ایرانی اورعجمی سازش





منکرین حدیث کے گرگانِ باراں دیدہ اپنے سردو گرم چشیدہ یہودی صلیبی مستشرق اساتذہ کی تقلید میں یہ الزام لگاتے آرہے ہیں کہ احادیث کا ذخیرہ درحقیقت ایرانیوں کی سازش اور قصہ گویوں، واعظوں اور داستان سراؤں کی من گھڑت حکایات کا مجموعہ ہے۔
ایک صاحب لکھتے ہیں :
’’وفاتِ نبوی کے سینکڑوں برس بعد بعض ایرانیوں نے ادھر ادھر کی سنی سنائی اٹکل پچو باتوں کو جمع کرکے انہیں صحیح حدیث کا نام دے دیا۔‘‘(نکارِ حدیث کے اُصولی دلائل )
آئیے سب سے پہلے یہی دیکھ لیں کہ ان مجموعہ ہائے احادیث کو جمع کرنے والے ایرانی ہیں بھی یا نہیں؟
سن وار ترتیب کے لحاظ سے دورِ اول کے رواۃِ حدیث میں سر فہرست ابن شہاب زہری، سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر اور عمر بن عبدالعزیز رحمہم اللہ کے نامِ نامی آتے ہیں۔ یہ سب کے سب، سب سے معزز عربی خاندان قریش سے تعلق رکھتے ہیں اور آخر الذکر تو اسلامی تاریخ کے پانچویں خلیفہ راشد کی حیثیت سے معلوم و معروف ہیں۔
اسی طرح دورِ اوّل کے مدوّنین ِحدیث میں سرفہرست امام مالکؒ ہیں۔ پھر امام شافعیؒ اور ان کے بعد امام احمد بن حنبلؒ، ان تینوں ائمہ کے مجموعہ ہائے احادیث پوری اُمت میں متداول اور مقبول ہیں۔ یہ تینوں خالص عربی النسل ہیں۔ امام مالکؒ قبیلہ ذی اَصبح سے، امام شافعی ؒقریش کی سب سے معزز شاخ بنوہاشم سے ، اور امام احمد ؒ قبیلہ شیبان سے۔یہ بنو شیبان وہی ہیں جن کی شمشیر خاراشگاف نے خورشید ِاسلام کے طلوع ہونے سے پہلے ہی خسرو پرویز کی ایرانی فوج کو ’ذی فار‘ کی جنگ میں عبرتناک شکست دی تھی۔ اور جنہوں نے حضرت ابوبکر ؓ کے دور میں ایرانی سازش کے تحت برپا کئے گئے ہنگامہ ارتداد کے دوران نہ صرف ثابت قدمی کا ثبوت دیا تھا بلکہ مشرقی عرب سے اس فتنے کو کچلنے میں فیصلہ کن رول ادا کرکے عربی اسلامی خلافت کو نمایاں استحکام عطا کیا تھا۔ اور پھر جس کے شہپر و شہباز مثنیٰ بن حارثہ شیبانی کی شمشیر خارا شگاف نے کاروانِ حجاز کے لئے فتح ِایران کا دورازہ کھول دیا تھا۔
آخر آپ بتلا سکتے ہیں کہ یہ کیسی ایرانی سازش تھی جس کی باگ دوڑ عربوں کے ہاتھ میں تھی؟ جس کا سرپرست عربی خلیفہ تھا اور جس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ایسی ایسی نمایاں ترین عربی شخصیتوں نے اپنی زندگیاں کھپا دیں۔ جن میں سے بعض بعض افراد کے قبیلوں کی ایران دشمنی چار دانگ عالم میں معروف تھی؟ کیا کوئی انسان جس کا دماغی توازن صحیح ہو، ایک لمحہ کے لئے بھی ایسے بدبودار افسانہ کو ماننے کے لئے تیار ہوسکتا ہے؟
دو رِ اوّل کے بعدآئیے دورِ ثانی کے جامعین ِحدیث پر نگاہ ڈالیں۔ ان میں سرفہرست امام بخاری ہیں جن کا مسکن ’بخارا‘ تھا۔ بخارا ایران میں نہیں بلکہ ماوراء النہر (ترکستان) میں واقع ہے۔ دوسرے اور تیسرے بزرگ امام مسلم اور امام نسائی ہیں۔ان دونوں حضرات کا تعلق نیشا پور کے علاقے سے تھا اور نیشاپور ایران کا نہیں بلکہ خراسان کا جز تھا۔ اگر اس پر ایران کا اقتدار رہا بھی ہے تو اجنبی اقتدار کی حیثیت سے۔ چوتھے اور پانچویں بزرگ امام ابوداؤد اور امام ترمذی تھے۔ اول الذکر کا تعلق سجستان (خراسان) سے، ثانی الذکر کا تعلق ترمذ (ماوراء النہر، ترکستان) سے رہا ہے۔ چھٹے بزرگ کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک طبقہ ابن ماجہ کی سنن کو صحاحِ ستہ میں شمار کرکے انہیں استناد کا یہ مقام دیتا ہے، دوسرا طبقہ سنن دارمی یا مؤطا امام مالک کو صحاحِ ستہ میں شمار کرتا ہے۔ امام ابن ماجہ یقینا ایرانی ہیں لیکن ان کی تصنیف سب سے نیچے درجے کی ہیں۔ حتیٰ کہ ا کثر محدثین اسے لائق استناد ماننے کو تیا رنہیں۔ آخر الذکر دونوں حضرات عربی ہیں۔ امام مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور نسائی بھی عربی ہیں۔
کیا محدثین عجمی تھے؟
یہ حقیقت اچھی طرح یاد رہے کہ جن محدثین نے احادیث کو کتابی شکل میں جمع کیا ہے، ان سب کو یا ان کی اکثریت کو عجمی قرار دینا محض فریب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج حدیث کی جو کتابیں اُمت میں رائج، مقبول اور متداول ہیں، چند ایک کے سوا، سب کے مصنّفین (مؤلفین) عرب تھے۔ ہم ذیل میں اس طرح کے عرب محدثین کی فہرست دے رہے ہیں تاکہ واقعی حقیقت دو ٹوک طور پر واشگاف ہوجائے :
عرب محدثین اور ان کے قبیلے کانام
امام مالکؒ
۱۷۹ھ قبیلہ ذی اصبح
امام شافعیؒ
۲۰۴ھ قبیلہ قریش
امام حمیدیؒ
۲۱۹ھ قبیلہ قریش
امام اسحق بن راہویہؒ
۲۳۸ھ قبیلہ بنوتمیم
امام احمد بن حنبلؒ
۲۴۱ھ قبیلہ بنو شیبان
امام دارمیؒ
۲۵۵ھ قبیلہ بنو تمیم
امام مسلمؒ
۲۶۱ھ قبیلہ بنو قشیر
امام ابوداودؒ
۲۷۵ھ قبیلہ بنواَزد
امام ترمذیؒ
۲۷۹ھ قبیلہ بنوسلیم
حارث بن ابی اسامہؒ
۲۸۲ھ قبیلہ بنوتمیم
امام ابوبکر بزارؒ
۲۹۲ھ قبیلہ بنواَزد
امام نسائی ؒ
۳۰۳ھ نساء
امام ابویعلیؒ
۳۰۷ھ قبیلہ بنوتمیم
امام ابوجعفر طحاویؒ
۳۲۱ھ قبیلہ بنواَزد
امام ابن حبانؒ
۳۵۴ھ قبیلہ بنوتمیم
امام طبرانی ؒ
۳۶۰ھ قبیلہ لخم
امام دارقطنیؒ
۳۸۵ھ
امام حاکم ؒ
۴۰۵ھ قبیلہ بنوضبہ
اس فہرست سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جن محدثین کی کتابیں رائج اور مقبول ہیں ان میں
۱۸ عرب اور صرف ۴ عجمی ہیں۔ مولانا ضیاء الدین اصلاحی رفیق دارالمصنّفین،اعظم گڑھ نے پہلی صدی ہجری میں پیدا ہونے والے محدثین سے لے کر آٹھویں صدی کے آخر تک وفات پانے والے مشہور اور صاحب ِتصنیف محدثین کا تفصیلی ذکر ’تذکرۃ المحدثین‘ نامی کتاب کی دو جلدوں میں کیا ہے۔ ان محدثین کی کل تعداد ستر ہوتی ہے۔ جن میں سے صرف ۱۲ محدثین کے متعلق یہ صراحت ملتی ہے کہ وہ عجمی تھے، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حدیث کو عجمی یا ایرانی سازش قرار دینے میں کتنا وزن ہے اور یہ نعرہ کس قدر پرفریب ہے۔
اسی کے ساتھ اگر یہ بات بھی مدنظر رہے کہ کتب ِاحادیث کے لکھنے والوں میں پیشرو اور سرفہرست عرب محدثین ہیں۔ عجمی محدثین ان کے بعد ہیں۔ پھر ان عجمی محدثین نے اپنی کتابوں میں جو حدیثیں جمع کی ہیں، وہ وہی حدیثیں ہیں جنہیں ان کے پیشرو اور ہم عصر عربوں نے اپنی کتابوں میں جمع کیا ہے تو مذکورہ بالا حقیقت مزید اچھی طرح بے نقاب ہوجاتی ہے۔
