صحاح ستہ اور اسکے مولفین



صحاح ستہ اور اسکے مولفین





حدیث کی چھ کتابیں انتہائی معتمد سمجھی گئی ہیں، انہیں صحاحِ ستہ کہتے ہیں ان میں پہلی دوکتابیں توکل کی کل صحیحین ہیں اور دوسری چار کتابیں سنن کہلاتی ہیں، یہ سنن اربعہ بیشتر صحیح روایات پر مشتمل ہیں، فن حدیث میں یہ چھ کتابیں انتہائی لائقِ اعتماد سمجھی جاتی ہیں، مشہور مستشرق نکلسن انہیں اسلام کیCanonical Books لکھتا ہے، یہ کتابیں تدوین حدیث کے دوسرے دور سے تعلق رکھتی ہیں۔

حضرت امام بخاری (۲۵۶ھ) محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ

آپ رحمہ اللہ کا اصل نام محمد بن اسماعیل البخاری ہے۔ ۱۳/ یا ۱۶/ شوال ۱۹۴ھ کو بخارہ میں آپ کی ولادت ہوئی۔حضرت امام بخاری نے ایک ہزار سے زائد محدثین سے حدیث سنی اور نوے ہزار کے قریب تلامذہ نے آپ سے بالواسطہ صحیح بخاری سنی۔ آپ کے اساتذہ میں ابوبکر عبداللہ الحمیدی(۲۱۹ھ)،امام یحییٰ بن معین (۲۳۲ھ)،امام علی بن المدینی (۲۳۴)، قتیبہ بن سعید (۲۴۰ھ)، امام احمد بن حنبل، اسحق بن راہویہ (۲۳۸ھ)سرفہرست ہیں، ثقات تابعین سے روایت کرنے والوں میں سے آپ نے محمد عبداللہ انصاری ، ابو عاصم النبیل سے براہِ راست حدیث سنی، معاصرین میں سے آپ نے محمد بن یحییٰ الذہلی اورابو حاتم سے روایات لیں،امام مسلمؒ آپ کے جلیل القدر معاصر تھے؛ انہوں نے بھی آپ سے حدیث سنی، حضرت امام مسلم آپ کے بارے میں قسم کھا کر کہتے ہیں :"اشہد انہ لیس فی الدنیا مثلک"۔ترجمہ:آپ جیسا محدث روئے زمین پر نہیں ہے میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں۔(مقدمہ فتح الباری:۱/۴۸۵)
امام ابو عیسیٰ الترمذی (۲۷۹ھ) اورامام ابو عبدالرحمن النسائی (۳۰۳ھ) حضرت امام بخاری کے تلامذہ میں سے تھے ابن خزیمہ کہتے ہیں آسمان کے نیچے کسی عالم کو امام بخاری سے بڑھ کر نہیں پایا (تہذیب الاسماء:۱/۷۰) اپنے حافظہ کے اعتبار سے آپ "آیۃ من ایات اللہ" خدا کی قدرت کا ایک نشان تھے۔ سمرقند کے ایک چھوٹے سے گاؤں ”خرتنک“ میں ۲۵۶ھ میں وفات ہوئی۔

آپ نے بہت سی کتابیں لکھیں، جن میں ذیل کی کتابیں آپ کے ”انمٹ نقوش“ ہیں مثلا کتاب الجامع الصحیح، کتاب الادب المفرد، کتاب التاریخ الکبیر، کتاب التاریخ الاوسط، کتاب التاریخ الصغیر، کتاب الجامع الکبیر، کتاب المسند الکبیر، کتاب التفسیر الکبیر، کتاب الفوائد وغیرہ ۔ ان کتابوں میں سب سے عظیم اور جلیل القدر تصنیف آپ کی ”جامع بخاری“ ہے، جس کو تمام دنیائے اسلام میں شہرت دوام حاصل ہے۔

صحیح بخاری:

