Sunday, September 4, 2016

2. kya hadees quran ke khilaf ajmi sazish hai ?




(۲)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حد مارنے کیلیے لایا گیا، حضورﷺ کے چہرہ مبارک پر کچھ غبار کے 

سے آثار ظاہر ہوئے، گویا کہ آپ پریشان ہیں، صحابہ نے عرض کی کہ آپ پر یہ صورت کیوں گراں گزری،آپﷺ نے فرمایا:

"وَمَايَمْنَعُنِي وَأَنْتُمْ أَعْوَانُ الشَّيْطَانِ عَلَى صَاحِبِكُمْ وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَفُوٌّ يُحِبُّ الْعَفْوَ وَلَا يَنْبَغِي لِوَالِي أَمْرٍ أَنْ يُؤْتَى بِحَدٍّ إِلَّا أَقَامَهُ"۔

(مسند احمد،باب مسند عبداللہ بن مسعودؓ،حدیث نمبر:۳۷۸۰)

ترجمہ: اوراس سے مجھے کونسی چیز روک سکے؟ اور تم اپنے بھائی پر شیطان کے مددگار بن کر چڑھے ہو، اللہ تعالی معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند کرتے 
ہیں اور ہاں یہ کسی حاکم کے لیے جائز نہیں کہ اس کے پاس حد کا کوئی معاملہ(کیس) آئے مگر یہ کہ وہ اس حد کو قائم کردے۔اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے 
قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت فرمائی" وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا"(النور:۲۲)(اورچاہئے کہ معاف کریں اور در گزر کریں)۔ (محدث عبدالرزاق(۲۱۱ھ)

آنحضرتﷺ نے اپنے طبعی رجحان کا اظہار فرمانے کے بعد اس پر قرآن کریم کی آیت سے استشہاد فرمایا کہ جہاں تک ہوسکے چاہئے کہ معاف کریں اور در گزر 
کریں، کیا اس حدیث پر قرآن کریم کا وسیع سایہ نہیں ملتا؟ اورکیا یہاں حدیث پر قرآن کی اصولی سربراہی کارفرمانہیں؟۔

(۳)حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا:

"م
َامِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ أَوْيُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ"۔

(بخاری،باب اذا اسلم الصبی فمات ھل یصلی،حدیث نمبر:
۱۲۷۱)

ترجمہ: ہر بچہ فطرت اسلامی پر پیدا ہوتا ہے،اس کے بعد اس کے ماں باپ اسے یہودی،نصرانی یا مجوسی بنالیتےہیں، جس طرح جانوروں کے بچے تندرست وتوانا اورسالم
 پیدا ہوتے ہیں مگر بعد میں یہ کافران کے کان وغیرہ کاٹ ڈالتے ہیں یعنی ا س طرح انسانوں کے سب بچے اسلامی فطرت پر پیدا ہوتے ہیں) اس کے بعد آنحضرت 
صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:"فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ (الروم:۲۹)ترجمہ: وہ فطرت اللہ ہے اللہ نے اسی 
پر لوگوں کو تخلیق بخشی اللہ کا دین نہیں بدلتا، یہی ٹھیک دین ہے قائم رہنے والا۔

آنحضرتﷺ نے جوبات بیان فرمائی وہ اپنی جگہ سند کامل اورحق کی حجت تھی مگر اس پر بھی حضورﷺ نے اسے قرآن پاک سے مستفاد فرمایا، دیکھئے حدیث 
پرقرآن کے سائے کس طرح وسیع پھیلے ہوئے ہیں۔ اس قسم کی احادیث کے ہوتے ہوئے کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ حدیث دراصل قرآن کے خلاف ایک عجمی 
سازش تھی جس کا مقصد لوگوں کو قرآن سے ہٹانا اوراحادیث کے گرد لانا تھا؟ کیا ان احادیث میں صریح طورپر قرآن کریم کو منبع ہدایت کے طورپر نہیں مانا گیا؟ کچھ 
تو سوچئے اورانصاف سے کام لیجئے۔(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:اٰثارالحدیث،۲۶۰،ازڈاکٹر خالد محمود)

