Monday, September 26, 2016

AITRAZ : OONTNI KE PESHAB AUR DOODH MILA KAR PINEWALI HADEES



اونٹنی کا پیشاب اور دودھ ملا کر پینے والی حدیث پر ملحدین کی چولیں اور حقیقت؟؟؟



__---__----___---__----__----__----___----__---___----__---_--

میرے نزدیک استاد کی تعریف یہی ہے کہ جس نے مجھے دین کی ایک بات بھی سکھا دی، وہ میری نگاہ میں میرا استاد ہی ہے۔
مذکورہ حدیث جو آیندہ سطروں میں بیان کی جائے گی، یہ معترضین اسلام کا ایک آزمودہ ہتھیار ہے، جس سے وہ مجھ جیسے سبھی کم علم مسلمانوں کو ایک ہی جست میں دفاعی لائن پہ دھکیل دیتے ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ ہماری ان تحاریر تک نارسائی ہے، جو اس حوالے اساتذہ کرام نے پچھلے کئی سو سال میں کئی سو بار لکھیں۔ لیکن جن لوگوں تک پہنچیں، انہوں نے اسے عام کرنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی۔
خیر۔ ہمیشہ کی طرح اساتذہ کی تحاریر سے اقتباسات اکھٹے کرنے کا آغاز میں اصل حدیث پیش کرکے کرنا چاہوں گی۔ ملاحظہ ہو:

عن أنس أن ناساًاجتووا فی المدینۃ فأمرھم النبی أن یلحقوا براعیہ ۔یعنی الابلفیشربومن ألبانھا وأبوالھا فلحقوا براعیہ فشربوامن ألبانھا وأبوالھاحتٰی صلحت أبدانھم (صحیح بخاری کتاب الطب باب الدواء بأبوال الإ بل رقم الحدیث 5686)

ترجمہ:
قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مدینے کی آب وہواموافق نہ آنے پر وہ لوگ بیمار ہوگئے (ان کو استسقاء یعنی پیٹ میں یا پھیپھڑوں میں پانی بھرنے والی بیماری ہوگئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینے کی دوا تجویز فرمائی ۔یہاں تک کہ اسے پی کروہ لوگ تندرست ہوگئے۔

جب بھی یہ حدیث کسی مسلمان کے سامنے کسی ایسے فورم پر پیش کی جاتی ہے، جو بنا ہی اسلام پر تنقید کرنے کے لیے ہے، تو اس کے ساتھ بہت سے تضحیک آمیز الفاظ بھی جزو لازم کی طرح ضرور ہوتے ہیں۔ نتیجتاً بہت سے ناواقف مسلمان پہلے تو اسے حدیث ماننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ اور جب بخاری شریف سے ہی یہ حدیث نکال کر پیش کردی جاتی ہے تو اکثر بہن بھائی حدیث کی سب سے مستند کتاب سے ہی بدظن ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے، عشق مصطفی ﷺ تقاضا بھی یہی کرتا ہے کہ حضور علیہ السلام کی ذات بابرکات و کمالات میں کوئی عیب تصور بھی نہ کیا جائے، تسلیم کرنا تو بڑی دور کی بات ہے۔

لیکن کیا یہ واقعی کوئی عیب ہے؟ اس حدیث پاک میں واقعی کوئی برائی موجود بھی ہے یا کسی نے کمال مکاری سے اسے پیش ہی کچھ اس طرح کیا ہے کہ ہم حضور علیہ السلام کی ذات سے ان الفاظ کا مترادف بھی نہ جوڑ پائیں؟ تو اس سوال کا جواب ہے، بالکل، صرف اس حدیث ہی کو نہیں، تمام نصوص شریعہ کو معترضین اسلام اپنے من گھڑت، بے سر و پا قیاسات کے ساتھ ملاکر پیش کرتے ہیں، تبھی ان کا چولہا جلتا اور کام چلتا ہے، ورنہ اسی حدیث پر چند سطروں بعد آپ کو اتنا غرور اور معترضین کو وہ سبکی ہونے والی ہے کہ سب دیکھتے رہ جائیں گے۔

سب سے پہلی بات اس ضمن میں یاد رکھنے کی یہ ہے کہ یہ حکم تب بھی علاج کی غرض سے تھا۔ اور اس کا اطلاق اب بھی صرف اور صرف علاج ہی کی غرض سے ممکن ہے۔ اسی تناظر اب آیئے یہ دیکھتے ہیں کہ جدید میڈیکل سائنس اس معاملے میں کہیں اسلام سے پیچھے تو نہیں رہ گئی؟ کہیں ایسا تو نہیں ہوگیا کہ اسلام نے لوگوں کو علاج کے لیے اونٹنی کا پیشاب پلا دیا اور سائنس اب تک گرائپ واٹر سے ہی سب امراض کا علاج فرما رہی ہو؟ یقیناً ملحدوں کو یہ جان کر بہت خوشی ہوگی کہ آج ایک مسلم خاتون اس حوالے سے سائنس کے آگے، بلکہ بہت آگے ہونے کا ناصرف اقرار کرنے چلی ہے، بلکہ ثبوت بھی خود پیش کر رہی ہے۔ ملاحظہ ہوں جدید انگریزی طریقہ علاج کی ان ادویات میں سے چند کا تعارف جو پیشاب سے حاصل کی جاتی ہیں۔

