دین تب بھی مکمل تھا، لیکن۔۔۔!!!



دین تب بھی مکمل تھا، لیکن۔۔۔!!!



کہتے ہیں کہ سوال سے سائل کے فہم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ زیر میں ایک معترض (اعتراض کرنے والا) کا اعتراض پیش کر رہا ہوں، جس پر غور کرنے سے ہم پہلے یہ دیکھیں گے کہ معترض بذات خود 
کتنے پانی میں ہے اور پھر اس اعتراض کا جواب دیا جائے گا۔

اعتراض
 "ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ نہ امام ابوحنیفہ ہوتے تھے، نہ امام مالک، نہ امام شافعی، نہ امام احمد بن حنبل اور نہ امام بخاری ہوتے تھے، نہ امام مسلم، نہ امام ابو داود، نہ امام ترمذی، نہ امام نسائی اور نہ امام ابن ماجہ۔۔۔ اور دین تب بھی مکمل تھا!!!"

اعتراض کی وضاحت:
اس اعتراض سے معلوم ہوا کہ
11۔ معترض کو تکمیل دین کا صحیح فہم حاصل نہیں، یعنی اسے بالکل خبر ہی نہیں کہ دین کے مکمل ہونے سے مراد کیا ہے!
22۔ معترض نے نہ تو اصول و مسائل فقہ کی کتب کا مطالعہ کیا ہے اور نہ اس کی صحاح ستہ (حدیث کی چھ معتبر ترین کتب یعنی بخاری، مسلم، سنن ابو داود، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، جامع ترمذی)پر گہری نظر ہے۔
33۔ معترض یہ چاہتا ہے کہ تمام مسلمان آئمہ اربعہ ،آئمہ ستہ (صحاح ستہ کے مولفین محدثین عظام) اور کتب فقہ و کتب حدیث سے قطع تعلق کر لیں کیونکہ ان آئمہ حضرات سے پہلے بھی اسلام مکمل تھا لہذا ان آئمہ کرام کی کتب کا مطالعہ فضول ہے۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ پچھلے چودہ سو سال میں تمام مسلمان آئمہ اربعہ(فقہ کے چار امام یعنی امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل) اور آئمہ ستہ اورکتب فقہ و کتب حدیث پر مکمل انحصار کرتے رہے ہیں اور انہیں قبول عام کی سند عطا کی ہے۔ لہذا یہ بات واضح ہو گئی کہ معترض کسی الگ ہی فرقے سے تعلق رکھتا ہے جس کا اسلامی علمی تاریخی تسلسل سے کوئی ربط نہیں پس یہیں یہ ثابت ہو گیا کہ معترض مکمل طور پر گمراہی کے گڑھے میں دھنساہے۔
جان لینا چاہئے کہ اس نئے فرقے کانام "منکرین حدیث" ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ لوگ اگرچہ خود کو مسلمان کہتے ہیں لیکن تمام مسلمانوں کے نزدیک متفقہ طور پر انہیں کافر سمجھا جاتا ہے اور بلاشبہ ان کے کفر میں کسی کو تامل نہیں۔ کیونکہ یہ لوگ حدیث کو بالکل کوئی اہمیت نہیں دیتے بلکہ قرآن پاک میں اپنی مذموم عقل کے تحت معنوی تحریف کرتے ہیں۔( معنوی تحریف سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن پاک کی من مانی تفسیر کر کے من چاہے مسائل اخذ کرتے ہیں) اور گزشتہ تمام مفسرین، محدثین، فقہا، آئمہ اور علمائے اسلام پر طنعے کستے ہیں اور سابقہ تمام دینی سرمائے کو اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں۔

اعتراض کا جواب:
 مذکورہ اعتراض پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ معترض نے قرآن پاک کی مندرجہ ذیل آیت سے غلط استدلال کیا ہے۔
"قال تعالى: ﴿ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإسْلامَ دِينًا ﴾ 
 "آج ہم نے تم پر تمھارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمھارے لئے اسلام ہی کو بطور دین اختیار کرنے پر راضی ہوئے۔"
 معترض یہ سمجھتا ہے کہ قرآن پاک کے نزول کے اختتام کے ساتھ ہی اسلام مکمل ہو گیا لہذا اب اسلام کو سمجھنے کیلئے قرآن کے علاوہ دوسری کسی کتاب کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہر شخص چاہے اہل ہو یا نہ ہو، بذات خود قرآن کریم کے بحرِ علوم میں غوطہ زن ہو اور اس سے گوہر نکال کر لائے۔ معترض کا یہ استدلال انتہائی بودا بلکہ بیہودہ ہے۔
اس اعتراض کا جواب دو طرح سے ممکن ہے۔

