Monday, September 5, 2016

आयेशा र.अ की उमर और अहादीस पर ऐतराज़ ( उर्दू )


 WATCH VIDEO :Why Did Muhammad Marry Young Aisha?




عمر عائشہ اور متجددین کے احادیث پر اعتراضات کے جوابات

گزشتہ تحریر میں ہم نے ماضی اور حال کی مثالوں سے تفصیل پیش کی تھی کہ حضرت عائشہ کی نو سال کی عمر میں شادی کوئی عجیب بات نہیں تھی وہ عاقلہ اور بالغہ تھیں۔ یہ دلائل سب کے سامنے ہیں لیکن پھر بھی بہت سے لوگ اپنی علمی کم مائیگی کی بناء پر ان احادیث صحیحہ پر زبان طعن دراز کرتے نظر آتے ہیں جن میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر بوقت رخصتی نو (۹) سال بیان کی گئی ہے ۔ انکے موقف کو دیکھا جائے تو انکا یہ اعتراض کسی اصول کی بناء پر نہیں اور نہ ہی اسکی بنیاد کوئی “علم ” ہے ۔ بلکہ اپنے ذززہن سے قائم کردہ ایک مفروضے اورصرف اپنی عقل کوتاہ پر بنیاد رکھ کر انہوں نے ان احادیث صحیحہ کو طعن کا نشانہ بنایا ہے ۔
عمر امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق انکے نقطہ نظر اور اعتراضات پرتبصرہ پیش کرنے سے پہلے یہ عرض کردیں کہ شادی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر چھ سال اور رخصتی کے وقت نو سال کوئی اجتہادی مسئلہ نہیں ہے کہ اس میں یہ غور کیا جائے کہ مسئلہ کا کونسا پہلو صحیح ہے اور کونسا غلط؟ یہ تو ایک ٹھوس حقیقت ہے جسے مانے بغیر چارہ نہیں ہے۔ اسکے ٹھوس ہونے کی چند وجوہات ہیں۔


