶۳، الجزیۃ والموادعۃ ۵۸، ھل یعفی عن الذمی اذا سحر ۱۴، ح:۳۱۷۵، مسند احمد ۶/۵۷، ۶۳۔۶۴،۹۶)
اس روایت کے جملوں  ’’آپ کو خیال گزرتا‘‘،’’ ان صاحب کی بیماری کیا ہے؟ ‘‘ اور ’’اللہ نے مجھے شفا دے دی ہے‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ جادو کا اثر صرف آپﷺ کی ذات تک ہی محدود تھا، نبوت ورسالت اس اثر سے محفوظ تھی ۔ چنانچہ اس عرصے میں آپﷺ نے جادو کے اثر سے کوئی شرعی حکم یا عمل ترک نہیں کیا۔ پرویز نے جو صحیح بخاری کے حوالے سے یہ کہا کہ آپ کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ ’’حتیٰ کہ یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے نماز پڑھ لی یا نہیں ‘‘ یہ وہی ’’علمی دیانت‘‘ ہے جس کا مظاہرہ وہ اکثر اپنی تالیفات میں کرتے رہتے ہیں۔نبیﷺ پر جادو کے اثر کرنے کی بنیاد پر انھوں نے ’’جادو کا مارا ہوا اِنسان‘‘ کے الفاظ غلو و مبالغہ آرائی کرتے ہوئے استعمال کیے ' یہ بھی ایک علمی خیانت ہے۔
عصمت نبوت اور احادیث کا بیان :
 
اس سلسلے کی بخاری کی کسی بھی حدیث میں اس بات کا تذکرہ موجود نہیں کہ آپ کو نماز پڑھنے نہ پڑھنے کا بھی یاد نہیں رہتا تھا۔ اوپر بیان کردہ حدیث میں ’’آپ سمجھنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کر لیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا تھا‘‘ کا تذکرہ ہوا ہے۔ باقی روایات میں جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں 
کان یخیل الیہ انہ صنع شیئا ولم یصنعہ (ح:۳۱۷۵)
یخیل الیہ انہ یاتی اھلہ ولا یاتی (ح: ۶۰۶۳)
حتی کان یری انہ یاتی النساء ولا یا تیہن (ح: ۵۷۶۵)
لیخیل الیہ انہ یفعل الشیء وما فعلہ (ح: ۵۷۶۶)
اس معنی ومفہوم کے الفاظ مسند احمد میں ہیں۔ (مسند احمد ۶/۵۷،۶۳،۹۶)
 
ان حوالہ جات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپﷺ پر جادو کا اثر جسمانی حد تک تھا روحانیت اس سے متاثر نہیں ہوئی تھی۔ اسی لیے آپ کی دعوت و تبلیغ کی سرگرمیوں میں کوئی فرق نہیں آیا، یہی وجہ ہے کہ عام لوگ آپﷺ پر جادو کیے جانے کے واقعہ سے واقف تک نہ تھے۔ امہات المؤمنین میں سے بعض اس سحر کے اثرات سے واقف تھیں۔ جب یہ اثرات جسم کی حد تک تھے تو سحر کے نبیؐ پر اثر کر جانے کو عصمت نبوت کے منافی کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے؟مولانا عبدالرحمن کیلانیؒ لکھتے ہیں :
 ’’
یہ بات یقینی طور پر ثابت ہے کہ یہ جادو شریعت کے احکام پر ہرگز اثر انداز نہیں ہوا۔ بلکہ یہ اثر محض آپ کی ذاتی حیثیت تک محدود رہا۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس وقت تک آدھے سے زیادہ قرآن نازل ہو چکا تھا۔ عرب کے لوگ اس وقت دو متوازی فرقوں میں بٹ چکے تھے۔ جن میں ایک فرقہ یا تو مسلمان تھا یا مسلمانوں کا حلیف اور دوسرا فرقہ ان کے مخالف۔ اگر اس دوران آپﷺ پر جادو کا اثر شریعت میں اثر انداز ہوتا۔ یعنی کبھی آپ نماز ہی نہ پڑھاتے یا ایک کے بجائے دو پڑھا دیتے یا قرآن کی آیات خلط ملط کر کے یا غلط سلط پڑھتے یا کوئی اور کام شریعت منزل من اللہ کے خلاف سرزد ہوتا تو دوست و دشمن سب میں یعنی پورے عرب میں اس کی دھوم مچ جاتی۔ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں ایک بھی ایسی روایت نہیں ملتی جس میں یہ اشارہ تک بھی پایا جاتا ہو کہ اس اثر سے آپ کے شرعی اعمال و افعال میں کبھی حرج واقع ہوا ہو۔‘‘(مولانا عبدالرحمن کیلانی: آئینہ پرویزیت، ص: ۷۲۷، ط:۴،۲۰۰۴ء، مکتبۃ السلام، وسن پورہ لاہور)
 
