Friday, September 2, 2016

1. KYA HADEES QURAN KE KHILAF AJMI SAZISH HAI ?

حدیث پر قرآن کے سائے
حدیث ہمیں کس طرح قرآن کریم کی طرف متوجہ کرتی ہے اور حدیث پر کس طرح قرآن کے سائے پھیلے ہوئے ہیں اورحدیث میں قرآن کریم کو کس طرح سربراہ مانا گیا ہے؟ اس سے اس پروپیگنڈے کی خود تردید ہوجائیگی کہ حدیث قرآن کے خلاف ایک عجمی سازش ہے،حدیث کے لٹریچر کا اگر یہی مقصد ہوتا کہ لوگوں کو قرآن کریم سے ہٹایا جائے تو اس میں قرآن کے سائے اس دور تک پھیلے ہوئے ہمیں کبھی نہ ملتے،حق یہ ہے کہ حدیث میں قدم قدم پر قرآن کریم کی سربراہ حیثیت کا اقرار ہے،آئیے دیکھیں روایاتِ حدیث میں کہیں قرآن کریم کے حوالے بھی ملتے ہیں؟ ملتے ہیں تو کس حیثیت سے؟ حدیث پر قرآن کریم کس طور پر سایہ فگن ہے؟ اورمتون حدیث میں قرآن کریم کو کس حیثیت سے ذکر کیا گیا ہے برابر کے ماخذ علم ہونے کی حیثیت سے یا اسے ایک منبع کی حیثیت سے ذکر کرتے ہیں جس سے آگے علم کے کئی اور چشمے پھوٹے ہوں۔اس موضوع میں دیکھنا چاہئے کہ محدثین کے ہاں مرویات حدیث میں قرآنی ہدایت کن اصولی حدود تک کارفرما ہے اور اس کی اصولی نظائر کس کس انداز میں مرویاتِ حدیث میں موجود ملتے ہیں۔

بعض روایات حدیث میں کتاب و سنت کو دوبرابر کے ماخذ علم کی حیثیت میں پیش کیا گیا ہے "ترکت فیکم امرین" '' میں تم لوگوں میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں" کی تعبیرات دونوں کو ایک ساتھ ذکر کرتی ہیں؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تمام مرویات میں کتاب اللہ کا ذکر پہلے اورسنت یا حدیث کا ذکر بعد میں ہے،یہ صحیح ہے کہ عربی زبان میں واؤ ترتیب کے لیے نہیں ہوتی ؛لیکن سینکڑوں روایات میں ایک ہی ترتیب کا التزام بتلاتا ہے کہ قرآن مجید ہمیشہ سے مقدم رہا ہے اورحدیث قرآن کی برابری کے لیے نہیں اس کا آگے عملی پھیلاؤ ہے،یہ نہر ہدایت منبع قرآن سے ہی نکلی ہے اورحدیث میں ہر جگہ قرآن کو ہی سربراہ تسلیم کیا گیا ہے، علوم اسلامی کے تمام سوتے قرآن سے ہی پھوٹے ہیں اور یہی منبع علم ہے جو آگے پھیلتا چلا گیا؛پھر ایسی روایات کی بھی کمی نہیں جن میں آنحضرتؐ نے صرف قرآن کوہی پیش کیا ہے؛ اسی کو حق سے وابستگی بتلایا ہے؛ اسی کو حق کا نشان کہا ہے اوربنی نوع انسان کو اسی کی ابدی سچائی کی طرف دعوت دی ہے۔

قرآن و حدیث
یہ دونوں بنی نوع انسان کے لیے برابر کے حجت ہیں؛لیکن ماخذ علم ہونے میں دونوں ایک ترتیب سے سامنے آئے ہیں اور درجہ ہر ایک کا اپنا اپنا ہے۔بعض روایات میں۔"أ
َلَا إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ"۔ ترجمہ:کہ مجھے کتاب اللہ کے ساتھ اسی کی مثل اور بھی عطاء فرمائی گئی ہے۔(ابو داؤد،باب فی لزوم السنۃ،حدیث نمبر:۳۹۸۸)کے سے الفاظ ملتے ہیں؛ لیکن یہاں مثلیت سے مثلیت من کل الوجوہ مراد نہیں، قرآن مجید صفتِ خداوندی ہے اورمخلوق نہیں ہے، صفت باری تعالی مخلوق کیسے ہوسکتی ہے؟ حدیث قول و فعل پیغمبرﷺ ہے اورپیغمبرﷺ خود مخلوق ہیں، جو مخلوق سے صادر ہو وہ غیر مخلوق جیسا کیسے ہوسکتا ہے،سو یہاں مثلیت سے مراد مثلیت فی الحجۃ ہے؛ یعنی جس طرح قرآن مومنین کیلیے حجت ہے،قانون اور شرع ہے؛ اسی طرح حدیث بھی مومنین کے لیے قانون اورشرع، حدیث کا سرچشمہ بھی گو وحی الہٰی ہی ہے،لیکن تعبیر قرآن اورحدیث کی اپنی اپنی ہوتی ہے اورمسلمانوں کے لیے ہر دوماخذ علم ہیں اوراپنےاپنے درجے میں رہتے ہوئے یکساں حجت ہیں، کسی کا بھی کوئی عمدا انکار کرے تو وہ کفر کی دلدل میں گرجاتا ہے۔

حدیث میں قرآن بحیثیت منبع ہدایت ہے:
حدیث کے لٹریچر میں جگہ جگہ قرآن کی طرف متوجہ کیا گیا ہے عام محدثین قرآن کریم کو ہمیشہ سے منبع ہدایت تسلیم کرتے آئے ہیں،المصنف لا بن ابی شیبہؒ میں ہے۔

