Saturday, September 10, 2016

WAHI MATLU AUR GHAIR MATLU






آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا ماخذ" الہٰی ہدایت" Divine quidance ہے، اللہ تعالی نے قرآن کریم کے علاوہ بھی آپ کی فکرو نظر کو قدسی جلا بخشی تھی اورآپ کے اعمال میں بھی اپنی وحی اتاری تھی، جس طرح علم الکتاب معصوم ہے، اسی طرح پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی بھی معصوم ہے،علم الکتاب میں الفاظ و معنی دونوں معصوم ہیں، علم الآثار میں صرف معنی مراد محفوظ ہیں،الفاظ کی حفاظت اس میں لازمی نہیں، روایت بالمعنی سے بھی الہٰی حفاظت کا یہ وعدہ پورا ہوجاتا ہے۔

ہمارے پاس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرات صحابہ کرامؓ کی قوی شہادتیں موجود ہیں، جن سے یہ بات ثابت Bestablished ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالی قرآن پاک کے علاوہ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی وحی سے بارہا نواز تے رہے،اسی وحی غیر متلو (وہ وحی جس کی تلاوت جاری نہیں ہوئی ) کو ہم حدیث کہتے ہیں۔ یہ وہ وحی ہےجس کے ذریعہ قرآن کریم میں بیان کردہ اصولوں کی تفصیلات اور ان کی صحیح تشریح وتعبیر سمجھائی جاتی تھی، یہ قسم لوگوں تک لفظ بلفظ نہیں پہنچائی گئی؛ بلکہ اس کے رسول کے ارشادات وافعال کے ذریعہ ظاہر کیا گیا۔

حدیث کے الہامی ہونے پر قرآن پاک کی شہادتیں 

قرآن کریم کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی قرآن کے علاوہ بھی کلام فرماتے تھے اور بارہا آپ پر وحی غیر متلو Revelation unworded اترتی تھی. اس وحی غیر متلو کے لیے اس وحی متلو(قرآن کریم) میں کئی جگہ حوالہ Reference ملتا ہے ؛مگر جس بات کی طرف حوالہ دیا جارہا ہے وہ بات قرآن کریم میں نہیں ملتی۔

پہلی شہادت:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی ایک زوجہ سے پردے میں ایک بات کہی اور تاکید کی کہ وہ اسے کسی دوسروں کے سامنے ظاہر نہ کریں؛ لیکن ہوا یہ کہ ان سے اس پر قابو نہ رہ سکا اورانہوں نے اسے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے ذکر کردیا، اللہ تعالی نے آپ کو خبر دے دی کہ آپ کی زوجہ نے دوسری بی بی سے وہ بات کردی ہے،قرآن کریم آپ کی اس بیوی کے دوسری بیوی سے بات کرنے کی یوں خبر دیتا ہے۔
 
ترجمہ: اورجب نبی نے اپنی کسی بی بی سے ایک حدیث پر دے میں کہی تھی پھر جب اس نے (دوسری بی بی سے )اس کی خبر کردی اوراللہ تعالی نے آپ پر اسے ظاہر کردیا تو آپ نے اس میں سے کچھ بات جتلادی اورکچھ سے درگزرفرمایا،پھر جب آپ نے وہ بات، اس بی بی کو جتلائی تو اسنے پوچھا آپ کوکس نے یہ بات بتلائی ہے؟ آپ نے فرمایا مجھے علیم و خبیر نے خبر دی ہے۔ (التحریم:۳)

اللہ،علیم خبیر نے جو خبردی تھی وہ وحی غیر متلو تھی، یہ وحی خدا وندی قرآن کریم میں نہیں ملتی؛ لیکن اس کی طرف یہاں حوالہ Refernece موجود ہے؛ لیکن جس وحی کی یہاں حکایت ہے وہ قرآن کریم میں کہیں مذکور نہیں۔قرآن کریم کی اس آیت سے پتہ چلا کہ اللہ تعالی علیم و خبیر وحی قرآنی کے سوا بھی آپ سے کلام فرماتے تھے اورآپ کو کئی باتوں کی اس طرح خبر دیتے تھے کہ وہ بات ہمیں قرآن کریم میں مذکور نہیں ملتی،