1. عمر سے متعلق خود عمر والے کی صراحت :۔
عمر سے متعلق خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صراحت موجود ہے۔یہ صراحت بخاری اور مسلم دونوں میں ہے جنکو قرآن کریم کے بعد صحیح ترین کتابیں مانا گیا ہے۔ حدیث دیکھئے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح جب ہوا تو میری عمر چھ سال کی تھی ، پھر ہم مدینہ ( ہجرت کرکے ) آئے اور بنی حارث بن خزرج کے یہاں قیام کیا ۔ یہاں آکر مجھے بخار چڑھا اوراس کی وجہ سے میرے بال گرنے لگے ۔ پھر مونڈھوں تک خوب بال ہوگئے پھر ایک دن میری والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا آئیں ، اس وقت میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی انہوںنے مجھے پکا را تو میں حاضر ہوگئی ۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ ان کا کیا ارادہ ہے ۔ آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑکر گھر کے دروازہ کے پاس کھڑا کر دیا اور میرا سانس پھولا جارہاتھا ۔ تھوڑی دیر میں جب مجھے کچھ سکون ہوا تو انہوں نے تھوڑا سا پانی لے کر میرے منہ اور سر پر پھیرا ۔ پھر گھر کے اندر مجھے لے گئیں ۔ وہاں انصار کی چند عورتیں موجود تھیں ، جنہوںنے مجھے دیکھ کر دعا دی کہ خیر وبرکت اور اچھا نصیب لے کر آئی ہو ، میری ماں نے مجھے انہیں کے حوالہ کردیا اور انہوں نے میری آرائش کی ۔ اس کے بعد دن چڑھے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اورانہوں نے مجھے آپ کے سپرد کردیا میری عمر اس وقت نو سال تھی ۔
صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار
رواه البخاري (3894) ومسلم (1422)
اس روایت میں صراحت کے ساتھ عمر کا بیان آیا ہے
کیا ہشام بن عروہ اس حدیث کے تنہا راوی ہیں ؟
بعض حضرات دعوی کرتے ہیں کہ مذکورہ بالا روایت کی صرف ایک ہی سند ہے ۔ حالانکہ متعدد سندوں سے یہ روایت منقول ہے۔ مشہور ترین سند ھشام کی ہے (ھشام بن عروة عن ابیه عن عائشة ) یہ: صحیح ترین روایت بھی ہے کیونکہ یہ عروہ بن زبیر سے آرہی ہے اور عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے احوال سے سب سے زیادہ واقف تھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا انکی خالہ تھیں
دوسری سند: سندِ اعمش ہے (اعمش عن ابراھیم عن الاسود عن عائشة ) یہ سند مسلم میں ہے۔ حدیث نمبر: 1422
تیسری سند: سندِ محمد بن عمرو ہے (محمد بن عمرو عن یحی بن عبد الرحمن بن حاطب عن عائشة )یہ سند ابو داؤد میں ہے۔ حدیث نمبر: 4937
مزید یہ کہ شیخ ابو اسحاق حوینی نے عروہ بن زبیر اور ھشام بن عروہ دونوں کے متابعین بھی جمع کئے ہیں
متابعین عروہ بن زبیر : اسود بن یزید، قاسم بن عبد الرحمن، قاسم بن محمد بن ابی بکر، عمرہ بنت عبد الرحمن، یحی بن عبد الرحمن بن حاطب
متابعین ھشام بن عروہ: ابن شہاب زہری، ابو حمزہ میمون
اس کے ساتھ ساتھ کہ شیخ حوینی نے مدنی،مکی وغیرہ ان رواة کو بھی جمع کیا ہے جو ھشام بن عروہ سے اس حدیث کو نقل کرتے ہیں
مدنی رواة: ابو الزناد عبد اللہ بن ذکوان، عبد الرحمن بن ابی الزناد، عبد اللہ بن محمد بن یحی بن عروہ
مکی رواة: سفیان بن عیینہ، جریر بن عبد الحمید؟
بصری رواة: حماد بن سلمہ، حماد بن زید، وھییب بن خالد وغیرہ
خلاصہ یہ کہ راویوں کی اتنی بڑی تعداد اس شبہ کے ازالہ کیلئے کافی ہے کہ ھشام بن عروہ تنہا اس روایت کو بیان کرنے والے ہیں ۔۔
کیا ہشام بن عروہ کا حافظہ آخر عمر میں بگڑ گیا تھا؟
بخاری کی مذکورہ بالا روایت پر دوسرا الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ ھشام بن عروہ کا حافظہ آخر عمر میں بگڑ گیا تھا۔ یہ الزام علماء فن رجال میں صرف ابن قطانؒ لگاتے ہیں، ان کے علاوہ اور کوئی ایسی بات نہیں کہتا۔ مگر ابن قطانؒ کا یہ الزام درست نہیں ہے۔ ہشام بن عروہ پہ تبصرہ فرماتے ہوئے امام ذہبی بیان فرماتے ہیں
ترجمہ: ہشام بن عروہ بڑے آدمی ہیں، حجہ ہیں، امام ہیں، بوڑھاپے میں حافظہ بگڑا تو تھا مگر ہمہ وقت بگڑا نہیں رہتا تھا، ابن قطان نے انکے بارے میں جو بات کہی ہے اسکا کوئی اعتبار نہیں، حافظہ بگڑا ضرور تھا مگر ایسا نہیں بگڑا تھا جیسا انتہائی بوڑھے لوگوں کا بگڑ جاتا ہے۔ وہ صرف چند باتیں بھولے تھے،اور اِس میں کوئی خرابی نہیں ، بھول سے کون محفوظ ہے؟ آخر عمر میں جب ھشام بن عروہ عراق آئے تھے تو آپ نے اہل علم کے ایک بڑے مجمع میں احادیث بیان کی تھیں، اس مجمع میں چند ہی احادیث ایسی تھیں جنکو آپ صحیح سے بیان نہ کرسکے تھے (اکثر آپ نے درست بیان کی تھیں ) اس طرح کی صورت حال کا سامنا دیگر بڑے لوگوں کو بھی اپنی آخری عمر میں کرنا پڑا تھا جن میں امام مالک، امام شعبہ امام وکیع جیسے دیگر بڑے نام آتے ہیں۔ اس الزام سے صرف نظر کیجئے۔ بڑے بڑے ائمہ کو کمزور راویوں کے درجے میں لانے سے بچیں۔ ہشام بن عروہ شیخ الاسلام تھے۔