امام محمدبن اسماعیلؒ بخاری (۲۵۶ھ) کی اس کتاب کا پورا نام "الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول اللہ وسننہ وایامہ" ہے۔ اس نام میں مسند اپنے اصطلاحی معنوں میں نہیں، اسے الجامع الصحیح بھی کہتے ہیں؛ کیونکہ فن حدیث کے آٹھوں ابواب (کتاب) اس میں جمع ہیں، امام بخاریؒ نے صحتِ سند، فقہ حدیث اور تحریر تراجم میں حدیث کا وہ عدیم النظیر مجموعہ تیار کیا ہے کہ اسے بجاطور پر اسلام کا اعجاز سمجھنا چاہیے، اہلِ فن اسے اصح الکتاب بعد کتاب اللہ قرار دیتے ہیں۔

آپ نے اپنی اس ”صحیح“ کا انتخاب چھ لاکھ احادیث سے فرمایاہے، اور اس کتاب میں صرف انہی حدیثوں کو جگہ دیتے ہیں جن کے رواة پر نقد و جرح اور عدل و ضبط کی حیثیت سے آپ کو شرح صدر اورکامل وثوق حاصل تھا۔ اس طرح یہ کتاب دنیائے اسلام میں اپنے نہج کی سب سے پہلی کتاب قرار پائی (الحطة)
امام بخاریؒ تقطیع حدیث (حدیث کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے اس کے اجزاء کو علیٰحدہ علیٰحدہ روایت کرنا) کے قائل تھے، وہ حدیث کے مختلف اجزاء کومختلف ابواب میں لاتے ہیں، امام صاحبؒ کا ترجمۃ الباب Chapter Heading امام صاحبؒ کا فقہی نظریہ ہوتا ہے، جوان کے خیال میں اس حدیث میں لپٹا ہوتا ہے، جملہ فقہ بخاری فی تراجمہ علمائے حدیث میں بہت معروف ہے، ان فقہی تراجم کے باعث امام صاحبؒ کوبعض روایات بار بار بھی روایت کرنی پڑی ہیں، صحیح بخاری کی کل مرویات ۷۲۷۵/ہیں، مکررات کو حذف کرکے چار ہزار کے قریب رہ جاتی ہیں؛ پھرساری روایات مرفوع (جوحضورﷺ تک پہنچتی ہوں) نہیں ہیں، موقوف روایات (صحابہؓ کی روایات) اور تابعین کبار کے بہت سے اقوال بھی اس میں ملتے ہیں۔

امام صاحب ؒ کی ثقاہت:

حضرت امام ثقہ ہیں اور حفظ وضبط اور دیانت وامانت کے کسی پہلو سے مجروح نہیں۔

روایاتِ صحیح البخاری:

صحیح بخاری میں ۷۳۹۷/کے قریب روایات مرفوعہ ہیں، بعض روایات بہ تکرار آئی ہیں، عدم تکرار سے مجموعی احادیث چار ہزار ہوں گی، صحابہ کی روایات اور اقوالِ تابعین کی تعداد ساڑھے تین سو کے قریب ہے، متابعات اور تعلیقات ساڑھے تیرہ سو کے قریب ہیں، بائیس روایات ثلاثیات ہیں، جن میں امام بخاریؒ صرف تین واسطوں سے حضورﷺ تک پہنچتے ہیں۔

٢. امام مسلم بن حجاج ابوالحسین القشیری (۲۶۱ھ)

