پانچ پارٹ : خیر خواہی کے نام پر انکار حدیث




خیر خواہی کے نام پر انکار حدیث 
منکرین حدیث نے پہلے دن سے  حدیث وسنت کی تاریخیت ‘ حفاظت اور اس کی حجیت کو مشکوک بنانے کے لیے سینکڑوں عقلی اعتراضات اٹھائے ، کبھی کہا گیا رسول کریم صلى الله عليه وسلم کا ذمہ صرف قرآن پہنچانا تھا، اطاعت صرف قرآن کی واجب ہے، اس پر لاجواب ہوئے تو کہا گیا آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ارشادات صحابہ پر تو حجت تھے، لیکن ہم پر حجت نہیں۔اسکا معقول جواب دیا گیا تو یہ حیلے گھڑے گئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے ارشادات تمام انسانوں پر حجت ہیں ،لیکن موجودہ احادیث ہم کو قابل اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچی، اس لیے ہم انہیں ماننے کے مکلف نہیں، کبھی روایات واحادیث کے بارے میں حضرت عمر فاروق ؓ اور بعض دیگر صحابہ کرام کی احتیاطی تدابیر کو بنیاد بناکر مکثرین صحابہ بالخصوص حضرت ابوھریرہ ؓ کی روایات میں تشکیک پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ کوئی عجم سے تعلق رکھتے تھے تو اس کے لئے سیاسی اعتقاد محرکات کو نمایاں کرکے ان کی مساعی حسنہ کو عجمی سازش باور کرایا گیا ۔ اور راوی کے لئے عجمی وفارسی ہونا ہی موجب طعن قراردے دیا گیا ۔ ایرانی سازش کے افسانے گھڑے گئے ، کہا گیا کہ وفاتِ نبویؐ کے سینکڑوں سال بعد بعض ایرانیوں نے ادھر ادھر کی محض سنی سنائی اَٹکل پچو باتوں کا ذخیرہ جمع کرکے انہیں متفرق ومتضاد روایتوں کو 'صحیح حدیث'کا نام دے دیا ۔ تدوین حدیث کے عمل کو دوسری اور تیسری صدی کی کوشش قرار دیا گیا ۔ اسکا معقول جواب آیا تو موضوع اور من گھڑت روایات کے سہارے صحیح روایات کو بھی مجروح کرنے اور ذخیرہ احادیث سے بدگمان کرنے کی ناپاک جسارت کی گئی ۔ کتب احادیث کی اکثر روایات قصہ گویوں، واعظوں اور داستان سراؤں کی خود ساختہ روایات اور من گھڑت کہانیاں کہا گیا ۔ ۔ منکرین حدیث کی ساری علمی تاریخ ایسے ہی حیلے بہانوں سے بھری پڑی ہے۔ گزشتہ چار ماہ کی تحاریر میں ہم منکرین حدیث کے حدیث کی تدوین و حفاظت، حدیث کی ضرورت و حیثیت کے حوالے سے اٹھائے گئے ان تمام اعتراضات کا علمی جائزہ پیش کرچکے ہیں، اسی انداز میں انکے سینکڑوں اعتراضات کا بیسوں کتابوں میں تفصیلی جائزہ پیش کیا جاچکا ہے ، ہماری ان منتخب تحاریر سے ان اعتراضات کا بودہ پن واضح ہے ۔ 
منکرین حدیث جب حدیث کی تاریخیت، حیثیت، ضرورت ، حجیت  کے موضوع پر لاجواب ہوئے تو انہوں نے انکار حدیث کا ایک انتہائی موثر حیلہ ڈھونڈا جسے ہم خیر خواہی کے نام پر حدیث کا انکار کہتے ہیں ۔اس حیلے نے ان کے لیے ان معاملات میں حدیث سے استفادہ کرنے کی راہ بھی ہموار کردی جن میں حدیث کے بغیر کام چلانا انکے لیے انتہائی مشکل ہے ، مثلا اگر احادیث کی روایات کو ناقابل اعتماد قرار دے دیا جائے تو سرے سے قرآن کریم کو ہی اللہ کا کلام اور اس کا محفوظ شکل میں موجود ہونابھی ثابت نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسی مجبوری کے تحت پرویز صاحب نے فرمایا:"آ پ سوچئے تو کہ اگر احادیث و روایات سے انکار کردیا جائے تو پھر خود قرآن کے متعلق شبہات پیدا ہو جائیں گے۔ آخر یہ بھی تو روایات ہی کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمﷺ نے قرآن کو موجود شکل میں ترتیب دیا۔"(مقام حدیث صفحہ: 340)
یہ حیلہ کیا ہے ملاحظہ کیجیے ۔
"
جہاں تک احادیث کا تعلق ہے ہم ہر اس حدیث کو صحیح سمجھتے ہیں جو قرآن کریم کے مطابق ہو یا جس سے حضور نبی اکرمﷺ یا کبار صحابہ ؓ کی سیر داغدار نہ ہوتی ہو۔" (طلوع اسلام کا مقصد و مسلک، شق نمبر: 14)
یہ بظاہرا بڑی معقول اور خوشنما بات ہے لیکن حدیث کے انکار کا سب سے آسان طریقہ ہے اس کے لیے کسی علمی تحقیق ، بحث کی ضرورت نہیں پڑتی ، آپ کسی بھی حدیث کا ذرا سی لفاظی کے سہارے اس بہانے انکار کرسکتے ہیں کہ فلاں حدیث قرآن کے خلاف ہے، اس سے حضور ﷺ اور انکے سیرت داغدار ہوتی ہے ، ،حضورﷺ اور آپ کی ازواج کی شان کے خلاف ہے.حضورﷺ کے اخلاق عالی کے خلاف ہے، یہ عقل کے خلاف ہے ۔ حدیث خواہ کیسی بے غبار اور صحیح ہو، سند کتنی مضبوط ہو، رواۃ کتنے بے عیب ہوں۔ پوری اُمت نے قبول کیا ہو، ان کی بلا سے، انہیں ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ اس حیلے کا منکرین حدیث کے علاوہ متجددین ، ماڈرنسٹ بھی جگہ جگہ سہارا لیتے نظر آتے ہیں ۔چنانچہ جولوگ علمِ دین سے واقف نہیں ہوتے، انہیں یہ قرآن ، سیرت ، عقل کے نام پر ایسی جذباتی تعبیر میں لے جاتے ہیں کہ وہ باآسانی احادیث سے بدظن ہوجاتے اور انکا انکار کرجاتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ایک منکر حدیث ڈاکٹر شبیر احمد نے اسی حیلے کے سہارے انکار حدیث پر ایک کتاب لکھی جسکا عنوان "اسلام کے مجرم" رکھا ، اس میں اس نے عوام الناس کو احادیث سے متنفر کرنے کے لیے اسی فیصد ضعیف اور باطل احادیث، تاریخی قصے کہانیوں کا سہار ا لیا اور کچھ صحیح احادیث کو ایسے جذباتی انداز میں پیش کیا۔ اسی کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے فیس بکی متجددین حدیث کے خلاف مہم چلائے رکھتے ہیں ۔ چند ماہ پہلے انہی کے ایک شاگرد نے " میرے آقا ﷺ کی گستاخیاں" کے نام سے ایک تحریر لکھی اور اچھا بھلا رعب جھاڑنے کی کوشش کی۔ شروع میں لکھا :
 "
حضرات اس تحریر کو زرا دل مظبوط کر کے پڑھیے گا۔ ہم اپنے بخاری مسلم حنبل و دیگر اکابرین کے بارے میں بات کرنے ہر بھی بدک جاتے ہیں۔ مگر ہماری غیرت نجانے کہاں ہوتی ہے جب ان دینی کتابوں میں ہمارے آقا (ص) کی شان میں گستاخیاں ہوتی ہیں۔ ان ہی کتابوں سے چن کر سٹینک ورسز جیسی کتب لکھی جاتی ہیں اور ان ہی کو پکڑ کر نوجوان دین سے دور ہو جاتے ہیں۔ ہمارے آقا(ص) تو وہ تھے کہ اعلان نبوت کے وقت اپنے کردار کا کھلا چیلنج دیا اور کوئی انگلی نہ اٹھا سکا۔ اور ہمارے یہ اکابرین اپنی کتب میں جو چاہے بکواس بھر دیتے ہیں۔ یا انکے نام سے بھر دی گئیں۔
نقل کفر، کفر نہ باشد لکھ کر پھر کچھ حوالے اس کتاب سے  پیش کیے جن میں سے صرف ایک دو صحیح احادیث اور باقی سب بزرگوں کے ملفوظات، تاریخی کتابوںٍ اور حدیث کی چوتھے درجے کی کتابوں سے لیے گئے ہیں ۔ چند حوالے ملاحظہ کیجیے
 :
"
1.١جب حضور(ص) دوران حیض ہم سے اختلاط کرنا چاہتے تو ازار باندھنے کا حکم دیتے اور مباشرت کرتے"۔ فرمان حضرت عائشہ(ر)۔(کتاب الحیض، بخاری۔ صفحہ 1988 ((یاد رہے اللہ پاک حیض والیوں کے پاس جانے سے منع فرماتے ہیں قرآن میں۔ انعام)