1. Premarin.
یہ دوائی مادہ ہارمون estrogen کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ Pfizer مشہور کمپنی اس کی ڈسٹریبیوٹر ہے اور یہ گولیوں، انجکشن اور کریم کی صورت میں استعمال کی جاتی ہے۔
یہ عورتوں میں menopausal syndrome کی موجودگی میں دی جاتی ہے۔ عورتوں میں ماہواری کے ختم ہونے کے بعد ہونے والی تبدیلیوں جیسے بلڈ پریشر، ہڈیوں کا بھر بھرا پن وغیرہ میں استعمال کی جاتی ہے۔ یہ جان کر آپ کو بہت لذت اور پاکیزگی محسوس ہوگی کہ اس دوائی کو حاملہ گھوڑی کے پیشاب سے حاصل کیا جاتا ہے۔
ابتدائی طور پر اس کا حصول ان عورتوں کا پیشاب لینا ہوتا تھا جن کی ماہواری رک گئ تھی کیونکہ ایسی عورتوں کے پیشاب میں estrogen کافی مقداد میں پایا جاتا ہے۔
2. Menotropin.
اس دوائی کا بھی اصل ماخذ ان عورتوں کا پیشاب ہے جن کی ماہواری رکی ہوئی ہو۔
یہ دوائی ان بے اولاد جوڑوں کو دی جاتی ہے جن میں خاص کر Follicle Stimulating Hormone کی کمی ہو یا اس عورت کو جس کا ovum اس کی ovary سے جدا نہ ہوتا ہے جسے ovulation کہتے ہیں۔ اس دوائی کے استعمال سے دیکھا گیا ہے کہ ان عورتوں میں حمل ٹھہر جانے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔ 

سن کر لذت تو آرہی ہوگی ملحدین کو؟

3. Urine derived iPluripotent Stem Cells. iPSC.

دل کے پٹھے کمزور ہونا جسے cardiomyopathy کہا جاتا ہے، معاشرے کی ایک بہت عام بیماری ہے اور اس کا واحد علاج دل کا ٹرنسپلانٹ کروانا ہے۔
اب ایسے مریضوں کے پیشاب کا معائنہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس میں ایسے خاص cells موجود ہیں جو pluripotent ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یعنی ان cells کو استعمال کر کے دل کے کمزور پٹھوں کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ Mack DLکی یہ تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور مستقبل میں ممکن ہے کہ پیشاب کو بطور دل کے خلیہ جات حاصل کرنے کا ایک ماخذ جانا جاۓ۔

4. Pergonal .

یہ دوائی بھی انسانی پیشاب سے حاصل کی جاتی ہے اور اس کا بھی وہی استعمال ہے جو Menatropin کا ہے۔

5.Amphetamine .

یہ دوائی نفسیاتی مریضوں یعنی ملحدوں کو، جنہیں narcolpsy یا جہاں neural disorders ہوں، اس وقت تجویز کی جاتی ہے۔ اگرچہ اس کو بعض کیمیکل ری ایکشنز کے ذریعے لیبارٹری میں تیار کیا جاتا ہے، مگر جب اس کے سائڈ ایفیکٹس زیادہ ہونے لگے تو 70 کی دہائی میں اس کی ترسیل اور بنانے پر کڑی پابندیاں لگنا شروع ہو گئیں۔
آج کل اس کی زیادہ سے زیادہ پروڈکشن کو ممکن بنانے کے لیے بعض یورپی ممالک اسے پیشاب سے extract کرنے کے تجربات کر رہے ہیں اور HPLC کا استعمال اس معاملے میں کافی مفید ثابت ہوا ہے۔

6. Penicillin.

پینسلین سے کون واقف نہیں۔ فلیمنگ کو اس نے دنیا کا سب سے بڑا مسیحا بنا دیا اور antibiotics کی دنیا میں اس نے ایک انقلاب برپا کر دیا۔ اس دوائی کی تیاری میں moulds یعنی پھپھوندی کا استعمال کرنا عام بات ہے جس کی وجہ سے اس کی پروڈکشن کم ہے۔
حال ہی میں ڈاکٹر کرسٹین نے محسوس کیا جو مریض پینسلین استعمال کرتے ہیں ان کے پیشاب میں اس کے مواد کافی پاۓ جاتے ہیں اور اگر اس پیشاب کو ریسائکل کیا جاۓ تو پینسلین کا حصول قدرے آسان ہو جاۓ گا۔

7. Urine as purified water.

بین الاقوامی خلائی اسٹیشن میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ اس پر ناسا اپنا ایک پورا بجٹ پانی کی ترسیل پر لگا دیتا ہے۔ اس کا ایک آسان حل یہ نکالا گیا ہے کہ خلابازوں کے پیشاب کو ہی ریسائکل کرنے کے بعد اسے بطور پانی استعمال کیا جاۓ۔

اب تو منہ میں پانی آرہا ہے نا ملحدو؟

8. Tumor therapy.
Waltor H.
آسٹریا کے مشہور فارماسسٹ ہیں اور انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ صبح کے وقت کیے جانے والے پیشاب میں ایسے مواد شامل ہیں جو کہ کینسر کے خلیوں کے خلاف مدافعت رکھتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ اگر پیشاب کو اچھی طریقے سے بلنڈ کرنے کے بعد اس کے مواد کو استعمال کیا جاۓ تو وہ کینسر جیسے موذی مرض پر قابو پا سکتے ہیں۔ فی الحال یہ بات ابھی تحقیقی مراحل میں ہے جس کے نتائج آنا باقی ہیں۔

نتیجہ؟؟؟ گھوڑی اور انسان کا پیشاب ہمممم ہمممم، اونٹنی کا پیشاب تھو تھو؟؟؟ واہ رے ملحد تیری ریا کاریاں، مکاریاں تے عیاریاں۔

اور بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ مرض استسقاء، جس کا علاج میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کا پیشاب اور دودھ تجویز فرمایا، وہ ہے کتنی بڑی بلا اور جدید میڈیکل سائنس اس کا کتنا تکلیف دہ علاج تجویز کرتی ہے، ذرا یہ تحقیق بھی ملاحظہ ہو:

اگر آپ کو واقعی کیمسٹری کے اصول یاد ہیں تو آپ کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ دو مختلف کیمیکلزکے ملنے سے ایکشن اور ری ایکشن ہوتا ہے۔ یاد دہانی کے لئے میں کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں۔

