Wednesday, August 31, 2016

4.MAJMULAAT AUR MOHTMALAAT E QURAANI ME HADEES KI ZARURAT

مجملات قرآنی :
(
۱)"وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ"۔ (البقرۃ:۴۲)
نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو. نمازوں کی رکعات ترتیب، کیفیت ادا اور وسعت وقت یہ وہ مباحث ہیں جو قرآن کریم میں نہیں ملتے،زکوٰۃ کن کن چیزوں میں ہے سالانہ ہے، یا ماہانہ،اس کا نصاب اور مقدار کیا ہے؟ یہ تفصیل قرآن کریم میں نہیں ملتی؛ حالانکہ ان تفصیلات کے بغیر ان قرآنی حکموں پر عمل نہیں ہوسکتا۔
(
۲)"وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ"۔ (الحج:۲۹)
اور طواف کریں اس قدیم گھر کا طواف کے چکر سات ہیں یا کم و بیش؟ طواف حجر اسود کے کونے سے شروع ہوگا یا رکن عراقی وشامی یا یمانی سے؟ یہ تفصیل قرآن کریم میں نہیں ملتی، صفا و مروہ کے درمیان سعی کتنی دفعہ ہے؟ سعی کی ابتداء کوہِ صفا سے ہے یا کوہِ مروہ سے طواف پہلے کیا جائے گا یا سعی پہلے کرنا ہوگی؟ ان تفصیلات کے جانے بغیر ان احکام قرآنی کی عملی تشکیل نہیں ہوسکتی۔
(
۳)"کُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا"۔ (البقرۃ:۱۶۸)
".......وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ"۔ (الاعراف:
۳۲)
قرآن کریم نے حلال طیبات کو جائز قرار دیا اورخبائث اور ناپاک چیزوں کو حرام کہا، اب یہ موضوع کہ درندے اورشکاری پرندے طیبات میں داخل ہیں یا خبائث میں یہ تفصیل قرآن پاک میں نہیں ملتی،حدیث میں ارشاد ہے کہ "ذی ناب من السباع" کچلیوں والے درندے اور "ذی مخلب من الطیر" پنچوں سے کھانے والے پرندے مسلمان کے پاکیزہ رزق میں داخل نہیں۔
(
۴)"أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ"۔ (المائدہ:۹۶)
حلال کیا گیا تمہارے لیے دریائی شکار؛لیکن یہ بات کہ مچھلی کو پکڑنے کےبعد اس کو ذبح کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں،قرآن کریم میں اس کی وضاحت نہیں ملتی،حدیث میں ہے کہ دریا کے شکار کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں،سمک طافی(مری مچھلی جو تیر کر اوپر آجائے) کو حدیث میں ناجائز بتلایا گیا ہے،قرآن پاک نے خون کو مطلقا حرام کہا تھا،حدیث نے تفصیل کی اوربتایا کہ کلیجی اور تلی (کی صورت میں جما ہوا خون) حلال ہے۔
(
۵)"وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ"۔ (المائدہ:۴)
ترجمہ: اور جو سدھاؤ شکاری جانور شکار پر دوڑانے کو سکھاتے ہو تم انہیں جو اللہ نے تم کو سکھایا۔
اس آیت سے پتہ چلا کہ وہ کتا جو سکھایا ہوا نہ ہو اس کا پکڑا ہوا اور مارا ہوا شکار حرام ہے؛ لیکن شکاری کتا اگر اپنے شکار کو خود کھانے لگے تو اس کا حکم قرآن کریم میں نہیں ملتا، حدیث میں بتلایا گیا کہ یہ شکار کھانا جائز نہیں،کتے کا کھانا بتلارہا ہے کہ اس کی تعلیم صحیح نہیں ہوئی اوروہ کلب معلم ثابت نہیں ہوا ہے۔
ان جیسے اور سینکڑوں مسائل ہیں جن کی عملی تشکیل اور تفصیل قرآن پاک میں نہیں ملتی، ان موضوعات میں قرآن پاک کے ساتھ جب تک کوئی اور چیز شامل نہ کی جائے قرآن پاک کے یہ مجمل احکام منت پذیر عمل نہیں ہوسکتے۔
اس جزو لازم کی ضرورت سبھی نے محسوس کی ہے، کسی نے اس ضرورت کو حدیث سے پورا کیا، کسی نے اپنی رائے سے اور کسی نے قانون ساز اسمبلی کو اختیار دے کر اس خلاء کو پورا کرنے کی کوشش کی، تاہم اس احساس ضرورت میں سب متفق رہے کہ جب تک قرآن کریم کے ساتھ کوئی اور چیز نہ ملائی جائے،ان مجملاتِ قرآنی کی عملی تشکیل ممکن نہیں۔
محتملاتِ قرآنی :
قرآن پاک میں جو امور مذکور ہیں ان میں بھی بہت سے ایسے مقامات بھی ہیں جہاں آیات قرآنی کئی کئی وجوہ کی محتمل ہیں، ان کی تعیین بھی بدون اس جزولازم کے کسی طرح قطعی واضح اورآسان نہیں اور اس پہلو پر بھی ہر مکتب خیال کی شہادت موجود ہے، سیدنا حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا:ترجمہ: بیشک تمہارے پاس کچھ ایسے لوگ بھی آئیں گے جو قرآنی شبہات پیش کر کے تم سے جھگڑنے لگیں گے، ایسے وقت میں تم سنتوں سے تمسک کرنا؛ کیونکہ اصحاب سنن ہی کتاب اللہ کو زیادہ جانتے ہیں۔(سنن الدارمی،باب التورع عن الجواب فیما،حدیث نمبر:
۱۲۱)
قرآن کریم کی آیات جہاں کئی کئی وجوہ کی محتمل ہوں وہاں ان کا حل پائے بغیر ہم دین کی پوری سمجھ پا نہیں سکتے۔جو لوگ اس ضرورت کو حدیث سے پورا کرنا نہیں چاہتے وہ اس ضرورت کا حل مرکز ملت اور قوم کی پنچایت تجویز کرتے ہیں،گویہ بات غلط ہے ؛لیکن اس میں بھی اس بات کا اقرار ہے کہ قرآن پاک کے ساتھ ایک جز و لازم کی بہرحال ضرورت باقی تھی، جسے وہ اب اس طرح پورا کررہے ہیں۔
پیغمبرﷺ کی مرکزی حیثیت
یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے جو مسلمانوں کو خواہ وہ کسی ملک کے ہوں، کسی دور کے ہوں، کسی نسل کے ہوں، کسی رنگ کے ہوں اور کسی طبقے کے ہوں ایک لڑی میں پروتی ہے،یہ حدیث کا فیضان ہے کہ ہندوستان، انڈونیشیا، ترکی، مصر، شام، انگلستان، افغانستان، جرمنی اورامریکہ کے رہنے والے سب مسلمان ایک طرح نماز پڑھتے ہیں، ایک طرح روزے رکھتے ہیں،سب ایک نصاب سے زکوٰۃ دیتے ہیں، نکاح و طلاق اورپیدائش واموات میں سب ایک ہی راہ پر چلتے ہیں، مادیت کے اس دور میں یہ تو ہو رہا ہے کہ کئی لوگ عملاً مذہب سے دور چلے گئے؛ لیکن اگر کوئی دین کی طرف رجوع کرے اوراس پر عمل کرنا چاہے تو راہ وہی ملے گی جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہؓ نے قائم کی اوراس راہ کے چراغ وہی ہوں گے،جو حضور اکرمﷺ نے روشن کئے، تاریخ میں نہیں ملتا کہ ان نجوم ہدایت کے بغیر کسی طبقے یا فردنے اسلام کی کوئی راہ عمل طے کی ہو۔
جو لوگ قرآن پاک کے ساتھ مرکز ملت کے فیصلوں کو جزو لازم ٹھہراتے ہیں اور وہ اس طرح قرآنی مجملات کی تشکیل چاہتے ہیں، ان کی یہ رائے محض ایک نظری درجے میں ہے جس نے اسلام کی پوری تاریخ میں کبھی حقیقت واقعہ کا لباس نہیں پہنا اور نہ تاریخ کے کسی دور میں کبھی اس طرح قرآنی معاشرے کی تشکیل ہوئی ہے، اس کی تائید مزید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس تجویز کےحامیوں نے اسے اشاعت اسلام کے عنوان سے نہیں، ہمیشہ طلوع اسلام کے نام سے پیش کیا ہے،جو اسلام آج سے چودہ سو سال پہلے طلوع ہوا تھا، اس میں قرآن کریم کے ساتھ جزو لازم حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اورصحابہ کرام کی عملی راہیں تھیں اور اب اسلام کے نئے طلوع میں یہ تجویز ہے، کہ قرآن کریم کے ساتھ مرکز ملت کو جزولازم ٹھہرایا جائے اور حدیث سے جان چھڑا لی جائے۔
یہ نئی تجویز محض نظری بات ہے، اس نئے تخیل سے اسلام کی چودہ سو سالہ عملی تاریخ کو چھوڑا نہیں جاسکتا، جب اسلام کے سنہری زمانے Golden Age (خلافت راشدہ) میں بھی حدیث ہی قرآن کے ساتھ جزو لازم تھی تو آج کے بے عمل دور میں وہ کون سانیا چراغ ہوگا جو قوم میں زندگی کی حرارت پیدا کرسکے گا۔
(جاری ہے)

4.ISHARAAT AUR MUSHKILAAT E QURAANI ME HADEES KI ZARURAT

٭٭اشارات قرآنی میں حدیث کی ضرورت٭٭
مجملاتِ قرآنی ہی نہیں جن کے لیے حدیث کے جزو لازم کی ضرورت ہے،قرآن کریم میں ایسے اشارات بھی ملتے ہیں جنھیں روایات کو ساتھ ملائے بغیر سمجھنا بہت مشکل ہے ؛پھر یہ اشارات کبھی عدد ی صورت میں ہوتے ہیں کبھی واقعاتی صورت میں اور ہر جگہ اس کی وضاحت ضروری ہے۔
عددی اشارات
(
۱)"وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَى"۔ (یٰسن:۲۰)
اس آیت میں وہ ایک شخص کون تھا جو کسی دور مقام سے دوڑتا ہوا آیا تھا؟ قرآن میں اس کی طرف اشارہ ہے؛ مگراس کا نام وپتہ کہیں نہیں ملتا۔
(
۲)"ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ"۔ (التوبہ:۴۰)
اس آیت میں دو کون تھے جن میں سے ایک دوسرے کو کہہ رہا تھا اللہ ہم دونوں کے ساتھ ہے، نام کہاں ہیں؟۔
(
۳)"وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا"۔ (التوبہ:۱۸)
اس آیت میں تین کون تھے جن پر زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود تنگ کردی گئی تھی۔
(
۴)"مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ"۔ (التوبہ:۳۶)
اس آیت میں چار مہینے کون سے تھے جن میں لڑائی لڑنا عہد جاہلیت میں ممنوع تھا؟ ان حرمت کے مہینوں کے نام کیا ہیں؟۔
(
۵)"خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ"۔ (الکہف:۲۲)
اس آیت میں پانچ کون تھے جن میں چھٹا ان کا کتا تھا؟۔
(
۶)"سِتَّةِ أَيَّامٍ"۔ (الاعراف:۵۴)
اس آیت میں چھ دن کون سے تھے جن کے بعد رب العزت نے عرش پر اجلال فرمایا۔
(
۷)"وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ۔(البقرۃ:۱۹۶)
اس آیت میں سات روزے کس ترتیب سے عمل میں آئیں گے؟ اور رجعتم سے مراد مطلق واپسی ہوگی یا گھر کو واپسی۔
(
۸)"يَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةٌ"۔ (الحاقہ:۱۷)
اس آیت میں آٹھ فرشتے کون ہیں جو حشر کے دن عرش باری تعالی اٹھائیں گے۔
(
۹)"فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ"۔ (النمل:۴۸)
اس آیت میں نو قبیلے کون سے تھے؟۔
(
۱۰)"فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ"۔ (ھود:۱۳)
اس آیت میں دس سورتیں کون سی تھیں جن کے مثل انہیں دس سورتیں لانے کا چیلنج دیا گیا تھا۔
(
۱۱)"إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا"۔ (یوسف:۴)
اس آیت میں گیارہ ستارے کون تھے۔
(
۱۲)"وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا"۔ (المائدہ:۱۲)
اس آیت میں بارہ نقیب کون تھے،جو اللہ تعالی نے بنی اسرائیل میں اٹھائے تھے۔
واقعاتی اشارات
(
۱)"فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ"۔ (البقرۃ:۵۹)
اس آیت میں صورت واقعہ کیا تھی، ان لوگوں نے کون سی بات بدلی تھی اورکس بات کے عوض؟
(
۲)"وَإِذْأَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا"۔ (التحریم:۳)
اس آیت میں وہ حدیث پیغمبر کیا تھی جو آپ نے اپنی کسی بیوی کو بطور راز کہی تھی؟
(
۳)"مَاقَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْتَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا"۔ (الحشر:۵)
اس آیت میں کن درختوں کے کاٹنے اورکن کو اپنی بنیادوں پر چھوڑنے کا واقعہ یہاں مذکور ہے۔
(