2. "حضور(ص) نے حضرت حفضہ(ر) سے قسم کھائی کہ وہ لونڈی سے مقاربت نہ کریں گے۔ وہ گھر آئیں تو انھیں حضرت ماریہ(ر) سے ہم بستر دیکھا۔ انھوں نے حضور(ص) کو بہت ڈانٹ پلائی" سیرت النبی(ص) ، شبلی۔ جلد اوّل۔ صفحہ 146۔

3."سرکار(ص) نے فرمایا اگر شوہر کے سر سے پاؤں تک پیپ ہو اور عورت اسے چاٹے تب بھی شکر ادا نہ کر سکے۔ "غزالی۔ احیاالعلوم جلد دوم۔ صفحہ 103

4. "حضور(ص) نے ایک عورت کے بیٹے کو دم کر کے بدروح نکالی اور معاوضے کے طور پر ایک مینڈھا، گھی اور پنیر قبول کیا۔ "ابن ماجہ حدیث نمبر 3545

5. "ایک شخص پر سرکار(ص) کی ام ولد سے زنا کا الزام لگایا گیا۔ حضرت علی(ر) کو حکم دیا جا قتل کر دے۔ وہ گئے تو وہ نہاتا تھا۔ دیکھا تو اسکا تو عضو ہی کٹا ہوا تھا۔" صحیح مسلم۔ بحوالہ حضرت انس(ر)۔ کتاب برات الحرم (یعنی حضور(ص) نے اپنا لایا قانون شہادت بھلا دیا اور بغیر ثبوت ہی سزا کا حکم دے دیا۔ انعام)

6.عورت ایسی شے ہے کہ حضور (ص) نے امہات المومنین سے ناراض ہو کر مہینے کی قسم کھا لی۔ مگر بے قرار ہو کر حضرت عائشہ(ر) کے پاس انتوسیں دن جا پہنچے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی مہینہ تو نہ ہوا تو انکو گلے سے لگا کر کہا مہینہ 29 دن کا بھی تو ہوتا ہے۔ " ملفوظات العسل۔ جنید بغدادی۔
7."حضرت عائشہ(ر) نے حضور(ص) سے کہا کہ آپ نے اپنا ہاتھ باکرہ عورتوں پر رکھنا شروع کر دیا ہے۔ پھر اسما بنت نعمان سے نکاح پر اعوذبللہ منک سکھایا۔ "طبقات ابن سعد۔ 8/104

