HADEES KI KITABO KI CLASSIFICATION





احادیث کی جامع کتابوں کی مختلف مراتب ومنازل میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے صحت و قوت کے اعتبار سے کتب حدیث کے پانچ طبقات بتائے ہیں۔

طبقہٴ اولی: 

وہ کتابیں ہیں جن کی جملہ احادیث حجت اور قابل استدلال ہیں بلکہ رتبہٴ صحت کو پہنچی ہوئی ہیں، جو حدیث قوی کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔ اس طبقہ میں تقریباً وہ تمام کتابیں داخل ہیں جو اسمِ صحیح کے ساتھ موسوم ہیں۔ اور بعض ان کے علاوہ ہیں۔ جیسے صحیح امام بخاری، صحیح امام مسلم، موطا امام مالک، صحیح بن خزیمہ متوفی ۳۱۱ھ، صحیح بن حبان متوفی ۳۵۴ھ، صحیح ابی عوانہ الاسفراینی متوفی ۳۱۶ھ اور صحیح محمد بن عبدالواحد المقدسی الجنبلی ۶۳۴ھ وغیرہ۔

طبقہٴ ثانیہ:

وہ کتابیں ہیں جن کی احادیث اخذ و استدلال کے قابل ہیں. اگرچہ ساری حدیث صحت کے درجہ کو پہنچی نہیں ہوئی ۔ کسی حدیث کے حجت ہونے کے لئے اس کا رتبہٴ صحت کو پہنچا ضروری بھی نہیں ہے۔ کیونکہ حدیث حسن بھی حجت اور قابل استدلال ہے۔
اس طبقہ میں یہ کتابیں ہیں: ابوداؤد سلیمان بن اشعث سجستانی متوفی ۲۷۵ھ کی ”سنن ابی داؤد“۔ ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ۲۷۹ھ کی جامع (سنن ترمذی)۔ امام ابوعبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی متوفی ۳۰۳ھ کی ”مجتبیٰ“ جس کو ”سنن صغری“ اور مطلق نسائی بھی کہتے ہیں۔ مسند احمد حنبل بھی اسی طبقہ میں ہے۔ اس لیے کہ اس میں جو بعض روایتیں ضعیف ہیں وہ حسن کے قریب ہیں۔

طبقہٴ ثالثہ: 

یہ طبقہ ان کتابوں کا ہے جس میں صحیح، حسن، ضعیف، معروف، شاذ، منکر، خطاء، صواب، ثابت اور مقلوب سب قسم کی حدیث ملتی ہیں۔ اور ان کتابوں کو علماء کے درمیان زیادہ شہرت و مقبولیت حاصل نہ ہوئی ۔ ان کتابوں کی بعض روایتیں قابل استدلال ملتی ہیں اور بعض ناقابل استدلال۔ 
جیسے سنن ابن ماجہ متوفی۲۷۳ھ۔ مسند ابوداؤد طیالسی متوفی ۲۰۳ھ، مسند ابویعلی الموصلی متوفی ۳۰۷ھ، مسند البزار، مصنَّف عبدالرزاق بن ہمام صنعانی متوفی ۲۱۱ھ، مصنف ابوبکر بن شیبہ متوفی ۲۳۵ھ، سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ۳۶۰ھ کی تینوں معاجم: المعجم الکبیر، (مطبوعہ) المعجم الصغیر (مطبوعہ) ”المعجم الوسیط“ (غیرمطبوعہ) احمد بن حسین بیہقی متوفی۴۵۸ھ کی کتابیں: ”السنن الکبریٰ“، دس جلدوں میں۔ (مطبوعہ) ”السنن الصغری“ (ناپید ہے) ”الجامع المصنف فی شعب الایمان“ جو صرف شعب الایمان سے مشہور ہے (مطبوعہ ہے) سنن دار قطنی متوفی ۳۸۵ھ۔ ابونعیم کی ”الحلیہ“ ”تفسیر بن مردویہ“ اور ”الدرالمنثور“ وغیرہ۔ ان حضرات کا مقصد ان تمام روایتوں کو جمع کرنا ہے جو اُن کو مل جائیں، تلخیص و تہذیب،اور قابل عمل روایات کا انتخاب ان کا مقصد نہیں۔

طبقہٴ رابعہ:

ان کتابوں کا طبقہ ہے جن کی ہر حدیث پر ضعف کا حکم لگایا جائے گا بشرطیکہ وہ حدیث صرف اس کتاب میں ہو۔ اوپر کے طبقات کی کتب میں نہ ہو، جیسے شیرویہ بن شہردار متوفی ۵۰۹ھ کی کتاب ”فردوس الاخیار“ جس کااختصار ان کے صاحبزادے شہردار بن شیرویہ بن شہردار متوفی ۵۵۸ھ نے کیا ہے۔ جس کا نام مسند الدیلمی ہے ، جو مطبوعہ ہے۔ خطیب بغداد ابوبکر احمد بن علی متوفی ۴۶۳ھ کی کتابیں: تاریخ بغداد، الکفایة فی علم الروایة، (اصول حدیث میں) اقتضاء العلم والعمل، ”موضح اوہام الجمع والتفریق“ وغیرہ۔ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصبہانی متوفی ۴۰۳ھ کی کتابیں: ”حلیة الاولیاء“ ”طبقات الاصفیاء“ اور ”دلائل النبوة“ (مطبوعہ) وغیرہ۔ ابواسحاق جُوزجانی احمد بن عبداللہ محدث شام متوفی ۲۵۹ھ کی کتابیں: ”کتاب فی الجرح والتعدیل“، ”کتاب الضعفاء“ (غیرمطبوعہ) وغیرہ۔ حکیم ترمذی کی ”نوادر الاصول“ ابن عدی کی ”الکامل“ عقیلی کی ”کتاب الضعفاء“ ”تاریخ الخلفاء“ اور تاریخ ابن عساکر وغیرہ۔