دوسری شہادت

پھر یہ صرف اخبار (خبروں) میں ہی نہیں،احکام (کرنے والے کاموں) میں بھی بہت سے ایسے حکم نازل ہوئے جن کی وحی متلورہی ہے،مدینہ منورہ کے مشرقی جانب چند میل کے فاصلے پر بنو نضیر (یہود) آباد تھے۔انہوں نے مسلمانوں سے عہد شکنی کی،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جنگ کا ارادہ فرمایا: یہ لوگ اپنے مضبوط قلعوں میں جابیٹھے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی کہ ان کے درخت کاٹے جائیں اورباغ اجاڑے جائیں؛ تاکہ یہ لوگ بے چین ہوکر قلعوں کے دروازے کھول دیں اورحالات کے چہرے سے نقاب اُٹھ جائے؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا، جنگ کی نوبت نہ آئی اور یہ لوگ وہاں سے خیبر کی طرف نکال دیئے گئے،قرآن کریم میں اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے:

ترجمہ: اور(اس دن) جو کاٹ ڈالے تم نے کھجور کے درخت یا انہیں اپنی جڑوں پر کھڑے رہنے دیا سو (یہ سب) اللہ کے حکم سے تھا۔ (الحشر:۵)
قرآن کریم میں اللہ کا یہ حکم کہیں نہیں ملتاکہ"یہ درخت کاٹ دیئے جائیں اوریہ رہنے دیئے جائیں۔ وہ حکم خدا وندی جس کے تحت درختوں کے کاٹنے کا یہ عمل کیا گیا تھا وحی غیر متلو تھی جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں القاء ہوئی تھی۔

تیسری شہادت

قرآن کریم کی یہ موجودہ ترتیب رسولی ہے نزولی نہیں،ترتیب نزولی اور ترتیب رسولی میں فرق ملحوظ رکھئے۔آنحضرتﷺ پرغارِ حرا میں جو پہلی وحی نازل ہوئی تھی وہ"اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ" (العلق:۱) تھی لیکن قرآن میں موجودہ ترتیب میں "بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ" کے بعد "أَلْحَمْدُ الِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ" سب سے پہلی آیت ہے۔حضوراکرمﷺ پر جب کوئی آیت اتر تی تو آپﷺ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوہدایت دیتے کہ اسے فلاں فلاں سورت میں لکھ دو۔ (ترمذی:۲/۳۶۸،)
سورتوں میں آیات کہاں کہاں لکھی جائیں یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں ہوتا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمازوں میں قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو اسی ترتیب سے پڑہتے، جو قرآن پاک کی موجودہ ترتیب ہے (سنن ابی داؤد:۱/۱۲۷) اوراسی ترتیب سے ہر سال حضرت جبرئیل امینؑ رمضان میں آپﷺ کے ساتھ قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔قران کریم کی جمع وترتیب میں اتنی اہم تبدیلی کس کے حکم سے ہوئی؟ کیا حضورﷺ پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے اس میں کسی تبدیلی کے مجاز تھے؟ ہر گز نہیں قرآن کریم میں ہے:

ترجمہ: ان لوگوں نے جو ہم سے ملاقات کی امید نہیں رکھتے(پیغمبر سے) کہا کہ کوئی اور قرآن لے آو، یا اسے کچھ تبدیل کردیں، اے پیغمبر !آپ کہہ دیجئے میرے اختیار میں نہیں کہ میں اسے بدل ڈالوں، میں تو وہی کچھ کرتا ہوں جو مجھے حکمدیا جاتا ہے، میں ڈرتا ہوں اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں بڑے دن کے عذاب سے (یونس:۱۵،۱۷)

قرآن کریم نے بتلایا کہ آپﷺ نے جو کچھ کیا وہ وحی خدا وندی کے تحت تھا، کتاب کی ترتیب کو بدل دینا بہت اہم بات ہے، کوئی جزوی بات نہیں جسے آسانی سے نظر انداز کیا جاسکے، کسی تحریر اورکتاب کی ترتیب اس تحریر یا کتاب کی ذات ہوتی ہے، سو آپ نے قرآن پاک کی ترتیب میں جو عمل اختیار کیا وہ سب وحی خدا وندی کے تحت تھا، آپ کی تلاوت (جس ترتیب سے واقع ہوئی) وہ سب اللہ تعالی کے حکم سے تھی اوراللہ تعالی نے ہی آپ کو اس دوسری ترتیب اختیار کرنے کا حکم دے رکھا تھا ۔اب سوال یہ ہے کہ وہ حکم خداوندی جس کے تحت ترتیب کی یہ تبدیلی عمل میں آئی قرآن کریم میں کہا ں ہے؟ یہ وحی ہمیں قرآن پاک میں نہیں ملتی ۔عجیب بات یہ ہے کہ اس وحی غیر متلو کا انکار کرنے والے بھی قرآن کی موجودہ ترتیب سے اتفاق رکھتے ہیں ۔

