Sunday, August 28, 2016

3.AITRAZ : HUZUR (SAW) KA AHADEES LIKHNE SE MANA KARNA ( हदीस लिखने से मना करना )

3۔

حضور ﷺ کا احادیث لکھنے سے منع کرنا :


حضوراکر م ﷺ کا کتابت حدیث سے منع کرنا " قَالَ لَا تَکْتُبُوا عَنِّي وَمَنْ کَتَبَ عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآنِ فَلْيَمْحُهُ وَحَدِّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَجَ وَمَنْ کَذَبَ عَلَيَّ قَالَ هَمَّامٌ أَحْسِبُهُ قَالَ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ "(مسلم شریف جلد دوم صفحہ
۴۱۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم مجھ سے کوئی بات نہ لکھو اور جس آدمی نے قرآن مجید کے علاوہ مجھ سے کچھ سن کر لکھا ہے تو وہ اس مٹا دے اور مجھ سے سنی ہوئی احادیث بیان کرو اس میں کوئی گناہ نہیں اور جس آدمی نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا تو اسے چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
اس بات کی دلیل ہے کہ احادیث حجت نہیں،تو پھر حدیثوں کی کیا اہمیت اور ان پر اعتماد کیسا ؟
مستشرقین کی خدمت میں گزارش ہے کہ جب ان کا دعویٰ یہ ہے کہ احادیث قابل اعتماد اور لائق حجت نہیں تو پھر اپنے موقف کی تائید میں حدیث کو پیش کرکے استدلال کرنا کیسے صحیح ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ مستشرقین اسلام کی دشمنی میں اس قدر سچا ئی اور حق سے دور جاچکے ہیں کہ اسلام میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کے لیے ایک بات پر نکتہ اعتراض اٹھارہے ہوتے ہیں تو دوسرے مقام پر اسی رد کی ہوئی بات سے دلیل پکڑ رہے ہوتے ہیں قطع نظر اس بات سے اس عمل سے ان کے اپنے اقوال میں تضاد واقع ہورہا ہے۔
کتابت حدیث کی ممانعت اس زمانےکی بات ہے جب تک قرآن کریم کسی ایک نسخہ میں مدون نہیں ہوا تھا بلکہ متفرق طور پر صحابہ کے پاس لکھا ہوا تھا دوسری طرف صحابہ کرام بھی ابھی تک اسلوب قرآن سے اتنے مانوس نہ تھے کہ وہ قرآن اور غیر قرآن میں پہلی نظر تمیز کرسکیں، ان حالات میں اگر احادیث بھی لکھی جائیں تو خطرہ تھا کہ وہ قرآن کے ساتھ گڈ مڈ ہوجائیں اس خطرہ کے پیش نظر آپ ﷺ نے کتابت حدیث سے ممانعت فرما دی لیکن جب صحابہ کرام اسلوب قرآن سے اچھی طرح واقف ہوگئے تو آپ ﷺ نے کتابت حدیث کی اجازت دیدی جس کے متعدد واقعات کتب حدیث میں منقول ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک صحابیؓ نے شکایت کی کہ وہ بسا اوقات احادیث کو بھول جاتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا"اسْتَعِنْ بِيَمِينِکَ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ لِلْخَطِّ "
(ترمذی شریف صفحہ
۱۰۷جلد ۲)اپنے داہنے ہاتھ سے مدد لو اور (یہ فرماکر )آپ نے اپنے ہاتھ سے لکھنے کا اشارہ فرمایا ۔
"عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو باتیں سنا کرتا تھا انہیں لکھا کرتا تھا یاد کرنے لیے۔ لیکن مجھے قریش نے منع کیا اور کہنے لگے کہ تم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات کو جو سنتے ہو لکھ لیا کرتے ہو حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر ہیں (اور بشری تقاضا کی وجہ سے آپ کو غصہ بھی آتا ہے، خوشی کی حالت بھی ہوتی ہے) اور آپ کبھی غصہ میں اور کبھی خوشی کی حالت میں گفتگو کرتے ہیں لہٰذا میں نے کتابت سے ہاتھ روک لیا اور اس کا تذکرہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا، حضور نے اپنی انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق بات کے اور کچھ نہیں نکلتی۔") ابو داؤدشریف جلددوم صفحہ