1۔ الزامی جواب
22۔ تفصیلی جواب
1۔ الزامی جواب سے مراد Counter Questioning ہے یعنی مد مقابل کے اصولِ بحث کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے اسی کے اصول پرغلط ثابت کرنا۔ تو الزامی جواب کے طور پر میں ان منکرین حدیث سے پوچھتا ہوں کہ جب قرآن کو سمجھنے کیلئے کسی دوسری کتاب کی قطعا کوئی ضرورت نہیں تو 
11۔ قرآن پاک کو سمجھنے کیلئے تم لوگ اپنے گرو گھنٹال غلام احمد پرویز، عبد اللہ چکڑالوی اینڈ کمپنی کی لکھی ہوئی حرام تفاسیر کیوں پڑھتے ہو!!!
2۔ ۔۔تو قرآن پاک کو سمجھنے کیلئے تم لوگ لغت کی کتب کیوں پڑھتے ہو!!!
 اگر تم لوگوں کی نظر میں حدیث بھی قرآن پاک کے مطالب بیان کرنے سے قاصر ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ تم لوگ اپنے پیشواوں کی کتب کواحادیث رسولﷺ سے زیادہ اہمیت دے کر انہیں قرآن پاک کے فہم کیلئے معاون کتب کے طور پر پڑھتے ہو!
2۔ دوسرا جواب علمی ہے،
 یہ بات بالکل درست ہے کہ اسلام قرآن پاک کے نزول کی تکمیل اور سرکار ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے ساتھ ہی مکمل ہو چکا ہے۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام مذکورہ بالا آئمہ اسلام سے پہلے مکمل تھا۔۔۔ لیکن
 لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ احادیث رسولﷺ اور فقہائے کرام کی آراء و فتاویٰ کا مطالعہ ضروری نہیں ہے؟ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کتب حدیث و فقہ کے مطالعہ کے بغیر قرآن پاک کو سمجھنا ناممکن بلکہ خود قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے۔
11۔ چونکہ سرکار ﷺ صاحب قرآن ہیں اور چونکہ قرآن پاک میں متعدد دلائل سے آپ ﷺ کا شارح قرآن ہونا ثابت ہے لہذا قرآن پاک کی تفسیر میں سب سے پہلے آقا ﷺ کی احادیث و فرامین کو دیکھنا نہ صرف ضروری ہے بلکہ یہ عین حکم ربانی ہے۔ اس لئے احادیث رسول ﷺ کا انکار کفر ہے۔
2۔ چونکہ سرکار ﷺ پردہ فرما چکے ہیں اور آپﷺ سے براہ راست دینی تعلیم کا حصول ناممکن ہے اس لئے ضروری ہے کہ آقاﷺ کے فرامین اوراحادیث مبارکہ کی روشنی میں قرآن پاک کی تفہیم کی جائے۔
3۔ پھر چونکہ سرکار ﷺ کے فرامین و احادیث کو آئمہ ستہ یعنی حدیث کے چھ بڑے آئمہ کرام نے اپنی کتب میں درج فرما کر ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیاہے اور ان کتب کے علاوہ بھی حدیث کی درجنوں کتب ہیں ، اور کوئی دوسرا ذریعہ ایسا موجود نہیں ہے جہاں سے تعلیمات نبوی ﷺ حاصل ہو سکیں لہذا لازم ہے کہ کتب حدیث سے رجوع کیا جائے اور علم اصول حدیث کے زریعے احادیث مبارکہ سے رہنمائی لی جائے۔
4۔ پس جب قرآن پاک میں اتباع رسولﷺ تمام مومنین پر فرض کر دی گئی ہے اور جب اتباع رسول ﷺ کا کوئی ذریعہ کتب حدیث کی رہنمائی کے علاوہ ممکن نہیں تو واجب ہے کہ ہم کتب حدیث ، خصوصا صحاح ستہ سے رجوع کریں تبھی اتباع رسول ﷺ کا تقاضا پورا ہو سکتا ہے۔
