Sunday, August 28, 2016

AITRAAZ :HADIS KI KITABO ME MANGHDAT/ MAUZU RIWAYAT HAI (हदीसो में झूटी रिवायत है )

مستشرقین کے چند مشہور اعتراضات بمع جوابات پیش خدمت ہیں ۔

1۔ذخیرہ احادیث میں موضوع روایات کی موجودگی :

احادیث کی کتابوں میں بعض موضوع روایات کے پائے جانے کی وجہ سے دوسری احادیث کی حیثیت مشکوک ہے ۔

چنانچہ آرتھر جیفری (Arthur Jeffery)اپنی کتاب "Islam, Muhammad and his religion"میں لکھتاہے :
""تاہم پیغمبر(ﷺ)کے انتقال کے بعد، ان کے پیروکاروں کی بڑھتی ہوئی جماعت نے محسوس کیا کہ مذہبی اور معاشرتی زندگی میں بے شمار ایسے مسائل ابھر رہے ہیں جن کے متعلق قرآن میں کوئی رہنمائی موجود نہیں ،لہٰذا یسے مسائل کے متعلق راہنمائی حدیث میں تلاش کی گئی۔ احادیث سے مراد وہ چیزیں جو پیغمبر (ﷺ)نے اپنی زبان سے کہیں یا آپ ان پر عمل پیرا ہوئے یا وہ چیزیں جن کے متعلق کہا گیا کہ وہ پیغمبر (ﷺ)کے اقوال یا افعال ہیں ۔صحیح ،جزوی طور پر صحیح اور اور جعلی احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ حدیث کی کتابوں میں جمع کردیا گیا ۔" Muhammad and his religion"Page12)
آتھرجیفری نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ صحیح اور جزوی طور پر صحیح احادیث بھی تھیں لیکن جعلی احادیث بھی وضع کی گئیں تھیں مسلمانوں نے صحیح احادیث کے ساتھ من گھڑت احادیث کو بھی کتابوں میں درج کردیا جس سے دوسری صحیح حدیثوں کی حیثیت مشکوک ہوگئی۔
مستشرقین کا یہ اعتراض انتہائی کمزور اور سطحی درجہ کا ہے احادیث کی کتابوں میں موضوع احادیث کی موجودگی کوئی ایسی بات نہیں جس کے انکشاف کا سہرا مستشرقین کے سر پر ہو، بلکہ مسلمان ہر زمانے میں اس قسم کی حدیثوں سے آگاہ رہےہیں اور علماء نے اپنے دینی بھائیوں کو ہمیشہ ایسی احادیث سے آگاہ اور خبردار کیا ہے۔
چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے "اللآلی المصنوعہ فی الا حادیث الموضوعۃ"کے عنوان سے کتاب لکھی جس میں تمام مو ضوع احادیث کو جمع کیا اور اسی طرح حافظ ابو الحسن بن عراق نے"تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاحادیث الشنیعۃالموضوعۃ "کتاب لکھی جس میں موضوع روایات کا ذکر ہے تاکہ مسلمان موضوع احادیث سے ہوشیار رہیں۔جب مسلم علماء کا حدیث کے ساتھ اس قدر اسشتغال ہے کہ وہ موضوع اور صحیح، ضعیف اور سقیم حدیث میں تمیز کرسکتے ہیں اور انہوں نے ایسے قوانین اور اصول مرتب کیے جن کی روشنی میں احادیث صحیحہ کو پرکھا جاسکتا ہے۔تو موضوع روایات کے پائے جانے کی وجہ سے احادیث صحیحہ کی حیثیت کیسے مشکوک ہوگئی ؟
صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، نسائی شریف میں کوئی حدیث موضوع نہیں اور ابن ماجہ میں گو چند ایک موضوع احادیث ہیں لیکن محدثین ان کی بھی نشاندہی کی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مستشرقین کو ایسی احادیث کے موضوع ہونے کا علم ہی مسلمانوں کی خوشہ چینی سے ہوا ہے وگر نہ جو قوم بائبل کے ہر رطب ویابس کے کلام اللہ ہونے پر یقین رکھتی ہو اسے کیا خبر کہ صحیح حدیث کونسی ہے اور موضوع کونسی؟
2۔تدوین حدیث :
سرولیم میور او ر گولذ زیہر کا دعویٰ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی حدیثیں لکھنے کا کام آپ کی وفات کے نوے برس بعد شروع ہوا، اور بعد میں آنے والے مستشرقین اورمنکرین حدیث نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر کہہ دیا کہ احادیث کی تدوین تیسری صدی ہجری میں ہوئی ہے اس لیے حدیث کو دین اسلام کا مصدر قرار دینا صحیح نہیں اور اس پر اعتماد بھی نہیں کیا جاسکتا؟(نظریہ عامۃ فی تاریخ الفقہ لعلی حسن عبدالقادر: ۱۲۶)
