عقل اور شریعت



کیا شریعت کا ہر حکم عقل کے پیمانے میں تولنا چاہیے؟؟؟
🔸

انسانوں کی اکثریت ہر چیز کو عقل کے پیمانے سے ناپنا چاہتی ہے اور واقعہ بھی یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے انسانوں کو عقل کی نعمت سے سرفراز فرما کر تمام مخلوقات میں اس کو وہ مرتبہ عطا کیا کہ ہر اگلے دن ترقی کی حیرت انگیز منزلیں طے کرتا جارہا ہے، لیکن وہ عقل جو عام انسانوں کو عطا ہوئی ہے ، اس کا دائرہ محدود ہے اور خالق کائنات اور نظام کائنات لا محدود۔
لہٰذا یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ محدود لا محدود کو اپنے دائرہ عمل میں لے لے، اس لیے جو ذات لا محدود ہے اس کے ادراک وعرفان کے لیے علوم انبیا کی ضرورت ہے، جس کو الله تعالیٰ نے وحی والہام کے ذریعہ ان کو عطا کیا ہے کہ وہ ماورائے عقل وگمان باتوں کی تعلیم سے، قافلہ انسانی کو اس رخ پر لے چلیں، جس پر چل کر وہ عقل کی خام خیالی سے اپنے کو بچاسکتا ہے ، علوم انبیاء کی مثال اور عام عقل انسانی کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک شخص سونا تولنے کی ترازو سے یہ امید لگائے کہ اس سے پہاڑ تول سکتا ہے . 
 
انسان کی حیثیت بقول ابن خلدون:” بلکہ وہ الله کے پیدا کیے ہوئے بے شمار ذرات میں سے ایک حقیر ذرہ ہے " . 
 
بعض بے دین لوگ قرآن کو سائنس پر تو لتے ھے لیکن شکست کھا کر الٹے منہ لوٹے ہیں ۔
اور اقبال مرحوم نے اس کو اس طرح ادا کیا ہے #
اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ؕ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا
 
کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اُس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا
[ Al-Ahzab: Verse 366]
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا
 
نہیں، اے محمدؐ، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں
[ An-Nisa': Verse 655]
تو جہاں تک ہماری عقل کا تعلق ہے تو جناب!جب سے ہم پیدا ہوئے ہیں،ہمارے تمام حالات ہی خلافِ عقل ہیں. ہم چونکہ دن رات دیکھتے ہیں سنتے ہیں انسان ایسے پیدا ہوتے ہیں تو وہ ہمیں خلاف نہیں لگتا ۔ ہماری عقل تو بس کھانے کمانے کی ہے،ہماری عقل صرف اس قدر ہے کہ کھا لو،پی لو اور باتیں بنا لو۔۔۔۔۔
جب اتنی عقل ہے تو قرآن کے علوم کہاں عقل میں آئیں گے؟؟؟
جب عقل پر ہی سوچیں گے تو حدیث کہاں قابِل اعتبار لگے گی؟؟؟
https://www.facebook.com/images/emoji.php/v7/f6f/1/16/1f6ab.png
🚫https://www.facebook.com/images/emoji.php/v7/f6f/1/16/1f6ab.png🚫https://www.facebook.com/images/emoji.php/v7/f6f/1/16/1f6ab.png🚫https://www.facebook.com/images/emoji.php/v7/f6f/1/16/1f6ab.png🚫 یہ بات پنپ رہی ہے کہ کوئی بات عقل میں نہ آئے تو اس کا انکار کردیا جائے،یہ سوچ،فکر چند روشن خیال لوگوں کی طرف سے قرآن وحدیث اور فقہی مسائل میں عام کی جارہی ہےhttps://www.facebook.com/images/emoji.php/v7/f6f/1/16/1f6ab.png🚫https://www.facebook.com/images/emoji.php/v7/f6f/1/16/1f6ab.png🚫https://www.facebook.com/images/emoji.php/v7/f6f/1/16/1f6ab.png🚫https://www.facebook.com/images/emoji.php/v7/f6f/1/16/1f6ab.png🚫
اگر ہر ایک کی عقل پر بات مان لی جائے تو دین چُوں چُوں کا مربہ بن جائے ۔۔۔۔۔
 