اب آپ بتائیے کہ آخر عربوں کے خلاف یہ کیسی سازش تھی جس کے دورِ اول کے تمام بڑے بڑے لیڈر عربی تھے اور عربوں کے بعد ترکستانی اور خراسانی تھے جو نسلاً عربی تھے۔ اور اگر عربی نہ بھی تسلیم کریں تو پھر ایرانیوں سے کدور قابت رکھتے تھے اور انہوں نے سازش کا سارا مواد اپنے پیشرو عرب لیڈروں سے حاصل کیا تھا۔ اگر بدقسمتی سے اس دور کے ’سازشی ٹولے‘ میں ایک آدھ ایرانی نے شریک ہوکر ان کی کفش برداری اور خوشہ چینی کی بھی تو اس کوکوئی حیثیت حاصل نہ ہوسکی۔ یا تو اس کی تصنیف کو درجہ استناد ہی نہیں دیا گیا۔ یا دیا بھی گیا تو سب سے نچلے درجہ کا…؟
یہ بھی بتلا دیجئے کہ
آخر یہ کیسی ’ایرانی سازش‘ تھی کہ ’سازشی ٹولے‘ اور ان کے سیاسی آقاؤں کے درمیان برابر ٹھنی رہتی تھی؟ کسی کو شہر بدر کیاجارہا ہے، کسی پر شہر کے دروازے بند کئے جارہے ہیں، کسی کو حوالہ زنداں کیا جارہا ہے، کسی پر کوڑے برس رہے ہیں، کسی کی زخمی پیٹھ پر زہریلے پھائے لگائے جارہے ہیں،کسی پاؤں میں بیڑیاں پہنائی جارہی ہیں، کسی کے کندھے اُکھڑوا کر گدھے پر بٹھایا جارہا ہے اور شہر میں گشت کرایا جارہا ہے اور کسی کے ساتھ کچھ اور ہورہا ہے!!
پھر ’سازشی ٹولہ‘ بھی کیسا ہے کہ اپنے آقاؤں سے ذرا دبتا نہیں؟ ان کے مقابل میں اکڑا ہوا ہے۔ ان کے بچوں کے لئے سپیشل کلاس لگانے پر آمادہ نہیں۔ عام درس میں نمایاں اور مخصوص جگہ دینے کو تیار نہیں۔ ان کے ہدایا اور تحائف کو پوری بے نیازی کے ساتھ ٹھکرا دیتا ہے اور ان کے دربار میں بھول کر بھی حاضر نہیں ہوتا۔ اگر کبھی حاضری کے لئے مجبور بھی کیا جاتا ہے تو وہ کھری کھری سناتا ہے کہ بلائیں ٹوٹ پڑتی ہیں۔کیا یہی ’لچھن‘ ہوتے ہیں سازشیوں کے…؟
آخر یہ کیسا نادان ’سازشی ٹولہ‘ تھا کہ جن سیاسی مصالح کے حصول کے لئے اس نے اتنی خطرناک سازش رَچائی تھی، انہی سیاسی مصالح کے خلاف برسرپیکار رہا اورا س رستے میں جو جو مصیبتیں جھیلنی پڑیں نہایت ہی استقلال کے ساتھ جھیلتا رہا۔
اس ’ایرانی سازش‘کا ایک اور پہلو بھی خاصا دلچسپ ہے۔ اس سازشی ٹولے کی جمع کی ہوئی کتب احادیث میں ایسی احادیث بھی ہیں جن میں قبیلوں، قوموں اور ملکوں کے فضائل و مناقب یا خرابیاں اور کمزوریاں بھی بیان کی گئیں ہیں۔ اس قسم کی احادیث میں حجاز کو ’دین کی پناہ گاہ‘ کہا گیا ہے۔ (بخاری ومسلم وغیرہ)۔
یمن کو ’ایمان و حکمت کا مرکز‘ قرار دیا گیا ہے (ایضاً)… شام کو اسلام کی چوٹی کی ’شخصیتوں کامرکز‘،’ اللہ کی منتخب کی ہوئی زمین‘ اور ’اسلام کامستحکم قلعہ‘ کہا گیا ہے اور اس کے لئے دعائیں کی گئی ہیں۔ (بخاری، مسلم، ابوداوٗد، ترمذی، مسنداحمد)
آپ کو معلوم ہے کہ مشرق کو عموماً اور ایرانیوں کے مرکز ِاقتدار (عراق) کو خصوصاً، احادیث میں کیامقام عطا ہوا ہے؟ اسے فتنہ و فساد کا مرکز اور اُجڈوں اور اَکھڑوں کامسکن قرار دیا گیا ہے۔اس پر قدرتی آفات اور تباہیوں کی آمد کی پیشین گوئی کی گئی ہے اور اسے ابلیس کی قضائے حاجت کا مقام بتلایا گیا ہے۔ (بخاری، طبرانی وغیرہ)۔ اگر ایک آدھ حدیث میں اہل ایران سے متعلق کوئی فضیلت آبھی گئی ہے تو صرف چند افراد کے لئے رجال من ھولاء۔
بتائیے! آخر یہ کیسے ’بدھو‘ قسم کے ’سازشی‘ لوگ تھے کہ سارے فضائل و کمالات تو عطا کردیے اپنے عرب دشمنوں کو؟ اور ساری پستی اور خرابی منتخب کرلی، اپنے لئے اور اپنے آقاؤں کے لئے؟ کیاسازش اسی طرح کی جاتی ہے؟ اور کیا ایسی ہی اُلٹی سیدھی تدبیروں سے سیاسی بالادستی حاصل ہوتی ہے؟
بریں عقل و دانش بباید گریست


