Sunday, August 28, 2016

MAULVI !! AMNBIYA KE WARIS ( मौलवी दरग्त : लक्ष्ण और इलाज )

مولوی کی درگت ؛ اسباب و علاج 
**********************
قرآن کریم و احادیث نبویہ میں مولوی کا مقام و مرتبہ اظہر من الشمس ہے , یہ وہ ذات ہے جس کی وفات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانی قرار دیا ہے اور جس ذات کے بارے میں اللہ تعالی نے خود قرآن کریم کے اندر فرمایا 
( انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء ) الفاطر:
۲۸
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا 
( ان العلماء ورثۃ الانبیاء ) رواہ الترمذی وصححہ الالبانی 
اس قدر والی ذات کی آج کیا درگت بن رہی اسے الفاظ میں مکمل طور پر بیان تو نہیں کیا جاسکتا البتہ کچھ احساسات کو اجاگر کرکے آنسو بہائے جاسکتے ہیں 
طلبہ مدارس ابتدائی تعلیم کے بعد تقریبا دس سال تک علوم دینیہ کے حصول کے لئے اپنا محبوب گھر اور وطن کو چھوڑ کر اسلامک کیمپوں میں رہائش اختیار کرتے ہیں , ماں باپ کی یادوں کو بھلاکر صرف دینی تعلیم کے لئے ایک لمبے عرصے تک دال روٹی کھاکر زندگی گزارنے والے موقر و محترم طلبہ جب کسی مستند ادارے سے فارغ ہوکر سر پر عمامہ باندھ کر گھر واپس لوٹتے ہیں تو وقتی طور پر گھر کے اندر خوشی کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے , امید کی کرنیں جاگ اٹھتی ہیں اور ہر ایک کی زبان پر جدید فارغ التحصیل مولوی صاحب کا نام رہتا ہے 
کچھ ہی دنوں بعد مرور وقت کے ساتھ فکر معاش پیدا ہوتی ہے کیوں کہ تقریبا بیس سال تک والدین اور بھائیوں کے رحم و کرم پر جینے والا یہ پاکباز انسان جب فراغت کے بعد گھر پر فارغ بیٹھتے ہیں تو کسی کو اچھا نہیں لگتا ہر ایک کی یہی چاہت ہوتی ہے کہ کہیں معقول مشاہرے پر جاکر دین کی خدمات کرے لیکن مہینوں گزر جانے کے بعد بھی کوئی ایسی مناسب جگہ نہیں مل پاتی ہے جہاں پر دین کا فریضہ انجام دے کر معقول تنخواہ پاسکے الا ماشاءاللہ
کبھی معقول مشاہرہ کا اعلان بھی ہوتا ہے لیکن اس معقول کا لیول منتظمین مساجد نے اتنا کم رکھا ہے کہ ایک عام مزدور اس لیول کو کراس کرکے فخر سے کہتا ہے کہ میں مزدور ہی بہتر ہوں کیوں کہ آج کی اس تاریخ میں ایک مزدور ماہانہ سات آٹھ ہزار روپے باسانی کمالیتا ہے اور ایک عالم دین کی تنخواہ ذمہ داران مساجد نے حسب لیاقت پانچ چھ ہزار مقرر کرکے عوام کی نگاہوں میں ذلت کا باعث بنادیا ہے اور پوشیدہ طور پر یہ پیغام بھی دیا ہے کہ مولوی معاشرے کا ایک کمزور ترین , ناکارہ اور نچلی ذات ہے اس کو جس طریقے سے چاہیں استعمال کریں اور مولوی بے چارے اپنے بال بچوں کی وجہ سے مجبور ہوکر اپنے بڑوں کی نقالی کرتے ہوئے کبھی مردے کے نام پر قرآن خوانی پہ چلے جاتے ہیں کبھی قل , تیجا , دسواں , چہلم وغیرہ میں بڑے شوق سے شریک ہوجاتے ہیں اور کبھی پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لئے محلہ محلہ ٹیفن لے کر گھومتے نظر آتے ہیں 