پانی کے لئے H2O ہائیڈروجن کے دو مالیکیول اور اکسیجن کا ایک مالیکیول مل کر پانی بنتا ہے۔

نیلا تھوتھا زہر ہے اور آپ کو پتہ ہو گا کہ اگر نیلا تھوتھا کی قلمیں بنا لی جائیں تو پھر نیلا تھوتھا سے زہر کا اثر ختم ہو جاتا ہے اور اسے پھرکچھ بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
سوڈیم” اسے اگر کھولیں تو ہوا سے آکسیجن ملتے ہی اسے آگ لگ جاتی ہے ، اور ” سوڈیم کلورائیڈ” جو ہم روزانہ کھانے میں استعمال کرتے ہیں۔ انسان کو کچھ نہیں ہوتا۔

اونٹنی کے دودھ میں “ پوٹاشیم ” بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پروٹین، آئرن، فیٹ، پانی، فاسفورس ، کیلشیم، اور وٹامن سی، کیکٹوس/قدرتی مٹھاس اور ڈیوریٹک/پیشاب آور، ہوتے ہیں۔

اب دودھ کے اندر پائی جانے والے ان کیمیکلز کو سامنے رکھیں تو پیشاب میں پائے جانے والے ٹاکسس کے اثر کو ختم کرنے کے لیئے یہی کافی ہیں۔ کیمسٹری فارمولہ کے مطابق اونٹنی کا پیشاب اس وقت تک پیشاب رہے گا جب تک وہ دوسرے اجسام کے ساتھ نہیں ملا، جونہی اونٹنی کا پیشاب اونٹنی کے دودھ میں شامل ہوا تو پھر دونوں اجسام میں پائے جانے والے کیمیکلز سے جو ری ایکشن ہو گا اس سے پیشاب نام اور مقام کھو بیٹھے گا۔ اور ایک الگ مکسچر بنے گا۔
یہاں ایک اور بات واضح کرتی چلوں کہ پانی کے ایک گلاس کو میٹھا کرنے کے لئے چینی کی کچھ مقدار/ ایک چمچ ڈالی جاتی ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ پانی کے ایک گلاس میں چینی کا ایک گلاس ڈالا جائے۔ اسی طرح دودھ میں پیشاب ملا کر پینے کا مطلب یہ نہیں کہ دودھ کا ایک گلاس اور پیشاب کا ایک گلاس، بلکہ دودھ کے ایک گلاس میں پیشاب کی کچھ مقدار جو کہ ڈراپس بھی ہو سکتے ہیں اور چمچ بھی۔ بالکل اسی طرح جیسے ہائیڈروجن کے دو مالیکول اور آکسیجن کا ایک مالیکیول ان کو اکٹھا کریں تو دونوں اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں اور اس سے جو تیسری چیز بنتی ہے جسے ہم پانی کہتے ہیں۔

عکل اور عرینہ کے لوگوں میں جو بیماری تھی اسے موجودہ طبی سائنس میں پلیورل ایفیوزن (Pleural Effusion) اور ایسائٹیز (Ascites) کہا جاتا ہے۔ یہ انتہائی موذی مرض ہے۔پلیورل ایفیوزن کے مریض کو بے حس کر کے پسلیوں کے درمیان آپریشن کر کے سوراخ کیا جاتا ہے۔ اس سوراخ سے پھیپھڑوں میں چیسٹ ٹیوب (Chest Tube) داخل کی جاتا ہے اور اس ٹیوب کے ذریعہ سے مریض کے پھیپھڑوں کا پانی آہستہ آہستہ خارج ہوتا ہے۔ اس عمل کا دورانیہ 6 سے 8ہفتہ ہے۔ اس مکمل عرصے میں مریض ناقابل برداشت درد کی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے ۔ اور بعض اوقات تو وہ موت کی دعائیں مانگ رہا ہوتا ہے۔ (بہت سوں نے خود اسپتالوں میں ان مریضوں کی یہ حالت شاید دیکھی بھی ہو)۔ایسائٹیز کے مریض کے پیٹ میں موٹی سرنج داخل کر کے پیٹ کا پانی نکالا جاتا ہے۔ یہ عمل باربار دہرایا جاتا ہے۔ ان دونوں طریقوں میں مریض کو مکمل یا جزوی طور پر بے حس کیا جاتا ہے۔ (Short Practice of Surgery page 698-703 & 948-950)
اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیں خیرالقرون میں اس بیماری کا کتنا آسان سا علاج، یعنی اونٹنی کا دودھ اور پیشاب تجویز فرمایا تھا، جو آج بھی کار آمد ہے۔ ثبوت ملاحظہ ہوں:

ڈاکٹر خالد غزنوی اپنی کتاب علاج نبوی اور جدید سائنس میں تحریر فرماتے ہیں:

ہمارے پاس اسی طرح کے مریض لائے گئے عموماً۔4 سال سے کم عمر کے بچے اس کا شکار تھے۔ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل کیا اونٹنی کا دودھ اور پیشاب منگوایا اور دونوں کو ملاکر ان بچوں کا پلادیاکچھ ہی عرصے بعدان کے پھیپھڑوں اور پیٹ کا سارا پانی پیشاب کے ذریعے باہر آگیا اور بچے صحت یاب ہوگئے۔وللہ الحمد،اور آج وہ جوان ہیں‘‘۔ (علاج نبوی اور جدید سائنس جلد 3بابAscites  