4 comments:



  1. من گھڑت اور جعلی احادیث کی بنیادی بدعنوانی اس کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جھوٹا جواز ہے۔ احادیث کی جھوٹ کی وجہ سے بہت سے پہلوؤں پر منفی اثر پڑتا ہے جیسے کہ عقیدہ ، مذہبی قانون اور عبادت کا عمل۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جعلی احادیث کو گھڑنا پہلی صدی ہجری کے وسط میں شروع کیا گیا تھا۔ کوفہ ، عراق ، یمن ، بصرہ ، شام ، خراسان وغیرہ حدیث سازی کے مراکز تھے۔ ہجرہ کی دوسری صدی کے آغاز میں جعلی احادیث کا گھڑنا عروج پر تھا۔

    عراق ، بصرہ ، کوفہ ، بغداد ، شام ، خراسان ، یمن وغیرہ میں ہجری کی دوسری صدی کے آغاز کے بعد سے 6500 سے زائد (چھ ہزار پانچ سو) راوی احادیث کے گھڑنے میں دن رات مصروف تھے۔ مساجد ، گلیوں ، بازاروں ، پارکوں میں وہ من گھڑت اور جھوٹے لوگوں نے قال رسول اللہ کی بلند آوازوں سے لوگوں کو جمع کیا اور پھر من گھڑت احادیث پڑھنا شروع کیں۔