۴)"عَبَسَ وَتَوَلَّى، أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى"۔ (عبس:۱)
اس آیت میں وہ کون تھا جس کی پیشانی پر ایک نابینا خادم کے چلے آنے سے بل آگئے؟ اس نے تیور چڑھالی اورمنہ موڑلیا کہ اس کے پاس نابینا آیا، تیور کس نے چڑھائی؟ نابینا کون تھا اور یہ واقعہ کیا تھا؟۔
(
۵)"إِذْهُمَا فِي الْغَارِ إِذْيَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَاتَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا"۔ (التوبہ:۴۰)
ترجمہ:جس وقت وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا تو غم نہ کر بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
غار میں کون سب تھے؟ کب کا واقعہ ہے؟ کون سے غار کی بات ہے؟۔
(
۶)"إِذْأَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَى وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنْكُمْ"۔(الانفال:۴۲)
جس وقت تم تھے ورلے کنارے پر اور وہ پرلے کنارے پر اور قافلہ نیچے اتر گیا تھا تم سے۔
(
۷)"وَإِذْيَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ"۔(الانفال:۷)
ترجمہ:اورجس وقت وعدہ کررہا تھا تم سے خدا دو جماعتوں میں سے ایک کا کہ وہ تمہارے ہاتھ لگے گی اور تم چاہتے تھے کہ جس میں کانٹا نہ لگے وہ تم کو ملے۔
اس قسم کے اشارات روایات کو ساتھ ملائے بغیر نہ سمجھے جاسکتے ہیں اورنہ سمجھائے جاسکتے ہیں۔
٭٭مشکلات قرآنی میں حدیث کی ضرورت٭٭
قرآن پاک اپنی اصولی دعوت میں بہت آسان ہے، اس میں نصیحت کے ابواب ایسے پیرائے میں لائے گئے ہیں کہ جو شخص بھی دل رکھتا ہو اورکان دھرے،اس سے اثر لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔"وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ"۔ (القمر:
۱۷)ترجمہ: اور بیشک ہم نے قرآن نصیحت لینے کے لیے آسان کردیا ہے سو ہےکوئی سمجھنے والا؟۔"إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ"۔ (ق:۳۷)ترجمہ: بے شک اس میں نصیحت ہے ہر اس شخص کے لیے جس کے پاس دل ہو یا وہ کان لگا سکے اور گواہی دے سکے۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کریم میں حقائق غامضہ موجود نہیں ہیں۔اس کتاب الہٰی میں حقائق کا سمندر موجیں ماررہا ہے، بڑے بڑے فضلاء اس سے موتی چنتے رہے اورچن رہے ہیں،لیکن اس کی اتھاہ گہرائیوں پر از خود کوئی قابونہیں پاسکتا، صحابہ کرامؓ جن کے سامنے قرآن نازل ہوا تھا اوران کی اپنی زبان بھی عربی تھی، حضورﷺ کے فیض تربیت سے ان کے قلوب تزکیہ اورتصفیہ پاچکے تھے؛پھر بھی انہوں نے بعض آیات قرآنی کے سمجھنے میں دقت محسوس کی اورجب تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت نہ فرمائی وہ آیات ان کے لیے آسان نہ ہوسکیں،قرآن کریم کے ساتھ حدیث ایک جز ولازم کے طورپر ہمیشہ کار فرما اورہدایت پیرا رہی ہے۔
(
۱)"الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ"۔(الانعام:۸۲)ترجمہ:جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمانوں میں کوئی ظلم شامل نہ کیا ہو، وہ لوگ ہیں جنہیں ہمیشہ کا امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ (
۳۴ھ) کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرامؓ سہم گئے اورانہوں نے حضورؐ سے عرض کیا۔"وَاینا لم یظلم؟"۔ ترجمہ:ہم میں سے کس نے ظلم نہ کیا۔اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس آیت میں ظلم سے مراد شرک ہے، جیسا کہ ارشاد ہے"إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ "۔
(بخاری،باب ظلم دون ظلم،حدیث نمبر:
۳۱)
اس حدیث سے قرآن پاک کی یہ آیت حل ہوگئی اورصحابہ کرامؓ کے دل مطمئن ہو گئے اوران کا تردد جاتا رہا، مراد آیت کی یہ ہے کہ جو شخص ایمان لائے اورپھر اس میں اللہ تعالی کی ذات وصفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے،وہ عذاب سے مامون اورہدایت یافتہ ہے۔(معارف القرآن:
۳/۳۸۷)
(۲)"وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ"۔(التوبہ:۳۴) ترجمہ: اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کئے رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کردیتے،آپ ان کو دردناک عذاب کی خبر دیجئے۔
حضرت امیر معاویہؓ نے فرمایا کہ یہ آیت ہم مسلمانوں کے بارے میں نہیں اہل کتاب کے بارے میں ہے،حضرت ابوذر غفاریؓ نے فرمایا کہ نہیں ہمارے اوران کے دونوں کے بارے میں ہے۔ (بخاری:
۶/۸۲)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا: یہ صورت اس پہلے دور سے متعلق ہے جب کہ زکوۃ کا حکم نہیں اترا تھا جب زکوٰۃ کا حکم آگیا تو خدا تعالی نے اسے (زکوٰۃ کو) سارے مال کی پاکیز گی کا سبب بنادیا۔(بخاری،بَاب مَا أُدِّيَ زَكَاتُهُ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ،حدیث نمبر:
۱۳۱۶)
سو حدیث نے فرمایا کہ یہاں جمع کرنے کا معنی یہ ہے کہ اس کی زکوٰۃ نہ دی جائے، زکوٰۃ دینے سے وہ اکتناز (مال جمع رکھنا) کے ذیل میں نہیں آتا، اب اس کا مال پاک ہوچکا ہے۔ حضرت عمربن الخطابؓ کہتے ہیں کہ میں نے خود حضوراکرمﷺ سے اس بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا: (اللہ تعالی نے زکوٰۃ اس لیے فرض کی ہے کہ اس سے تمہارے باقی اموال پاک کردیئے جائیں۔