8. "حضور(ص) نے ملکیہ بن کعب سے نکاح کیا تو حضرت عائشہ(ر) نی جا کر کہا شرم نہی آتی اپنے باپ کے قاتل سے نکاح کر رہی ہے۔ اس نے بھی اعوذبللہ منک پڑھ کر جان چھڑائی۔ "طبقات ابن سعد۔ جلد 8۔ صفحہ106

9. "ایک شخص نے حضور(ص) سے تنہا ہونے کی شکایت کی۔ کہا کبوتری کو زوجہ بنا لو۔ "ابن القیم۔ المنار الحنیف۔ صفحہ 106

پھر لکھا :
 
حضرات خدارا سوچیئے۔ کیا یہ گند اس قابل ہے کہ ہماری کتب میں ہو۔ اگر یہ متفق متواتر مرسل نہیں ہے تو کسی بھی بہانے کتب میں باقی کیوں ہے۔ اٹھائیے اور عشق کی پوری قوت سے انھیں دور پھینک دیجیے۔ بس ایک بات یاد رکھئیے، جو بھی روایت میرے آقا(ص) کی شان میں کمی کرے، گستاخی کرے، اسے دیوار سے دے ماریں خواہ کسی کتاب میں ہو، خواہ راوی کوئی نزدیک ترین صحابی ہی کیوں نہ ہو۔ میرے آقا(ص) ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں اور ہم انکار کرتے ہیں ہر اس روایت کا، کتاب کا اور شخص کا جو انکی شان گھٹائے۔۔۔
انکار حدیث کی تاریخ پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ منکرین حدیث ہردور میں اسی طرح مثبت عنوان ہی سے آگے بڑھے ہیں ، انہوں نے اپنی منفی آواز کے لیئے ہمیشہ سے کسی نہ کسی مثبت عنوان کا سہارا لیا ۔ برصغیر کے منکرین حدیث کے لٹریچر کے مطالعہ اور حدیث کے بارے میں ان کے خود ساختہ اور من گھڑت شبہات اور اعتراضات کو دیکھ کر اس چیز کااندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ نہ تو علم حدیث پر عبور رکھتے ہیں اور نہ ہی علومِ قرآنی کی گہرائیوں سے واقف ہیں، یہ لوگ علمی معاملے میں بھی انتہائی سہل پسند واقع ہوئے ہیں حدیث کی مختلف انواع و اقسام اور راویوں سے متعلق فن ِتنقید و تحقیق کا علم حاصل کرنے کے لیے انکے پاس وقت نہیں ، اسی طرح تطبیق ِآیات و احادیث کے انتہائی اہم فن سے بے خبر ہیں کیونکہ اس کے لئے مسلسل اور عمیق مطالعہ کی ضرورت ہے ۔ قرآن وسنت اور ان کے مستند مآخذتک اکثر منکرین ِحدیث کی رسائی نہیں لہٰذا ان کی توجیہ بھی ان کے بس کاروگ نہیں ہے۔ ان کا مطالعہ صرف چند نامکمل تراجم کتب ِحدیث تک محدود ہوتا ہے۔ وہ ان اُصولوں سے بے خبر ہوتے ہیں جن سے کسی حدیث کی فقہی اور قانونی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔چنانچہ احادیث کے موضوع پر کسی پائے کی علمی تحقیق کے بجائے انکا سارا زور پروپیگنڈہ کرنے اور مفروضے گھڑنے پر رہا ہے۔ 
یہی حال ان سے متاثر ہونے والے نوتعلیم یافتہ نوجوانوں جدید و ماڈرن طبقے کا ہے ۔ یہ  لوگ پڑھنے ، سننے میں خود کو کسی حد کا پابند نہیں سمجھتے 'مطالعہ کرنے کا شوق ہوتا ہے، جس کسی کی کتاب ہاتھ لگ جاتی ہے مطالعہ کرلیتے ہیں، اہل باطل کی بھی دینی موضوعات پر کتابیں پڑھنے سے دریغ نہیں کرتے، اب چونکہ انہوں نے نہ خود دین کو گہرائی میں کسی استاذ سے پڑھا ہوتا ہے اور نہ مستند علما اور انکی کتابوں سے انکا کوئی تعلق ہوتا ہے، یہ اس سے قطعی ناواقف ہوتے ہیں کہ کسی حدیث کی اہل علم کے ہاں کیا حیثیت ہے اور اس سے جو حکم ثابت ہے، وہ فرض ہے، سنت ہے، جائز ہے یا مباح ہے ۔ بلکہ احکام کے اس فرق کو جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہوتی ۔ اس لیے جب یہ حضرات کسی بدنیت کاقرآن و حدیث پر اعتراض پڑھتے ہیں تو چونکہ یہ قرآن و سنت اور اس کے مستند مآخذ سے واقف نہیں ہوتے ، اس کی توجیہ سے ان کا ذہن قاصر ہوتا ہے یوں اہل باطل کے مکر کو سمجھ نہیں سکتے اور بہت آسانی سے ان کی فریبانہ تحریروں اور تقریروں سے متاثر ہوجاتے ہیں ، کبھی انہیں تاریخی تنقید وتحقیق کے نام پر اسلام سے گمراہ کیا جاتا ہے ، کبھی عشق قرآن و رسول کے نام پر احادیث کا انکار کروایا جاتا ہے اور یہ بے چارے وہم وگمان کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے لگتے ہیں اور اسی طرح اپنے خود ساختہ اوہام میں غلطاں و پیچاں رہتے اور آہستہ آہستہ ان کے حامی بن کر انہی کے گروہ میں شامل ہوجاتے ہیں ۔
ہم نے اس تحریری سلسلے میں شروع دن سے منکرین حدیث کے انہی مکروفریب کو بالکل علمی انداز میں عیاں کرنے کی کوشش کی ہے، اس نئے سلسلے میں ہم منکرین حدیث کے خیر خواہی ، عشق رسول ، عشق قرآن اور عقل پسندی کے نام پر حدیث کا انکار کروانے کی کوششوں کا علمی جائزہ لیں گے ، ان لوگوں نے اپنی کتابوں میں جن صحیح و ضعیف احادیث کو اس سلسلے میں استعمال کیا ہے انکو بھی زیر بحث لایا جائے گا ۔انشاء اللہ ۔اس سے پہلے ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ منکرین حدیث کے حدیث کو پرکھنے کے لیے قائم کردہ یہ معیار کس قدر معقول ہیں اور جس انداز میں یہ انہیں حدیث پر اپلائی کرتے ہیں اس انداز میں خود قرآن ان معیاروں پر کتنا پورا اترتا ہے۔
/////