اب اگر کوئی جاہل ہم سے یہ کہے کہ جناب یہ احادیث کا ذخیرہ تو اسلام کے خلاف عجمیوں کی سازش ہے، یہ تمام احادیث من گھڑت ہیں اور یہ تمام احادیث محض قصے، افسانے، انٹرٹینمنٹ اور تفریح کا مواد ہیں (معاذ اللہ) تو ایسے شخص کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے اور اسکا یہ بیان اس کے گمراہ ترین ہونے پرقول دلیل ہے کیونکہ ایک طرف پوری امت محمدیہ ﷺ کا اجتماعی فہمِ دین ہے اور ایک مکمل تاریخی تسلسل ہے جو امت کو ایک پیرائے میں لے کر آگے بڑھ رہا ہے، اور دوسری طرف یہ جاہل طبقہ ہے جسے دین کا ابجدکا بھی علم نہیں اور زبان دراز ایسے کے معاذ اللہ گستاخی رسولﷺ، گستاخی صحابہ کرام اور فقہائے و محدثین کی بے ادبی سے کم پر ان کا شیطانی نفس مطمئن ہی نہیں ہوتا!
5۔ اسی طرح فقہائے اسلام، جن کا زمانہ محدثین سے بھی پہلے کا ہے اور جنہوں نے تابعین اور اتباع التابعین سے براہ راست دین کا علم و فہم حاصل کیا ہے، ان سے بڑھ کر بھلا کون دیندار اور عالم دین ہو سکتا ہے! ان فقہاء کرام خصوصا فقہائے اربعہ کی شان تو ایسی ہے کہ محدثین اور آئمہ ستہ بھی ان کے ساتھ برابری کا دعویٰ نہیں کرتے بلکہ محدثین تو بذات خود انہی فقہاء کے تلامذہ اور شاگردوں کے شاگرد ہیں!
 پس یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگرچہ ان پاک ہستیوں کے وجود سے پہلے بھی دین مکمل تھا۔۔۔ لیکن تب کے اور اب کے زمانے میں فرق ہے! ان فقہاءاور محدثین سے پہلے جو دور تھا، وہ قرون اولیٰ کا زمانہ تھا، جب صحابہ اکرام، تابعین اور اتباع التابعین بنفس نفیس موجود تھے، جن میں سے ہر ہر فرد کی الگ ہی شان تھی اور کوئی بھی کسی سے کم نہ تھا۔ وہ تو وہ زمانہ تھا جب اسلام کی جڑیں لوگوں کے قلوب و ازہان میں گڑھی ہوئی تھیں ، ہر طرف اسلامی علمیت کا دور دورہ تھا اور اتباع نفس اور عام گمراہی کا توسوال تک پیدا نہ ہوتا تھا۔
کیا یہ منکرین حدیث اندھے ہیں! انہیں نظر نہیں آتا کہ تب کے اور اب کے زمانہ میں بُعد مشرقین  سے بھی زیادہ فرق ہے۔ آج وہ دور ہے کہ جب براہ راست قرآن و حدیث سے مسائل اخذکرنا تو کیا، کوئی بڑے سے بڑا عالم دین تمام ضروری علوم پربھی کامل دسترس کا دعویٰ نہیں کر سکتا ۔
جب قرآن و حدیث سے استنباط مسائل  کی قوتیں ہی جواب دے گئیں، جب قلوب و ازہان بھی کافی طور پر معطر نہ رہے، جب علم نام کی شے ہی مفقود ہو گئی، جب حافظے مضمحل ہو گئے اور جب قرون اولیٰ کو گزرے ہزار سال سے زائد عرصہ گزر چکا تو آپ خود سوچئے کہ منکرین حدیث کے ایسے فضول جملوں کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے! بلکہ انہی گمراہ ترین جہلا کے بارے میں تو سرکار ﷺ نے چودہ سو سال پہلے ہی فرما دیا تھا کہ
''لا ألفين أحدکم متکئا علی أريکته، يأتيه الأمر من أمري مما أمرت به أو نهيت عنه، فيقول: لا أدري، ما وجدنا في کتاب الله اتبعناه '' ( ولي الدین ،إ مام، محمد بن عبداللہ ، مشکوٰة المصابیح، کتاب الإیمان باب الاعتصام بالکتاب والسنة)