حسب لیاقت اور موجودہ وقت میں ایک مخصوص مقررہ رقم , کیا یہ نبیوں کے وارثین پر ظلم نہیں ہے اور کیا اہل مساجد سمجھ بیٹھے ہیں کہ قیامت کے دن ہم سے بازپرس نہیں ہوگی , کیا لوگوں سے ملنا جلنا نبیوں کا طریقہ نہیں رہا ہے , کیا بغیر ٹوپی مارکیٹ کی طرف نکل جانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کو بنیاد بنا کرکے اس ذات مقدس کو نشانہ بنایا جاسکے ؟؟؟
جو ہستی پانچوں وقت کی امامت پابندی سے کرائے , درس و تدریس کا نظام سنبھالے , خطبے جیسے عظیم ذمہ داری کو نبھائے , محلے کے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ بھی دے , لوگوں کا تزکیہ بھی کرے وہ مصلیان اور دیگر لوگوں کی نظروں میں اس قدر گرے ہوئے ہیں , آخر اس وقت ذمہ داران کی غیرت کہاں مر جاتی ہے جب مولوی صاحب کے ہاتھوں میں ٹیفن تھماکر اہل باری کا گھر بھیجا جاتا ہے اگر کوئی حالات کے تھپیڑوں سے مجبور ہوکر دیار غیر پہنچا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں اپنی مرضی کے موافق استعمال کیا جائے !!
میں انہی حالات کے پیش نظر معزز و محترم علماء سے گزارش کروں گا کہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کی طرف بھی دھیان دیں , ٹیکنیکلی معلومات بھی رکھیں , تجارتی و کاروباری میدان میں بھی اتریں , سلف صالحین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ دعوت دین کے ساتھ ضروریات زندگی کی تکمیل کے لئے اپنا کچھ عمدہ ہنر بھی کام میں لاتے تھے , صنعتی و تجارتی لائن سے بھی بخوبی واقف ہوتے تھے یا پھر گورمنٹ کی طرف سے دینی کاج کو آگے بڑھانے کے لئے مقرر ہوتے تھے اس دور میں بھی دھیرے دھیرے کچھ بیداری آرہی ہے الحمد للہ اور ہمارے کچھ معزز احباب اس طرف بھی آگے بڑھ رہے ہیں جو ہمارے لئے قابل نمونہ ہیں جو الحمد للہ دعوت دین کے ساتھ ساتھ تجارتی و عصری لائن سے بھی جڑے ہوئے ہیں !
ہماری کچھ کوتاہیوں اور مجبوریوں کی وجہ سے جاہل , نا اہل , علم ناشناس , علماء کی قدر و منزلت سے نابلد نظماء غلط فائدہ اٹھانے کی کوششیں کررہے ہیں یہ الگ موضوع ہے کہ جو حالات چل رہے ہیں وہ قرب قیامت کا پیش خیمہ ہے 
یہ جاہل اور نا اہل منتظمین مساجد و مدارس میں اونچے عہدوں پر فائز ہونے کی وجہ سے کتنے مخلص و باصلاحیت علماء ان کمپنیوں کا رخ کر رہے ہیں جن کا کارو بار سود پر مبنی ہوتا ہے جس کی طرف کچھ دنوں پہلے ہمارے بعض قابل قدر بھائی نے اپنے گراں قدر مضمون میں اشارہ کیا تھا اور یہ احساس دلایا تھا کہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کس قدر ضروری ہے اور اس طرح کے کئی قیمتی مضامین ہماری نظروں سے گزر جاتے ہیں اور ہم خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے ہیں المہم ہمارے بعد ہماری نئی نسل آرہی ہے لہذا انہیں بھی دینی و عصری دونوں تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کریں تاکہ دنیا وآخرت میں سرخرو ہوسکے 
( میری اس ناقص رائے سے ہر ایک کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے بس حالات کو دیکھتے ہوئے کچھ باتیں نوک قلم پہ آگئی ہیں باقی گروپ میں معزز علماء موجود ہیں ضرور ہمیں اپنی آراء سے نوازیں گے """:جزاکم اللہ خیرا """"


No comments:

Post a Comment