معیار دوم، رسول اللہ ﷺ کی توہین:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف جو روایت ہوگی وہ رد کی جائے گی۔یہ اصول بھی  ہر محدث کا ہے منکرین حدیث کوئی نیا اجتہاد نہیں لائے کہ قرآن کے خلاف ہر روایت رد ہے، شان نبوت کے خلاف ہر روایت رد ہے، قرآن وحدیث سے کسی مسئلہ میں جو مسلمہ اصول منقول ہو اسکے خلاف روایت متروک ہے اس اصول کو سامنے رکھ کر ہر ایک نے استخراج کیا۔ وہ جس شخصیت کو مجروح کرتے ہیں پھر اسکی کوئی بات نہیں لیتےخواہ کتنی ہی اعلی پائے کی کیوں نہ ہو البتہ جس شخصیت کو قابل قبول گردانیں اسکی بات کو کتاب اللہ اور سنت پر پیش کرکے ردواخذ کا فیصلہ کرتے ہیں۔اب کچھ کوتاہ عقلوں کو ان میں یہ مخالفتیں نظر آنے لگی ہیں تو قصور چاند کا نہیں انگلی پر لگی ہوئی نجاست کا ہے حضور چاند سڑا ہوا نہیں نکلا ۔
 
اور اگر یہ سب تسلیم بھی کرلیا جائے تو جن کتب کو اور محدثین کو غیر معتبر ثابت کرنے پر حواس خمسہ مع متعلقات کا زور صرف ہورہا ہے ان میں یہ تمیز کس اصول کی بناء پر پیدا کی جائے گی کہ اسی شخص کی یہ بات درست ہے اور یہ غلط؟ اس بات کا جواب صرف اسی سے ممکن ہے جسکی جرح وتعدیل کسی اصول کے مطابق ہو۔اندھی لاٹھی چلانے والا اسی طرح ہنومان کا نائب بن کر اپنی لنکا ہی جلا سکتا ہے اور کچھ نہیں۔لہذا دو میں سے ایک کام کیجئے۔یا تو اصول ظاہر کردیجئے یا اصل نیت۔
اگر آپ کی نیت درست ہے تو یہ اصول اسی انداز میں قرآن پر اپلائی کرکے دیکھیے  اگر قرآن کی کسی آیت سےر سول اللہﷺ کی سیرت بظاہر واغدار معلوم ہوتی ہو تو کیا آپ یہی ردعمل وہاں بھی ظاہر کریں گے ؟ کیا پھر قرآن کی اس آیت کو بھی (نعوذباللہ) مردود سمجھا جائے گا۔ مثلاً قرآن میں ہے:

1.
عَبَسَ وَ تَوَلّٰۤىۙ اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰى.) عبس: 1-22)"اس نے تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا کہ اس کے پاس ایک نابینا آیا
"
یہ آیت ایک اخلاقی عیب کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ جس سے آپ کی سیرت داغدار ہوتی ہے۔

2. .
اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًاۙلِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ.) (الفتح: 1-22)"بے شک ہم نے آپ کو فتح مبین دے دی ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردے"۔

3. .
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَيْهِمْ شَيْـًٔا قَلِيْلًاۗ.)(بنی اسرائیل: 744)"اور اگر ہم تمہیں ثابت قدم نہ رکھتے تو تم کسی قدر ان (مشرکین مکہ) کی طرف مائل ہو ہی چلے تھے"

 
بتایے! کیا یہ آیت رسول اکرم ﷺ کے کسی کمزور پہلو کی نشاندہی نہیں کر رہی ؟ اور اس سے آپﷺ کی سیرت داغدار نہیں ہوتی؟اب سوال یہ ہے کہ اگر یہی باتیں قرآنی آیات کے بجائے احادیث میں مذکورہوتی تو کیا انہیں یکدم مسترد نا کردیا جاتا ۔ بات در اصل یہ ہے کہ بھول چوک اور لغزش انسانی فطرت میں داخل ہے اور اس سے انبیاء بھی مبرا نہ تھے۔ انبیاء کی عصمت کا مطلب صرف یہ ہے کہ ان کی لغزشوں پر انہیں مطلع کر دیا جاتا ہے۔
اسی طرح باقی انبیاء کے متعلق آیات ہیں :
حضرت موسیٰ علیہ السلام :{ وَ اَلْقَی الْاَلْوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْہِ یَجُرُّہٗٓ اِلَیْہِ } (الاعراف)موسیٰ علیہ السلام نے تورات کو پٹخ دیا، اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کا سر پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹا۔حضرت ہارون علیہ السلام بالکل بے قصور تھے، انہوں نے کہا:{ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَ لَا بِرَاْسِیْ } (طہ)میرے سر اور داڑھی کو نہ پکڑئیے۔
میں بالکل بے قصور ہوں، انہوں نے میرا کہا نہ مانا، اور بچھڑا پوجا وغیرہ وغیرہ ،
 
