حدیث کی اقسام 2


حدیث   کی  اقسام . ٢ 





"مرتبہ و اعتبار "کے لحاظ سے حدیث کی تین قسمیں ہیں :(3)

1.     صحیح       (صحیح کی دوقسمیں ہیں   )          (۱)صحیح لذاتہ                        (۲)        صحیح لغیرہ؛

2.    حسن     (حسن کی دوقسمیں ہیں     )         (۱) حسن لذاتہ                     (۲)  حسن لغیرہ؛

3.  ضعیف       (ضعیف کی دوقسمیں ہیں   )       (۱)    قوی بتعدد طرق            (۲)     ضعیف متروک

صحیح ____!

جو اعلی مرتبہ کی حدیث ہو تی سو فیصد متفقہ یعنی تمام راوی مصنف سے لے کر آنحضرت تک سب کے سب صاحبِ عدالت ہوں ، صاحب ضبط ہوں حدیث کی روایت کے وقت عاقل اور بالغ ہوں نسیان کا احتمال نہ ہو ___جھوٹ نہ بولتا ہو ، متقی ہو ، بتقاضا بشریت گناہِ کبیر سرزد ہوا ہو تو توبہ کر لی ہو ___صاحب ِ مروت ہو ، ننگے سر نا گھومتا ہو، سرارہ بیٹھ کے پیشاب نہ کرتا ہو __ سرِ بازار بیٹھ کے کھاتا نہ ہو _____ہوشیار ہو اسے صحیح لزاتہ کہا جاتا ہے ، صحیح لغیرہ وہ حدیث ہے جس میں سب شرطیں صحیح لذاتہ کی پائی جاتی ہوں، علاوہ اس کے کہ کسی راوی کا حافظہ اتنا پختہ نہ ہو جتنا کہ صحیح لذاتہ کے راوی کا ہوتا ہے؛ مگراس کمی کوتعددِ طرق نے پورا کردیا ہو ___

حسن ____!

حسن لذاتہ وہ حدیث ہے جس کے تمام راوی عادل وضابط توہوں؛ سند میں کسی جگہ سے کوئی راوی جھوٹا نہ ہو اور حدیث معلل اور شاذ نہ ہو لیکن کوئی راوی خفیف الضبط ہو. حدیث صحیح لغیرہ اور حسن لذاتہ کی تعریفوں سے آپ کومعلوم ہوگیا ہوگا کہ اگرحدیث حسن لذاتہ میں ضبط کی کمی دیگرسندوں کی تائید سے پوری کردی جائے تووہی حدیث جوحسن لذاتہ تھی صحیح لغیرہ ہوجائے گی، بعض حدیثوں کی کتابوں میں آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ ایک ہی حدیث کوحسن اور صحیح لکھا ہے تواس کا یہی مطلب ہے کہ یہ حدیث اگرچہ حسن لذاتہ ہے؛ لیکن دوسری سندوں کی تائید سے یہ صحیح لغیرہ کے درجہ کوپہنچ گئی ہے۔
حسن لغیرہ وہ حدیث ہے جس کی قبولیت میں تردد ہو، جیسے کوئی راوی مستوراور مجہول الحال ہو؛ لیکن دوسری سندوں سے اس کوتقویت حاصل ہوگئی، یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہوتی ہے؛ لیکن دوسری سندوں کی تائید سے قابلِ عمل اور لائقِ استدلال ہوجاتی ہے، امام نوویؒ (۶۷۶ھ) نے شرح مہذب میں اور سیدنا ملاعلی قاری (۱۰۱۴ھ) نے اس سے استدلال کرنے کی تائید فرمائی ہے۔

ضعیف ___!

حدیثِ ضعیف (قوی بتعدد طرق)وہ حدیث ہے جس کی سند موجود ہو (یعنی موضوع اور من گھڑت نہ ہو) لیکن اس کے راوی باعتبار یادداشت یاعدالت کے کمزور ہوں؛ لیکن اگراسے دوسری سندوں سے تائید حاصل ہوتو یہ قبول کی جاسکتی ہے، حدیث ضعیف کا بھی اپنا ایک وزن ہے، یہ من گھڑت نہیں ہوتی۔
ضعیف حدیث کی سندیں گووہ اپنی جگہ ضعیف ہوں؛ لیکن اس کے راویوں کا اگران پہلے راویوں سے مل کر روایت کرنے کا مظنہ نہ ہو تواس تعدد طرق سے حدیث ضعیف قوی ہوکر حسن لغیرہ تک پہنچ جائے گی؛ لیکن اس کا فیصلہ حاذق محدثین ہی کرسکتے ہیں، نہ کہ ہرایک کواس کا حق دیا جائے نہ ہرایک اس کا اہل ہے 
حدیثِ ضعیف (متروک):ضروری نہیں کہ ضعیف حدیث کثرتِ طرق سے ہمیشہ قوی ہوجائے، بعض اوقات روایت کثرت طرق سے اور زیادہ ضعیف ہوتی جاتی ہے طالبِ حق سوچتا ہے کہ اسے باوجود اپنے مضمون کے اہم ہونے اور کثرتِ طرق سے مروی ہونے کے صحیح سند آخرکیوں میسر نہ آئی؟ اتنے طرق سے منقول ہوئی؛ مگرہرطریق سند کمزور ہی رہا، سویہ روایت محض اتفاقی ضعیف نہیں ہوگی؛ بلکہ حقیقۃً ہی کمزور ہوگی، اس صورت میں جوں جوں طرق بڑھتے جائیں گے ضعف اور نمایاں ہوتا جائے گا اور یہ بات ماہر محدثین اور حاذق اساتذہ ہی جان سکتے ہیں، حافظ زیلعیؒ (۷۶۴ھ) ایک مقام پر لکھتے ہیں:

ترجمہ: کتنی ہی حدیثیں ہیں جن کے راوی بہت ہیں اور ان کے طریق سند بھی متعدد ہیں پھر بھی وہ حدیث ضعیف رہی ہے جسے حدیث طیر، حدیثِ حاجم (کہ پچھنہ لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے) اور حدیث "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" بلکہ بعض اوقات کثرتِ طرق سے ضعف اور بڑھتا جاتا ہے۔ (نصب الرایہ:۱/۳۶۰)
ابنِ صلاحؒ (۶۴۳ھ)اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی ضعیف حدیث کوبیان کرنے کاارادہ کرے تواس کی نسبت رسول اللہﷺ کی جانب الفاظ جاذمہ (قطع ویقین کے سے الفاظ) سے نہ کرے یوں نہ کہے "قَالَ رَسُوْلُ اللہِ کَذَا وَمَاأَشْبَہُ ذَلِکَ" (مقدمہ ابن صلاح)بلکہ یوں کہے "رُوِيَ عَنْ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهٗ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَا وَكَذَا" یایوں کہے "بَلَغْنَا عَنْ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهٗ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَا وَكَذَا وَمِثَالُ ذَلِکَ" اوریہی حکم ان حدیثوں کے بارے میں ہے جن کی صحت وضعف میں شک ہو۔
علماء نے صرف پندونصیحت، بیان قصص اور فضائل اعمال کے مواقع پر احادیث ضعیف کے بیان کرنے کو بلااس کے ضعف بیان کیئے جائز رکھا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ کتبِ سیر میں آپ کواحادیثِ ضعیفہ بغیر تصریح کے بہت ملیں گی ۔

(4)باعتبارِ علم حدیث کی چار قسمیں ہیں ۔

متواتر ، مشہور، عزیز،غریب ___

متواتر ____!

متواتر وہ حدیث ہے جس کوابتداء سند سے لے کر آحرسند تک ہرزمانہ میں اتنے لوگوں نے بیان کیا ہو کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا عادۃ محال نظرآئے اور سند کی انتہا ایسی چیز پر ہو جس کا تعلق محسوسات سے ہو۔

جیسے قرآن پاک بھی تواتر سے امت تک پہنچا ہے اور علم یقین کا درجہ رکھتا ہے، قرآن کریم متواتر طبقاتی ہے، ہرطبقہ امت نے اسے اپنے سے پہلے طبقے سے اسی طرح قبول کیا ہے، اب اس میں کسی شک وتردد کی گنجائش نہیں ہے، جواس میں شک کرتا ہے وہ اسلام میں ہی شک کرتا ہے،اسی طرح آنحضرتﷺ سے جوحدیثیں تواتر کے ساتھ منقول ہیں، ان کی تکذیب بھی حضورﷺ کی تکذیب ہے، سوحدیث متواتر سے ثابت ہونے والے جملہ امور پرایمان لانا ضروری ہے اور ان میں سے کسی کا انکار کفر ہے، اُن میں سے کسی ایک کا انکار بھی کردیا جائے توانسان مسلمان نہیں رہتا۔ جیسے حدیث نزول عیسیٰ بن مریم اور حدیث لانبی بعدی
حضوراکرمﷺ نے قصر نبوت کے ذکر میں بھی (مسلم:۲/۲۴۸۔ صحیح بخاری:۱/۵۰۱۔ مسنداحمد:۲/۴۹۸۔ جامع ترمذی:۲/۵۴۴) انبیاء بنی اسرائیل کے ذکر میں بھی (صحیح بخاری:۱/۴۹۰۔ صحیح مسلم:۲/۱۲۶۔ مسنداحمد:۲/۲۹۷) تیس دجالوں کی پیشگوئی میں بھی (جامع ترمذی:۲/۱۱۲) دیگرانبیاء کرام پر اپنے خصائص بیان کرتے ہوئے بھی (صحیح مسلم:۲/، صحیح بخاری) مبشرات خواب کے جاری رہنے کے ذکر میں بھی (صحیح بخاری:۲/۱۰۳۵۔ فتح الباری:۲/۳۳۲) حضرت علیؓ کوہارونِ امت کہتے ہوئے بھی عیسی بن مریم کی دوبارہ تشریف آواری کی خبردیتے ہوئے بھی اور دیگر کئی مواقع پر بھی یہ بات کہی کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا "لانبی بعدی" ؟ یہ حدیث ان پہلوؤں سے یقینا درجہ تواتر کو پہنچ چکی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ "لانبی بعدی" کے کلمات لفظًا بھی متواتر ہیں۔