مسلم بن الحجاج القشیری النیشاپوری ہیں: آپ کی ولادت ”نیشاپور“ میں ۲۰۴ھ کو ہوئی۔ بغداد کے بعد نیشاپور سب سے بڑا مرکزِ علم سمجھا جاتا تھا، نیشاپور میں یحییٰ بن یحییٰ، امام اسحاق بن راہویہ اور امام ذہلی سے، عراق میں امام احمد بن حنبل اور عبداللہ بنمسلمۃ القعنبی سے، بغداد میں محمدبن مہران اور ابوغسان سے، حجاز میں سعید بن منصور اور ابومصعب سے اور مصر میں عمروبن سواد اور حرملہ بن یحییٰ سے اور دیگر کئی ائمہ فن سے حدیث سنی، قتیبہ بن سعید، احمد بن یونس یربوعی اور اسماعیل بن ابی عویس بھی آپ کے اساتذہ میں سے ہیں، حضرت امام بخاری سے بھی بہت استفادہ کیا، امام ابوعیسیٰ الترمذی، ابوبکر بن خزیمہ، ابوحاتم رازی اور ابوعوانہ آپ کے شاگردوں میں سے ہیں، آپ کے اُستاد اسحاق بن راہویہ آپ سے بہت متأثر تھے، فرمایا: "ای رجل یکون ھذا" معلوم نہیں یہ شخص کس مقام تک پہنچے گا۔
آپ کا سب سے اہم اور عظیم کارنامہ ”جامع صحیح مسلم“ ہے۔ جو حسن ترتیب، جودت نظم، اور دقائق اسناد میں بخاری سے بھی اونچی ہے۔ ایک مضمون کی جملہ روایتوں کو بجمیع طرقہا یکجا، نہایت سلیقہ، اور عمدگی کے ساتھ بیان کردیتے ہیں۔ تاہم صحت و قوت میں بخاری شریف سے نیچے ہے۔ آپ نے صحیح مسلم اس طریق سے ترتیب دی کہ محدثانہ نقطۂ نظر سے کوئی دوسری کتاب اس کی برابری نہیں کرسکی، پوری حدیث ایک جگہ مل جاتی ہے اور آپ اس کی جملہ اسانید عجیب حسنِ ادا سے ایک جگہ لے آتے ہیں، محدثِ مولانا بدرِعالم مدنی لکھتے ہیں:"یہ تصنیف (صحیح مسلم) فن حدیث کے بہت سے عجائبات پر مشتمل ہے، سرداسانید، متون کا حسن سیاق، تلخیص طرق اور ضبط انتشار میں صحیح بخاری پر بھی فائق ہے"۔ (ترجمان السنہ:۱/۲۵۹)

امام مسلم کی اہلِ شام سے روایت، امام بخاری کی اہلِ شام سے روایت پر فائق سمجھی جاتی ہے؛ کیونکہ حضرت امام بخاری ان سے اکثر بطریق مناولہ روایت کرتے ہیں، امام مسلم ان سے مشافہۃً روایت لیتے ہیں، امام مسلم اس میں وہی روایات لاتے ہیں جن پر اس وقت کے اکابرِ اہلِ علم اور شیوخِ حدیث متفق ہوں، آپ نے صحیح مسلم لکھ کر امام الجرح والتعدیل امام ابوزرعہ کے سامنے پیش کی، جن روایات پر انہوں نے کہیں بھی اُنگلی رکھی آپ نے انہیں ترک فرمادیا۔صحیح مسلم کی روایات حذف مکررات کے بعد چار ہزار کے قریب ہیں، آپ نے اس میں صرف مرفوع روایات نہیں لیں، صحابہ کے بہت سے آثار بھی ساتھ ساتھ روایت کیے ہیں۔

٣.امام ابوداؤدؒ.... سلیمان بن اشعث سجستانی (۲۷۵ھ)