کہیے کیا ان آیات میں موسیٰ علیہ السلام کی توہین نہیں ہے کہ غصہ میں آکر کتاب الٰہی کو دے پٹخا، اور اللہ کے ایک مقدس پیغمبر کو مارا، اس کی بے عزتی کی، اور یہ سب کچھ بغیر تحقیق و تفتیش کے کر ڈالا۔
حضرت یعقوب : { وَرَفَعَ اَبَوَیْہِ عَلَی الْعَرْشِ وَخَرُّوْا لَہٗ سُجَّدًا } (یوسف)یوسف علیہ السلام نے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور وہ سب حضرت یوسف کے لیے سجدہ میں گر گئے۔
 
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایک رسول نے دوسرے رسول کو سجدہ کیا، بلکہ رسول نے اپنے بیٹے کو سجدہ کیا، کیا یہ انبیاء کی توہین نہیں، کہ نعوذ باللہ اس قسم کے شرک کا ارتکاب کرتے رہے، کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اکبر اور جہانگیر کے دور میں جو سجدہ بادشاہ کو کیا جاتا تھا، اس کا ماخذ یہی قرآنی آیات تھیں۔
حضرت لوط علیہ السلام :حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کے مقابلہ میں فرمایا:{ لَوْ اَنَّ لِیْ بِِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰوِیْٓ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ }کاش مجھے تمہارے مقابلہ کی طاقت ہوتی، یا میں کسی مضبوط قلعہ میں پناہ گزین ہوتا۔
 
کیا یہ توہین نہیں ہے کہ اللہ کا نبی بجائے اللہ کا سہارا ڈھونڈھنے کے دنیاوی وسائل کا سہارا تلاش کر رہا ہے۔
الغرض ان آیات اور ان جیسی دوسری آیات سے (جن کو بخوف طوالت قلم انداز کر رہا ہوں) توہین انبیاء ظاہر و باہر ہے، کوئی اللہ کی نافرمانی کر رہا ہے، ، کوئی حمیت قومی میں سرشار، کوئی کتاب الٰہی اور رسول اللہ کی توہین و تذلیل کرتا نظر آرہا ہے کوئی غیر اللہ کو سجدہ کرتے دکھایا گیا ہے، کوئی اللہ کے بجائے قوت اور قلعہ کی پناہ تلاش کر رہا ہے ، کوئی سانپ سے ڈر کر بھاگ رہا ہے، ، کوئی کسی کی جدائی میں روتے روتے بینائی کھو دیتا ہے، ، کوئی بغیر اجازت کفار کی بستی چھوڑ کر ہجرت کر جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ کہیے ان آیات کے متعلق کیا خیال ہے؟
معیار سوم، توہین صحابہ و ازواج مطہرات ؓ:
1 . سورہ تحریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک راز کی بات کا ذکر کرتے ہوئے دو ازواج مطہرات کے سلسلہ میں فرمایا:
(.
اِنْ تَتُوْبَاۤ اِلَى اللّٰهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَا.)(التحریم: 44)"اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کر لو تو (یہی بہتر ہے ورنہ) تمہارے دل ٹیڑھے ہوگئے ہیں۔"
2. سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات ؓ کے دنیوی زندگی اور اس کی زیب و زینت کی طرف میلان کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا:
 .
يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا.) الاحزاب: 28)"اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کی طلب گار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے دوں اور تمہیں اچھی طرح رخصت کردوں"
 
گویا ازواج مطہرات ؓ کا یہ میلان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نظروں مین اتنا ناپسندیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو حکم دیا کہ اگر وہ اپنے اس میلان سے باز نہیں آتیں تو ان سب کو طلاق دے کر رخصت کر دو۔ بتلائیے! یہ زواج مطہرات ؓ کی صریح توہین نہیں؟
صحابہ کرام ؓ کی بات سنئے! صحابہ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں:
 
1.(وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَا ا۟نْفَضُّوْۤا اِلَيْهَا وَ تَرَكُوْكَ قَآىِٕمًا.) (الجمعہ: 111)"اور یہ لوگ جب کوئی تجار ت یا تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف چلے جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا چھوڑ جاتے ہیں"
2.( وَ اِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَۙ يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَ هُمْ يَنْظُرُوْنَ.)(الأنفال: 5-6)
 "
اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی۔ وہ اس حق کے بارے میں اس کے بعد کہ اس کا ظہور ہوگیا تھا، آپ سے اس طرح جھگڑ رہے تھے کہ گویا کوئی ان کو موت کی طرف ہانکا جا رہا ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں۔"
3.( عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَ عَفَا عَنْكُمْ.)(البقرہ: 187)
 "
اللہ تعالیٰ نے معلوم کرلیا تم اپنی جانوں سے خیانت کرتے تھے۔ پس اللہ رحمت کے ساتھ تمہاری طرف متوجہ ہوا اور تمہارا قصور معاف فرمادیا۔"
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ کرام ؓ خطبہ جمعہ کے وقت تجارت کا مال یا کوئی تماشا دیکھ کر نبی اکرمﷺ کو کھڑا چھوڑ جاتے تھے۔ بعض جہاد کو ناپسند کرتے تھے۔ بعض ماہ رمضان میں رات کو مباشرت کرلیتے تھے اور بعض نے جنگ احد میں بزدلی بھی دکھائی اور رسولﷺ کی نافرمانی بھی کی تھی۔ اب دیکھئے ان واقعات سے کبار صحابہ ؓ کی توہین ہوتی ہے یا نہیں؟ اگرمنکرین حدیث ان ہی واقعات کی تشریح یا ایسی کوئی دوسری بات ذخیرہ احادیث میں دیکھ لیں تو اسے جعلی قرار دے دیں کہ اس سے صحابہ کی توہین ہوتی ہے ۔کیا اسی اندھا دھند انداز میں بغٖیر تحقیق کیے قرآنی آیات کے متعلق بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ کیونکہ یہ اس معیار پر قرآنی آیات بھی پوری نہیں اترتیں اس لیے یہ بھی من گھڑت ہیں ؟