ابو داؤد،باب فی حقوق المال، حدیث نمبر:
۱۴۱۷)
اسلام میں اگر کسی صورت میں بھی مال جمع کرنے کی اجازت نہ ہوتی تو شریعت محمدی میں مال کی زکوٰۃ اورمیراث کی تقسیم کا قانون نہ ہوسکتا تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا ارشاد سے صحابہؓ کے دل مطمئن ہوگئے اوران کا تردد جاتا رہا۔
(۲)"وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ"۔ (البقرۃ:۱۸۷)ترجمہ: اورکھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سفید اور سیاہ دھاگے میں تمھیں فرق معلوم ہونے لگے۔
حضرت عدی بن حاتمؓ (
۶۷ھ) نے سفید اورسیاہ دھاگے اپنے تکئے کے نیچے رکھ لیے؛ تاکہ جب دونوں ایک دوسرے سے ممتاز ہونے لگیں تو اس سے وہ اپنے روزے کی ابتداء کرلیا کریں، حضرت سہل بن سعدؓ (۹۸۱ھ) کہتے ہیں: کچھ لوگ جنہوں نے روزے کی نیت کی ہوتی وہ اپنے دونوں پاؤں سے سفید اورسیاہ دھاگے باندھ رہتے اور برابر سحری کھاتے رہتے؛یہاں تک کہ وہ دونوں دھاگے آپس میں ممتاز نہ ہوجائیں۔(بخاری،باب قولہ وکلوا واشربوا حتی یتبین،حدیث نمبر:۴۱۵۱)
اس سے پتہ چلا کہ صرف عدی بن حاتمؓ ہی نہ تھے جو یہاں مراد قرآنی نہ سمجھ پائے ؛بلکہ اور بھی کئی لوگ تھے جنہوں نے سفید اور سیاہ دھاگوں کو ان کے ظاہر پر رکھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عدی بن حاتمؓ کو سمجھا یا کہ یہاں سفید اورسیاہ دھاگے سے مراد دن کی سفیدی اورشب کی سیاہی ہے۔
اللہ تعالی نے اس کے بعد من الفجر کے الفاظ نازل فرمائے، بخاری شریف میں ہے:
"فَأَنْزَلَ اللَّهُ بَعْدَهُ {مِنْ الْفَجْرِ}"۔ (بخاری، بَاب أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَام،حدیث نمبر:
۴۱۵۱)۔اس سے سب سمجھ گئے کہ یہاں دن اور رات کا ایک دوسرے سے ممتاز ہونا مراد ہے۔
اس سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ حضورﷺ نے جس طرح اس آیت کی وضاحت فرمائی وہی مراد ربانی تھی اور بعد کی وحی قرآنی نے واضح طور پر وہی بات کہی جو آپ نے پہلے بطور تفسیر کہی تھی وہاں یہ بھی پتہ چلا کہ قرآن پاک اگر پیغمبر پر نازل نہ ہوتا کہیں دھرامل جاتا تو اس کے کئی مقامات عربوں میں بھی اپنے معنی مراد کے ساتھ واضح نہ ہوتے۔
(جاری ہے)

Sunday, August 28, 2016

AITRAAZ :HADIS KI KITABO ME MANGHDAT/ MAUZU RIWAYAT HAI (हदीसो में झूटी रिवायत है )

مستشرقین کے چند مشہور اعتراضات بمع جوابات پیش خدمت ہیں ۔

1۔ذخیرہ احادیث میں موضوع روایات کی موجودگی :

احادیث کی کتابوں میں بعض موضوع روایات کے پائے جانے کی وجہ سے دوسری احادیث کی حیثیت مشکوک ہے ۔

چنانچہ آرتھر جیفری (Arthur Jeffery)اپنی کتاب "Islam, Muhammad and his religion"میں لکھتاہے :
""تاہم پیغمبر(ﷺ)کے انتقال کے بعد، ان کے پیروکاروں کی بڑھتی ہوئی جماعت نے محسوس کیا کہ مذہبی اور معاشرتی زندگی میں بے شمار ایسے مسائل ابھر رہے ہیں جن کے متعلق قرآن میں کوئی رہنمائی موجود نہیں ،لہٰذا یسے مسائل کے متعلق راہنمائی حدیث میں تلاش کی گئی۔ احادیث سے مراد وہ چیزیں جو پیغمبر (ﷺ)نے اپنی زبان سے کہیں یا آپ ان پر عمل پیرا ہوئے یا وہ چیزیں جن کے متعلق کہا گیا کہ وہ پیغمبر (ﷺ)کے اقوال یا افعال ہیں ۔صحیح ،جزوی طور پر صحیح اور اور جعلی احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ حدیث کی کتابوں میں جمع کردیا گیا ۔" Muhammad and his religion"Page12)
آتھرجیفری نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ صحیح اور جزوی طور پر صحیح احادیث بھی تھیں لیکن جعلی احادیث بھی وضع کی گئیں تھیں مسلمانوں نے صحیح احادیث کے ساتھ من گھڑت احادیث کو بھی کتابوں میں درج کردیا جس سے دوسری صحیح حدیثوں کی حیثیت مشکوک ہوگئی۔
مستشرقین کا یہ اعتراض انتہائی کمزور اور سطحی درجہ کا ہے احادیث کی کتابوں میں موضوع احادیث کی موجودگی کوئی ایسی بات نہیں جس کے انکشاف کا سہرا مستشرقین کے سر پر ہو، بلکہ مسلمان ہر زمانے میں اس قسم کی حدیثوں سے آگاہ رہےہیں اور علماء نے اپنے دینی بھائیوں کو ہمیشہ ایسی احادیث سے آگاہ اور خبردار کیا ہے۔
چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے "اللآلی المصنوعہ فی الا حادیث الموضوعۃ"کے عنوان سے کتاب لکھی جس میں تمام مو ضوع احادیث کو جمع کیا اور اسی طرح حافظ ابو الحسن بن عراق نے"تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاحادیث الشنیعۃالموضوعۃ "کتاب لکھی جس میں موضوع روایات کا ذکر ہے تاکہ مسلمان موضوع احادیث سے ہوشیار رہیں۔جب مسلم علماء کا حدیث کے ساتھ اس قدر اسشتغال ہے کہ وہ موضوع اور صحیح، ضعیف اور سقیم حدیث میں تمیز کرسکتے ہیں اور انہوں نے ایسے قوانین اور اصول مرتب کیے جن کی روشنی میں احادیث صحیحہ کو پرکھا جاسکتا ہے۔تو موضوع روایات کے پائے جانے کی وجہ سے احادیث صحیحہ کی حیثیت کیسے مشکوک ہوگئی ؟
صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، نسائی شریف میں کوئی حدیث موضوع نہیں اور ابن ماجہ میں گو چند ایک موضوع احادیث ہیں لیکن محدثین ان کی بھی نشاندہی کی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مستشرقین کو ایسی احادیث کے موضوع ہونے کا علم ہی مسلمانوں کی خوشہ چینی سے ہوا ہے وگر نہ جو قوم بائبل کے ہر رطب ویابس کے کلام اللہ ہونے پر یقین رکھتی ہو اسے کیا خبر کہ صحیح حدیث کونسی ہے اور موضوع کونسی؟
2۔تدوین حدیث :
سرولیم میور او ر گولذ زیہر کا دعویٰ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی حدیثیں لکھنے کا کام آپ کی وفات کے نوے برس بعد شروع ہوا، اور بعد میں آنے والے مستشرقین اورمنکرین حدیث نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر کہہ دیا کہ احادیث کی تدوین تیسری صدی ہجری میں ہوئی ہے اس لیے حدیث کو دین اسلام کا مصدر قرار دینا صحیح نہیں اور اس پر اعتماد بھی نہیں کیا جاسکتا؟(نظریہ عامۃ فی تاریخ الفقہ لعلی حسن عبدالقادر: ۱۲۶)
مستشرقین کا یہ اعتراض زبردست مغالطے پر مبنی ہے اس لیے کہ حدیث کی حفاظت کا طریقہ محض کتابت نہیں ہے بلکہ دورنبوی ﷺ میں مختلف طریقے اختیار کیے گئے ہیں۔
۱)بذریعہ یادداشت :
عربوں کو غیر معمولی یادداشت اور قوت حافظہ عطا کی گئی تھی ان کو اپنی شاعری کے سینکڑوں اشعار یاد ہوتے تھے، وہ نہ صرف اپنے سلسلہ نسب کو یاد رکھتے تھے بلکہ اکثر لوگوں کو تو اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کے نسب تک یاد ہوتے تھے۔صحیح بخاری شریف میں حضرت جعفر بن عمر و الضمری بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ عبیداللہ بن عدی بن خیار کے ساتھ حضرت وحشی سے ملنے "حمص" گیا ،عبیداللہ نے پوچھا کہ آپ مجھے پہچانتے ہیں؟
تو حضرت وحشیؓ نے جواب دیا کہ آج سے کئی سال پہلے ایک دن عدی بن خیار کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا تھا اورمیں اس بچے کو چادر میں لپیٹ کر مُرضَعہ کے پاس لے گیا تھا بچہ کا سارا جسم ڈھکا ہوا تھا میں نے صرف پاؤں دیکھے تھے، تمہارے پاؤں اس کے پاؤں کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں (درس ترمذی جلد اول صفحہ۳۵، مفتی تقی عثمانی صاحب)
غور کرنے کی بات ہے کہ جو قوم اتنی معمولی باتوں کو اتنے وثوق سے یاد رکھتی ہے وہ آنحضرت ﷺ کے اقوا ل وافعال یاد رکھنے کا کتنا اہتمام کرے گی جبکہ وہ انہیں اپنے لیے راہ نجات سمجھتے ہوں اور اس ارشاد عالی کو بھی سن رکھا ہو ۔
" نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّی يُبَلِّغَهُ فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَی مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ "(ابو داؤد شریف ،کتاب العلم )
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا"اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے حدیث سنی اور سے یاد کیا یہاں تک کہ اسے آگے دوسروں تک پہنچایا پس بہت سے فقہ کے حامل ایسے ہیں جو اس کو زیادہ فقیہ لوگوں تک پہنچا دیں گے اور بہت سے فقہی مسائل کے واقف ایسے ہیں جو خود فقیہ نہیں ہیں۔"چنانچہ صحابہ کرامؓ احادیث زبانی یاد کرنے کے عادی تھے۔
سیدنا حضرت ابو ہریرۃ ؓ جو رسول اکرم ﷺ کے ممتاز صحابی ہیں اور پانچ ہزارتین سو چوہتر(5374(احادیث کے راوی ہیں وہ فرماتے ہیں:۔"میں نے اپنی رات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے ایک تہائی رات میں نماز پڑھتا ہوں، ایک تہائی میں سوتا ہوں،اور باقی ایک تہائی رات میں رسول اکرم ﷺ کی احادیث یاد کرتا ہوں ۔" (حجیت حدیث صفحہ ۱۱۱،از شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب)
۲)مذاکرے :
حفاظت حدیث کا دوسرامصدر وماخذ اور طریقہ صحابہ کرام ؓ کے باہمی مذاکرے تھے انہیں جب بھی کسی سنت کے بارے میں علم ہوتا تو وہ اسے بیان کرکے دوسروں تک پہنچاتے اور یہ طریقہ کار درحققیت حضور اکرم کے حکم کی تعمیل پر مبنی تھا۔
ارشادنبوی ﷺ ہے " فَلْيبلغ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ"جو لوگ حاضر ہیں وہ ان لوگوں کو پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔(بخاری شریف ،کتاب المناسک )
چونکہ اصحاب رسول ﷺ کی نظروں میں علم حدیث کی بہت اہمیت تھی اس لیے ان کا مشغلہ یہی تھا کہ جب کبھی وہ باہم یکجا ہوتے تو آپ ﷺ کے ارشادات کا تذکر ہ کرتے ان مسلسل اور متواتر مذاکروں نے سنت کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیااور جو احادیث مبارکہ چند افراد تک محدود تھیں وہ دوسروں تک پہنچ گئیں۔
۳)تعامل :
سنت کی حفاظت کا تیسرا راستہ یہ تھا کہ اس پر عمل کیا جائے، صحابہ کرام ؓ جو کچھ آپ ﷺ سے حاصل کیا اسے عملی طور اپنے جاری کیا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ حضور اکرم ﷺ کی سنت کو بھول جاتے جبکہ انہوں نے اپنی زندگیوں کی عمارت اسی بنیاد پر استوار کی تھی۔
۴)کتابت :
حدیث مبارکہ کی حفاظت کا چوتھا طریقہ " کتابت "ہے جو حضور اکرم ﷺ کے دور مبارک میں شروع ہوچکا تھا مستشرقین کا یا منکرین حدیث یہ کہنا کہ احادیث تیسری صدی ہجری میں یا اڑھائی سو سال بعد لکھی گئیں یہ تاریخی حقائق کو جھٹلانے والی بات ہے جو محض ہٹ دھرمی اور تعصب پر مبنی ہے۔تاریخی طور پر کتابت حدیث کو چار مراحل پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