''میں تم میں سے کسی کو ایسا کرتے نہ پائوں کہ وہ اپنی مسہری پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اورجب اس کے سامنے میرے احکامات میں سے کسی بات کا امر یا کسی چیز کی ممانعت آئے تو وہ کہنے لگے کہ میں کچھ نہیں جانتا ، ہم تو جوقرآن مجید میں پائیں گے، اسی کو مانیں گے۔ ''
حضورِ اکرم ﷺ کی پیش گوئی حرف بحرف درست ثابت ہوئی۔ چنانچہ دوسری صدی ہجری اور تیرھویں صدی ہجری میں انکارِ حدیث کے فتنے اُٹھے۔ مؤخر الذکر فتنے کا مرکز برصغیر ہندوپاک ہے۔ یہاں کے منکرین حدیث میں سے بعض نے اپنے آپ کو علیٰ الاعلان 'اہل قرآن' بھی کہلوایا، جن میں زیادہ مشہور عبد اللہ چکڑالوی تھا۔ ان صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تخت پوش پر تکیہ لگا کر حدیث ِنبوی ﷺ کا انکار کیا کرتے تھا۔ حضورِ اکرم ﷺ کافرمان عبد اللہ چکڑالوی اینڈ کمپنی پر مکمل طور پر صادق آتاہے۔
الحاصل یہ کہ فقہائے اسلام اور محدثین عظام نے جو دین ہمارے سامنے پیش کیا یہ کوئی نیا دین نہیں کہ ہم اسے قرآن و سنت سے الگ کوئی تیسری شے سمجھیں۔ بلکہ یہ کتب حدیث تو سرکار ﷺ ہی کے فرامین پر مبنی ہیں اور باقائدہ طور پر اصول بھی موجود ہیں جن سے صحیح، ضعیف اور من گھڑت روایات کی چھانٹی کی جا سکتی ہے۔ یہ دعویٰ تو ہم بھی نہیں کرتے کہ کتب حدیث میں وارد تمام روایات ہی صحیح ہیں بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ہر ہر حدیث کو فردا فردا دیکھا جائے گا، اسکی سند اور متن پر باقائدہ غور وفکر کیا جائے گا تب جا کر احادیث کو قبول کیا جائے گا۔ کسی روایت کا صحاح میں داخل ہو جانا اسکی صحت کی دلیل تو کبھی تھی ہی نہیں نہ ہم نے ایسا کبھی کوئی دعویٰ کیا ! اگر ان منکرین حدیث کو زخیرہ حدیث پر عجمی سازش کا وہم ہے تو آئیں بیٹھیں اور ثابت کریں پھر کہ کون سی حدیث کس عجمی نے گھڑی۔ من گھڑت روایات جو ہیں وہ تو علماے اسلام نے پہلے ہی الگ کر کے نشان دہی فرما دی ہے پھر اگر ان کے علاوہ بھی اگر ان منکرین کو کوئی وہم ہے تو بصد شوق تشریف لائیں، ان شاء اللہ ان کی تشفی کر کے اٹھائیں گے!
اسی طرح فقہ بھی کوئی تیسری شے نہیں بلکہ قرآن و احادیث ہی کا نچوڑ ہےجن پر باقائدہ کتب اصول اور کتب مسائل کے انبار لگے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی فرد خود سے کوئی بات کہہ گیا ہو اور مقلدین نے اسے من و عن قبول کر لیا ہو لہذامنکرین حدیث کے دیگر اعتراضات کی طرح مذکورہ اعتراض کی بھی کوئی وقعت نہیں بلکہ یہ بیان بذات خود منکرین حدیث کی جہالت پر مہر ہے!
 پس دین پہلے بھی مکمل تھا، دین اب بھی مکمل ہے، بات صرف اتنی ہے کہ نہ تو تم پہلوں کی طرح ہو اور نہ وہ پہلے تمھاری مثل تھے! وہ آسمان ہدایت کے روشن ستارے تھے اور تم پاتال میں پڑے بے نشان زرے!
فیصل ریاض شاہدؔ

No comments:

Post a Comment