۵۱۳)
فتح مکہ کے موقع پر (8-ھ) حضوراکرم ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں انسانی حقوق پر مشتمل کئی احکام شریعت تھے، ایک یمنی شخص نے جس کا نام "ابو شاہ "تھا اس نے حضور اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ یہ خطبہ اسے تحریری صورت میں مہیا کیا جائے جس پر آپ ﷺ نے فرمایا "اکْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ" ابو شاہ کے لیے تحریر کرو ۔ (صحیح بخاری ،کتاب العلم صفحہ
۲۲)
یہ چند مثالیں اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ عہد رسالت ﷺ اور عہد صحابہ میں کتابت حدیث کا طریقہ خوب اچھی طرح رائج ہوچکا تھا لیکن یہ کوششیں سب انفرادی تھیں اور کتابت حدیث سے ممانعت اک مخصوص وقت میں تھی ۔
امام نوویؒ (شارح صحیح مسلم )نے منع کتابت حدیث کی ایک اور توجیہ ذکر کی ہے کہ علی الاطلاق کتابت کسی بھی زمانہ میں ممنوع نہیں ہوئی ،بلکہ بعض حضرات صحابہ ایسے کرتے تھے کہ آیات قرآنی لکھنے کے ساتھ ساتھ آنحضرت ﷺ کی بیان فرمودہ تشریح وتفسیر بھی اسی جگہ لکھ لیا کرتے تھے۔
یہ صورت بڑی خطرناک تھی، کیونکہ اس سے آیات قرآنی کے التباس کا قوی اندیشہ تھا اس لیے صرف اس صورت کی ممانعت کی گئی تھی ،قرآن سے الگ احادیث لکھنے کی کوئی ممانعت نہیں تھی( درس ترمذی جلداول صفحہ
۳۷)
4۔سند گھڑنے کے اعتراضات
منٹگمری واٹ احادیث طیبہ کی اسناد کے متعلق اعتراض کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مسلمان اپنی بات کو حضوراکرم (ﷺ) کی طرف منسوب کرنے کے لیے اسناد کو گھڑا کرتے تھے۔چنانچہ وہ لکھتا ہے " "احادیث کی مکمل اسناد بیان کرنے کو "الشافعی "کی تعلیمات کا نتیجہ قرار دیا جاسکتاہے جو تقریباالواقدی کےہم عصر تھے ۔جب احادیث کی مکمل اسناد بیان کرنے کا رواج ہوگیا تو لازما علماء کی یہ خواہش ہوتی ہوگی کہ وہ اپنی اسناد کو حضرت محمد (ﷺ)کے صحابہ تک پہنچائیں ۔خواہ انہیں اپنی اسناد میں اضافہ کرنا پڑے ،تاہم اس قسم کے اضافوں کو بھی قابل اعتبار سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ غالباً وہ عام طور پر جانتے تھے کہ ان کے پیش روؤں نے یہ معلومات کہاں سے حاصل کیں،اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہم جس طرح اسناد کی آخری کڑیوں پر اعتبار کرسکتے ہیں اس طرح ان کی ابتدائی کڑیوں پر اعتبار نہیں کرسکتے ۔"(Muhammad at madina oxford university Press Karachi Page 388 pub year1981)
منگمری واٹ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہاہے کہ مسلمان احادیث کی سند کو گھڑا کرتے تھے بظاہر وہ یہ نہیں کہہ رہاکہ وہ احادیث کو گھڑا کرتے تھے اس لیے کہ جب اسناد مشکوک ہوجائیں گی تو احادیث طیبہ خود بخود اپنا اعتماد واعتبار کھو بیٹھیں گی ۔منٹگمری واٹ کا یہ اعتراض یا تو مسلمانوں کے اصول حدیث کے فن سے اس کی کلیۃ جہالت کا نتیجہ ہے اور یا پھر احادیث طیبہ کے قصر رفیع کی بنیادوں پر عمدا کلہاڑا چلانے کی بہت بڑی سازش ہے۔