چوتھی شہادت

قرآنِ کریم میں ہے:
"
وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَالَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا"۔(النساء:۱۱۳)
ترجمہ:اوراللہ تعالیٰ نے اُتاری آپ پر کتاب اور حکمت اور آپ کوسکھایا وہ جوآپ نہیں جانتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا آپ پربڑا فضل ہے۔

اسی آیت میں 'نزولِ کتاب' سے علیحدہ ، الگ اور مستقل' نزول حکمت' کا ذکر ہے ۔یہ کتاب سے اضافی چیز ہے اور رسول اللہ پر اس کا نزول بھی ہوا ہے، یہ تعلیم قرآن کریم کے ذریعہ یاوحی غیرمتلو کے واسطے سے ملنے والی تمام ہدایات کو شامل ہے۔

پانچویں شہادت

"
يَسْأَلُونَكَ مَاذَاأُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَمَاعَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّاعَلَّمَكُمُ اللَّهُ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ"۔ 

ترجمہ:لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کونسی چیزیں حلال ہیں؟ کہہ دو کہ تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں اور جن شکاری جانوروں کوتم نے اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سکھا سکھا کر (شکار کے لیے) سدھالیا ہو، وہ جس جانور کو(شکار کرکے) تمہارے لیے روک رکھیں، اس میں سے تم کھاسکتے ہو اور اس پر اللہ کا نام لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (المائدہ:۴) (توضیح القرآن، آسان ترجمہ قرآن:۱/۳۲۵، مفتی تقی عثمانی،مطبع:فرید بکڈپو، دہلی)

سورۃ المائدہ نزول میں آخری سورتوں میں سے ہے؛ 

یہاں "مِمَّاعَلَّمَكُمُ اللَّهُ" میں ایک ایسی تعلیم کی حکایت کی گئی ہے جواس سے پہلے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کودے چکے ہیں، وہ تعلیم کیا تھی؟ شکاری کتا سدھانے کے آداب کہ (۱)کتا خود چھوڑا گیا ہو (۲)خدا کا نام لے کر چھوڑا گیا ہو (۳)وہ اپنے کھانے کے لیئے منہ نہ ڈالے (۴)وہ شکار کوزخم بھی کرے (یہ شرط لفظِ جرح سے ماخوذ ہے) یہ تعلیم اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کس نے دے رکھی تھی؟ قرآنِ کریم میں کیا یہ تعلیم موجود ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کیا اسے "عَلَّمَكُمُ اللَّهُ" کہہ کر ماضی میں ذکر نہیں کیا؟ آگے اس تعلیم کودہرایا گیا ہے۔ یوں سمجھئے جس وحی غیرمتلو کی "مِمَّاعَلَّمَكُمُ اللَّهُ" میں حکایت تھی، اس محکی عنہ (جس بات کی طرف حوالہ دیا جارہا ہے)کوآگے وحی متلو میں دہرایا گیا ہے "فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ" میں اسی کا اعادہ ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وحی غیرمتلو کوکبھی وحی متلو بھی دہرادیتی ہے، حدیث تعلیم خداوندی پر مبنی نہ ہو تو "مِمَّاعَلَّمَكُمُ اللَّهُ" کا محکی عنہ تواس سے پہلے قرآن کریم میں کہیں موجود نہ تھا۔

چھٹی شہادت

"وَإِذْيَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ"۔(الانفال:۷)
ترجمہ:اور وہ وقت یاد کروجب اللہ تم سے یہ وعدہ کررہا تھا کہ دوگروہوں میں سے کوئی ایک تمہارا ہوگا اور تمہاری خواہش تھی کہ جس گروہ میں (خطرے کا) کوئی کانٹا نہیں تھا، وہ تمھیں ملے اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے اَحکام سے حق کوحق کردِکھائے اورکافروں کی جڑکاٹ ڈالے۔
(توضیح القرآن، آسان ترجمہ قرآن:۱/۵۲۴، مفتی تقی عثمانی،مطبع:فرید بکڈپو، دہلی)

یہ دوجماعتیں کون سی تھیں؟ ایک وہ عظیم تجارتی قافلہ جومکہ سے گیا تھا اور مالِ تجارت لے کر آرہا تھا، دوسری جواس قافلے کی مدد کے لیئے مسلح ہوکر مکہ سے نکلی تھی یہ پرشوکت جماعت تھی مسلمان چاہتے تھے کہ مشرکین کی ان دوجماعتوں میں سے پہلے انہیں بن شوکت والے طائفہ سے واسطہ پڑے، یہ سب بیان جنگ بدر سے متعلق ہے۔

