Wednesday, August 31, 2016

4.ISHARAAT AUR MUSHKILAAT E QURAANI ME HADEES KI ZARURAT

٭٭اشارات قرآنی میں حدیث کی ضرورت٭٭
مجملاتِ قرآنی ہی نہیں جن کے لیے حدیث کے جزو لازم کی ضرورت ہے،قرآن کریم میں ایسے اشارات بھی ملتے ہیں جنھیں روایات کو ساتھ ملائے بغیر سمجھنا بہت مشکل ہے ؛پھر یہ اشارات کبھی عدد ی صورت میں ہوتے ہیں کبھی واقعاتی صورت میں اور ہر جگہ اس کی وضاحت ضروری ہے۔
عددی اشارات
(
۱)"وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى"۔ (یٰسن:۲۰)
اس آیت میں وہ ایک شخص کون تھا جو کسی دور مقام سے دوڑتا ہوا آیا تھا؟ قرآن میں اس کی طرف اشارہ ہے؛ مگراس کا نام وپتہ کہیں نہیں ملتا۔
(
۲)"ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ"۔ (التوبہ:۴۰)
اس آیت میں دو کون تھے جن میں سے ایک دوسرے کو کہہ رہا تھا اللہ ہم دونوں کے ساتھ ہے، نام کہاں ہیں؟۔
(
۳)"وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا"۔ (التوبہ:۱۸)
اس آیت میں تین کون تھے جن پر زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تنگ کردی گئی تھی۔
(
۴)"مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ"۔ (التوبہ:۳۶)
اس آیت میں چار مہینے کون سے تھے جن میں لڑائی لڑنا عہد جاہلیت میں ممنوع تھا؟ ان حرمت کے مہینوں کے نام کیا ہیں؟۔
(
۵)"خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ"۔ (الکہف:۲۲)
اس آیت میں پانچ کون تھے جن میں چھٹا ان کا کتا تھا؟۔
(
۶)"سِتَّةِ أَيَّامٍ"۔ (الاعراف:۵۴)
اس آیت میں چھ دن کون سے تھے جن کے بعد رب العزت نے عرش پر اجلال فرمایا۔
(
۷)"وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ۔(البقرۃ:۱۹۶)
اس آیت میں سات روزے کس ترتیب سے عمل میں آئیں گے؟ اور رجعتم سے مراد مطلق واپسی ہوگی یا گھر کو واپسی۔
(
۸)"يَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ"۔ (الحاقہ:۱۷)
اس آیت میں آٹھ فرشتے کون ہیں جو حشر کے دن عرش باری تعالی اٹھائیں گے۔
(
۹)"فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ"۔ (النمل:۴۸)
اس آیت میں نو قبیلے کون سے تھے؟۔
(
۱۰)"فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ"۔ (ھود:۱۳)
اس آیت میں دس سورتیں کون سی تھیں جن کے مثل انہیں دس سورتیں لانے کا چیلنج دیا گیا تھا۔
(
۱۱)"إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا"۔ (یوسف:۴)
اس آیت میں گیارہ ستارے کون تھے۔
(
۱۲)"وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا"۔ (المائدہ:۱۲)
اس آیت میں بارہ نقیب کون تھے،جو اللہ تعالی نے بنی اسرائیل میں اٹھائے تھے۔
واقعاتی اشارات
(
۱)"فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ"۔ (البقرۃ:۵۹)
اس آیت میں صورت واقعہ کیا تھی، ان لوگوں نے کون سی بات بدلی تھی اورکس بات کے عوض؟
(
۲)"وَإِذْأَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا"۔ (التحریم:۳)
اس آیت میں وہ حدیث پیغمبر کیا تھی جو آپ نے اپنی کسی بیوی کو بطور راز کہی تھی؟
(
۳)"مَاقَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْتَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا"۔ (الحشر:۵)
اس آیت میں کن درختوں کے کاٹنے اورکن کو اپنی بنیادوں پر چھوڑنے کا واقعہ یہاں مذکور ہے۔
(
۴)"عَبَسَ وَتَوَلَّى، أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى"۔ (عبس:۱)
اس آیت میں وہ کون تھا جس کی پیشانی پر ایک نابینا خادم کے چلے آنے سے بل آگئے؟ اس نے تیور چڑھالی اورمنہ موڑلیا کہ اس کے پاس نابینا آیا، تیور کس نے چڑھائی؟ نابینا کون تھا اور یہ واقعہ کیا تھا؟۔
