Friday, September 16, 2016

QURAN KE ILAWA WAHI




آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی باتیں بتاتے ہوئے بارہا ایسی وحی کا ذکر فرمایا ہے جو ہمیں قرآن کریم میں نہیں ملتی، اس قسم کی روایات اس کثرت سے ملتی ہیں کہ ان کی قدر مشترک تواتر کے درجے میں ہے اور قطعیت کا فائدہ بخشتی ہے اوریہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالی آپ کے قلب اطہر پر وہ وحی بھی اتارتے تھے،جو باقاعدہ تلاوت کا درجہ نہ پاتی تھی اوراس کے باوجود وہ وحی خداوندی ہی سمجھی جاتی تھی وہ الفاظ میں ہمارے سامنے نہیں آئی، اس وحی کو وحی غیر متلو Unwarded revelation کہتے ہیں قرونِ ثلثہ جن کے خیر ہونے کی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی، ان میں کسی ممتاز علمی شخصیت نے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دین و شریعت کے طورپر بات کہی اوراس میں وحی والہام Divine ispiration کا دخل نہ تھا،بلکہ ہر ایک کا عقیدہ یہی رہا کہ اس میں وحی کا عنصر ضرور شامل ہے،قرآنی وحی وحی متلو ہے اور حدیث نبوی وحی غیر متلو اورہر دو کا مصدر ومنبع اللہ رب العزت کی ذات ہی ہے۔
حدیث کی تقریبا ًہر کتاب میں اس پر واضح شہادتیں موجود ہیں، یہ روایات اور شہادات اتنے مختلف ابواب اورمختلف وقائع کے ذیل میں ملتی ہیں کہ انہیں کسی سازش یا کسی وضع انسانی کا نتیجہ نہیں سمجھا جاسکتا کہ چند انسانوں نے کسی اسکیم کے تحت حدیث کے بارے میں یہ تصور پیدا کردیا ہو، ہر طبقہ فکر اور ہر فقہی مسلک کا اس پر متفق ہونا اور پھر ذخیرہ ٔحدیث میں اس پر لاتعداد شواہد ملنا اس اصولی نظریئے کی قطعیت کا پتہ دیتا ہے اورتو اور شیعہ محدثین جو جمہور اہل اسلام سے بالکل ہی علیحدہ راہ پر چلے ان کے ہاں بھی بے شمار روایات اس قسم کی ملتی ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتاری اور وہ وحی غیر متلورہی اوراب اسے وحی حدیث کہتے ہیں۔ باوجود اتنے اصولی اختلافات کے اس ایک نقطہ پر ایک رائے ہونا اس موضوع کی اصولی اور قطعی حیثیت کا پتہ دیتا ہے۔ 
اس وقت اس قسم کی روایات کے استقصاء کی تو گنجائش نہیں؛ البتہ چند نظائر یہاں پیش کی جاتی ہیں، ان میں وہ احادیث بھی ہوں گی جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انہی احادیث کے لیے وحی وانباء کے الفاظ استعمال کئے ہیں ان میں بعض میں جبرئیل امین کے آنے کی بھی تصریح ہے، بعض میں ان کے لیے امر الہٰی اور امر ربی جیسی تعبیرات ہیں اور کہیں کہیں ان کا براہ راست اللہ رب العزت کے نام سے مذکور ہونا اس وحی خدا وندی کا پتہ دے رہا ہے، اسے ہم وحی غیر متلو کہتے ہیں جس کی تلاوت الفاظ کی پابندی سے امت میں جاری نہ ہوئی، اس بات کے ثبوت میں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی غیر متلو بھی ہوتی رہی ائمہ اربعہ، جملہ اکابر محدثین، ائمہ تفسیر اور فقہائے کرام کا اتفاق ہے،بلکہ یوں سمجھئے کہ یہ بات اسلام میں متواتر طور سے ثابت ہے گو تو اتر قدر مشترک کے درجہ میں ہو، اب ہم اس پر چند شواہد پیش کرتے ہیں۔

وحی غیر متلو میں حضرت جبرئیل امین کی آمد

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی غیر متلو کی آمد میں صرف وحی کے الفاظ ہی نہیں ملتے، کئی روایات میں جبرئیل امین کی آمد بھی صریح طور پر مذکور ہے،اس قسم کی روایات بھی درجہ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں اورتقریبا ًہر مجتہد اورمحدث کے ہاں اس کی شہادتیں ملتی ہیں اور یہ بات انتہائی پختہ اورصحیح ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی غیر متلو(وحی حدیث) بھی لاتے رہے۔