اِس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک صریح وعدے کا ذکر کیا جارہا ہے وہ وعدہ قرآن کریم میں کہاں ہے اور کیا تھا؟ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے اس وعدے کا کہیں ذکر نہیں ملتا؛ مگرقرآنِ کریم میں اس کی طرف حوالہ (Reference) ضرور موجود ہے، وہ وعدہ وحی غیرمتلو کے ذریعہ ہوا تھا اور حضور اکرمﷺ نے صحابہؓ کواس کی خبر دی تھی، جب وہ وعدہ قرآن کریم میں کہیں موجود نہیں توہم یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ حضورِ اکرمﷺ پرقرآن کریم کے علاوہ بھی وحی آتی رہی؛ اسی وحی غیرمتلو کوحدیث کہتے ہیں۔

ساتویں شہادت

وَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّالِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ۔(البقرۃ:۱۴۳)

ترجمہ:اور جس قبلے پرتم تھے اس کوہم نے اس لیے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں کہ کون پیغمبر کے تابع ہے اور کون الٹے پاؤں پھرجاتا ہے۔
اس آیت کریمہ کاپس منظر یہ ہے کہ جب نبی کریمﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تھے، ابتدائی سترہ ماہ بیت المقدس کی جانب قبلہ رو ہونے کا حکم ہوا؛ پھرسترہ ماہ بعد قرآنِ کریم نے بیت المقدس کی جانب قبلہ روہونے کے حکم کومنسوخ کرکے مسلمانوں کے لیے مسجدِ حرام کوقبلہ قرار دیا اور اس طرف رُخ کرنے کا حکم ہوا؛ اسی کویوں ارشاد فرمایا گیا:

فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ(البقرۃ:۱۴۴)

ترجمہ:آپ اپنے چہرے کومسجدِ حرام کا رُخ کرلیجئے۔

اب پہلی آیت ملاحظہ کیجئے اس میں بیت المقدس کوجومدنی زندگی کے ابتدائے ایام میں مسلمانوں کے لیے قبلہ قرار دیا گیا تھا، اس کی نسبت اللہ عزوجل نے اپنی طرف کی ہے کہ جس قبلہ پرتم تھے اس کوہم نے مقرر کیا تھا حالانکہ قرآن کریم میں شروع سے اخیر تک کہیں بھی اللہ عزوجل کی جانب سے بیت المقدس کوبطورِ قبلہ مقرر کیے جانے کا ذکر نہیں۔سولامحالہ اس سلسلے میں آپ کی طرف وحی آئی، جب وہ وحی قرآنِ پاک میں مذکور نہیں تواس یقین سے چارہ نہیں کہ آپ پرقرآنِ کریم کے علاوہ بھی وحی آتی رہی، اسی وحی کووحی غیرمتلو کہتے ہیں۔

آٹھویں شہادت

أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَاكَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۔ (ابقرۃ:۱۸۷)

ترجمہ:روزوں کی راتوں میں تمہارے لیے اپنی عورتوں کے پاس جائز کردیا گیا ہے وہ تمہاری پوشاک میں اور تم ان کی پوشاک ہو، خدا کومعلوم ہے کہ تم اپنے حق میں خیانت کرتے تھے؛ سواس نے تم کومعاف کیا اور تمہاری حرکات سے درگذر فرمائی، اب (تم کواختیار ہے کہ) ان سے مباشرت کرو اور خدا نے جوچیز تمہارے لیے لکھ رکھی ہے اس کو(خدا سے) طلب کرو اور کھاؤ اور پیؤ؛ یہاں تک کہ صبح کی سفیددھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے؛ پھرروزہ رات تک پورا کرو۔

اس آیتِ کریمہ کا پس منظر یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں روزے کے حوالے سے ایک حکم یہ بھی تھا کہ اگرکوئی مسلمان رمضان کی رات میں کچھ دیر کے لیے بھی سوجاتا تواس کے لیے پھر کھانے پینے اوربیوی سے ہم بستری کی اجازت نہ ہوتی تھی؛ حالانکہ وہ اس وقت روزے کی حالت میں نہیں ہوتا تھا، بعض لوگوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی اور سونے کے بعد بیویوں سے ہم بستری کرلیا تواللہ عزوجل نے اس حکم کی خلاف ورزی پراوّلاً توعتاب کا اظہار کیا اور پھراس کے منسوخ ہونے اور سونے کے بعد سحری کا وقت ختم ہونے سے پہلے تک بیویوں سے ہم بستری کی اجازت کا حکم دیا۔ اس سے پتہ چلا کہ اس آیت کے نزول سے پہلے رمضان کی راتوں میں سونے کے بعد بیویوں سے ہم بستری منع تھی یہ حکم بھی کوئی واجب الاطاعت ذات کی طرف سے تھا اور یہ ذات رسول کی تھی اور یہ بھی وحی جس کوقرآن کے ذریعہ منسوخ کیا گیا اور یہ وحیٔ غیرمتلو تھی۔