ا۔متفرق طور پر احادیث جمع کرنا ۔
ب۔کسی شخصی صحیفہ میں احادیث کو جمع کرنا جس کی حیثیت ذاتی یادداشت کی ہو۔
ج۔احادیث کو کتابی صورت میں بغیر تبویب (ابو اب بندی )کے جمع کرنا ۔
د۔احادیث کو کتابی صورت میں تبویب کے ساتھ جمع کرنا۔
عہد رسالت ﷺ اور عہد صحابہ ؓ میں کتابت کی پہلی دوقسمیں اچھی طرح رائج ہوچکیں تھیں۔ (حجیت حدیث صفحہ۱۰۹تا ۱۲۴)
حضوراکرم ﷺ کا احادیث لکھوانا ،صحابہؓ کا احادیث کو لکھنا اور ان کی حفاظت کے لیے زبردست کوششیں کرنا ،اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک احادیث کی حفاظت انتہائی اہم ذمہ داری تھی اور وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔
عہد تابعین میں کتابت وتدوین حدیث
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ،اسلامی سرحدیں دنیا کے طول وعرض میں پھیلنے لگیں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی گئی ،صحابہ کرامؓ ایک ایک کر کے اس دنیا سے رخصت ہوتے گئے ان حالات میں حضرت عمربن عبدالعزیز ؓ نے سرکاری سطح پر احادیث طیبہ کی تدوین کے لیے اقدامات کیے اور یہ 100؁ کی بات ہے لیکن حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کی اس کوشش اور حکم سے پہلے بھی عہد تابعین میں احادیث کی تدوین کے آثار ملتے ہیں ۔اس سلسلے میں صحیفہ ہمام بن منبہؒ نمایاں ہے جس میں حضرت ابو ہریرہؓ کے جلیل القدر شاگرد حضرت ہمام بن منبہؒ نے اپنے استاد محترم سے حاصل کردہ روایات کو جمع کیا اور اس کا نام "الصحیفہ الصحیحہ"رکھا ۔
امام احمد بن حنبل ؒ نے اپنی مسند میں اس صحیفہ کو بتما مہا نقل کردیا ہے ۔حسن اتفاق سے چند سال پہلے اس صحیفہ کااصل مخطوطہ دریافت ہوگیا ہے اس کا ایک نسخہ جرمنی میں برلن کے کتب خانہ میں موجود ہے اور دوسرا نسخہ دمشق کے کتب خانہ "مجمع علمی "میں ،سیرت اور تاریخ کے مشہور محقق ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے ان دونوں نسخوں سے مقابلہ کرکے یہ صحیفہ شائع کردیا ہے اس میں ایک سے اڑتیس احادیث ہیں ،اور جب مسند احمد سے اس کا مقابلہ کیا گیا تو کہیں ایک حرف یا ایک نقطہ میں بھی فرق نہیں تھا ۔ (درس ترمذی جلد اول صفحہ ۴۲)
خلاصہ کلام :
حضوراکر مﷺ کے دور مبارک میں ہی احادیث کو لکھا جانے لگا تھا لیکن وہ احادیث کسی ترتیب سے نہیں تھیں جس نے جو سنا اس کونقل کرلیا ، بعدمیں جیسے جیسے علم حدیث کے ساتھ اہل علم کا اشتغال بڑھتا گیا تو مختلف اعتبار سے علم حدیث پرکتب لکھی جانے لگیں کسی نے فقہی نقطہ نظر سے اپنی کتاب کو تالیف کیا اور کسی نے "عقائد "اور "ایمانیات"سے آغاز کیا ۔"طہارت "سے متعلقہ احادیث کو "کتاب الطہارت"میں اور "نماز "سے متعلقہ احادیث کو "کتاب الصلوۃ"میں اور زکوۃ کی احادیث کو "کتا ب الزکوۃ"میں علی ہذالقیاس اس طرح باقی احکامات کو ابواب بندی کرکے درج کیا ۔
(جاری ہے)

3.AITRAZ : HUZUR (SAW) KA AHADEES LIKHNE SE MANA KARNA ( हदीस लिखने से मना करना )

3۔

حضور ﷺ کا احادیث لکھنے سے منع کرنا :


حضوراکر م ﷺ کا کتابت حدیث سے منع کرنا " قَالَ لَا تَکْتُبُوا عَنِّي وَمَنْ کَتَبَ عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآنِ فَلْيَمْحُهُ وَحَدِّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَجَ وَمَنْ کَذَبَ عَلَيَّ قَالَ هَمَّامٌ أَحْسِبُهُ قَالَ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ "(مسلم شریف جلد دوم صفحہ
۴۱۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم مجھ سے کوئی بات نہ لکھو اور جس آدمی نے قرآن مجید کے علاوہ مجھ سے کچھ سن کر لکھا ہے تو وہ اس مٹا دے اور مجھ سے سنی ہوئی احادیث بیان کرو اس میں کوئی گناہ نہیں اور جس آدمی نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا تو اسے چاہئے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
اس بات کی دلیل ہے کہ احادیث حجت نہیں،تو پھر حدیثوں کی کیا اہمیت اور ان پر اعتماد کیسا ؟
مستشرقین کی خدمت میں گزارش ہے کہ جب ان کا دعویٰ یہ ہے کہ احادیث قابل اعتماد اور لائق حجت نہیں تو پھر اپنے موقف کی تائید میں حدیث کو پیش کرکے استدلال کرنا کیسے صحیح ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ مستشرقین اسلام کی دشمنی میں اس قدر سچا ئی اور حق سے دور جاچکے ہیں کہ اسلام میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کے لیے ایک بات پر نکتہ اعتراض اٹھارہے ہوتے ہیں تو دوسرے مقام پر اسی رد کی ہوئی بات سے دلیل پکڑ رہے ہوتے ہیں قطع نظر اس بات سے اس عمل سے ان کے اپنے اقوال میں تضاد واقع ہورہا ہے۔