    دوسری صدی ہجری کے وسط میں ، ان جھوٹے اور دھوکہ باز محدثوں نے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ من گھڑت احادیث بنائیں جو کہ دن بدن بڑی مقدار میں بڑھ رہی تھیں۔


    اسناد کے بغیر حدیث کا حوالہ دینا اب ایک فیشن ہے ، لوگوں کے پاس اسناد ، متون اور درایت کے بارے میں علم کی سطح صفر ہے لیکن وہ اپنی بری خواہشات پوری کرتے ہیں کہ انہیں حدیث کے بارے میں بہت مذہبی اور علمی سمجھا جائے گا۔ وہ نہیں جانتے کہ حدیث جعلی اور من گھڑت کہانیوں کی کائنات ہے ، جو خفیہ مجوسی راوی بیان کر رہے تھے۔ ان مجوسی رافضی جھوٹوں کا بنیادی ہدف القرآن ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھی تھے۔

    صحاح ستہ میں تقریبا ایک سو چالیس سے زائد شیعہ ، رافضی راوی ہیں۔ انہوں نے ہزاروں جعلی اور من گھڑت احادیث بیان کیں۔ رافیدیوں اور مجوسیوں نے مضبوط اسناد قائم کرکے احادیث گھڑیں اور ان من گھڑت باتوں کو صحابہ کرام سے جوڑ دیا۔
    حدیث جعلی اور من گھڑت کہانیوں کی کائنات ہے ، جسے مجوسی رافضی نے ایجاد کیا ہے۔


    ان جھوٹوں کا اصل ہدف قرآن ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ رضی اللہ عنہم تھے۔

    احادیث کی کتابیں مرتب کرنے والے قرآن کے دشمن ، حضور کے دشمن اور صحابہ کے دشمن ہیں۔ بخاری ، مسلم وغیرہ رافضی شیعوں کے پیروکار اور حمایتی تھے۔



    شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ احادیث کی کتابیں قرآن کے دشمنوں ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کی پناہ گاہیں ہیں۔ احادیث میں زہریلے مجوسی ہیں ، رافضی شیعہ سانپ چھپے ہوئے ہیں جن کی شناخت غیر فرقہ وارانہ اور غیر جانبدار احادیث کے ماہرین ہی کر سکتے ہیں۔


    جیسا کہ میں نے کہا ، وہ تمام لوگ جو ان تمام شیطانی ، جعلی اور گمراہ کن بیانیوں پر یقین رکھتے ہیں وہ اسلام کے مجرم ہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جنہیں "علمائے اسلام" سمجھا جاتا ہے۔


    آخر میں ، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بخاری ، مسلم ، الترمذی ، ابوداؤد ، نسائی اور ابن ماجہ کے چھ مجموعوں کی صداقت بہت زیادہ مشکوک ہے۔ ان سب کو مجوسیوں ، رافضیوں اور شیعوں کی ہزاروں جعلی اور من گھڑت روایات کو اپناتے ہوئے شرم نہیں آئی۔

    ReplyDelete
  2. فتنہ انکار قرآن۔

    فتنہ انکار قرآن ، کب اور کیوں؟

    جعلی احادیث کے گھڑنے والے مجوسی رافضی تھے جو اسلام کے خلاف اپنی شیطانی اور گندی خواہشات دکھا رہے تھے۔ صحاح ستہ مرتب کرنے والے بھی ان جیسے تھے جیسا کہ انہوں نے ان شیطانی مجوسی جھوٹوں سے جعلی اور من گھڑت روایات لی تھیں۔
    سینکڑوں سالوں میں ، نام نہاد جعلی اور من گھڑت حدیثوں کے مجموعے "صحاح ستہ" بہت زیادہ گندگی پھیلارہے ہیں جسے صاف کرنا آسان ہے۔
    مجوسیوں اور رافضیوں کے ایجنٹ اب بھی سلفیوں ، دیوبندیوں ، ندویوں وغیرہ کے بھیس میں کام کر رہے ہیں۔
    مجوسی رافضی نے ان مجرموں کے پیچھے بہت بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔
    ان مجرموں کا نقاب اتارنے کے لیے صرف ایک مثال کافی ہے ، مہدی کی جعلی اور من گھڑت روایات جو ان کی گندی کتابوں میں بیان کی گئی ہیں۔
    ابن سیرین ، نعیم بن حماد ، تمام صحاح ستہ مرتب وغیرہ رافضی مجوسیوں کی ان جعلی اور من گھڑت روایات کو اختیار کر رہے تھے۔
    ان کے بعد ان مجوسی رافدیوں کے تمام پیروکار یعنی مجدد الف ثانی ، شاہ ولی اللہ ، انور شاہ کشمیری ، حسین احمد مدنی ، نظام الدین شامزئی ، یوسف لدھیانوی ، طارق جمیل ، ناصر الدین البانی ، زبیر علی زئی ، طاہر القادری ، اور بہت سے دوسرے فرقہ پرست اس جعلی اور من گھڑت گندگی کو اپنایا ہے۔