محترمہ ڈاکٹر فاتن عبدالرحمٰن خورشیدکا سعودی عرب کی قابل سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ یہ کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کی فیکلٹی ممبر ہونے کے علاوہ کنگ فہد سنٹر میں طبی تحقیق کے لیے قائم کردہ Tissues Culture Unit کی صدر ہیں۔ وہ میڈیکل ڈاکٹر تو نہیں ہیں تاہم اسی حدیث سے متاثر ہو کر انہوں نے اس پر تحقیقی کام کیا اور اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملا کر کینسر سے متاثرہ افراد کو پلایا ۔ انہوں نے لیب کے اندر اپنے ان تجربات اور ریسرچ کوسات سال تک جاری رکھا اور معلوم کیا کہ کہ اونٹ کے پیشاب میں موجود نانو ذرات کامیابی کے ساتھ کینسر کے خلیات پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اس دوا کا معیار انٹرنیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کی شرائط کو پورا کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کو کیپسول اور سیرپ کی شکل میں مریضوں کو استعمال کروایا ہے اور اس کا کوئی نقصان دہ سائیڈ ایکفیکٹ بھی نہیں ہے۔
محترمہ ڈاکٹر خورشید صاحبہ کا کہنا ہے کہ وہ اونٹنی کے دودہ اور پیشاب کو مخصوص مقدارون میں ملا کر مزید تجربات کے ذریعے اپنی دوا کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور اپنی توجہ اس جانب مرکوز کئے ہوئے ہیں کہ اسی دوا سے کینسر کی بعض مخصوص اقسام جیسے پھیپھڑوں کے کینسر، خون کے کینسر، بڑی آنت کے کینسر، دماغ کے ٹیومر اور چھاتی کے کینسر کا علاج تسلی بخش طریقے سے کیا جاسکے۔

اور اگر اتنے فوائد اور وضاحتیں پڑھنے کے بعد بھی کسی کو تسلی نہ ہوئی ہو تو پیش خدمت ہے یوریا، یعنی کھاد کی تیاری کا عرف عام میں نسخہ۔
پورے شہر کی گندگی، جس میں انسانی فضلات بھی شامل ہوتے ہیں، کو ڈیفرٹیلائز کرنے کے بعد، اس میں سبزیوں کےمصنوعی بیج شامل کرکے، جو انتہائی بدبودار مکسچر ہمیں حاصل ہوتا ہے اسے یوریا کہتے ہیں۔ اسی سے پیدا ہونے والی سبزیاں اکثر ملحدین کی مرغوب غذا ہیں۔ (ہن آرام اے ملحدو؟)
آخر میں قرآن مجید کی ایک آیت مسلمان بہن بھائیوں کے لیے۔

فَمَنِ اضْطُرَّ غَیرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلٓا إِثْمَ عَلَیہِ

یعنی:

جو شخص مجبور (بھوک کی شدت سے موت کا خوف) ہوجائے تو اس پر (حرام چیز کے کھانے میں) کوئی گناہ نہیں بس وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو 
سورۃ البقرۃ ۔آیت 173

لہذا جان بچانے کے لیے اونٹنی کا پیشاب پینے میں نصوص ہرگز مانع نہیں، بلکہ جیسا عرض کیا گیا کہ دودھ سے ملنے کے بعد وہ پیشاب رہتا بھی نہیں۔
اس تحریر کے لیے سارا مواد و رہنمائی فرمانے کے لیے طلحہ بھائی آپ کا بے حد شکریہ۔ اللہ پاک آپ کی محنت قبول فرمائے۔
و آخر دعونا ان الحمد اللہ رب العالمین

 :REFERENCES
https://en.wikipedia.org/wiki/Gonadotropin_preparations

Gonadotropin preparations are drugs that mimic the physiological effects of gonadotropins, used therapeutically mainly as fertility medication for ovarian hyperstimulation and reversal of anovulation. For example, the so-called menotropins consist of LH and FSH extracted from 
.human urine from menopausal women1There are also recombinant variants.

FSH and LH preparations

hMG (human Menopausal Gonadotrophins), FSH and LH prepared from human urine collected from postmenopausal women. First extracted in 1953. Injected intra-muscularily (IM) or subcutaneously (SC).


Saturday, September 24, 2016

INTRO : SAHIH SITTAH KE BAAD KI HADEES BOOKS



صحاحِ ستہ کے بعد اسکے قریبی زمانے کی جن کتابوں کوزیادہ شہرت حاصل ہوئی اور وہ علماء کودستیاب ہیں، یہ ہیں:

١.شرح معانی الآثار امام طحاویؒ (۳۲۱ھ)

اپنے طرز کی نہایت عجیب کتاب ہے، کتبِ حدیث میں اس کی مثل نہیں، درسی کتاب ہے دارالعلوم دیوبند میں دورۂ حدیث میں پڑھائی جاتی ہے، علامہ عینی جیسے بلند پایہ محدثین نے شرح معانی الآثار کی شرح کئی ضخیم جلدوں میں لکھی ہیں۔

٢.مشکل الآثار امام طحاویؒ (۳۲۱ھ)

امام طحاویؒ نے اس میں مشکل اور ظاہراً متعارض احادیث پر بہت فاضلانہ بحث کی ہے، افسوس کہ یہ پوری شائع نہیں ہوئی، حیدرآباد دکن سے اس کی چار جلدیں شائع ہوئی ہیں اور یہ پوری کتاب کا تقریباً نصف ہیں، امام طحاویؒ نے اس کا ایک اختصار بھی کیا ہے، جسے قاضی جمال الدین یوسف بن موسیٰ نے "المعتصر من المختصر من مشکل الآثار"کے نام سے مرتب کیا ہے یہ المعتصر سنہ ۱۳۱۲ھ میں حیدرآباد دکن سے پہلی مرتبہ شائع ہوئی ہے؛ پھریہ مصر سے بھی شائع ہوچکی ہے۔

٣.المعجم الکبیر للطبرانی (۳۶۰ھ)

حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی (۳۶۰ھ) نے حدیث کے تین مجموعے قلمبند کیئے، ان میں سے سب سے بڑا مجموعہ یہ ہے، المعجم الصغیر للطبرانی مطبع انصاری دہلی میں سنہ ۱۳۱۱ھ میں چھپی تھی، المعجم الکبیر کا ایک مخطوطہ کسی زمانہ میں جامع عباسیہ بہاولپور کی لائبریری میں موجود تھا۔