امام ابوداؤد برِصغیرہندوپاک کے مسلمانوں سے بہت قریب کی نسبت رکھتے ہیں، سیستان جوہرات اور سندھ کے مابین ایک قصبہ ہے وہاں کے رہنے والے تھے، عرب اسے سجستان پڑھتے ہیں اور اسی نسبت سے امام ابوداؤد کو سجستانی کہا جاتا ہے، ۲۰۲ھ میں آپ کی ولادت ہوئی، آپ تحصیل علم کے لیے بغداد تشریف لے گئے، زندگی کا بیشتر حصہ وہیں گزارا، وہیں سنن ابی داؤد تالیف کی؛ پھرآخر میں بصرہ چلے گئے اور وہیں وفات پائی۔ طلبِ حدیث میں شام، عراق، خراسان اور الجزائر وغیرہ کے متعدد سفر کیئے، سینکڑوں اساتذہ سے حدیث سنی، امام بخاری اور امام مسلم کے ساتھ بہت سے اساتذہ میں شریک ہیں، امام احمد بن حنبلؒ، امام یحییٰ بن معینؒ، ابوالولید الطیالسیؒ، عبداللہ بن مسلمۃ القعنبیؒ ان کے بھی اُستاد تھے اور امام ترمذیؒ اور امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ ان کے بھی شاگرد تھے، ایک حدیث امام احمد بن حنبلؒ نے ابوداؤدؒ سے بھی روایت کی ہے، اسے حدیث عتیرہ کہا جاتا ہے، امام ابوداؤد اس پر ناز کرتے تھے کہ ان کے استاد امام احمد نے ایک حدیث ان سے سنی ہے، 

سنن ابی داؤد :

امام ابوداؤد کے دور میں چاروں اماموں کی فقہی کاوشیں، ان کے اصول فقہ، ان کے اجتہادی کارنامے اور ان کے ابواب فقہ لوگوں کے سامنے آچکے تھے، امام ابوداؤد نے چاہا کہ اب ایک ایسا حدیثی ذخیرہ مرتب ہونا چاہیے جس میں مختلف مجتہدین کے مستدلات ایک نظر میں سامنے آجائیں، ان کی کتاب سنن ابی داؤد کا موضوع ائمہ کے مستدلات ہیں اور ایک فقیہ کوان سے چارہ نہیں، امام ابوداؤد امام احمد کے شاگرد تھے اور ان سے متاثر بھی اور ان کی سنن میں جگہ جگہ حنبلی نقطہ نظر غالب نظر آتا ہے، صرف حنابلہ کے لیے ہی نہیں ان کی کتاب ائمہ اربعہ کے پیروؤں کے لیے ایک مجتہدانہ دستاویز کا درجہ رکھتی ہے اور علماء فقہ کے لیے یہ ایک بہت بڑا علمی ماخذ ہے۔

ائمہ اربعہ میں سے دوامام ابوحنیفہؒ اور امام احمد بن حنبلؒ عراق سے تعلق رکھتے تھے اور دوحجاز سے، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ، مسلمانوں میں الحاد اور اعتزال اور رفض وخارجیت کے سب فتنے عراق سے ہی اُٹھے تھے، جبروقدر کی بحثیں پہلے وہیں چلیں، فتنہ خلقِ قرآن نے وہیں سے سراُٹھایا اور کوفہ وبصرہ ہی ان اختلافات کی پہلی آماجگاہ بنے، ان اختلافات میں امام ابوحنیفہؒ اور امام احمدؒ دونوں کا موقف یہ رہا کہ ان اختلافات میں صحابہؓ کومعیار بنائیں اور جس طریق پر وہ رہے اسی راہ کوصواب جانیں، ارشادِ نبوت "مَاأَنَاعَلَیْہِ وَأَصْحَابِیْ" کا تقاضا بھی یہی تھااور اسی میں انتشار والحاد سے بچنے کی راہ تھی، حنفیہ اور حنابلہ کے ہاں قولِ صحابی حجت ہے اور دونوں نے صحابہ کرامؓ کوہراختلاف کا فیصل سمجھا ہے، شوافع اورمالکیہ کے ہاں ایسا نہیں، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ حنفی اور حافظ ابنِ تیمیہ حنبلی کس طرح ہراختلاف میں وکیلِ صحابہ بنے نظر آتے ہیں یہ اہلِ علم سے مخفی نہیں، امام ابوداؤد کا نقطۂ نظر بھی سنن میں یہی ہے۔