کتابت حدیث کی ممانعت اس زمانےکی بات ہے جب تک قرآن کریم کسی ایک نسخہ میں مدون نہیں ہوا تھا بلکہ متفرق طور پر صحابہ کے پاس لکھا ہوا تھا دوسری طرف صحابہ کرام بھی ابھی تک اسلوب قرآن سے اتنے مانوس نہ تھے کہ وہ قرآن اور غیر قرآن میں پہلی نظر تمیز کرسکیں، ان حالات میں اگر احادیث بھی لکھی جائیں تو خطرہ تھا کہ وہ قرآن کے ساتھ گڈ مڈ ہوجائیں اس خطرہ کے پیش نظر آپ ﷺ نے کتابت حدیث سے ممانعت فرما دی لیکن جب صحابہ کرام اسلوب قرآن سے اچھی طرح واقف ہوگئے تو آپ ﷺ نے کتابت حدیث کی اجازت دیدی جس کے متعدد واقعات کتب حدیث میں منقول ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک صحابیؓ نے شکایت کی کہ وہ بسا اوقات احادیث کو بھول جاتے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا"اسْتَعِنْ بِيَمِينِکَ وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ لِلْخَطِّ "
(ترمذی شریف صفحہ
۱۰۷جلد ۲)اپنے داہنے ہاتھ سے مدد لو اور (یہ فرماکر )آپ نے اپنے ہاتھ سے لکھنے کا اشارہ فرمایا ۔
"عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو باتیں سنا کرتا تھا انہیں لکھا کرتا تھا یاد کرنے لیے۔ لیکن مجھے قریش نے منع کیا اور کہنے لگے کہ تم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات کو جو سنتے ہو لکھ لیا کرتے ہو حالانکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر ہیں (اور بشری تقاضا کی وجہ سے آپ کو غصہ بھی آتا ہے، خوشی کی حالت بھی ہوتی ہے) اور آپ کبھی غصہ میں اور کبھی خوشی کی حالت میں گفتگو کرتے ہیں لہٰذا میں نے کتابت سے ہاتھ روک لیا اور اس کا تذکرہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا، حضور نے اپنی انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس منہ سے سوائے حق بات کے اور کچھ نہیں نکلتی۔") ابو داؤدشریف جلددوم صفحہ
۵۱۳)
فتح مکہ کے موقع پر (8-ھ) حضوراکرم ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں انسانی حقوق پر مشتمل کئی احکام شریعت تھے، ایک یمنی شخص نے جس کا نام "ابو شاہ "تھا اس نے حضور اکرم ﷺ سے درخواست کی کہ یہ خطبہ اسے تحریری صورت میں مہیا کیا جائے جس پر آپ ﷺ نے فرمایا "اکْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ" ابو شاہ کے لیے تحریر کرو ۔ (صحیح بخاری ،کتاب العلم صفحہ
۲۲)
یہ چند مثالیں اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ عہد رسالت ﷺ اور عہد صحابہ میں کتابت حدیث کا طریقہ خوب اچھی طرح رائج ہوچکا تھا لیکن یہ کوششیں سب انفرادی تھیں اور کتابت حدیث سے ممانعت اک مخصوص وقت میں تھی ۔
امام نوویؒ (شارح صحیح مسلم )نے منع کتابت حدیث کی ایک اور توجیہ ذکر کی ہے کہ علی الاطلاق کتابت کسی بھی زمانہ میں ممنوع نہیں ہوئی ،بلکہ بعض حضرات صحابہ ایسے کرتے تھے کہ آیات قرآنی لکھنے کے ساتھ ساتھ آنحضرت ﷺ کی بیان فرمودہ تشریح وتفسیر بھی اسی جگہ لکھ لیا کرتے تھے۔
یہ صورت بڑی خطرناک تھی، کیونکہ اس سے آیات قرآنی کے التباس کا قوی اندیشہ تھا اس لیے صرف اس صورت کی ممانعت کی گئی تھی ،قرآن سے الگ احادیث لکھنے کی کوئی ممانعت نہیں تھی( درس ترمذی جلداول صفحہ
۳۷)
4۔سند گھڑنے کے اعتراضات
منٹگمری واٹ احادیث طیبہ کی اسناد کے متعلق اعتراض کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مسلمان اپنی بات کو حضوراکرم (ﷺ) کی طرف منسوب کرنے کے لیے اسناد کو گھڑا کرتے تھے۔چنانچہ وہ لکھتا ہے " "احادیث کی مکمل اسناد بیان کرنے کو "الشافعی "کی تعلیمات کا نتیجہ قرار دیا جاسکتاہے جو تقریباالواقدی کےہم عصر تھے ۔جب احادیث کی مکمل اسناد بیان کرنے کا رواج ہوگیا تو لازما علماء کی یہ خواہش ہوتی ہوگی کہ وہ اپنی اسناد کو حضرت محمد (ﷺ)کے صحابہ تک پہنچائیں ۔خواہ انہیں اپنی اسناد میں اضافہ کرنا پڑے ،تاہم اس قسم کے اضافوں کو بھی قابل اعتبار سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ غالباً وہ عام طور پر جانتے تھے کہ ان کے پیش روؤں نے یہ معلومات کہاں سے حاصل کیں،اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہم جس طرح اسناد کی آخری کڑیوں پر اعتبار کرسکتے ہیں اس طرح ان کی ابتدائی کڑیوں پر اعتبار نہیں کرسکتے ۔"(Muhammad at madina oxford university Press Karachi Page 388 pub year1981)
منگمری واٹ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہاہے کہ مسلمان احادیث کی سند کو گھڑا کرتے تھے بظاہر وہ یہ نہیں کہہ رہاکہ وہ احادیث کو گھڑا کرتے تھے اس لیے کہ جب اسناد مشکوک ہوجائیں گی تو احادیث طیبہ خود بخود اپنا اعتماد واعتبار کھو بیٹھیں گی ۔منٹگمری واٹ کا یہ اعتراض یا تو مسلمانوں کے اصول حدیث کے فن سے اس کی کلیۃ جہالت کا نتیجہ ہے اور یا پھر احادیث طیبہ کے قصر رفیع کی بنیادوں پر عمدا کلہاڑا چلانے کی بہت بڑی سازش ہے۔
روایت حدیث میں کڑی احتیاط کی خاطر محدثین کرام نے سند کی پابندی اپنے اوپر لگائی جو اسی امت کی خصوصیت ہے۔ تاکہ کسی دشمن اسلام کو دخل اندازی کا موقعہ نہ مل سکے ۔محدثین "اسناد "کی جانچ پڑتال کرتے تھے نہ کہ گھڑتے تھے۔