٤.سنن دارِقطنی (۳۸۵ھ)

ابوالحسن علی بن عمردارِقطنی بغداد کے محلہ دارِقطن کے رہنے والے تھے، عللِ احادیث میں اپنے وقت کے امام اور منتہیٰ تھے،بہت سے علماء نے اس کتاب پر قابلِ قدر حواشی لکھے ہیں، کتاب میں بہت سی منکر شاذ ضعیف اور موضوع روایات موجود ہیں؛ تاہم کئی پہلوؤں سے کتاب مفید ہے۔

٥.مستدرک حاکم(۴۰۵ھ)

چار ضخیم جلدوں میں حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی ہے، ساتھ ساتھ حافظ شمس الدین الذہبیؒ کی کتاب تلخیص المستدرک بھی ہے، حافظ ذہبی اسانید پر ساتھ ساتھ کلام کرتے جاتے ہیں، حاکم نے اپنے زعم میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم پر اسی کتاب میں استدراک کیا ہے؛ اسی لیئے اسے مستدرک علی الصحیحین کہتے ہیں۔

٦.سنن کبریٰ للبیہقی (۴۵۸ھ)

ابوبکراحمد بن الحسین البیہقی کی کتاب سنن کبریٰ دس ضخیم جلدوں میں حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی ہے، ساتھ ساتھ علامہ علاؤ الدین الماردینی الترکمانی الحنفی کی کتاب الجوہر النقی فی الرد علی البیہقی بھی ہے، اس میں علامہ ترکمانی حنفیہ کی طرف سے امام بیہقی کوساتھ ساتھ جواب دیتے جاتے ہیں، امام بلند پایہ شافعی المذہب فقیہہ تھے۔

٧.معرفۃ السنن والآثار للبیہقی (۴۵۸ھ)

دوجلدوں میں مصر سے شائع ہوئی ہے، اپنے طرز کی نادرکتاب ہے، امام بیہقی نے اس میں کہیں کہیں امامِ طحاوی کے طرز پر چلنے کی کوشش کی ہے؛ لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہوسکے، ویسے یہ ایک بلند پایہ کتاب ہے، امام بیہقیؒ کی شعب الایمان جس سے صاحب مشکوٰۃ نے روایات لی ہیں، اس کے علاوہ ہے۔

٨.کتاب التمہید لابن عبدالبر المالکیؒ (۴۶۵ھ)

امام ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم میں اور الاستیعاب میں اپنی سند سے بہت روایات کی ہیں؛ لیکن"کتاب التمہید لمافی الموطا من المعانی والاسانید" اپنے موضوع میں نہایت فاضلانہ مجموعہ حدیث ہے، مراکش کے محکمہ شئوون اسلامی نے اسے تحقیقی کام کے ساتھ بیس جلدوں میں شائع کیا ہے، امام ابنِ عبدالبر نے "تجرید التمھیدی" کے نام سے اس کی ایک تلخیص کی ہے، جودوجلدوں میں چھپ چکی ہے۔

٩.نوادرالاصول فی معرفۃ اقوال الرسول

یہ ابوعبداللہ محمدالحکیم الترمذیؒ کی تالیف ہے، جوحاشیہ مرقات الوصول کے ساتھ بیروت سے شائع ہوئی ہے۔

١٠.حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصفہانی (۴۳۰ھ)

خطیب تبریزی اکمال میں لکھتے ہیں:"هومن مشائخ الحديث الثقات المعول بحديثهم المرجوع إلى قولهم كبير القدر"۔ترجمہ:ثقہ مشائخِ حدیث میں سے ہیں، جن کی روایت اور ان کے قول کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔
ان کتابوں کے علاوہ اس دور کی کچھ اور کتابیں بھی ہیں جن کا شمار معتبر کتابوں میں ہوتا ہے، یہ چونکہ زیادہ متداول نہیں، اس لیئے ان کی روایات بدوں تحقیق اسناد نہ لینی چاہئیں، اِن میں یہ کتابیں زیادہ معروف ہیں:

مسند ابی یعلی(۳۰۷ھ)، صحیح ابنِ خزیمہ ج(۳۱۱ھ)، صحیح ابنِ حبان (۳۵۴ھ)، عمل الیوم واللیلۃ حافظ ابوبکر احمد بن اسحاق المعروف بابن السنی (۳۶۳ھ)، تہذیب الآثار لابن جریر الطبری (۳۱۰ھ)، مسندابی بکر عبداللہ بن الزبیر الحمیدی (۲۱۹ھ)، مسندابن بزار (۲۹۲ھ)، منتقی ابن الجارود (۳۰۷ھ)، المحلی لابن حزم (۴۵۷ھ)۔

فوزیہ جوگن نواز 

HADEES KI PAHLI KITABO KA TARUF



متن حدیثــــــ ایک اجمالی تعارفِ



متن عربی میں پشت Bone of contention کوکہتے ہیں۔ متون اس کی جمع ہے، پشت پر بدن کا جملہ وزن آتا ہے اور یہی حصہ اس کا پوری طرح متحمل ہوتا ہے، حدیث کے جملہ اُصول وفروع اور قواعد وکلیات بھی متن حدیث کے گرد ہی گھومتے ہیں، راویوں کی سند متن تک پہنچتی ہے، شروح اسی متن کوکھولتی ہیں اور ترجمہ اسی کودوسری زبان کا لباس پہناتے ہیں، جو کتابیں متونِ حدیث کو اپنے دامن میں لیئے ہوئے ہیں اُن کا تعارف اس مقالہ میں پیش کیا جائیگا۔ یہاں صرف یہ بتلانا ہے کہ ان دنوں متونِ حدیث کی کون کون سی کتابیں علماء عوام میں مستند طریقہ سے چلی آرہی ہیں اور یہ کتابیں چھپی ہیں اور مل سکتی ہیں۔ اس فن کی جملہ مطبوعہ کتابوں کا احاطہ کرنا مقصود نہیں، اس بات کے متلاشی حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کی کتاب بُستان المحدثین کی مراجعت فرمائیں۔