اور یہ بات بھی ضروری ہے کہ دین کی کوئی بھی بات خلافِ عقل نہیں ہے ۔ شریعت کا کوئی بھی حکم خلافِ عقل نہیں ہے ۔ جی بلکل ۔ 
وحی الهی کبهی بهی خلاف عقل نہیں ہوتی. یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالی کا کوئی حکم ہماری عقل میں نہ آئے. ایک چیز ہوتی ہے خلاف عقل اور ایک ہوتی بالائےعقل. اس کو ایسے سمجھ لیں . .
مثلا ایک چهوٹے بچے کے لئے Algebra کا مشکل سوال اس کی عقل سے بالا ہے مگر وہ سوال عقل کے خلاف نہیں. لهذا عقل کو وحی کے تابع کیا جائیگا کیونکہ وحی میں خطاء کا احتمال نہیں جبکہ عقل میں خطاء کا احتمال ہے. اسی طرح ہر انسان کی عقل ایک جیسی نہیں کوئی کندذہن ہے تو کوئی ذہین.
اور آخری بات یہ کہ بعض شرعی احکام عقل سے ما ورا ہیں ۔ اللہ تعالی اس لامحدود کائنات پر غور وفکر سے نہیں روکتا لیکن فرماتا ہے یقیناً تم شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا ۔
بعض میں عقلی دلا ئل دینے کی گنجائش بھی موجود ہے.کیونکہ آئمہ کرام نے عقلی دلائل سے دین کو سمجہایا اور ایسا بھی ہر عام فہم مسلمان نہیں کرسکتا .یہ بات اپنی جگہ طے ہے کہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کا اثبات عقل کے تابع نہیں ہیں لیکن عقلی دلائل دیکر کسی کو سمجہایا جا سکتا ہے.
ہمارے ہاں کچھ کمزور ایمان والوں کو دھوکہ کیا ہوتا ہے بھلا  ؟
ایسے لوگوں کو دھوکا یہ ہوتا ہے کہ آخر دوسری قومیں اسلام اور پیغمبر اسلام کی منکر ہوتے ہوئے کیوں ترقی کررہی ہیں؟
وجہ وہی ہے کہ وہ سونا تولنے کی ترازو سے پہاڑ تولنا چاہتے ہیں ، وہ عقل کے اس دائرہ سے باہر نکل کر اس ارشاد قرآنی پر غور کریں تو یہ دھوکا اور فکری خام خیالی دور ہو جائے، الله تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ایحسبون انما نمدھم بہ من مال وبنین، نسارع لھم فی الخیرات بل لا یشعرون﴾
( مؤمنون)۔ یعنی کیا یہ لوگ گمان کر رہے ہیں کہ ہم ان کو جو کچھ مال واولاد دیتے چلے جاتے ہیں ، تو ہم ان کو جلدی جلدی فائدے پہنچارہے ہیں، نہیں! بلکہ یہ لوگ سمجھتے نہیں ۔ 
 
ایک اور جگہ سوره الشورٰی میں ارشاد ہوتا ہے .
جو شخص آخرت کی کھیتی کا خواستگار ہو اس کو ہم اس میں سے دیں گے۔ اور جو دنیا کی کھیتی کا خواستگار ہو اس کو ہم اس میں سے دے دیں گے۔ اور اس کا آخرت میں کچھ حصہ نہ ہوگا.
#Al_Quran 42:20
تکوینی عیش وراحت کو اپنی حقانیت ومقبولیت کی دلیل سمجھ رہے ہیں ، یہ دھوکہ عام عالم گیر ہے . جس میں دنیا کے کئی مذاہب مبتلا ھیں . حالاں کہ نظام تکوینی میں قانون ربوبیت کے تحت سانپوں ، بچھوؤں سبھی کی پرورش وکفالت ہوتی رہتی ہے۔
سائنس کی ایجادات نے لوگوں کو اپنا اسیر بنا رکھا ہے لیکن اس طرح کی ترقی کو ترقی سمجھنا اور اس راہ پر چلنے اوربڑھنے والوں کو دیکھ کر دھوکا کھانے کے بجائے ایک بندہٴ مومن کو اوپر ذکر کی گئی آیت شریفہ کو بار بار پڑھتے رہنا چاہیے اور اس حقیقت کو آئینہ کی طرح سامنے رکھے کہ اس طرح کی ترقی پانی کے بلبلے اور سمندر کے جھاگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔
اقبال مرحوم نے اسی پس منظر میں کہا تھا. . .
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے 
مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
اللّه تعالیٰ حقیقی فہم سے نوازے اور اپنے ایمان کی حفاظت کرنے والا بنائے ۔۔ اور ہر نۓ فتنے سے محفوظ رکھے . آمین !
ٹوٹ بٹوٹ -

No comments:

Post a Comment