مشہور ____!

حدیث مشہور وہ ہے جس کے راوی پہلے طبقہ (یعنی طبقۂ صحابہؓ) میں حدِتواتر کونہ پہنچے ہوں؛ لیکن دوسرے اور تیسرے طبقے (تابعین اور تبع تابعین) میں اسے اتنے راویوں نے روایت کیا ہو کہ ان کا جھوٹ پر اکٹھا ہونا عادتًا محال ہو، یہ تین طبقے (قرون ثلاثہ) مشہود لہا بالخیر ہیں، جن کے خیر ہونے کی حدیث میں شہادت دی گئی ہے، اِن طبقوں میں سے دوکے ہاں اسے تواتر کی سی شہرت حاصل ہوگئی؛ سوحدیثِ مشہور ان حضرات کے ہاں خبرِواحد سے کچھ اوپر ہے اسے یہ خبرِواحد نہیں کہتے، علماء اصول خبرِ واحد سے قرآن کریم کے کسی عام حکم کوخاص نہیں کرتے؛ لیکن حدیث مشہور سے ان کے ہاں عام کی تخصیص جائز ہے، محدثین کے ہاں حدیث مشہور بھی خبرواحد کی ہی ایک قسم ہے۔

عزیز:

حدیثِ عزیز وہ حدیث جس کے راوی ابتداء سند سے لے کرآخر تک دوسے کم نہ ہوں (کسی جگہ دوسے زائد ہوجائیں توبھی حدیث عزیز ہی رہے گی) جیسے حدیث:"لَايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ"۔(مسلم، كِتَاب الْإِيمَانِ،بَاب وُجُوبِ مَحَبَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنْ،حدیث نمبر:۶۳، شاملہ، موقع الإاسلام)اس حدیث کوحضوراکرمﷺ سے دوصحابیوں نے ان میں سے ہرایک سے دوتابعیوں نے اور پھر ان سے دوتبع تابعیوں نے روایت کیا ہے، اس تعددرواۃ سے روایت بڑی قوی ہوجاتی ہے؛ لیکن اس سند سے بھی ایسا قطع ویقین حاصل نہیں ہوتا کہ اس کے منکرکوکافر کہا جاسکے

غریب:

یہ خبرِواحد ہے جس کی سند کسی مقام پر صرف ایک ہی راوی سے چلی ہو، مثلاً کسی صحابی سے ایک ہی تابعی نے روایت کیا ہو؛ گواس کے بعد پھر تفرد نہ رہا ہو، جیسے بخاری کی یہ روایت ہے:"الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَفْضَلُهَا لَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأذَی عَنْ الطَّرِيقِ"۔اسے حضرت ابوہریرہؓ سے صرف ابوصالح تابعیؒ نے روایت کیا ہے اور ابوصالح سے حضرت عبداللہ بن دینار نے اس طرح کی حدیث غریب کوفرد بھی کہتے ہیں۔

حدیث کا غریب ہونا اس کی صحت کے منافی نہیں، حدیث غریب حدیث صحیح کی ہی ایک قسم ہے، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ مقدمہ مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں:ترجمہ: حدیث صحیح کاراوی اگرایک ہی ہوتو اسے غریب کہیں گے، دوہوں توبھی اسے عزیز کہیں گے اور اگرراوی دوسے زیادہ ہوں تواسے مشہور اور مستفیض کہیں گے اور اگراسکے راوی کثرت میں اس درجے تک پہنچیں کہ عادۃ ان کا جھوٹ پر اتفاق کرلینا محال ٹھہرے تواسے متواتر کہیں گے، حدیث غریب کوفرد بھی کہتے ہیں (اکیلی) اور اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی حدیث کا غریب ہونا اس کے صحیح ہونے کے منافی نہیں اور ہوسکتا ہے کہ ایک حدیث صحیح بھی ہو اور غریب بھی کہ راوی تواس کے ایک ایک ہی ہوں لیکن سب ثقہ ہوں۔ (مقدمہ مشکوٰۃ:۶، دہلی، وقدیقع بمعنی الشاذ)

No comments:

Post a Comment