صحیفہ حضرت ہمام بن منبہ (۱۱۰ھ)

حدیث کی قدیم ترین کتاب جواس وقت ہماری رسائی میں ہے صحیفہ ہمام بن منبہ ہے، ہمام بن منبہؒ حافظ الامت سیدنا حضرت ابوہریرہؓ کے شاگرد تھے، صحیفہ ہمام بن منبہؒ (۱۱۰ھ) میں ۱۳۸ حدیثیں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت سے لکھی ہیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ حضرت ہمامؒ کوکل ۱۳۸/احادیث ہی یاد تھیں۔ آپ نے اور اساتذہ سے بھی بہت سی روایات سنیں۔ حضرت ہمامؒ نے جب یہ صحیفہ مرتب کیا، ان دنوں فنِ تدوین اپنی بالکل ابتدائی منزل میں تھی، یہ مجموعے محض یادداشت کے طور پر لکھے گئے تھے اس لیے ان دوسرے اساتذہ سے سنی روایات اس میں شامل نہیں نہ حضرت ابوہریرہؓ سے سنی کل روایات کا اس میں احاطہ ہے۔ صحیفہ ابن ہمام ڈاکٹر حمیداللہ صاحب کے تحقیقی کام کے ساتھ حیدرآباد دکن سے سنہ ۱۹۵۵ھ میں شائع ہوا ہے۔ تیرہ صدیوں تک یہ کتاب مخطوطات میں ہی رہی، اس سے بہت پہلے مسند امام احمد مصر میں چھپ چکی تھی، اس میں مرویاتِ ابی ہریرہؓ ایک مستقل مسند ہے، مسند امام احمد کی جلددوم میں صحیفہ ہمام بن منبہ کی کل احادیث مرویات ابی ہریرہؓ میں موجود ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ قدماء حدیث کس احتیاط سے جمع کی کہ تیرہ صدیوں بعد آنے والا مجموعہ صدیوں بعد شائع ہونے والے کتابوں سے ہوبہو اور حرف بحرف مطابق نکلا، اس وقت متن حدیث کی قدیم ترین کتاب جسے ہم دیکھ سکتے ہیں یہی ہے۔ اس پر پہلے ایک تحریر میں تفصیل پیش کی جاچکی ہے ۔ 

حدیث کی دس پہلی کتابیں:

صحیفہ ابن ہمام کی طرح بہت سے صحابہ، تابعین ، تبع تابعین کے حدیث پر صحیفے اور کتابیں موجود تھیں، یہاں ان میں مشہور ترین کتابوں کا تذکرہ پیش ہے جو صحاحِ ستہ کے وجود میں آنے سے پہلے کتابیں لکھی جاچکی تھیں اور علماء متقدمین ومتأخرین ان کے حوالوں سے رداً یاقبولاً بحث کرتے آئے ہیں اور ان کی اصلیتAnthenticity کسی دور میں مخدوش نہیں سمجھی گئی۔ 

١. مسندامام ابی حنیفہؒ (۱۵۰ھ)

امام اعظم ابوحنیفہؒ کا موضوع زیادہ ترفقہ تھا حدیث نہیں؛ تاہم آپ ضمناً احادیث بھی روایت کرتے جاتے تھے، جنھیں آپ کے شاگرد آپ سے روایت کردیتے تھے، مختلف علماء نے آپ سے روایت شدہ احادیث کو جمع کیا ہے، علامہ خوارزمی (۶۶۵ھ) نے ان کے پندرہ جمع شدہ مجموعے مسانید ابی حنیفہ کے نام سے مرتب کیئے ہیں، ان مجموعوں کوامام صاحبؒ سے براہِ راست نقل کرنے والے امام ابویوسفؒ، امام محمدؒ، امام صاحبؒ کے صاحبزادے حمادؒ اور امام حسن بن زیادؒ ہیں، ان میں سب سے بہتر مجموعہ محدث جلیل موسیٰ بن زکریا حنفی کا ہے، اسے ہی مسندابی حنیفہ کہا جاتا ہے، یہ کتاب مصر، ہندوستان اور پاکستان میں بارہا چھپ چکی ہے۔محدثِ کبیر ملاعلی قاریؒ نے مسندالانام فی شرح الامام کے نام سے اس کی شرح لکھی جو سنہ ۱۸۸۹ء میں مطبع محمدی لاہور نے شائع کی تھی، یہ کتاب مولانا محمدحسن سنبھلی کے حاشیہ کے ساتھ اصح المطابع لکھنؤ سے سنہ ۱۳۰۹ھ میں شائع ہوئی۔

٢.مؤطا امام مالکؒ (۱۷۹ھ)