(” ميزان الاعتدال ” (4/301-302) .
ہم نے کئی اہل علم کو بھی یہ اعتراض دہراتے دیکھا حالانکہ وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ ایک عظیم راوی کی حیثیت کو مشکوک کرنا، اس سے منسوب تمام ذخیرۂ حدیث کو عوام کی نظر میں بے اعتبار کرنے پر منتج ہو سکتا ہے ۔اگر وہ اس اڑتے ہوئے نعرے پر اعتبار فرمانے کے بجائے رجال و تراجم کی کتب کی طرف رجوع کر تے تو اس بے سروپا اعتراض کی حقیقت اور ایک جلیل القدر راویِ حدیث کی مکمل تصویر سامنے آسکتی تھی ۔۔ اس طرح کی ا یک رخی تصویریں پیش کرنا کسی طرح بھی مسلم علمی روایت کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔
اہل غلو کی شاید یہ مجبوری ہوتی ہے کہ انھیں صرف اپنے مطلب کی بات سے غرض ہوتی ہے اور کسی کونے کھدرے سے کوئی بات دریافت ہوجائے تو وہ ٹڈے کی ٹانگ پر ہاتھی کا خول چڑھا لیتے ہیں۔
احادیث عمر عائشہ اور تاریخ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور انکے معاصرین سے منقول روایات ان تاریخی کتابوں سے بھی میل کھاتی ہیں جن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوانحی خاکے درج ہیں, اِن میں اور اُن میں ذرا اختلاف نہیں ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ تمام تاریخی اور سوانحی کتابوں میں یہ بات موجود ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش زمانہ اسلام میں ہوئی ہے، بعثت نبوی کے چار یا پانچ سال بعد۔
امام بیہقیؒ حدیث: لم اعقل ابوی الا وھما یدینان الدین پہ تبصرہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
وعائشة رضي الله عنها وُلدت على الإسلام ؛ لأن أباها أسلم في ابتداء المبعث ، وثابت عن الأسود عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم تزوجها وهي ابنة ست ، وبنى بها وهي ابنة تسع ، ومات عنها وهي ابنة ثمان عشرة ، لكن أسماء بنت أبي بكر ولدت في الجاهلية ثم أسلمت بإسلام أبيها… وفيما ذكر أبو عبد الله بن منده حكاية عن ابن أبي الزناد أن أسماء بنت أبي بكر كانت أكبر من عائشة بعشر سنين ، وإسلام أم أسماء تأخر ، قالت أسماء رضي الله عنها : قدمت عليَّ أمي وهي مشركة . في حديث ذكرته ، وهي قتيلة ، مِن بني مالك بن حسل ، وليست بأم عائشة ، فإن إسلام أسماء بإسلام أبيها دون أمها ، وأما عبد الرحمن بن أبي بكر فكأنه كان بالغا حين أسلم أبواه ، فلم يتبعهما في الإسلام حتى أسلم بعد مدة طويلة ، وكان أسن أولاد أبي بكر ” انتهى باختصار .
” السنن الكبرى ” (6/203)
امام ذہبیؒ:
” عائشة ممن ولد في الإسلام ، وهي أصغر من فاطمة بثماني سنين ، وكانت تقول : لم أعقل أبوي إلا وهما يدينان الدين ” انتهى .
” سير أعلام النبلاء ” (2/139) .
حافظ ابن حجرؒ:
ولدت – يعني عائشة – بعد المبعث بأربع سنين أو خمس ” انتهى .
” الإصابة ” (8/16)
ان میں یہ بھی مذکور ہے کہ ہجرت کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر آٹھ سال تھی۔ یہ بات بھی احادیث میں مذکور بات سے مکمل میل کھاتی ہے
ان کتابوں میں یہ بھی مذکور ہےکہ حضورﷺ کے وصال کےوقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ اس سے بھی یہ بات پتہ چلی کہ ہجرت کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر نو سال تھی۔
2- سال وفات سے استدلال
تاریخی، سوانحی اور سیرت کی کتابوں میں یہ مذکور ہے انتقال کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر 63‍ سال تھی۔ سال وفات: سن ستاون 57 ہجری ہے، اس سے بھی معلوم ہوا کہ ہجرت کے وقت آپؓ کی عمر چھ سال تھی(پس مجموعی طور سے تاریخی کتابوں سے جو عمریں نکلیں وہ تین ہوگئیں۔ نو سال، آٹھ سال اور چھ سال )اگر آپ کسر کو حذف کردیں جیسا کہ عربوں کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ سن ولادت اور سن وفات کو گنتے نہیں ہیں تو ایسے میں آپؓ کی عمر ہجرت کے وقت آٹھ سال ہوگی، اور نو مہینے بعد رخصتی کے وقت آپؓ کی عمر نو سال ہوگی۔