پانچ لاکھ حدیثوں میں سے چارہزار آٹھ سو حدیثوں کاانتخاب کرکے اپنی سنن میں ذکر کیا۔ سنن ابی داؤد کی منجملہ دیگر خصوصیات کے سب سے اہم خصوصیت ”قال ابوداؤد“ ہے۔ اس لفظ سے امام ممدوح کاجو اختلاف رواة، یا اختلاف رواة فی الالفاظ کی طرف باریک ترین اشارہ ہوتا ہے اس کا سمجھنا ایک انتہائی اہم کام ہوتا ہے۔فقہی اعتبار سے بہت بلندپایہ کتاب ہے، ایک مجتہد تہذیب شریعت اور تدوین فقہ میں جن احادیث کا محتاج ہوسکتا ہے وہ سب اس سنن میں موجود ہیں اسے ادق الکتب بعد کتاب اللہ کہا جاتا ہے، صحیح بخاری اصح ہونے میں اس سے اوّل ہے؛ مگرادق ہونے میں اس کا نام آگے ہے، حافظ منذریؒ نے اس کی بھی تلخیص کی ہے، کتب حدیث میں یہ سب سے پہلی کتاب ہے جس کی شرح سب سے پہلے لکھی گئی، حافظ احمد بن محمدامام ابوسلیمان الخطابی (۳۸۸ھ) نے معالم السنن کے نام سے اس کی شرح لکھی جوبارہا چھپ چکی ہے۔

ابوداؤد ؒ کی روایات کا درجہ

جس حدیث کوامام ابوداؤد روایت کریں اور اس پر کوئی جرح نہ کریں تووہ حدیث صالح للاستدلال شمار ہوگی، محدثین کے ہاں ابوداؤد کاسکوت بڑا وزن رکھتا ہے "مَالَمْ یُذْکَرُ فِیْہِ شَیْءً فَھُوَ صَالِحٌ" (تدریب الراوی:۵۵)صحت کے اعتبار سے پھر اس کے کئی درجے ہوسکتے ہیں، اس میں صحیح اور حسن (نیل الاوطار:۱/۱۵) دونوں کا احتمال ہے، آپ نے فرمایا میں نے اس کتاب میں کوئی ایسی حدیث نہیں لی جس کے ترک پر سب کا اتفاق ہو (مرقات:۱/۲۲) ابنِ جوزیؒ نے سنن ابی داؤد کی نواحادیث کوموضوع کہا ہے، علامہ سیوطیؒ نے ان میں سے چار کا جواب القول الحسن فی الذب عن السنن میں دیا ہے، باقی پانچ کے جواب میں یہ کہنا کافی ہے کہ ابنِ جوزیؒ نقد روایات میں بہت متشدد ہیں؛ سوان کی جرح حجت نہیں، صحیح یہ ہے کہ سنن ابی داؤد موضوع احادیث سے بالکل پاک ہے (الحطہ:۱۱۶) ہاں امام احمد قیاس پر ضعیف حدیث کوبھی ترجیح دیتے ہیں؛ جیسا کہ امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے؛ سواس میں اگرضعیف روایات بھی ہیں توا سپر تعجب نہ ہونا چاہیے، مجتہد کوکبھی ان کی ضرورت بھی پڑجاتی ہے؛ تاہم یہ ہے کہ آپ نے کوئی حدیث متروک الحدیث راوی سے نہیں لی۔

اس سنن کے علاوہ آپ کی اور بھی دوسری تصانیف ہیں، مثلا (۱) مراسیل ابی داؤد، یہ مختصر سا رسالہ ہے۔ جس میں آ پ مرسل روایات ذکر کرتے ہیں۔ یہ کتاب سنن ابی داؤد کے بعض نسخوں کے ساتھ بھی ملحق ہے۔ (۲) الردّ علی القدریہ، (۳) الناسخ والمنسوخ، (۴) ماتفرد بہ اہل الامصار، (۵) فضائل الانصار، (۶) مسند مالک بن انس، (۷) المسائل، (دیکھئے تہذیب) لیکن آپ کی جملہ تصانیف میں ”سنن ابی داؤد“ سب سے اعلیٰ و افضل ہے۔ ۲۷۵ھ میں بمقام بصرہ آپ کی وفات ہوئی۔