مؤطا لفظ توطیہ سے ہے، توطیہ کے معنی روندنے، تیار کرنے اور آسان کرنے کے ہیں، امام مالکؒ نے اسے مرتب کرکے ستر فقہاء کے سامنے پیش کیا، سب نے اس سے اتفاق کیا، اسی وجہ سے اس اتفاق شدہ مجموعہ کو مؤطا کہا گیا۔امام مالکؒ کا موضوع چونکہ زیادہ ترفقہ تھا، اس لیئے آپ نے اس میں سند کے اتصال کی بجائے تعامل امت کوزیادہ اہمیت دی ہے، آپ اس میں اقوالِ صحابہؓ اور تابعینؒ بھی لے آئے ہیں، آپ کے ہاں سنت وہی ہے جس پر اُمت میں تسلسل سے عمل ہوتا آیا ہو، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:"مز جہ باقوال الصحابۃ وفتاویٰ التابعین ومن بعدھم"۔ ترجمہ: آپ نے صحابہ کے اقوال اور تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کے فتاوے اس میں شامل کیئے ہیں۔(مقدمہ فتح الباری:۴)
مؤطاامام مالک میں ۸۲۲/روایات مرفوع ہیں، جوحضورﷺ تک پہنچتی ہیں ان میں سے بھی ۲۴۴/مرسل ہیں، جوتابعینؒ کی روایت سے حضورﷺ تک پہنچی ہیں، انہیں محدثین کی اصطلاح میں مرسل کہتے ہیں، اس دور میں مرسل احادیث لائقِ قبول سمجھی جاتی تھیں، جب تک جھوٹ اور فتنوں کا دور شروع نہیں ہوا، امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ جیسے اکابر مرسل روایات کوبلاتردد قبول کرتے رہے، امام مالکؒ سے مؤطا کے سولہ نسخے آگے چلے، جن میں صحیح ترین نسخہ امام یحییٰ بن یحییٰ مصمودی اندلسی کا ہے، مؤطا مالک ان دنوں اسے ہی کہتے ہیں، بڑے بڑے متبحر علماء نے اس کی شروح اور حواشی لکھے ہیں، حضرت امام شافعیؒ نے لکھا ہے:"ماعلی ظہرالارض کتاب بعد کتاب اللہ اصح من کتاب مالک"۔ ترجمہ:تختۂ زمین پر کوئی کتاب قرآن کریم کے بعد مؤطا سے زیادہ صحیح نہیں۔
(تزئین المالک:۷۳)

یہ اس وقت کی بات ہے جب صحیح بخاری اور صحیح مسلم وجود میں نہ آئی تھیں اور صحتِ سند کے لحاظ سے مؤطا مالک اپنی مثال آپ تھی، اس کی کوئی روایت جرح راوی کی وجہ سے ضعیف نہیں، امام مالکؒ سے ایک ہزار کے قریب علماء نے مؤطا لکھی۔(بستان المحدثین اردو ترجمہ:۲۲، مطبع: کراچی)

٣.کتاب الآثار امام ابویوسفؒ (۱۸۲ھ)

گوآپ حدیث کے امام تھے؛ مگرآپ کا موضوع بھی فقہ تھا، آپ نے احادیث بھی بہت روایت کی ہیں، زیادہ روایات امام ابوحنیفہؒ سے لیتے ہیں، کتاب الآثار فقہی طرز میں آپ کی روایات کا ایک مجموعہ ہے، امام یحییٰ بن معینؒ (۲۳۳ھ) لکھتے ہیں:"کان ابویوسف القاضی یمیل الی اصحاب الحدیث وکتبت عنہ"۔ ترجمہ: امام ابویوسفؒ محدثین کی طرف زیادہ مائل تھے اور آپ کی روایات لکھی جاتی تھیں۔(کتاب التاریخ یحییٰ بن معین:۲/۶۸۰، طبع: سنہ ۱۳۹۹ھ، مکۃ المکرمۃ)امام ابویوسفؒ کی اس کتاب کومطبع احیاء المعارف النعمانیہ نے ۱۳۵۵ھ میں شائع کیا ہے۔

٤.کتاب الآثار امام محمدؒ (۱۸۹ھ)

مصر اور ہندوستان میں بارہا چھپ چکی ہے، اس کی متعدد شرحیں بھی لکھی گئیں ۔کتاب الآثار امام محمد کا عربی متن پہلے مطبع اسلامیہ نے سنہ ۱۳۲۹ھ میں شائع کیا تھا۔

٥.مؤطاامام محمدؒ (۱۸۹ھ)

امام محمدؒ نے امام ابوحنیفہؒ کی وفات کے بعد حضرت امام مالکؒ سے مؤطا سنی اور پھر آپ نے خود ایک مؤطا ترتیب دی، جس میں زیادہ روایات امام مالکؒ سے لی ہیں، مؤطا امام محمدؒ بھی درسی کتاب ہے، ہندوستان، پاکستان، ترکی اور افغانستان کے مدارس حدیث میں پڑھائی جاتی ہے، اس کا اُردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے، اس میں مرویات آپ کی ہیں؛ مگرتبویب آپ کے شاگردوں میں سے کسی نے کی ہے "ھکذا سمعت من بعض الثقات"۔

٦.مسندامام شافعیؒ (۲۰۴ھ)

آپ کا زیادہ ترموضوع فقہ تھا؛ مگرآپ اس کے ضمن میں احادیث بھی روایت کرتے تھے، آپ کے دور میں فتنے بہت اُبھر آئے تھے اور جھوٹ عام ہوچکا تھا، اس لیئے آپ نے راویوں کی جانچ پڑتال پر بہت زور دیا اور تعامل امت کی نسبت صحت سند کواپنا مآخذ بنایا، آپ نے یہ مسندخودترتیب نہیں دی، اس کے مرتب ابوالعباس محمدبن یعقوب الاصم (۶۴۶ھ) ہیں، یہ مسند امام شافعیؒ سے امام مزنیؒ نے اور امام مزنیؒ سے امام طحاویؒ (۳۲۱ھ)نے بھی روایت کی ہے، اس کی بھی کئی شروح لکھی گئیں جن میں مجدالدین ابن اثیرالجزریؒ (۶۰۶ھ)اور امام سیوطیؒ کی شرحیں زیادہ معروف ہیں۔

٧.المصنف لعبدالرزاق بن ہمامؒ (۲۱۱ھ)

عبدالرزاقؒ امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد تھے، المصنف مخطوطے کی شکل میں موجود تھی ، پہلی دفعہ کتابی شکل میں گیارہ جلدوں میں بیروت سے شائع ہوئی ہے اسکے حاشیہ پر تحقیقی کام مشہور محدث مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے کیا ہے، پہلے دور کی کتابوں کی طرح اس میں صحابہؓ اور تابعینؒ کے فتاوےٰ بھی بہت ہیں اور مؤلف متصل ومرسل ہرطرح کی روایات لے آئے ہیں، ان دنوں محدثین تعاملِ امت پر فکری نظر رکھتے تھے۔