3- عمروں کے درمیان فرق سے استدلال
مذکورہ بالا حساب اس وقت بھی درست بیٹھتا ہے جب آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی عمروں کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ حضرت اسماء ؓ حضرت عائشہؓ سے کتنی بڑی تھیں۔ امام ذہبی لکھتے ہیں:
وكانت – يعني أسماء – أسن من عائشة ببضع عشرة سنة ” انتهى . ” سير أعلام النبلاء ” (2/188)
ترجمہ: حضرت اسماء حضرت عائشہ سے کچھ سال بڑی تھیں
ابو نعیم لکھتے ہیں:
عن أسماء أنها ولدت : ” قبل مبعث النبي صلى الله عليه وسلم بعشر سنين ” انتهى .
بعثت نبوی سے دس سال پہلے حضرت اسماء کی ولادت ہوئی ۔
پہلا حوالہ دوسرے حوالے کی وضاحت کررہا ہے۔ ان دو حوالوں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ دونوں بہنوں کے درمیان چودہ پندرہ سال کا فرق تھا۔پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سال ولادت چار پانچ ہجری ہوا
کیا حضرت اسما حضرت عائشہ سے صرف دس سال بڑی تھیں؟ :
اب ہم بعض لوگوں کے اس دعوے کا جائزہ لیں گے کہ حضرت اسماءؓ اور حضرت عائشہؓ کے درمیان جو فرق تھا وہ دس سال کا تھا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ دس سال فرق والی روایت سندا صحیح نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر ہم اسکو سندا صحیح مان بھی لیں تو اس روایت کا مطلب وہ بیان کیا جانا چاہئے جو بخاری اور مسلم کی روایات سے لگا کھاتا ہو، نہ کہ یہ کہ اس مشکوک روایت کی وجہ سے بخاری و مسلم کی صحیح روایات کو ساقط کردیا جائے۔ غرض اِس کو اُن کے تابع کیا جائے گا ناکہ اُن کو اِس کے آئیے اس روایت کا حال دیکھتے ہیں۔ دو سندوں سے منقول ہے یہ روایت
پہلی سند : رواه ابن عساكر في ” تاريخ دمشق ” (69/10) قال : أخبرنا أبو الحسن علي بن أحمد المالكي ، أنا أحمد بن عبد الواحد السلمي ، أنا جدي أبو بكر ، أنا أبو محمد بن زبر ، نا أحمد بن سعد بن إبراهيم الزهري ، نا محمد بن أبي صفوان ، نا الأصمعي ، عن ابن أبي الزناد قال : فذكره .
دوسری سند : رواه ابن عبد البر في ” الاستيعاب في معرفة الأصحاب ” (2/616) قال : أخبرنا أحمد بن قاسم ، حدثنا محمد بن معاوية ، حدثنا إبراهيم بن موسى بن جميل ، حدثنا إسماعيل بن إسحاق القاضي ، حدثنا نصر بن علي ، حدثنا الأصمعي قال : حدثنا ابن أبي الزناد ، قال : قالت أسماء بنت أبي بكر ، وكانت أكبر من عائشة بعشر سنين أو نحوها .
منصف اہل علم جب اس روایت میں غور کریں گے تو ان پر یہ بات ظاہر ہوگی کہ اس روایت کے ظاہر پر عمل کرنا اور اِس کی وجہ سے تمام صحیح روایات کو پس پشت ڈال دینا علم و تحقیق کے نام پر زیادتی ہے ظلم ہے۔ ایسا تین وجہوں سے ہے