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل ایک جوان مرد کی صورت میں حاضر ہوئے اور کہا السلام علیک یا رسول اللہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وعلیک السلام (اورتجھ پر بھی سلام ہو)..... حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جبرئیل تھے جو تمہارے پاس اس لیے آئے تھے کہ تمھیں دین کے معالم (ضروری نشانوں کی ) تعلیم دیں۔(مسند امام اعظم ابی حنیفہ:۳۲)
اسی طرح کی اور بھی بہت ساری شہادتیں ہیں جو آپ مندرجہ ذیل کتابوں میں دیکھ سکتے ہیں۔
(موطا امام مالک:۲۲۴/۱۔ موطا امام مالک:۱۷۳۔ موطا امام محمد:۱۹۸۔ مسند الشافعی:۱۲۳۔ موطا امام محمد:۳۹۱۔ مسندالشافعی:۷۱)

امرنی ربی وغیرہ کے الفاظ
۱
"عَنْ عِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ الْمُجَاشِعِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ذَاتَ يَوْمٍ فِي خُطْبَتِهِ أَلَا إِنَّ رَبِّي أَمَرَنِي أَنْ أُعَلِّمَكُمْ مَا جَهِلْتُمْ مِمَّا عَلَّمَنِي يَوْمِي هَذَا"۔

ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا،مطلع رہو مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس بات کی خبر دوں جس سے تم ناواقف تھے، مجھے آج میرے رب نے وہ باتیں بتائی ہیں۔ (صحیح مسلم،باب الصفات التی یعرف بھا فی الدنیا،حدیث نمبر:۵۱۰۹)

عَنْ أَنَسٍ يَعْنِي ابْنَ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا تَوَضَّأَ أَخَذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَأَدْخَلَهُ تَحْتَ حَنَكِهِ فَخَلَّلَ بِهِ لِحْيَتَهُ وَقَالَ هَكَذَا أَمَرَنِي رَبِّي "۔

ترجمہ: حضور جب وضو فرماتے تو پانی کا ایک چلو لیتے، اسے اپنی ٹھوڑی کے نیچے لاکر اس سے ڈاڑھی کا خلال کرتے،آپ نے فرمایا: مجھے اس طرح کرنے کا میرے رب نے حکم دیا ہے۔(سنن ابی داود،باب تخلیل اللحیۃ،حدیث نمبر:۱۲۴)

۳)"عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ بِمَحْقِ الْمَعَازِفِ وَالْمَزَامِيرِ وَالْأَوْثَانِ وَالصُّلُبِ وَأَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ"۔)

ترجمہ: مجھے میرے رب نے گانے بجانے کی چیزوں،آلات ساز، بتوں،صلیبوں اورجاہلیت کی باتوں کو مٹانے کا حکم دیا ہے۔(مسنداحمد،باب حدیث ابی امامۃ الباھلی الصدی،حدیث نمبر:۲۱۲۷۵)

اور بھی کئی مثالیں ملتی ہیں کہ اللہ رب العزت وحی متلو (قرآن کریم) کے علاوہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمکلام ہوئے،آپ نے خدا وند تعالی سے صرف قرآن کریم ہی نقل نہیں کیا، آپ نے خدا تعالی کی طرف سے بہت سی احادیث بھی بیان کیں،آپ خود ارشاد فرماتے ہیں:

ترجمہ: جب میں تمہارے سامنے خدا سے کوئی بات (حدیث) نقل کروں تو اسے لے لیا کرو، میں خدائے عزوجل پر کوئی غلط بات نہیں کہتا۔(مسلم،باب وجب امتثال ما قالہ شرعادون،حدیث نمبر:۴۳۵۶)

آپ کو طبعاً اگر کوئی چیز ناپسند ہوئی آپ نے اس سے اجتناب فرمایا تو صاف کہا میرا یہ طبعی تقاضاہے خدا کے دین میں یہ حرام نہیں ہے،آپ نے ارشاد فرمایا
ترجمہ :اے لوگو!مجھے اس چیز کے حرام کرنے کا اختیار نہیں جسے اللہ نے حلال کیا ہے لیکن یہ ایک ایسی سبزی ہے جس کی بو مجھے ناپسند ہے (اس لیے میں اسے نہیں کھاتا)۔ (صحیح مسلم،باب نھی من اکل ثوما اوبصلا ،حدیث نمبر:۸۷۷)
اس حدیث میں آپ نے خدا کی بات لفظ حدیث (حدثتکم) سے نقل کی ہے؛ سو اس میں کوئی شک نہیں کی حدیث کا مبدا بھی اللہ رب العزت ہیں اور اس سے حضورﷺ کی زبان اور عمل پر یہ فیضان جاری ہوا ہے۔

No comments:

Post a Comment