مستشرقین کا یہ اعتراض زبردست مغالطے پر مبنی ہے اس لیے کہ حدیث کی حفاظت کا طریقہ محض کتابت نہیں ہے بلکہ دورنبوی ﷺ میں مختلف طریقے اختیار کیے گئے ہیں۔
۱)بذریعہ یادداشت :
عربوں کو غیر معمولی یادداشت اور قوت حافظہ عطا کی گئی تھی ان کو اپنی شاعری کے سینکڑوں اشعار یاد ہوتے تھے، وہ نہ صرف اپنے سلسلہ نسب کو یاد رکھتے تھے بلکہ اکثر لوگوں کو تو اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کے نسب تک یاد ہوتے تھے۔صحیح بخاری شریف میں حضرت جعفر بن عمر و الضمری بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ عبیداللہ بن عدی بن خیار کے ساتھ حضرت وحشی سے ملنے "حمص" گیا ،عبیداللہ نے پوچھا کہ آپ مجھے پہچانتے ہیں؟
تو حضرت وحشیؓ نے جواب دیا کہ آج سے کئی سال پہلے ایک دن عدی بن خیار کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا تھا اورمیں اس بچے کو چادر میں لپیٹ کر مُرضَعہ کے پاس لے گیا تھا بچہ کا سارا جسم ڈھکا ہوا تھا میں نے صرف پاؤں دیکھے تھے، تمہارے پاؤں اس کے پاؤں کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں (درس ترمذی جلد اول صفحہ۳۵، مفتی تقی عثمانی صاحب)
غور کرنے کی بات ہے کہ جو قوم اتنی معمولی باتوں کو اتنے وثوق سے یاد رکھتی ہے وہ آنحضرت ﷺ کے اقوا ل وافعال یاد رکھنے کا کتنا اہتمام کرے گی جبکہ وہ انہیں اپنے لیے راہ نجات سمجھتے ہوں اور اس ارشاد عالی کو بھی سن رکھا ہو ۔
" نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّی يُبَلِّغَهُ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَی مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ "(ابو داؤد شریف ،کتاب العلم )
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا"اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے حدیث سنی اور سے یاد کیا یہاں تک کہ اسے آگے دوسروں تک پہنچایا پس بہت سے فقہ کے حامل ایسے ہیں جو اس کو زیادہ فقیہ لوگوں تک پہنچا دیں گے اور بہت سے فقہی مسائل کے واقف ایسے ہیں جو خود فقیہ نہیں ہیں۔"چنانچہ صحابہ کرامؓ احادیث زبانی یاد کرنے کے عادی تھے۔
سیدنا حضرت ابو ہریرۃ ؓ جو رسول اکرم ﷺ کے ممتاز صحابی ہیں اور پانچ ہزارتین سو چوہتر(5374(احادیث کے راوی ہیں وہ فرماتے ہیں:۔"میں نے اپنی رات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے ایک تہائی رات میں نماز پڑھتا ہوں، ایک تہائی میں سوتا ہوں،اور باقی ایک تہائی رات میں رسول اکرم ﷺ کی احادیث یاد کرتا ہوں ۔" (حجیت حدیث صفحہ ۱۱۱،از شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب)
۲)مذاکرے :
حفاظت حدیث کا دوسرامصدر وماخذ اور طریقہ صحابہ کرام ؓ کے باہمی مذاکرے تھے انہیں جب بھی کسی سنت کے بارے میں علم ہوتا تو وہ اسے بیان کرکے دوسروں تک پہنچاتے اور یہ طریقہ کار درحققیت حضور اکرم کے حکم کی تعمیل پر مبنی تھا۔
ارشادنبوی ﷺ ہے " فَلْيبلغ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ"جو لوگ حاضر ہیں وہ ان لوگوں کو پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔(بخاری شریف ،کتاب المناسک )
چونکہ اصحاب رسول ﷺ کی نظروں میں علم حدیث کی بہت اہمیت تھی اس لیے ان کا مشغلہ یہی تھا کہ جب کبھی وہ باہم یکجا ہوتے تو آپ ﷺ کے ارشادات کا تذکر ہ کرتے ان مسلسل اور متواتر مذاکروں نے سنت کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیااور جو احادیث مبارکہ چند افراد تک محدود تھیں وہ دوسروں تک پہنچ گئیں۔
۳)تعامل :