(
۵)"إِذْهُمَا فِي الْغَارِ إِذْيَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَاتَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا"۔ (التوبہ:۴۰)
ترجمہ:جس وقت وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا تو غم نہ کر بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
غار میں کون سب تھے؟ کب کا واقعہ ہے؟ کون سے غار کی بات ہے؟۔
(
۶)"إِذْأَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَى وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنْكُمْ"۔(الانفال:۴۲)
جس وقت تم تھے ورلے کنارے پر اور وہ پرلے کنارے پر اور قافلہ نیچے اتر گیا تھا تم سے۔
(
۷)"وَإِذْيَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ"۔(الانفال:۷)
ترجمہ:اورجس وقت وعدہ کررہا تھا تم سے خدا دو جماعتوں میں سے ایک کا کہ وہ تمہارے ہاتھ لگے گی اور تم چاہتے تھے کہ جس میں کانٹا نہ لگے وہ تم کو ملے۔
اس قسم کے اشارات روایات کو ساتھ ملائے بغیر نہ سمجھے جاسکتے ہیں اورنہ سمجھائے جاسکتے ہیں۔
٭٭مشکلات قرآنی میں حدیث کی ضرورت٭٭
قرآن پاک اپنی اصولی دعوت میں بہت آسان ہے، اس میں نصیحت کے ابواب ایسے پیرائے میں لائے گئے ہیں کہ جو شخص بھی دل رکھتا ہو اورکان دھرے،اس سے اثر لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔"وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ"۔ (القمر:
۱۷)ترجمہ: اور بیشک ہم نے قرآن نصیحت لینے کے لیے آسان کردیا ہے سو ہےکوئی سمجھنے والا؟۔"إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ"۔ (ق:۳۷)ترجمہ: بے شک اس میں نصیحت ہے ہر اس شخص کے لیے جس کے پاس دل ہو یا وہ کان لگا سکے اور گواہی دے سکے۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کریم میں حقائق غامضہ موجود نہیں ہیں۔اس کتاب الہٰی میں حقائق کا سمندر موجیں ماررہا ہے، بڑے بڑے فضلاء اس سے موتی چنتے رہے اورچن رہے ہیں،لیکن اس کی اتھاہ گہرائیوں پر از خود کوئی قابونہیں پاسکتا، صحابہ کرامؓ جن کے سامنے قرآن نازل ہوا تھا اوران کی اپنی زبان بھی عربی تھی، حضورﷺ کے فیض تربیت سے ان کے قلوب تزکیہ اورتصفیہ پاچکے تھے؛پھر بھی انہوں نے بعض آیات قرآنی کے سمجھنے میں دقت محسوس کی اورجب تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت نہ فرمائی وہ آیات ان کے لیے آسان نہ ہوسکیں،قرآن کریم کے ساتھ حدیث ایک جز ولازم کے طورپر ہمیشہ کار فرما اورہدایت پیرا رہی ہے۔
(
۱)"الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ"۔(الانعام:۸۲)ترجمہ:جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمانوں میں کوئی ظلم شامل نہ کیا ہو، وہ لوگ ہیں جنہیں ہمیشہ کا امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (
۳۴ھ) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرامؓ سہم گئے اورانہوں نے حضورؐ سے عرض کیا۔"وَاینا لم یظلم؟"۔ ترجمہ:ہم میں سے کس نے ظلم نہ کیا۔اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے، جیسا کہ ارشاد ہے"إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ "۔
(بخاری،باب ظلم دون ظلم،حدیث نمبر:
۳۱)
اس حدیث سے قرآن پاک کی یہ آیت حل ہوگئی اورصحابہ کرامؓ کے دل مطمئن ہو گئے اوران کا تردد جاتا رہا، مراد آیت کی یہ ہے کہ جو شخص ایمان لائے اورپھر اس میں اللہ تعالی کی ذات وصفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے،وہ عذاب سے مامون اورہدایت یافتہ ہے۔(معارف القرآن:
۳/۳۸۷)
(۲)"وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ"۔(التوبہ:۳۴) ترجمہ: اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کئے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کردیتے،آپ ان کو دردناک عذاب کی خبر دیجئے۔
حضرت امیر معاویہؓ نے فرمایا کہ یہ آیت ہم مسلمانوں کے بارے میں نہیں اہل کتاب کے بارے میں ہے،حضرت ابوذر غفاریؓ نے فرمایا کہ نہیں ہمارے اوران کے دونوں کے بارے میں ہے۔ (بخاری:
۶/۸۲)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا: یہ صورت اس پہلے دور سے متعلق ہے جب کہ زکوۃ کا حکم نہیں اترا تھا جب زکوٰۃ کا حکم آگیا تو خدا تعالی نے اسے (زکوٰۃ کو) سارے مال کی پاکیز گی کا سبب بنادیا۔(بخاری،بَاب مَا أُدِّيَ زَكَاتُهُ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ،حدیث نمبر:
۱۳۱۶)
سو حدیث نے فرمایا کہ یہاں جمع کرنے کا معنی یہ ہے کہ اس کی زکوٰۃ نہ دی جائے، زکوٰۃ دینے سے وہ اکتناز (مال جمع رکھنا) کے ذیل میں نہیں آتا، اب اس کا مال پاک ہوچکا ہے۔ حضرت عمربن الخطابؓ کہتے ہیں کہ میں نے خود حضوراکرمﷺ سے اس بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا: (اللہ تعالی نے زکوٰۃ اس لیے فرض کی ہے کہ اس سے تمہارے باقی اموال پاک کردیئے جائیں۔
ابو داؤد،باب فی حقوق المال، حدیث نمبر:
۱۴۱۷)
اسلام میں اگر کسی صورت میں بھی مال جمع کرنے کی اجازت نہ ہوتی تو شریعت محمدی میں مال کی زکوٰۃ اورمیراث کی تقسیم کا قانون نہ ہوسکتا تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا ارشاد سے صحابہؓ کے دل مطمئن ہوگئے اوران کا تردد جاتا رہا۔
(۲)"وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ"۔ (البقرۃ:۱۸۷)ترجمہ: اورکھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سفید اور سیاہ دھاگے میں تمھیں فرق معلوم ہونے لگے۔
حضرت عدی بن حاتمؓ (
۶۷ھ) نے سفید اورسیاہ دھاگے اپنے تکئے کے نیچے رکھ لیے؛ تاکہ جب دونوں ایک دوسرے سے ممتاز ہونے لگیں تو اس سے وہ اپنے روزے کی ابتداء کرلیا کریں، حضرت سہل بن سعدؓ (۹۸۱ھ) کہتے ہیں: کچھ لوگ جنہوں نے روزے کی نیت کی ہوتی وہ اپنے دونوں پاؤں سے سفید اورسیاہ دھاگے باندھ رہتے اور برابر سحری کھاتے رہتے؛یہاں تک کہ وہ دونوں دھاگے آپس میں ممتاز نہ ہوجائیں۔(بخاری،باب قولہ وکلوا واشربوا حتی یتبین،حدیث نمبر:۴۱۵۱)
اس سے پتہ چلا کہ صرف عدی بن حاتمؓ ہی نہ تھے جو یہاں مراد قرآنی نہ سمجھ پائے ؛بلکہ اور بھی کئی لوگ تھے جنہوں نے سفید اور سیاہ دھاگوں کو ان کے ظاہر پر رکھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عدی بن حاتمؓ کو سمجھا یا کہ یہاں سفید اورسیاہ دھاگے سے مراد دن کی سفیدی اورشب کی سیاہی ہے۔
اللہ تعالی نے اس کے بعد من الفجر کے الفاظ نازل فرمائے، بخاری شریف میں ہے:
"فَأَنْزَلَ اللَّهُ بَعْدَهُ {مِنْ الْفَجْرِ}"۔ (بخاری، بَاب أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَام،حدیث نمبر:
۴۱۵۱)۔اس سے سب سمجھ گئے کہ یہاں دن اور رات کا ایک دوسرے سے ممتاز ہونا مراد ہے۔
اس سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ حضورﷺ نے جس طرح اس آیت کی وضاحت فرمائی وہی مراد ربانی تھی اور بعد کی وحی قرآنی نے واضح طور پر وہی بات کہی جو آپ نے پہلے بطور تفسیر کہی تھی وہاں یہ بھی پتہ چلا کہ قرآن پاک اگر پیغمبر پر نازل نہ ہوتا کہیں دھرامل جاتا تو اس کے کئی مقامات عربوں میں بھی اپنے معنی مراد کے ساتھ واضح نہ ہوتے۔
(جاری ہے)

No comments:

Post a Comment