ULEMA


****علماء سے متعلق ہمارا رویہ****

افراط وتفریط کا کسی بھی معاملے میں پایا جانا اس شے کے حسن کو خراب کرتا ہے لیکن اگر افراط وتفریط دین کے معاملے میں ہو تو انجام صرف گمراہی وتباہی ہے۔
علماء سے متعلق ہمارے رویوں میں افراط وتفریط دو طرح کے طبقات کو جنم دیتا ہے۔اور ان دونوں طبقات کو اگر گمراہ کہا جائے تو حق بجانب ہوگا.


🌟ایک وہ طبقہ جو علماء سے متعلق ایسی شدید عقیدت کا قائل ہےاورغلو اس قدر کہ ایک بیماری کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ہو سکتا ہے میرے الفاظ پڑھنے والوں کو غلط لگیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسی عقیدت کو بیماری کہنا ہی مناسب ہے۔اور ان کا حال یہ ہے کہ انکو جس عالم سے عقیدت ہو جائے وہ زبان سے نہ کہتے ہوئے بھی اس عالم کو نبی بلکہ رب کا درجہ عنایت کر دیتے ہیں۔(کما قال اللہ تعالی اتخذوا احبارھم ورہبانھم اربابا من دون اللہ اور پھر بخاری میں اسکی شرح کہ علماء کے حلال کو حلال اور حرام کہے ہوئے کو حرام مان لینا ہی انکو رب بنا لینا ہے) اسی کی بات حرف اوّل اسی کی بات حرفِ آخر۔ وہ سچا ہو یا جھوٹا، بس اس نے جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔اس نے کہا حلال تو حلال اس نے کہا حرام تو بس حرام۔وہ قرآن سمجھیں گے تو اس کی زبان سے، حکمِ رسول بھی اسی کی زبان کی شرح کا محتاج۔۔۔چاہے اس کی غلطی کتنی ہی سنگین اور مہلک کیوں نہ ہو پھر بھی نص کی موجودگی میں اسکی رائے کا دفاع کریں گے بھلے ہی قرآن وحدیث کو توڑنا مڑوڑنا پڑ جائے۔بس گلے میں عقیدت کا پٹہ اور باقی تمام حقائق سے اندھے۔۔


🌟اور ایک دوسرا طبقہ کہ جب کوئی ان کے ذاتی مفاد کے خلاف حکم الہی یاحکم شرعی بیان کرے تو یہ اس کے دشمن ہو جاتے ہیں۔اور چاہتے ہیں کہ دیندار لوگ اپنا دین بس اپنے گھر تک محدود رکھیں۔یا مسجد ومنبر تک۔ لیکن جب ایسا نہیں ہوتا تو اور جس کے مفاد پر جتنی ضرب لگتی ہے اور دُم پر جتنا پاؤں پڑتا ہے وہ اسی قدر چلاتا ہے۔دورِ حاضر میں ان دین بیزاروں کی بہت سی مثالیں موجودہیں۔دراصل انُکو علماء سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہوتی بلکہ انکو ان احکامات سے تکلیف ہے جو اللہ رب العزت نے نازل فرمائے جیسا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے لوگوں کو دشمنی نہیں تھی بلکہ وہ تو انکو صادق و امین کہتے تھے ۔دشمنی تھی تو اللہ کے پیغام سے۔سورہ الانعام کی آیت نمبر ۳۳ میں ہے کہ
قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ ۖفَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُون
(
ہم جانتے ہیں کہ آپکو ان(کفار ومشرکین) کی باتیں غمگین کرتی ہیں۔ مگر یہ آپکو نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم تو اللہ کی آیات سے جھگڑتے ہیں۔)
🌟🌟🌟
تو ہمیں علماء سے متعلق کیسا رویہ رکھنا چاہیئے؟
علماء کی بہت عزت کی جائےبلکہ صالح الفوزان فرماتے ہیں کہ عزت کرنا فرض ہے۔انکو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ان کی تکریم کی جائے،ان سے علم سیکھا جائے اور انکی رائے کو بڑے ادب سے سنا جائے کیونکہ یہ علماء انبیاء کے وارث ہیں مگر یاد رکھا جائے کہ یہ انبیاء نہیں ہیں۔اور انکی رائے درست بھی ہو سکتی ہے غلط بھی۔نص کی موجودگی میں رائے حجت نہیں۔محبت ہو عقیدت ہو مگر غلو نہ ہو۔احترام ہو عبادت نہ ہو۔ علماء کا عہدہ بہت بلند ہے، اگر کہیں غلطی کر جائیں تو انکی ہر گز ہر گز تضحیک نہ کی جائے۔بلکہ نہایت احترام کے ساتھ اپنی بات ان کے سامنے رکھی جائے۔ اگر قرآن وحدیث سے مسئلہ واضح ہوجائے تو نص کو ہی مقدم رکھا جائے۔ کیونکہ نص کی موجودگی میں عالم کی رائے کو مقدم رکھنا انکو رب بنانا ہے۔جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:

فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا

پھر اگر آپس میں کوئی چیز میں جھگڑا کرو تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف پھیرو اگر تم الله اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے۔
(النساء/۳۳(

اور علماء کو بھی چاہیئے کہ مسئلہ قرآن وحدیث سے واضح کریں اور سائل کو گمراہی سے بچائیں نہ کہ اپنی رائے اور تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئےمزید گمراہ کریں۔اور دلائل مہیا کرنا بھی علماء کا فرض ہے۔
علماء کا احترام قائم رہے مگر شریعت سازی کا حق انکو کسی صورت نہ دیا جائے۔اور ان لوگوں کا رویہ بہت گھٹیا ہے جو کسی عالم کی زرا سی غلطی پر طعن وتشنیع کرنے لگتے ہیں، اس رویے سے بچا جائے وہ بھی انسان ہیں اور کوئی بشر بھی خطا سے مستثنی نہیں، ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جائے کیونکہ دین سکھانے کے جس عہدے پر وہ فائز ہیں وہ عہدہ بہت عظیم ہے۔اور اس بات کو بھی یاد رکھا جائے کہ دینی مسائل کے بیان پر کسی کا مذاق یا کسی حکم شرعی کا مذاق اڑانا کفر تک لے جاتا ہے۔فرمان باری تعالی پر غور کیجیئے:

وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ - لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ إِن نَّعْفُ عَن طَائِفَةٍ مِّنكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ- ( سورة التوبة 65-66 )

ترجمہ : اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے۔ کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں۔تم عذر نہ تراشو یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے ۔ اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کرلیں، تو کچھ لوگوں کو ان کے جرم کی سنگین سزا بھی دیں گے-

یہ آیت غزوہ تبوک موقع پر نازل ہوئی منافقین نے اور انکے ساتھ رہنے والے کچھ سادہ مسلمانوں میں سے کسی ایک نے صرف اتنی سی بات کہہ دی تھی اور باقی لوگ ہنس پڑے تھے وہ بات یہ تھی " ما رأينا مثل قرائنا هؤلاء أرغب بطوناً ولا أكذب ألسناً ولا أجبن عند اللقاء " يعني { ہم نے اپنے ان قاریوں کے جیسا کسی کو پیٹو، زبان کا جھوٹا، لڑائی کے وقت بزدل نہیں دیکھا} جب یہ خبر نبي صلى الله عليه وسلم تک پہونچی تو الله تعالى نے اسی وقت یہ آیت نازل فرمائی اور وہ شخص نبي صلى الله عليه وسلم کے پاس معذرت کے لئے آیا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے اس آیت کے ذريعے ہی اسے جواب ارشاد فرمایا کہ " ۚ قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ - لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ " { کہہ دیجئے کہ اللہ اس کی آیتیں اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں۔ تم عذر نہ تراشو یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد بے ایمان ہوگئے
 
اس واقعہ کو ابن کثیر نے اپنی تفسیر (2/368) میں، اور الطبری نے بھی اپنی تفسیر (10/172) میں ذکر کیا ہے۔

کیا انکا جرم بہت بڑا تھا؟ یا انہوں نے اللہ اور رسول سے متعلق طنزیہ یا مضحکہ خیز بات کہی تھی؟

بلکہ بات تو ان سے متعلق تھی جو دین کا پیغام آگے پہنچاتے تھے۔اسلیئے علماء سے متعلق احتیاط کا دامن نہ چھوڑا جائے۔ اللہ ہمیں درمیانی راہ پر چلتے ہوئے حق کو سمجھنے اور اس پر قائم رہنے کی توفیق دے۔

No comments:

Post a Comment