جاری ہے
فوزیہ جوگن نواز 

3 comments:


  1. صحاح ستہ میں ہزاروں جعلی اور من گھڑت احادیث پائی جاتی ہیں ، بعض اعلیٰ درجے کی جعلی روایتیں جو کہ غلیظ مجوسی رافضیوں نے گھڑی تھیں۔

    الحديث المتعة
    اللحوم والحبر
    الحديث قرطاس وقلم
    حدیث سحر على النبي صلى الله عليه وسلم
    حديث لوح فاطمة
    حدیث الثقلین
    حديث مهدي
    جميع الأحاديث عن آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَقِيلٍ وَآلُ جَعْفَرٍ وَآلُ عَبَّاسٍ
    حدیث المنزلة
    لَاوَاِنِّیْ اَوْتیت الْقُرْاٰنَ وَمِثْلَہُ مَعَہُ
    حَدِيثُ اَلكِسَاء
    اثنا عشر خلفاً
    كل الروايات عن الحروف وقراءات القرآن
    أحاديث الفتن والملاحم

    https://archive.org/details/sehah-sitta-or-sehah-rafidiyah_202107

    ReplyDelete
  2. فتنہ انکار قرآن۔

    فتنہ انکار قرآن ، کب اور کیوں؟

    جعلی احادیث کے گھڑنے والے مجوسی رافضی تھے جو اسلام کے خلاف اپنی شیطانی اور گندی خواہشات دکھا رہے تھے۔ صحاح ستہ مرتب کرنے والے بھی ان جیسے تھے جیسا کہ انہوں نے ان شیطانی مجوسی جھوٹوں سے جعلی اور من گھڑت روایات لی تھیں۔
    سینکڑوں سالوں میں ، نام نہاد جعلی اور من گھڑت حدیثوں کے مجموعے "صحاح ستہ" بہت زیادہ گندگی پھیلارہے ہیں جسے صاف کرنا آسان ہے۔
    مجوسیوں اور رافضیوں کے ایجنٹ اب بھی سلفیوں ، دیوبندیوں ، ندویوں وغیرہ کے بھیس میں کام کر رہے ہیں۔
    مجوسی رافضی نے ان مجرموں کے پیچھے بہت بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔
    ان مجرموں کا نقاب اتارنے کے لیے صرف ایک مثال کافی ہے ، مہدی کی جعلی اور من گھڑت روایات جو ان کی گندی کتابوں میں بیان کی گئی ہیں۔
    ابن سیرین ، نعیم بن حماد ، تمام صحاح ستہ مرتب وغیرہ رافضی مجوسیوں کی ان جعلی اور من گھڑت روایات کو اختیار کر رہے تھے۔
    ان کے بعد ان مجوسی رافدیوں کے تمام پیروکار یعنی مجدد الف ثانی ، شاہ ولی اللہ ، انور شاہ کشمیری ، حسین احمد مدنی ، نظام الدین شامزئی ، یوسف لدھیانوی ، طارق جمیل ، ناصر الدین البانی ، زبیر علی زئی ، طاہر القادری ، اور بہت سے دوسرے فرقہ پرست اس جعلی اور من گھڑت گندگی کو اپنایا ہے۔

    ReplyDelete


  3. من گھڑت اور جعلی احادیث کی بنیادی بدعنوانی اس کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جھوٹا جواز ہے۔ احادیث کی جھوٹ کی وجہ سے بہت سے پہلوؤں پر منفی اثر پڑتا ہے جیسے کہ عقیدہ ، مذہبی قانون اور عبادت کا عمل۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جعلی احادیث کو گھڑنا پہلی صدی ہجری کے وسط میں شروع کیا گیا تھا۔ کوفہ ، عراق ، یمن ، بصرہ ، شام ، خراسان وغیرہ حدیث سازی کے مراکز تھے۔ ہجرہ کی دوسری صدی کے آغاز میں جعلی احادیث کا گھڑنا عروج پر تھا۔