روایت حدیث میں کڑی احتیاط کی خاطر محدثین کرام نے سند کی پابندی اپنے اوپر لگائی جو اسی امت کی خصوصیت ہے۔ تاکہ کسی دشمن اسلام کو دخل اندازی کا موقعہ نہ مل سکے ۔محدثین "اسناد "کی جانچ پڑتال کرتے تھے نہ کہ گھڑتے تھے۔
سند کا سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ جو شخص بھی کوئی حدیث بیان کرے، پہلے وہ یہ بتائے کہ اس کو یہ حدیث کس نے سنائی ہے؟ اور اس سنانے والے نے کس سے سنی ہے؟ اسی طرح جتنے راویوں کا واسطہ اس حدیث کی روایت میں آیا ہے، ان سب کے نام بہ ترتیب بیان کر کے اس صحابی کا نام بتائے جس نے یہ حدیث حضور اکرم ﷺ سے خود سن کر روایت کی ہے، چنانچہ آج حدیث نبوی ﷺ کے جو عظیم الشان مجموعے مشہور ومعروف کتب حدیث کی صورت میں ہمارے پاس محفوظ اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، ان میں ہر ہر حدیث کے ساتھ اس کی سند بھی محفوظ چلی آرہی ہے، جس کی بدولت آج ہر حدیث کے بارے میں نام بہ نام یہ بتایا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ سے ہم تک یہ حدیث کن کن اشخاص کے واسطے سے پہنچی ہے۔
کسی حدیث کی سند میں اگر درمیان کے کسی راوی کا نام چھوڑ دیا جائے تو محدثین ایسی سند کو "منقطع "کہہ کر ناقابل اعتماد قرار دیتے ہیں، اوراگر نام تو سب راویوں کے بیان کردے جائیں، مگر ان میں کوئی راوی ایسا آجائے جو ثقہ، اور متقی وپرہیزگار نہ ہو، یا اس کاحافظہ کمزور ہو یا وہ ایسا غیر معروف شخص ہو جس کے تقویٰ اور حافظے کے متعلق کچھ معلوم نہ ہو، تو ایسی تمام صورتوں میں محدثین، اس سند پر اعتماد نہیں کرتے، اور جب تک وہ حدیث کسی اور قابل اعتماد سند سے ثابت نہ ہوجائے اسے قابل استدلال نہیں سمجھتے۔ اور یہ ساری تفاصیل جاننے کے لیے "اسماء الرجال "کا فن ایجاد کیا گیا جسمیں راوی کے تمام ضروری حالات مثلاً، پیدائش وفات، تعلیم کب اور کس سے حاصل کی، شاگرد کون تھے، ناقدین کیا رائے تھی وغیرہ ذالک سب اس میں موجود ہیں ۔ (کتابت حدیث عہدرسالت وعہد صحابہ میں ،صفحہ
۳۰)
فن اسماء الرجال کے بارے میں ڈاکٹر اسپرنگر جیسے متعصب یورپین کو یہ لکھنا پڑا کہ "کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری، نہ آج موجود ہے، جس نے مسلمانوں کی طرح "اسماء الرجال "کا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو ،جس کی بدولت آج پانچ لاکھ شخصوں کا حال معلوم ہوسکتا ہو۔"( خطبات مدراس صفحہ
۴۲)
خلاصہ کلام :
محدثین روایت کو لینے اور بیان کرنے میں بڑی احتیاط کرتے تھے اور باقاعدہ اسناد کی جانچ پڑتال کرتے تھے اور اس کا مقصد ہی یہی ہوتا تھا کہ وہ "سند " من گھڑت تو نہیں اگر کسی قسم کا کوئی شبہ یا شک ہوتا تو روایت کو چھوڑ دیتے تھے چہ جائیکہ یہ کہا جائے کہ وہ "اسناد "کو گھڑتے تھے ۔
اور راویوں کی چھان بین کے سلسلے میں"اسماء الرجال "جیسا عظیم الشان فن یجاد ہوا جس کی بدولت کسی بھی راوی کے مکمل حالات معلوم کیے جاسکتےہیں لہٰذا یہ کہناکہ محدثین اسنا د کو گھڑا کرتے تھے یہ سراسر ا بے جا الزام ہے جو دعویٰ بلادلیل کے قبیل سے ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
5۔متن کی جانچ پڑتا ل:
گولذ زیہر اور شاخت نے متن حدیث پر اعتراض کیا ہے کہ محدثین نے اسناد کے پرکھنے میں جس قدر محنت کی، اس قدر محنت "متن"کی جانچ پڑتال میں نہیں کی کہ آیا وہ بات جس کو حدیث بیان کررہی ہے وہ اس معاشرے او ر واقعہ پر بھی منبطق ہوتی ہے؟
مستشرقین کا یہ کہنا کہ "متن "کی جانچ پڑتال نہیں کی گئی یہ حقائق سے چشم پوشی کرنا ہے۔
محدثین نے جس طرح احادیث کی "اسناد "کو پرکھا اسی طرح"متون حدیث "کو بھی پرکھا اور اس سلسلے میں اصول وقواعد مرتب کیے ،شاذ ومعلل کی اصطلاحات مقرر کیں جس طریقے سے سند میں شذوذ پایا جاسکتا ہے اسی طرح متن میں بھی، جس طریقے سے کوئی علت خفیہ قادحہ سند میں ہوسکتی ہے متن میں بھی پائی جاسکتی ہے، جس طرح سند "منکر،مضطرب،مصحف،مقلوب "ہوسکتی ہے اسی طرح بعینہ متن میں بھی یہ صورت حال ہوسکتی ہے۔
لہٰذا جب محدثین کرام نے سند اور متن دونوں کے پرکھنے کے اصول وضع کیے ہیں تو پھر کہاں اس بات کی گنجائش ہے کہ یہ کہا جائے محدثین نے "متن حدیث "کو نہیں پرکھا۔
احادیث کے "متون"کی جانچ پڑتال تو صحابہ کرامؓ کے زمانے میں بھی ہوتی تھی جس کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ باوجود "سند"کے صحیح ہونے کے ،"متن "کو رد کردیا گیا ۔جیسا کہ فاطمہ بنت قیس کا مشہور واقعہ ہے حضرت عمرؓ نے جب ان کی حدیث کو سنا کہ جب ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے رہائش اور خرچہ مقرر نہیں کیا (یعنی یہ مسئلہ سامنے آیا کہ مطلقہ ثلاث کو سکنی ونفقہ نہیں ملے گا )حضرت عمرؓ نے فرمایا” "ہم ایک عورت کے بیان پر اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ترک نہیں کریں گے پتہ نہیں اس کو ٹھیک سے یاد بھی رہا یا نہیں(ایسی عورت کو خرچہ وغیرہ ملے گا)۔"(سنن ابی داؤود ،طلاق کا بیان )
اسی طرح حضرت عائشہؓ نے جب حدیث ابن عمرؓ کو سنا " إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُکَائِ أَهْلِهِ" " میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔"
تو فرمایا " لَا وَاللَّهِ مَا قَالَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُکَائِ أَحَدٍ وَلَکِنَّهُ قَالَ إِنَّ الْکَافِرَ يَزِيدُهُ اللَّهُ بِبُکَائِ أَهْلِهِ عَذَابًا وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ أَضْحَکَ وَأَبْکَی وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَی "
"نہیں اللہ کی قسم رسول اللہ نے یہ نہیں فرمایا مردہ کر اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کافر پر اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب اور زیادہ ہو جاتا ہے اور اللہ ہی ہنساتے اور رلاتے ہیں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔"
راوی حدیث حضرت ابوب کہتے ہیں کہ :۔ جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث پہنچی تو فرمایا ""تم مجھے ایسے آدمیوں کی روایت بیان کرتے ہو جو نہ جھوٹے ہیں اور نہ تکذیب کی جا سکتی ہے البتہ کبھی سننے میں غلطی ہو جاتی ہے"(صحیح مسلم ،جنازوں کا بیان )اس کے علاوہ اور بھی کئی مثالیں ہیں۔
خلاصہ کلام:
محدثین نے جس طرح "اسناد "کو پرکھا اسی طرح "متون "کو بھی پرکھا اور صحابہ کرامؓ کے زمانے میں بھی یہ طریقہ رائج تھا جیساکہ ابھی دو مثالیں گزری ہیں ۔
(جاری ہے)

No comments:

Post a Comment