ایک اورروایت میں ہے: 

"لَاتَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا فَإِذَا طَلَعَتْ وَرَآهَا النَّاسُ آمَنَ مَنْ عَلَيْهَا فَذَلِكَ حِينَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْكَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا"۔
(مسند احمد،باب مسند ابی ھریرۃؓ،حدیث نمبر:۶۸۶۴)

ترجمہ:قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک آفتاب مغرب سے طلوع نہ ہو اور جب لوگ آفتاب کو مغرب سے طلوع ہوتا دیکھ لیں گے تو روئے زمین کے 
سب لوگ خدا پر ایمان لے آئیں گے، سو یہ وہ وقت ہوگا جب کسی شخص کا ایمان لانا اسے فائدہ نہ پہنچائیگا،جب تک کہ پہلے سے ایمان نہ لایا ہو یا اس نے اپنے 
ایمان میں کوئی نیکی نہ کی ہو۔آپﷺ نے اپنے اس بیان پر قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی۔"لَايَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْكَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا
(الانعام:۱۵۸)ترجمہ:اس دن کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے لیے کارآمد نہیں ہوگا جو پہلے ایمان نہ لایا ہو یا جس نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی نیک عمل کی کمائی نہ 
کی ہو۔

دیکھئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حدیث اور قرآن میں کس گہرے ربط کا اظہار فرمارہے ہیں،گویا حدیث منبع قرآن سے ہی ایک چشمہ پھوٹا ہے اوراس میں 
قرآنی جلال و جمال ہی اپنی لہریں دکھارہے ہیں۔

حضورﷺ قرآن و حدیث کا جو ربط بیان فرما رہے ہیں وہ اس حدیث سے واضح ہے، کیا اب بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ حدیث قرآن کے خلاف ایک عجمی سازش 
ہے،اگر ایسا ہوتا توحدیث پرقرآن کے اتنے وسیع سائے ہرگز نہ پھیلتے۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اورسجدوں میں "سُبْحَانَکَ اَللَّھُمَّ وَبِحَمْدِکَ اَللَّھُمَّ اغْفِرْلِیْ" بہت پڑھتے ہیں تو آپ 
کی نظر قرآن مجید کی اس آیت پر گئی۔"فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا"۔(النصر:۳)ترجمہ: سو آپﷺ اپنے رب کی تسبیح و تحمید کیجئے اوراس سے بخشش 
مانگئے،بے شک وہ تو بہ قبول کرنے والے ہیں۔

اس میں تسبیح وتحمیداور طلب مغفرت تینوں کا ذکر ہےاور حضورﷺ کی مذکور دعاء میں بھی یہ تین باتیں موجود ہیں:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک کو اسلام کی مرکزی ہدایت نہ مانا ہوتا تو آپﷺ کا عمل اس طرح قرآن کی عملی تشکیل نہ کرتا، آپ ﷺ کے عمل 

اور قرآن پاک کی مذکورہ ہدایت میں تطبیق کس نے دیکھی؟ حضرت ام المومنینؓ نے۔ معلوم ہوا ان کے عقیدے میں حضورﷺ کے اقوال واعمال قرآن ہی کی 
عملی تشکیل تھے۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کا عقیدہ یہ تھا کہ اگر کوئی شخص حضور اکرمﷺ کے نام سے کوئی ایسی بات روایت کررہا ہے جو ظاہر مضمون قرآن سے ٹکرارہی 
ہے تو وہ بات ہرگز حضورﷺ نے کہی یا کی نہ ہوگی؛سو بایں صورت وہ راوی ایک غلط بات کہہ رہا ہوگا، امام بخاریؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ام المومنین نے 
فرمایا:

جوشخص اس بات کا مدعی ہے کہ حضورﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے اس نے خدا پر بہت بڑا جھوٹ بولا ہے (حضرت ام المومنین ؓ رویت بالاحاطہ کے زعم کی نفی 
فرمارہی ہیں، مطلق رویت کی نہیں) (راوی کہتے ہیں) میں سہارا لگائے بیٹھا تھا۔ ام المومنین کی بات سن کر سیدھا بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ ام المومنین مجھے بھی سوال 
کرنے کا موقع دیجئے اور فتویٰ دینے میں اتنی جلدی نہ فرمائیے،کیا قرآن مجید میں یہ موجود نہیں "وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِين" (التکویر:۲۳) (آپﷺ نے اس کو افق 
مبین پر دیکھا) "وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى" (النجم:۱۳) (تحقیق آپﷺ نے ایک مرتبہ اور دیکھا )ام المومنین نے سن کر فرمایا: اس امت میں سب سے پہلے میں نے ہی 
اس کے بارے میں آنحضرتﷺ سے سوال کیا تھا تو آپﷺ نے فرمایا: اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں،میں نے انہیں دو مرتبہ کے سوا اصلی صورت میں 
نہیں دیکھا، میں نے انہیں معراج شریف میں آسمان سے اترتے ہوئے دیکھا، ان کے جسم اور پروں کی وسعت زمین وآسمان کی درمیانی فضاء کو گھیرے ہوئے تھی، 
پھر آپ ؓ نے استدلال کے طور پر فرمایا: کیا تم نے قرآن میں نہیں سنا اللہ جل شانہ فرماتے ہیں :

"لَ
ا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ " (الانعام:۱۰۳)ترجمہ:آنکھیں اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں اورسب آنکھیں اس کے احاطہ میں ہیں اور وہ 
باریک بین خبر رکھنے والا ہے۔ایک اور جگہ فرماتے ہیں: "وَمَاكَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّاوَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا"(الشوریٰ:۵۱) ترجمہ:کوئی انسان اللہ جل 
شانہ سے بجز تین صورتوں کے ہمکلام نہیں ہوسکتا،بذریعہ وحی، بصورت حجاب، بواسطہ جبرئیل امین۔(مسلم،باب معنی قول اللہ عزوجل ولقد راہ،حدیث نمبر:۲۵۹)

ام المومنین نے مزید فرمایا کہ جو شخص اس بات کا مدعی ہے کہ حضورﷺ نے کتاب اللہ سے بعض چیزوں کو چھپالیا ہے وہ رسولﷺ پر بہتان باندھتا ہے؛حالانکہ 
اللہ ارشاد فرمارہے ہیں، "یَاأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَاأُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ"۔ (المائدۃ:۶۷) (اے پیغمبر! جوکچھ آپﷺ پر نازل کیا گیا اسے 
لوگوں تک پہنچا دیں اور اگر آپ ایسا نہ کریں تو آپﷺ نے فریضہ رسالت کا حق ادا نہیں کیا)۔

پھر فرمایا کہ جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ حضورﷺ کل آئندہ کے بارے میں خبردے سکتے تھے (کہ کیا پیش آنے والا ہے یعنی عالم الغیب تھے) تو وہ بھی خدا پر 
جھوٹ باندھتا ہے؛ اس لیے کہ رب العزت فرماتے ہیں "لَايَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّااللَّهُ" (النمل :۶۵) زمین وآسمان میں غیب کو خدا کے سوا کوئی 
نہیں جانتا۔ (مسلم،باب معنی قول اللہ عزوجل ولقد راہ،حدیث نمبر:۲۵۹)

غور فرمائیں کہ حضرت ام المؤمنینؓ کس طرح ایک ایک قدم پر قرآن کریم کی رہنمائی کی طرف متوجہ فرمارہی ہیں،کیا یہ احادیث قرآن کریم کی توضیح و تشریح ہے یا اس کے خلاف ایک عجمی سازش ہے؟۔

(جاری ہے)

No comments:

Post a Comment