سنت کی حفاظت کا تیسرا راستہ یہ تھا کہ اس پر عمل کیا جائے، صحابہ کرام ؓ جو کچھ آپ ﷺ سے حاصل کیا اسے عملی طور اپنے جاری کیا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ حضور اکرم ﷺ کی سنت کو بھول جاتے جبکہ انہوں نے اپنی زندگیوں کی عمارت اسی بنیاد پر استوار کی تھی۔
۴)کتابت :
حدیث مبارکہ کی حفاظت کا چوتھا طریقہ " کتابت "ہے جو حضور اکرم ﷺ کے دور مبارک میں شروع ہوچکا تھا مستشرقین کا یا منکرین حدیث یہ کہنا کہ احادیث تیسری صدی ہجری میں یا اڑھائی سو سال بعد لکھی گئیں یہ تاریخی حقائق کو جھٹلانے والی بات ہے جو محض ہٹ دھرمی اور تعصب پر مبنی ہے۔تاریخی طور پر کتابت حدیث کو چار مراحل پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
ا۔متفرق طور پر احادیث جمع کرنا ۔
ب۔کسی شخصی صحیفہ میں احادیث کو جمع کرنا جس کی حیثیت ذاتی یادداشت کی ہو۔
ج۔احادیث کو کتابی صورت میں بغیر تبویب (ابو اب بندی )کے جمع کرنا ۔
د۔احادیث کو کتابی صورت میں تبویب کے ساتھ جمع کرنا۔
عہد رسالت ﷺ اور عہد صحابہ ؓ میں کتابت کی پہلی دوقسمیں اچھی طرح رائج ہوچکیں تھیں۔ (حجیت حدیث صفحہ۱۰۹تا ۱۲۴)
حضوراکرم ﷺ کا احادیث لکھوانا ،صحابہؓ کا احادیث کو لکھنا اور ان کی حفاظت کے لیے زبردست کوششیں کرنا ،اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک احادیث کی حفاظت انتہائی اہم ذمہ داری تھی اور وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔
عہد تابعین میں کتابت وتدوین حدیث
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ،اسلامی سرحدیں دنیا کے طول وعرض میں پھیلنے لگیں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی گئی ،صحابہ کرامؓ ایک ایک کر کے اس دنیا سے رخصت ہوتے گئے ان حالات میں حضرت عمربن عبدالعزیز ؓ نے سرکاری سطح پر احادیث طیبہ کی تدوین کے لیے اقدامات کیے اور یہ 100؁ کی بات ہے لیکن حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کی اس کوشش اور حکم سے پہلے بھی عہد تابعین میں احادیث کی تدوین کے آثار ملتے ہیں ۔اس سلسلے میں صحیفہ ہمام بن منبہؒ نمایاں ہے جس میں حضرت ابو ہریرہؓ کے جلیل القدر شاگرد حضرت ہمام بن منبہؒ نے اپنے استاد محترم سے حاصل کردہ روایات کو جمع کیا اور اس کا نام "الصحیفہ الصحیحہ"رکھا ۔
امام احمد بن حنبل ؒ نے اپنی مسند میں اس صحیفہ کو بتما مہا نقل کردیا ہے ۔حسن اتفاق سے چند سال پہلے اس صحیفہ کااصل مخطوطہ دریافت ہوگیا ہے اس کا ایک نسخہ جرمنی میں برلن کے کتب خانہ میں موجود ہے اور دوسرا نسخہ دمشق کے کتب خانہ "مجمع علمی "میں ،سیرت اور تاریخ کے مشہور محقق ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے ان دونوں نسخوں سے مقابلہ کرکے یہ صحیفہ شائع کردیا ہے اس میں ایک سے اڑتیس احادیث ہیں ،اور جب مسند احمد سے اس کا مقابلہ کیا گیا تو کہیں ایک حرف یا ایک نقطہ میں بھی فرق نہیں تھا ۔ (درس ترمذی جلد اول صفحہ ۴۲)
خلاصہ کلام :
حضوراکر مﷺ کے دور مبارک میں ہی احادیث کو لکھا جانے لگا تھا لیکن وہ احادیث کسی ترتیب سے نہیں تھیں جس نے جو سنا اس کونقل کرلیا ، بعدمیں جیسے جیسے علم حدیث کے ساتھ اہل علم کا اشتغال بڑھتا گیا تو مختلف اعتبار سے علم حدیث پرکتب لکھی جانے لگیں کسی نے فقہی نقطہ نظر سے اپنی کتاب کو تالیف کیا اور کسی نے "عقائد "اور "ایمانیات"سے آغاز کیا ۔"طہارت "سے متعلقہ احادیث کو "کتاب الطہارت"میں اور "نماز "سے متعلقہ احادیث کو "کتاب الصلوۃ"میں اور زکوۃ کی احادیث کو "کتا ب الزکوۃ"میں علی ہذالقیاس اس طرح باقی احکامات کو ابواب بندی کرکے درج کیا ۔
(جاری ہے)

No comments:

Post a Comment