    ReplyDelete

  3. سینکڑوں سالوں میں نام نہاد حدیثوں کے مجموعے "صحاح ستہ" نے بہت زیادہ گندگی پیدا کی جسے صاف کرنا آسان ہے۔
    مجوسی رافدیوں کے ایجنٹ اب بھی سلفیوں ، دیوبندیوں ، ندویوں وغیرہ کی بھیس میں کام کر رہے ہیں۔
    مجوسی رافدیس نے ان غلیظ مجرموں کے پیچھے بہت بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔
    ان مجرموں کا نقاب اتارنے کے لیے صرف ایک مثال کافی ہے ، مہدی کی جعلی اور من گھڑت روایات جو ان کی گندی کتابوں میں بیان کی گئی ہیں۔
    ابن سیرین ، نعیم بن حماد ، تمام صحاح ستہ مرتب و غیره رافضی مجوسیوں کی ان جعلی اور من گھڑت روایات کو اختیار کر رہے تھے۔
    ان کے بعد ان مجرموں کے تمام پیروکار یعنی مجدد الف ثانی ، شاہ ولی اللہ ، انور شاہ کشمیری ، حسین احمد مدنی ، نظام الدین شامزئی ، یوسف لدھیانوی ، طارق جمیل ، ناصر الدین البانی ، زبیر علی زائی ، طاہر القادری اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔
    یہ مجوسی رافیدیوں کی بڑی سرمایہ کاری کا معجزہ ہے۔

    ابن شہاب زہری ، جو 50 ھ میں پیدا ہوئے ، 123 ھ میں فوت ہوئے ، "جعلی حدیث کی تشکیل" کے شعبہ کے سربراہ تھے۔ اگر کسی نے اس سے سوال پوچھا تو اس نے تین اقسام کا جواب دیا۔ اس نے درجنوں جعلی راوی ایجاد کیے اور جعلی احادیث کو ان مشتبہ راویوں سے جوڑ دیا۔
    وہ جعلی احادیث گھڑنے کے لیے بنی امیہ حکمرانوں کے خصوصی مشیر تھے۔ صحاح ستہ مرتب کرنے والوں نے ابن شہاب زہری سے ہزاروں جعلی احادیث لیں اور ان جعلی احادیث کو مسلمانوں میں پھیلایا۔

    ReplyDelete
  4. صحاح ستہ میں ہزاروں جعلی اور من گھڑت احادیث پائی جاتی ہیں ، بعض اعلیٰ درجے کی جعلی روایتیں جو کہ غلیظ مجوسی رافضیوں نے گھڑی تھیں۔

    الحديث المتعة
    اللحوم والحبر
    الحديث قرطاس وقلم
    حدیث سحر على النبي صلى الله عليه وسلم
    حديث لوح فاطمة
    حدیث الثقلین
    حديث مهدي
    جميع الأحاديث عن آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَقِيلٍ وَآلُ جَعْفَرٍ وَآلُ عَبَّاسٍ
    حدیث المنزلة
    لَاوَاِنِّیْ اَوْتیت الْقُرْاٰنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ
    حَدِيثُ اَلكِسَاء
    اثنا عشر خلفاً
    كل الروايات عن الحروف وقراءات القرآن
    أحاديث الفتن والملاحم

    ReplyDelete