(
۱)حضرت زید بن ارقم آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں،حضورﷺ نے فرمایا:
ترجمہ: میں تم میں کتاب اللہ چھوڑے جارہا ہوں، یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے،جس نے اس کی پیروی کی ہدایت پر رہا اورجس نے اسے چھوڑدیا وہ گمراہی پر ہے۔(کنز العمال:
۱/۱۸۵)
(
۲)حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: ترجمہ:اور میں نے وہ چیز چھوڑی ہے کہ اگر تم نے اس سے تمسک کیا تم کبھی گمراہ نہ ہوگے، وہ اللہ کی کتاب ہے۔(مسلم،باب حجۃ النبیﷺ ،حدیث نمبر:۲۱۳۷)
(
۳)حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ سے پوچھا گیا کہ حضورﷺ نے کسی کے لیے کوئی وصیت فرمائی؟ آپ نے کہا نہیں، اس نے کہا ہمیں تو آپﷺ نے وصیت کرنے کا حکم دیا اورخود کوئی وصیت نہیں فرمائی؟ اس پر حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ نے کہا: ترجمہ:آپ نے قرآن کریم کو لازم پکڑنے کی وصیت فرمائی ہے۔(مسند الطیالسی، باب ھل اوصی رسول اللہﷺ :۲/۴۰۱)
ان تمام روایات میں قرآن کریم پر اقتصار کیا گیا ہے کہ وہ اطاعت رسول کی دعوت دیتے ہوئے عمل بالسنۃ کو بھی شامل ہے، کما فی بذل المجہود:
۳/۱۵۵)؎

حدیث میں قرآن کی طرف رجوع:
آنحضرتﷺ جانتے تھے کہ نص قرآنی "إِذَاقَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا" کے تحت آپﷺ کے فیصلے اورارشادات بذات خود سند اورحجت ہیں،کسی مومن کو حق نہیں کہ صحیح حدیث ملنے کے بعد اس سے بڑی سند کا مطالبہ کرے یا قرآن سے اس کی دلیل مانگے، پھر بھی آپﷺ نے قرآن کی اساسی حیثیت اوراس کے اصل منبع علم ہونے کا بارہا اظہار فرمایا ہے،حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے کئی بار فرمایا،چاہو تو اس باب میں تم قرآن کریم بھی پڑھ لو، آپﷺ کی عادت مبارک تھی کہ حدیث بیان کرتے کرتے کبھی کبھی اس کی اصل قرآن کی بھی نشاندھی فرمادیتے، قرآن کریم سے یہ استشہاد کبھی تو عین مضمون کے لیے ہوتا اورکبھی یہ مراد ہوتی کہ یہ بات اس عام حکم قرآن میں داخل ہے۔
چند ایسی روایات پیش ہیں جن میں آنحضرتﷺ نے حدیث بیان کرتے ہوئے خود قرآن پاک سے اس کی تائید پیش فرمائی؛ اس سے یہ مضمون کھل جاتا ہے کہ مطالعہ حدیث ہمیں کہاں تک قرآن کریم کی طرف متوجہ کرتا ہے اورکیسے اصل کی طرف لوٹاتا ہے،یوں کہیے حدیث کی اصل قرآن کریم ہی ہے۔

حضورﷺ کا حدیث بیان کرتے وقت قرآن پڑھنا:
(
۱)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إ
ِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ حَتَّى إِذَا فَرَغَ مِنْ خَلْقِهِ قَالَتْ الرَّحِمُ هَذَا مَقَامُ الْعَائِذِ بِكَ مِنْ الْقَطِيعَةِ قَالَ نَعَمْ أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَكِ وَأَقْطَعَ مَنْ قَطَعَكِ قَالَتْ بَلَى يَا رَبِّ قَالَ فَهُوَ لَكِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ"۔
(بخاری، باب من وصل وصلہ اللہ،حدیث نمبر:
۵۵۲۸)
ترجمہ:اللہ تعالی نے تمام مخلوق کو پیدا کیا یہاں تک کہ جب پیدا کرنے سے فارغ ہوا تو رشتہ داری نے عرض کیا کہ اے اللہ یہ تیرے حضور اس کی فریاد ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ مانگے، اللہ تعالی نے فرمایاکیا تجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس سے ملوں جو تجھے ملائے اوراس سے قطع تعلق کروں جو تجھ سے قطع تعلق کرے، رحم نے عرض کیا اے میرے پروردگار کیوں نہیں،خدا تعالی نے فرمایا، بس یہ تجھے حاصل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم یہ چاہو تو یہ آیت پڑھو۔
"فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ"۔(محمد:۲۲) ترجمہ:(کیا عجب ہے کہ اگر تم مالک بن جاؤ زمین کے تو اس میں فساد کرنے لگو اور رشتہ داریوں کو کاٹنے لگو) 

اس روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قطع رحمی (رشتوں کے حقوق توڑنا) کی مذمت بیان کرتے ہوئے، اس پر قرآن کریم کی آیت تلاوت فرمائی جس میں قطع رحم کی برائی مذکور تھی،کیا اس میں آنحضرتﷺ نے اپنے بیان پر قرآن کریم سے شہادت پیش نہیں فرمائی؟ کیا اب بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ حدیث،قرآن کے خلاف ایک نئے ماخذ کو کھڑا کرنا تھا؟ کچھ تو غور کیجئے اور حدیث کی اہمیت سے انکار نہ کیجئے۔
(جاری ہے)

No comments:

Post a Comment