    عراق ، بصرہ ، کوفہ ، بغداد ، شام ، خراسان ، یمن وغیرہ میں ہجری کی دوسری صدی کے آغاز کے بعد سے 6500 سے زائد (چھ ہزار پانچ سو) راوی احادیث کے گھڑنے میں دن رات مصروف تھے۔ مساجد ، گلیوں ، بازاروں ، پارکوں میں وہ من گھڑت اور جھوٹے لوگوں نے قال رسول اللہ کی بلند آوازوں سے لوگوں کو جمع کیا اور پھر من گھڑت احادیث پڑھنا شروع کیں۔

    دوسری صدی ہجری کے وسط میں ، ان جھوٹے اور دھوکہ باز محدثوں نے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ من گھڑت احادیث بنائیں جو کہ دن بدن بڑی مقدار میں بڑھ رہی تھیں۔


    اسناد کے بغیر حدیث کا حوالہ دینا اب ایک فیشن ہے ، لوگوں کے پاس اسناد ، متون اور درایت کے بارے میں علم کی سطح صفر ہے لیکن وہ اپنی بری خواہشات پوری کرتے ہیں کہ انہیں حدیث کے بارے میں بہت مذہبی اور علمی سمجھا جائے گا۔ وہ نہیں جانتے کہ حدیث جعلی اور من گھڑت کہانیوں کی کائنات ہے ، جو خفیہ مجوسی راوی بیان کر رہے تھے۔ ان مجوسی رافضی جھوٹوں کا بنیادی ہدف القرآن ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھی تھے۔

    صحاح ستہ میں تقریبا ایک سو چالیس سے زائد شیعہ ، رافضی راوی ہیں۔ انہوں نے ہزاروں جعلی اور من گھڑت احادیث بیان کیں۔ رافیدیوں اور مجوسیوں نے مضبوط اسناد قائم کرکے احادیث گھڑیں اور ان من گھڑت باتوں کو صحابہ کرام سے جوڑ دیا۔
    حدیث جعلی اور من گھڑت کہانیوں کی کائنات ہے ، جسے مجوسی رافضی نے ایجاد کیا ہے۔


    ان جھوٹوں کا اصل ہدف قرآن ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ رضی اللہ عنہم تھے۔

    احادیث کی کتابیں مرتب کرنے والے قرآن کے دشمن ، حضور کے دشمن اور صحابہ کے دشمن ہیں۔ بخاری ، مسلم وغیرہ رافضی شیعوں کے پیروکار اور حمایتی تھے۔



    شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ احادیث کی کتابیں قرآن کے دشمنوں ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کی پناہ گاہیں ہیں۔ احادیث میں زہریلے مجوسی ہیں ، رافضی شیعہ سانپ چھپے ہوئے ہیں جن کی شناخت غیر فرقہ وارانہ اور غیر جانبدار احادیث کے ماہرین ہی کر سکتے ہیں۔


    جیسا کہ میں نے کہا ، وہ تمام لوگ جو ان تمام شیطانی ، جعلی اور گمراہ کن بیانیوں پر یقین رکھتے ہیں وہ اسلام کے مجرم ہیں۔ خاص طور پر وہ لوگ جنہیں "علمائے اسلام" سمجھا جاتا ہے۔


    آخر میں ، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بخاری ، مسلم ، الترمذی ، ابوداؤد ، نسائی اور ابن ماجہ کے چھ مجموعوں کی صداقت بہت زیادہ مشکوک ہے۔ ان سب کو مجوسیوں ، رافضیوں اور شیعوں کی ہزاروں جعلی اور من گھڑت روایات کو اپناتے ہوئے شرم نہیں آئی۔

    ReplyDelete