پہلی وجہ : عبد الرحمن بن ابی الزناد منفرد ہیں۔ صرف یہی دس سال کا فرق بیان کرتے ہیں۔ ( انکا کوئی متابع نہیں ) جبکہ اس کے خلاف نقطہ نظر کے دلائل جو اوپر مذکور ہوچکے ہیں وہ ایک تو بکثرت ہیں، دوسرے متعدد لوگوں سے منقول بھی ہیں۔ اور یہ مشہور و معروف بات ہے کہ کثرت کو قلت پر ترجیح ہوتی ہے
دوسری وجہ: اکثر اہل علم نے عبد الرحمن بن ابی الزناد کی تضعیف کی ہے۔ ان کے بارے میں ائمہ فن کے اقوال دیکھئے
قول الإمام أحمد فيه : مضطرب الحديث . وقول ابن معين : ليس ممن يحتج به أصحاب الحديث . وقول علي بن المديني : ما حدث بالمدينة فهو صحيح ، وما حدث ببغداد أفسده البغداديون ، ورأيت عبد الرحمن – يعنى ابن مهدى – خطط على أحاديث عبد الرحمن بن أبى الزناد ، وكان يقول فى حديثه عن مشيختهم ، ولقنه البغداديون عن فقهائهم ، عدهم ، فلان وفلان وفلان . وقال أبو حاتم : يكتب حديثه ولا يحتج به . وقال النسائي : لا يحتج بحديثه . وقال أبو أحمد بن عدى : وبعض ما يرويه ، لا يتابع عليه
تهذيب التهذيب ” (6/172)
لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ امام ترمذیؒ نے سنن ترمذی میں عبد الرحمن بن ابی الزناد کی توثیق کی ہے تو تنہا حضرت امام ترمذیؒ کی یہ توثیق اِس مفصل جرح اور تضعیف کے خلاف ہے جو ائمہ فن کے حوالے سے ابھی اوپر مذکور ہوئی۔ ائمہ فن کی یہ تضعیف امام ترمذی کی توثیق پر مقدم ہوگی خاص طور سے اس وقت تو ضرور مقدم ہوگی جب عبد الرحمن بن ابی الزناد تن تنہا ایک ایسی بات بیان کریں (دس سال کا فرق ) جو احادیث اور تاریخی کتابوں میں مذکور بات کے یکسر خلاف ہو
تیسری وجہ: عبد الرحمن بن ابی الزناد کی سند سے آنے والی صحیح ترین روایت کے الفاظ دیکھئے: و کانت اکبر من عائشة بعشر سنین او نحوھا
ترجمہ: اسماءؓ عائشہؓ سے دس سال بڑی تھیں یا اس کے قریب قریب
یہ ‌” او نحوھا” کے الفاظ بذات خود دلالت کررہے ہیں کہ راوی کو عمر ٹھیک ٹھیک یاد نہیں ہے۔ اس سے بھی روایت میں ضعف آتا ہے۔
( خلاصہ کلام): مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں اہل انصاف علماء، دانشوران اور اسکالرز کیلئے ہرگز مناسب نہیں کہ وہ عبد الرحمن بن ابی الزناد کی مشکوک روایت کی وجہ سے صحیح روایات اور مضبوط دلائل کو رد کردیں، پس پشت ڈال دیں۔۔
: نوٹ: واضح رہے مذکورہ بالا تاریخی روایتیں جو ہم نے اوپر نقل کی ہیں اِن کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمارا اعتماد اور استدلال کی بنیاد ان تاریخی روایتوں پر ہے۔ نہیں! حاشا و کلا! ہمارے استدلال کی بنیاد تو سند صحیح سے منقول روایات ہیں، مگر چونکہ یہ تاریخی روایات سند صحیح سے منقول روایات سے میل کھا رہی تھیں اس لئے ہم نے صرف تائیدی طور سے نقل کیا ہے۔

http://ilhaad.com/2015/04/umar-e-ayesha-hadith/

No comments:

Post a Comment