اگر جسم پر سحر کے اثر کی وجہ سے عصمت نبوت پر حرف آتا ہو تا تو موسیٰؑ پر جادو کا اثر نہ ہوتا جبکہ یہ بات تو قرآن سے ثابت ہے کہ موسیٰؑ پر جادو کا اثر ہو گیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:قَالَ بَلۡ اَلۡقُوۡا ۚ فَاِذَا حِبَالُہُمۡ وَ عِصِیُّہُمۡ یُخَیَّلُ اِلَیۡہِ مِنۡ سِحۡرِہِمۡ اَنَّہَا تَسۡعٰی﴿۶۶﴾ فَاَوۡجَسَ فِیۡ نَفۡسِہٖ خِیۡفَۃً مُّوۡسٰی﴿۶۷﴾ قُلۡنَا لَا تَخَفۡ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡاَعۡلٰی﴿۶۸﴾ (۲۰؍طٰہٰ: ۶۶۔۶۸)’’موسیٰ نے کہا: تم ہی ڈالو۔ ڈالتے ہی ان کی رسیاں اور لاٹھیاں موسیٰ کے خیال میں ایسے آنے لگیں کہ وہ دوڑ رہی ہیں تو موسیٰ نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا،ہم نے کہا: خوف نہ کرو۔‘‘
جب موسٰی علیہ السلام اور جادوگروں کا مقابلہ ہوا تو موسٰی علیہ السلام نے فرمایا :
قَالَ بَلْ أَلْقُوْا فَإِذَا حِبَالُہُمْ وَعِصِیُّہُمْ یُخَیَّلُ إِلَیْْہِ مِنْ سِحْرِہِمْ أَنَّہَا تَسْعٰیoفَأَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہِ خِیْفَۃً مُّوسَی (طہ666-67/20)
 ’’
موسٰی علیہ السلام نے فرمایا تم ہی ڈالوپھر ان کے سحر کے اثر سے موسٰی علیہ السلام کو خیال گزرنے لگاکہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں یکدم دوڑنے لگ گئیں ،پس موسٰی علیہ السلام نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا‘‘۔
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فَلَمَّآ أَلْقَوْا سَحَرُوْٓا أَعْیُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْہَبُوہُمْ (اعراف116/77)’’پھر جب انہوں نے رسیاں پھینکی تو انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر سحر کیا اورانہیں خوف زدہ کردیا ۔۔۔۔‘‘
 
ان دونوں آیات سے جو نتیجہ اخذ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جب جادو گروں نے اپنی رسیاں ڈالیں تو جادو کے اثر سے ہزاروں کے مجمع کی آنکھوں پر ایسای جادو ہوا کہ سب نے انہیں سانپ ہی محسوس کیا ، ان سے لوگ بھی خوف زدہ ہوئے اور موسی علیہ السلام بھی ۔یعنی لوگوں پر اور موسی علیہ السلام پر جادو کااثر ہوا ۔جب موسٰی علیہ السلام پر جادو اثر کرسکتا ہے تو نبی کریم ﷺ پر کیونکر نہیں کرسکتا ؟پھر احادیث جو بیان کررہی ہیں اس میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو آپ کے منصبِ نبوت میں قادِ ح ہو ۔ جب آیت کی طرح احادیث بھی یہی بیان کررہی ہیں کہ اس جادو سے عصمت انبیاء متاثر نہیں ہوئی تو آیت کے ساتھ ان احادیث کو تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے۔؟ جس طرح موسیٰؑ کے جسم پر جادو کا اثر ہو گیا تھا مگر جادو کی وجہ سے کفار ان پر غالب نہ آسکے تھے۔ اسی طرح جادو کرنے سے یہودی آپﷺ پر غالب نہیں آ گئے تھے بلکہ مسلسل دشمنانِ پیغمبر ذلیل سے ذلیل تر ہوتے گئے۔

2 comments:

  1. All hadiths about Sahar are fake.
    https://archive.org/details/sehah-sitta-or-sehah-rafidiyah_202107

    ReplyDelete

  2. صحاح ستہ میں ہزاروں جعلی اور من گھڑت احادیث پائی جاتی ہیں ، بعض اعلیٰ درجے کی جعلی روایتیں جو کہ غلیظ مجوسی رافضیوں نے گھڑی تھیں۔

    الحديث المتعة
    اللحوم والحبر
    الحديث قرطاس وقلم
    حدیث سحر على النبي صلى الله عليه وسلم
    حديث لوح فاطمة
    حدیث الثقلین
    حديث مهدي
    جميع الأحاديث عن آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَقِيلٍ وَآلُ جَعْفَرٍ وَآلُ عَبَّاسٍ
    حدیث المنزلة
    لَاوَاِنِّیْ اَوْتیت الْقُرْاٰنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ
    حَدِيثُ اَلكِسَاء
    اثنا عشر خلفاً
    كل الروايات عن الحروف وقراءات القرآن
    أحاديث الفتن والملاحم

    ReplyDelete