////////






معیار چہارم، خلافِ علم و مشاہدہ نہ ہو:
 جہاں تک اس معیار کا تعلق ہے تو قرآن میں مذکور تمام معجزات انبیاء اور مابعد الطبیعات امور ، جدید سائنسی علوم یا مشاہدہ اور تجربہ کے خلاف ہیں۔ اب منکرین حدیث کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ قرآن میں مذکور تمام معجزات اور مابعد الطبیعات امور کا علی الاطلاق انکار تو نہیں کرتے، مگر ان کی نہایت بھونڈی تاویلات پیش کردیتے ہیں جن پر علم و عقل کی رو سے بھی شدید گرفت کی جاسکتی ہے ۔ لیکن ایسے ہی واقعات حدیث میں دیکھتے ہیں تو ان احادیث کو جعلی قرار دے کر انکار کردیتے ہیں۔اس سلسلہ میں بھی چند آیات قرآنی پیش ہیں، ملاحظہ فرمائیے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{
یَا نَارُکُوْنِی بَرْدًا وَسَلَاماً عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ } (الانبیاء)اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی ہو جا، اور سلامتی والی بن جا۔
 
آگ کا کام جلانا ہے، اس کی خصوصیت گرم ہونا ہے، لہٰذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی حقیقت کونیہ کے خلاف ٹھنڈی ہو، اور جلائے نہیں، لہٰذا یہ آیت معیار پر پوری نہیں اترتی۔
 {
اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ } (الطلاق)اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور ان ہی کے مثل (سات) زمینیں۔
چونکہ زمین صرف ایک ہے اور یہ ایک کرہ ہے جو سورج کے گرد گردش کرتا ہے، لہٰذا سات  زمینیں مشاہدے کے خلاف ہیں 
{
وَحِفْظًا مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ مَارِدٍ } (الصافات)اور ستاروں کو سرکش شیاطین سے بچاؤ کا سبب بنایا۔
کیا جدید سائنس بھی یہی کہتی ہے:
 {
وَجَدَھَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَۃٍ } (الکھف)ذوالقرنین نے سورج کو کیچڑ کے ایک چشمہ میں ڈوبتے ہوئے پایا۔
سورج کیسے کیچڑ کے چشمے میں ڈوب سکتا ہے ؟
{
وَاِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللہِ }(البقرۃ)اور بعض پتھر ایسے ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔
کیا پتھروں میں احساس ہوتا ہے، کیا پتھر کا ڈرنا علم و مشاہدے کے خلاف نہیں ہے؟
اب اگر معیار کو صحیح مانیں تو قرآنی آیات بھی بظاہرا مشکوک ٹھہرتی ہیں، اگر آیات  کے ظاہری معانی کو ہی آخری سمجھنے کے بجائے انکی درست تشریح کردی جائے تو پھر یہی چیز حدیث کے سلسلہ میں بھی قابل عمل ہونی چاہیے، صرف حدیث ہی کو اپنے ان فرضی معیاروں پر کسنا کیسے درست ہے؟
معیار پنجم، خلافِ عقل نہ ہو:
یہ معیار بھی  محدثین نے بھی قائم کیا ہے لیکن اس معیار پر پرکھنے کے بعد محدثین جس حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں منکرین حدیث کی عقلیں انہیں بھی تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ ان دونوں فرقوں کی عقل میں فرق ہے۔ محدثین اپنی عقل کو وحی الہیٰ کے تابع رکھتے اور عقل کا جائز استعمال کرتے ہیں۔ جس کی تفصیل ہم دوسرے باب میں پیش کرآئے ہیں۔ لیکن طلوع اسلام عقل کی برتری اور تفوق کا قائل ہے اور یہ چیز اسے معتزلین سے ورثہ میں ملی ہے۔ اگرچہ " طلوع اسلام" کا بھی زبانی دعویٰ یہی ہے:"تنہا عقل انسانی زندگی کے مسائل کا حل دریافت نہین کر سکتی۔ اسے اپنی رہنمائی کے لیے اسی طرح وحی کی ضرورت ہے جس طرح آنکھ کو سورج کی روشنی کی ضرورت "ّ(طلوع اسلام کا مسلک: شق نمبر:1)
 
مگر عملاً وہ وحی کے سور ج کو عقل کا چراغ دکھانے سے باز نہیں آتے۔ اپنی عقل کو اس قدر مقام دے دیا گیا کہ اسے وحی الہٰی کے جانچنے کا اصل معیار قرار دے دیا گیا۔ انکار حدیث کے فتنے میں عقل پرستی کا جو بھوت سوار ہے دراصل یہ بھی مغرب کی علمی مرعوبیت ہی کا شاخسانہ ہے۔ اسی لیے یہاں بھی عقل ہی کو کل سمجھ لیا گیا ہے۔ اس فتنے نے سب سے بڑا گل ہی یہی کھلایا کہ اس نے ہر فرد کو اتنا تعقل پرست بنا دیا کہ ہر شخص جس آیت کو چاہتا ہے اس کی من مانی تشریح کرتا ہے اور جس حدیث کی چاہتا ہے بناوٹی تاویل دے کر اس کا رد کر دیتا ہے۔ جبکہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے یہ انسانوں کو عقل کے بھی بھرپور اور جائز استعمال کا بھرپور موقع دیتا ہے۔تشریحات و توجیہات ، معروضی حد بندیاں اور منطقی صغرے اور کبرے مزید فائدے کے لیے تو ہو سکتے ہیں اور اسلام میں ان کی ایک حد تک اجازت بھی ہے مگر اسلام میں جو اصل کسوٹی قرار پائی ہے وہ بنیادی طور پر وحی الہٰی قرآن و صحیح حدیث ہی ہے۔جو عقل کا استعمال اس حد تک اپنے اوپر لاگو کر دے کہ عقل کو وحی کے مقابل کھڑا دے تو یقیناً ایسی عقل ہی بے عقلی کا ثبوت مہیّا کرتی ہے۔
منکرین حدیث یہ بیان تراشتے ہیں کہ متعدد احادیث صحیحہ ہماری عقل سے بالاتر ہیں جس کی وجہ سے ہم ان احادیث کا انکار کر تے ہیں ، یہ جدید تحقیقات یا عقل عام (Common Sense) سے متصادم ہیں۔ چنانچہ جو حدیث انکے عقل تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہو، وہ ان کے نزدیک جعلی قرار پاتی ہے ۔ جبکہ قرآن کے معاملے میں انکا رویہ مختلف ہے۔ اس سلسلہ میں چند آیات بینات ملاحظہ ہوں:
 {
قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ } (النمل)
 