٨.مسندابی داؤد الطیالسیؒ (۲۲۴ھ)

دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن نے سنہ ۱۳۳۲ھ میں اسے شائع کیا ہے، مسند کی ترتیب پر ہے، صحابہؓ کی مرویات علیٰحدہ علیٰحدہ ہیں، اب ابواب فقہ کی ترتیب سے بھی چھپ گئی ہے، اس میں بعض ایسی احادیث ہیں جواور کتابوں میں نہیں ملتیں، اس پہلو سے یہ کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے۔

٩.المصنف لابن ابی شیبہؒ (۲۳۵ھ)

پورا نام الکتاب المصنف فی الاحادیث والآثار ہے، مؤلف امام حافظ ابوبکر عبداللہ بن محمدبن ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ ہیں، مولانا ابوالوفاء، افغانی رئیس مجلس علمی بدائرۃ المعارف العثمانیہ کے تحقیقی کام کے ساتھ تیسری جلد تک چھپ چکی ہے، تیسری جلد کتاب الجنائز پر مکمل ہوئی اور سنہ ۱۳۳۸ھ میں چھپی، پھر یہ سلسلہ رُک گیا اب نئے سرے سے حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی کے تحقیقی حاشیہ کے ساتھ کاملاً چھپ رہی ہے،بحمدللہ اب یہ چھپ چکی ہے اور دیگر علماء نے بھی اس پر تحقیقی کام کیا ہے، جس میں شیخ عوامہ کا کام سب سے فائق ہے۔

١٠.مسندامام احمد بن حنبل الشیبانیؒ (۲۴۱ھ)

سند احمد کی موجودہ ترتیب آپ کے صاحبزادے عبداللہ کی ہے، قاضی شوکانی لکھتے ہیں: امام احمدؒ نے جس روایت پر سکوت اختیار کیا ہے اور اس پر جرح نہیں کی وہ لائق احتجاج ہے (نیل الاوطار:۱/۱۳) اس سے اس مسند کی عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے، حافظ ابنِ تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ مسنداحمد کی شرط روایت ابوداؤد کی ان شرائط سے قوی ہے جوانھوں نے اپنی سنن میں اختیار کی ہیں، امام ابوداؤدؒ (۲۷۵ھ) لکھتے ہیں: ترجمہ: اور جس راوی کے بارے میں میں نے کچھ نہیں لکھا وہ اس لائق ہے کہ اس سے حجت پکڑی جائے۔(مقدمہ سنن ابی داؤد:۶)
علامہ ابن الجوزیؒ اور حافظ عراقیؒ نے مسنداحمد کی ۳۸/روایات کوموضوع قرار دیا ہے، حافظ ابنِ حجرعسقلانیؒ نے ان میں ۹/روایات کا پورا دفاع کیا ہے اور اس پر ایک مستقل کتاب ("القول المسدد فی الذب عن مسنداحمد" اس کا نا م ہے) لکھی ہے، جو حیدرآباد دکن سے شائع ہوچکی ہے، چودہ روایات کا جواب حافظ جلال الدین سیوطیؒ نے "الذیل الممہد" میں دیا ہے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہولیؒ نے مسندامام احمد کوطبقۂ ثانیہ کی کتابوں میں جگہ دی ہے، حافظ سراج الدین عمر بن علی ابن الملقن (۸۰۴ھ) نے مسنداحمد کا ایک اختصار بھی کیا ہے اور علامہ ابوالحسن سندھیؒ (۱۲۳۹ھ) نے مسنداحمد کی ایک شرح بھی لکھی ہے، شیخ احمدبن عبدالرحمن البناء نے اسے فقہی ابواب پر مرتب کیا اور شیخ احمد شاکر نے اس پر تحقیقی کام کیا ہے، اس کا نام الفتح الربانی من مسنداحمد بن حنبل شیبانی ہے یہ ۲۲/جلدوں میں ہے سنہ۱۳۵۳ھ میں پہلی جلد شائع ہوئی سنہ ۱۳۷۷ھ میں آخری جلد مطبع غوریہ مصر سے شائع ہوئی۔

خلاصہ :
پہلے دور کے یہ دس نمونے مختلف قسموں پر جمع ہوئے ہیں، اس دور کی اور بھی بہت کتابیں تھیں، جواس وقت ہماری رسائی میں نہیں؛ لیکن ان کے حوالے شروح حدیث میں عام ملتے ہیں اور ان کے مخطوطات بھی کہیں کہیں موجود ہیں، ان کے تعارف کا عملاً کوئی فائدہ نہیں، صرف چند نام پڑھ لیجئے:سنن مکحول الدمشقی (۱۱۶ھ)، سنن ابن جریج المکی (۱۵۰ھ)، جامع معمر بن راشد (۱۵۳ھ)، جامع سفیان الثوری (۱۶۱ھ)، مسنداحمد بن عمروالبزار (۱۶۷ھ)، مسندوکیع بن الجراح (۱۹۷ھ)، مسندابن الجارود الطیالسی (۲۰۴ھ)، مسندالفریابی (۲۱۲ھ)، مسندابی عبید قاسم بن سلام (۲۲۴ھ) مسندابن المدینی (۲۳۴ھ)، مسنداسحٰق بن راہویہ (۲۳۸ھ)۔
اس دور کے آخر میں تالیف حدیث اپنے فنی کمال کوپہنچ گئی اور محدثین نے وہ گراں قدر مجموعے مرتب کیئے کہ خود فن ان پر ناز کرنے لگا، صحیح بخاری اور صحیح مسلم اسی دورِ آخر کی تالیفات ہیں۔

فوزیہ  جوگن  نواز