طبقہٴ خامسہ:

یہ طبقہ موضوعات کی کتابوں کا ہے، جن میں صرف احادیث موضوعہ ہی ذکر کی جاتی ہیں۔ علماء محققین ، محدثین وناقدین نے بہت سی ایسی کتابیں لکھی ہیں جن میں وہ صرف احادیثِ موضوعہ کو تلاش کرکے لائے ہیں تاکہ عام اہلِ علم ان سے باخبر ہوکر دھوکہ میں آ نے سے بچیں۔ 
چنانچہ علامہ ابن الجوزی کی ”الموضوعات الکبری“ اس سلسلہ کی مشہور کتاب ہے۔ اور جیسے امام سیوطی کی ”اللآلی المصنوعة فی الاحادیث الضعیفہ“ ملا علی قاری کی ”الموضوعات الکبری“ اور ”المصنوع فی معرفة الموضوع“ شیخ طاہر پٹنی کی ”تذکرة الموضوعات“ ابن عُراق کی ”تنزیہ الشریعة عن الاخبار الشنیعة“ علامہ شوکانی کی ”الفوائد المجموعة“ ابن ابی الدنیا متوفی۲۸۱ھ کی کتاب ”کتاب ذم الدنیا“ ، علامہ قزوینی کی کتاب ”موضوعات المصابیح“ وغیرہ۔

صحاح ستہ کے مابین فرق مراتب:

جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ اصح السنة صحیح بخاری شریف ہے۔ اس کے بعد مسلم شریف کا درجہ ہے۔ پھر اس کے بعد ابوداؤد کا، پھر ترمذی کا، پھر نسائی کا، بعض علماء کے نزدیک نسائی کا درجہ ترمذی سے بھی اونچا ہے۔ سب سے آخر میں سنن ابن ماجہ کا درجہ ہے۔ متقدمین کے یہاں سنن ابن ماجہ اصول و امہات کتب میں شامل نہیں ہے۔ ان کے یہاں ”صحاح ستہ“ کی بجائے ”صحاح خمسہ“ ہے۔ یعنی بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد، سنن نسائی، ابن ماجہ کو انھوں نے نہیں لیا۔ ابن ماجہ کو صحیح ستہ میں سب سے پہلے علامہ ابن طاہر مقدسی نے داخل کیاہے۔ بعض محدثین نے ابن ماجہ کی بجائے موطا امام مالک کو ”سادس ستہ“ قرار دیا۔ جیساکہ رزین بن معاویہ نے ”تجرید الصحاح“ میں۔ اور ابن الاثیر جزری نے ”جامع الاصول“ میں۔ ابن ماجہ کی جگہ موطا مالک کو لیا ہے۔ صحاہ ستہ کا یہ ”تعارفی نوٹ“ یقینا ناقص ہوگا جب تک کہ اس کے ساتھ ان کے موٴلفین کا ”سوانحی خاکہ“ سامنے نہ آئے، اس لئے قارئین کرام ایک نگاہ ادھر بھی ڈالتے چلئے۔

پانچوں طبقات کی کتابوں کے احکام

مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ: پہلے اور دوسرے طبقہ کی کتابوں پر محدثین کا اعتماد ہے،اور حضرات محدثین انہی دو کتابوں پر زیادہ قناعت کرتے ہیں۔ تیسرے طبقہ سے وہی لوگ برائے عمل روایات منتخب کرسکتے ہیں جو حاذق و ناقد ہیں۔ جن کو راویوں کے حالات اوراسانید کی خرابیاں معلوم ہیں اور اس طبقہ کی کتابوں سے کبھی شواہد و متابعات لئے جاتے ہیں۔ چوتھے طبقہ کی روایتوں میں مشغول ہونا، ان کو جمع کرنا، اور ان سے مسائل مستنبط کرنا متأخرین کا ایک طرح کا غلو اور تعمق ہے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ گمراہ لوگوں مثلاً روافض اور معتزلہ کو انہی کتابوں سے مواد ہاتھ آتا ہے۔ لہٰذا اس طبقہ کی کتابوں سے علمی معرکوں میں استمداد و استدلال درست نہیں ہے۔ پانچویں درجہ کی کتابوں کی روایات دراصل دین میں بڑا فتنہ ہے جس سے بچنا بیحد ضروری ہے۔
حدیث پاک کی مختلف کتابیں ہیں، لیکن ان میں سب سے زیادہ مستند و معتبر صحاح ستہ ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر کتب حدیث بھی معتبر و قابل قدر ہیں ، کیوں کہ تمام صحیح حدیثوں کا احصار صحیحین یا صحاح ستہ میں نہیں ہے۔ ان کے علاوہ بھی صحیح حدیثوں کا بیش بہا ذخیرہ موجود ہے۔

No comments:

Post a Comment