نویں شہادت

لَاتُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِo إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُoفَإِذَاقَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُo ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ۔(القیامۃ:۱۶/تا ۱۹)

ترجمہ:اے پیغمبر! آپ قرآنِ پاک پراپنی زبان نہ ہلایا کیجئے؛ تاکہ آپ اس کوجلدی جلدی لیں، ہمارے ذمہ اس کا جمع کردینا اور اس کاپڑھوادینا، توجب ہم اس کوپڑھنے لگاکریں (یعنی ہمارا فرشتہ پڑھنے لگا کرے) توآپ اس کے تابع ہوجایا کیجئے؛ پھراُس کا بیان کردینا ہمارے ذمہ ہے۔

اس آیتِ کریمہ کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی توضیح وتشریح بھی اپنی ذمہ لیتے ہوئے رسول اللہ سے وعدہ فرمایا کہ آپ سے قرآن کریم کی تشریح بیان کردینا بھی ہمارے ذمے ہیں ؛ یہاں یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ تشریح وتوضیح قرآن کریم سے کوئی جداگانہ شکل اور اس کے الفاظ سے علیحدہ اور ممتاز کوئی چیز ہوگی اور یہی وحی غیرمتلو ہے ۔

دسویں شہادت:

"
وَالَّذِیْنَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌo لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ"۔(المعارج:۲۵،۲۴)

ترجمہ:اور جن کے مال ودولت میں ایک متعین حق ہےo سوالی اور بے سوالی کا۔(توضیح القرآن، آسان ترجمہ قرآن:۳/۱۸۰۱، مفتی تقی عثمانی،مطبع:فرید بکڈپو، دہلی)

قرآنِ کریم نے یہ بات نہیں بتلائی کہ زکوٰۃ کس شرح سے فر ض ہوگی اور کب فرض ہوگی ہرماہ پر یاسال گزرنے پر، اس کا مصرف توبیان کردیا کہ سائل اور محروم قسم کے لوگ ہوں گے؛ لیکن کتنا مال ہوگا جب یہ لازم ٹھہرے گی اور کس کس قسم کے مال پر واجب ہوگی یہ سب باتیں قرآنِ کریم میں کہیں مذکور نہیں۔سوال یہ ہے کہ قرآن کریم نے اسے "حق معلوم" کیسے فرمادیا۔صحیح بات یہ ہے کہ یہ سب تفصیلات اللہ تعالیٰ نے وحی غیرمتلو (Unwarded Revelation) سے حضوراکرمﷺ کوبتلادی تھیں اور آپ نے آگے صحابہؓ کوفرمادی تھیں، حق کیا ہے؟ کتنا ہے؟ اور کب ہے؟ یہ سب کومعلوم ہوچکا تھا، قرآن پاک کی اس آیت میں اسی حق معلوم کی حکایت ہے، حکایت وحی متلو میں ہورہی ہے اور محکی عنہ وحی غیرمتلو میں معلوم ہوا تھا، حدیث کے الہامی ہونے پر قرآن کریم کی یہ ناقابل انکار شہادت بتلارہی ہے کہ آنحضرتﷺ سے اللہ تعالیٰ کی ہمکلامی وحی قرآن کے علاوہ بھی ہوتی تھی۔
"تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ"


1 comment:

  1. بہت عمدہ مثالیں ہیں یہ غائب کا علم رسول الله صلعم کو الله نے دیا . وہی قرآن ہے ججسے لکھا گیا یاد کیا گیا ، رسول الله کے رمیں ہے ہوں یا نہ ہوں ہمارے لیے قابل عزت اور اہتم ہیں - مگر آپ کے فرامین جن کو حدیث کہتے ہیں رسول الله صلعم نے لکھنے سے منا فرما دیا صرف کچھ صحابہ کو کمزور یاداشت پر ذاتی نوٹس کی اجازت دی مگر بہت کو اجازت نہ ملی جیسے ابو ھریرہ ، عبدللہ بن ابباس ، عمر مسودد رضی الله شامل ہیں اگر حدیث کی اتنی ضرورت یا اہمیت ہوتی قرآن کے برابر رو پھر اس کو آگ نہ لگائی جاتی اور کیا یہ بات خلفا راشدین کو بھی نہ معلوم تھی کہ دو صدی بعد امام شافی پر آشکار ہوئی ؟
    مزید تفصیل https://quran1book.wordpress.com/2021/06/09/wahi-ghair-matloo/

    ReplyDelete