اس شخص نے جس کو کتاب کا کچھ علم تھا، کہا کہ میں ملکہ سبا کا تخت اتنی دیر میں لا دوں گا، جتنی دیر میں آپ کی نگاہ واپس آئے اور اتنی دیر میں وہ آگیا، تو اس کو اپنے پاس دیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا یہ میرے رب کا فضل ہے۔
 
یہ عقل و تجربہ کے خلاف ہے کہ پلک جھپکنے میں ہزاروں میل دور سے ایک وزنی چیز منتقل ہو جائے گویا یہ آیت مجوزہ معیار پر پوری نہیں اترتی، اب اس کے متعلق کیا کہا جائے۔؟
 {
وَ اِذْ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیْ جَارٌلَّکُمْ فَلَمَّا تَرَآءَتِ الْفِئَتٰنِ نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّنْکُمْ اِنِّیْٓ اَرٰی مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّیْٓ اَخَافُ اللہَ } (الانفال)
 
جب شیطان نے کافروں کے اعمال ان کو مزین کرکے دکھائے اور کہا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا، اور میں تمہارا ساتھی ہوں، دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابل ہو ئیں تو الٹے پاؤں واپس ہوگیا، اور کہا میں تم سے بیزار ہوں، میں وہ چیزیں دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے، میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔
 
شیطان کا سامنے آنا، اور بات کرنا ، تجربہ اور مشاہدہ کے خلاف ہے، پھر اس کا اللہ سے ڈرنا بھی حیرت انگیز ہے، اس کو تو قیامت تک کے لیے ازروئے قرآن مہلت دے دی گئی ہے لہٰذا اس کا خوف الٰہی سے ڈر کر بھاگنا خلاف عقل ہے اور کافروں سے اس کا بیزار ہونا بھی خلاف عقل ہے، اس کے اصلی دوست تو کافر ہی ہوتے ہیں۔
{
وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ } (الانفال)
 
اور اگر تم دیکھو جس وقت فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں، اور ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے جاتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ جلنے کا مزہ چکھو۔
 
یہ آیت بھی مشاہدہ کے خلاف ہے، نہ کبھی یہ آواز سنائی دیتی ہیں، نہ فرشتے دکھائی دیتے ہیں، اگر وہ مارتے تو کیا آواز نہیں آتی، مارا جائے اور آواز نہ ہو، یہ خلاف عقل و تجربہ ہے۔
حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ کہتی ہیں:
{
اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّ لَمْ اَکُ بَغِیًّا ۔ قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ ھُوَ عَلَیَّ ھَیِّنٌ } (مریم)
 
میرے لڑکا کیسے ہوسکتا ہے، حالانکہ مجھے کسی مرد نے ہاتھ نہیں لگایا، اور نہ میں بدکار ہوں ، فرشتے نے کہا اسی حالت میں ہوگا، تیرے رب نے کہا ہے کہ یہ مجھ پر آسان ہے۔
بغیر باپ کے بچہ پیدا ہونا، یہ فطرت انسانی کے خلاف ہے۔
 
قوم کے لوگ حضرت مریم کے پاس آئے اور انہیں برا بھلا کہنا شروع کردیا، حضرت مریم نے شیر خوار بچے کی طرف اشارہ کردیا کہ اس سے پوچھو، قوم کہنے لگی:
 {
کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِیْ الْمَھْدِ صَبِیًّا } (مریم)ہم گہوارے میں جھولنے والے بچے سے کیسے بات کرسکتے ہیں۔اس بچہ نے کہا:{ اِنِّیْ عَبْدُ اللہِ } (مریم)
میں اللہ کا بندہ ہوں۔نوزائیدہ بچہ کا بولنا انسانی فطرت کے خلاف ہے۔
اس طرح قرآن مجید کی کئی آیات عقل کے خلاف ہیں، پھر تو قرآن مجید بھی حجت نہیں ہونا چاہیے۔ مثلاً: ہدہد کا گفتگو کرنا (سورۃ النمل: 22تا 26) اور چونٹیوں کا بولنا (سورۃالنمل: 18) عقل کے خلاف ہے بلکہ جتنے معجزات ہوئے ہیں، وہ سب عقل کے خلاف ہیں۔ 
یہ قرآنی آیات ہیں، جو اس معیار پر پوری نہیں اترتیں، لہٰذا یہ معیار غلط ہے نہ کہ قرآنی آیات۔ آج  بذریعہ لاسلکی جوہزاروں میل کی بات ہم سن لیتے ہیں، کیا ہمارے اجداد کی عقل میں یہ بات آسکتی تھی، کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے اور آج بھی بہت سی باتیں ایسی ہیں، جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں، نہ اس کا ہم نے کبھی مشاہدہ کیا، لیکن ہم انہیں عقل کے اور مشاہدہ کے خلاف نہیں سمجھتے ، محض چند علم والوں پر اعتبار کرکے ہم یقین کرلیتے ہیں کہ واقعی ایسا ہوگا۔ اگر رسول کی کوئی بات ہماری عقل و تجربہ کے خلاف ہو، تو کیوں نہ تسلیم کریں، ہوسکتا ہے کہ ہماری عقل کی رسائی وہاں تک نہ ہو، ہوسکتا ہے کہ ہم مشاہدہ کر ہی نہ سکتے ہوں، ہوسکتا ہے کہ ہمارا تجربہ غلط ہو۔
جب رسول ہی پر اترے ایک کلام میں موجود باتوں کو باوجود اپنے مشاہدے کے خلاف ہونے کے  حق مانتے ہیں تو اسی رسول کے اپنے کلام میں موجود ایسی باتوں کو تسلیم کیوں نہیں کیا جاسکتا ؟ کیوں اس کی بات کو عقل و تجربہ کی میزان میں رکھ کر تولنے لگیں، کیا یہ انصاف ہے؟

آخری بات :
 
عجیب بات ہے کہ جنہیں حدیثوں پر غیرت آتی ہے اور اس غیرت کے سبب حدیثوں کا انکار شروع کر دیتے ہیں، انہیں آیتوں پر غیرت نہیں آتی بلکہ وہاں ایمان یاد آ جاتا ہے۔ یہ وہ تذبذب ہے کہ جس کا شکار آج کے منکرین حدیث اور متجددین ہیں۔
 
عرض یہ ہے کہ محض اعتراض وارد کر دینے سے اگر کوئی کلام مشکوک ٹھہرتا تو سب سے پہلے اللہ کی کتاب مشکوک قرار پاتی ہے ۔اگر منکر حدیث کو حدیث پر یہ شبہہ پیدا ہوتا ہے کہ سورج اللہ کے عرش کے نیچے جا کر کیسے سجدہ کر سکتا ہے؟ تو ملحد کو قرآن مجید پر یہ اعتراض ہے کہ قرآن کا سورج ایک گدلے پانی کے چشمے میں غروب ہوتا ہے؟ اگر منکر حدیث کو یہ اعتراض ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوم کے سامنے بے لباس ہو گئے تھے تو ملحد کو قرآن پر یہ اعتراض ہے کہ آدم اور حوا علیہھما السلام اپنے دشمن کے سامنے بے لباس ہو گئے؟اگر منکر حدیث کو یہ شبہہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹی عمر کی لڑکی سے کیسے نکاح کر سکتے ہیں؟ تو ملحد کو یہ شبہہ ہے کہ خدا چھوٹے بچے کے قتل کا حکم خضر علیہ السلام کو کیسے دے سکتا ہے؟ اگر منکر حدیث کو یہ اعتراض ہے کہ مرتد کی سزا قتل کیسے ہو سکتی ہے؟ تو ملحد کو قرآن مجید یہ اعتراض ہے کہ بچھڑے کی پوجا کرنے پر توبہ کی یہ صورت کہ آپس میں ہی ایک دوسرے کی گردنیں اڑائیں؟ وعلی ھذا القیاس، حدیث پر کوئی اعتراض ایسا نہیں ہے جو قرآن مجید پر بھی وارد نہ ہوتا ہو۔ ایسے قرآنی واقعات میں منکرین حدیث و ماڈرنسٹوں کو توہین، عقل، منطق سب بھول جاتا ہے، صرف ایمان یاد رہ جاتا ہے۔تو غیرت، عقل اور منطق کے جس ترازو سے حدیث کو تول رہے ہو، اسی ترازو سے اگر قرآن مجید کو بھی تولو گے تو تمہارے بوجھے میں کچھ نہیں بچے گا سوائے الحاد کے۔
 
اور حقیقت یہی ہے کہ رویے اصل میں دو ہی ہیں یا ایمان یا الحاد۔ اور جو ان کے بیچ کا ہے تو وہ سراسر منافقت ہے۔ قرآن بھی خبر ہے اور حدیث بھی خبر ہے۔ خبر کے اصولوں پر دونوں کو پرکھ لو۔اگر حدیث کو اپنے مخصوص غیرت اور عقل کے اصولوں پر پرکھو گے اور اپنے اس رویے میں مخلص ہوئے تو ضرور بالضرور قرآن کا بھی انکار کرو گے کہ قرآن میں وہ باتیں زیادہ صراحت سے موجود ہیں کہ جن کا تم احادیث میں انکار کر چکے ہو۔
اس تحریری سلسلے میں کچھ لوگوں نے ہمیں طعنہ دیا کہ ہم  قرآن کے خلاف پروپیگنڈہ کررہے ہیں حالانکہ ہمارا ایسا کوئی مقصد نہیں ہے نا ہماری تحاریر سے ایسا کچھ ظاہر ہوتا ہے ، ہم نے اس سلسلے میں منکرین حدیث و متجددین کے ان دوررخے اور منافقانہ اصولوں کی پردہ دری کی ہے ۔ ہم پوچھتے ہیں کہ منکرین حدیث میں سے کتنے ہیں جنہوں نے مستشرقین و ملحدین کے اعتراضات کے جواب میں قرآن مجید کا دفاع کیا ہو؟ امر واقعہ یہ ہے کہ ملحدین اور مستشرقین نے قرآن مجید پر جو کیچڑ اچھالا ہے، اس کا بھی علمی وتحقیقی جواب سینکڑوں کتب ومقالات کی صورت میں اگر کسی نے دیا ہے تو یہ وہی لوگ ہیں جو حدیثوں پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ ہم حدیث کے اس سلسلے سے پہلے قرآن کے موضوع پر مستشرقین و ملحدین کے تمام بڑے اعتراضات کا جواب دے چکے ہیں ، وہ سب تحاریر ہماری سائیٹ پر موجود ہیں۔ حال ہی میں ملحدین نے 'قرآن کے مصنفین 'نام کی ایک کتاب پبلش کی اسکا جواب بھی کسی منکر حدیث نام نہاد اہل قرآن کو دینے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اسکا جواب بھی اگر کسی نے دیا ہے تویہی لوگ ہیں جو حدیث کا بھی دفاع کررہے ہیں ۔وہ جواب ہمارے پیج پر پن پوسٹ میں موجود ہے۔

No comments:

Post a Comment