سند کا سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ جو شخص بھی کوئی حدیث بیان کرے، پہلے وہ یہ بتائے کہ اس کو یہ حدیث کس نے سنائی ہے؟ اور اس سنانے والے نے کس سے سنی ہے؟ اسی طرح جتنے راویوں کا واسطہ اس حدیث کی روایت میں آیا ہے، ان سب کے نام بہ ترتیب بیان کر کے اس صحابی کا نام بتائے جس نے یہ حدیث حضور اکرم ﷺ سے خود سن کر روایت کی ہے، چنانچہ آج حدیث نبوی ﷺ کے جو عظیم الشان مجموعے مشہور ومعروف کتب حدیث کی صورت میں ہمارے پاس محفوظ اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، ان میں ہر ہر حدیث کے ساتھ اس کی سند بھی محفوظ چلی آرہی ہے، جس کی بدولت آج ہر حدیث کے بارے میں نام بہ نام یہ بتایا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ سے ہم تک یہ حدیث کن کن اشخاص کے واسطے سے پہنچی ہے۔
کسی حدیث کی سند میں اگر درمیان کے کسی راوی کا نام چھوڑ دیا جائے تو محدثین ایسی سند کو "منقطع "کہہ کر ناقابل اعتماد قرار دیتے ہیں، اوراگر نام تو سب راویوں کے بیان کردے جائیں، مگر ان میں کوئی راوی ایسا آجائے جو ثقہ، اور متقی وپرہیزگار نہ ہو، یا اس کاحافظہ کمزور ہو یا وہ ایسا غیر معروف شخص ہو جس کے تقویٰ اور حافظے کے متعلق کچھ معلوم نہ ہو، تو ایسی تمام صورتوں میں محدثین، اس سند پر اعتماد نہیں کرتے، اور جب تک وہ حدیث کسی اور قابل اعتماد سند سے ثابت نہ ہوجائے اسے قابل استدلال نہیں سمجھتے۔ اور یہ ساری تفاصیل جاننے کے لیے "اسماء الرجال "کا فن ایجاد کیا گیا جسمیں راوی کے تمام ضروری حالات مثلاً، پیدائش وفات، تعلیم کب اور کس سے حاصل کی، شاگرد کون تھے، ناقدین کیا رائے تھی وغیرہ ذالک سب اس میں موجود ہیں ۔ (کتابت حدیث عہدرسالت وعہد صحابہ میں ،صفحہ
۳۰)
فن اسماء الرجال کے بارے میں ڈاکٹر اسپرنگر جیسے متعصب یورپین کو یہ لکھنا پڑا کہ "کوئی قوم دنیا میں ایسی نہیں گزری، نہ آج موجود ہے، جس نے مسلمانوں کی طرح "اسماء الرجال "کا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو ،جس کی بدولت آج پانچ لاکھ شخصوں کا حال معلوم ہوسکتا ہو۔"( خطبات مدراس صفحہ
۴۲)
خلاصہ کلام :
محدثین روایت کو لینے اور بیان کرنے میں بڑی احتیاط کرتے تھے اور باقاعدہ اسناد کی جانچ پڑتال کرتے تھے اور اس کا مقصد ہی یہی ہوتا تھا کہ وہ "سند " من گھڑت تو نہیں اگر کسی قسم کا کوئی شبہ یا شک ہوتا تو روایت کو چھوڑ دیتے تھے چہ جائیکہ یہ کہا جائے کہ وہ "اسناد "کو گھڑتے تھے ۔
اور راویوں کی چھان بین کے سلسلے میں"اسماء الرجال "جیسا عظیم الشان فن یجاد ہوا جس کی بدولت کسی بھی راوی کے مکمل حالات معلوم کیے جاسکتےہیں لہٰذا یہ کہناکہ محدثین اسنا د کو گھڑا کرتے تھے یہ سراسر ا بے جا الزام ہے جو دعویٰ بلادلیل کے قبیل سے ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
5۔متن کی جانچ پڑتا ل:
گولذ زیہر اور شاخت نے متن حدیث پر اعتراض کیا ہے کہ محدثین نے اسناد کے پرکھنے میں جس قدر محنت کی، اس قدر محنت "متن"کی جانچ پڑتال میں نہیں کی کہ آیا وہ بات جس کو حدیث بیان کررہی ہے وہ اس معاشرے او ر واقعہ پر بھی منبطق ہوتی ہے؟
مستشرقین کا یہ کہنا کہ "متن "کی جانچ پڑتال نہیں کی گئی یہ حقائق سے چشم پوشی کرنا ہے۔
محدثین نے جس طرح احادیث کی "اسناد "کو پرکھا اسی طرح"متون حدیث "کو بھی پرکھا اور اس سلسلے میں اصول وقواعد مرتب کیے ،شاذ ومعلل کی اصطلاحات مقرر کیں جس طریقے سے سند میں شذوذ پایا جاسکتا ہے اسی طرح متن میں بھی، جس طریقے سے کوئی علت خفیہ قادحہ سند میں ہوسکتی ہے متن میں بھی پائی جاسکتی ہے، جس طرح سند "منکر،مضطرب،مصحف،مقلوب "ہوسکتی ہے اسی طرح بعینہ متن میں بھی یہ صورت حال ہوسکتی ہے۔
لہٰذا جب محدثین کرام نے سند اور متن دونوں کے پرکھنے کے اصول وضع کیے ہیں تو پھر کہاں اس بات کی گنجائش ہے کہ یہ کہا جائے محدثین نے "متن حدیث "کو نہیں پرکھا۔
احادیث کے "متون"کی جانچ پڑتال تو صحابہ کرامؓ کے زمانے میں بھی ہوتی تھی جس کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ باوجود "سند"کے صحیح ہونے کے ،"متن "کو رد کردیا گیا ۔جیسا کہ فاطمہ بنت قیس کا مشہور واقعہ ہے حضرت عمرؓ نے جب ان کی حدیث کو سنا کہ جب ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے رہائش اور خرچہ مقرر نہیں کیا (یعنی یہ مسئلہ سامنے آیا کہ مطلقہ ثلاث کو سکنی ونفقہ نہیں ملے گا )حضرت عمرؓ نے فرمایا” "ہم ایک عورت کے بیان پر اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ترک نہیں کریں گے پتہ نہیں اس کو ٹھیک سے یاد بھی رہا یا نہیں(ایسی عورت کو خرچہ وغیرہ ملے گا)۔"(سنن ابی داؤود ،طلاق کا بیان )
اسی طرح حضرت عائشہؓ نے جب حدیث ابن عمرؓ کو سنا " إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُکَائِ أَهْلِهِ" " میت کو اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔"
تو فرمایا " لَا وَاللَّهِ مَا قَالَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُکَائِ أَحَدٍ وَلَکِنَّهُ قَالَ إِنَّ الْکَافِرَ يَزِيدُهُ اللَّهُ بِبُکَائِ أَهْلِهِ عَذَابًا وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ أَضْحَکَ وَأَبْکَی وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَی "
"نہیں اللہ کی قسم رسول اللہ نے یہ نہیں فرمایا مردہ کر اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کافر پر اس کے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عذاب اور زیادہ ہو جاتا ہے اور اللہ ہی ہنساتے اور رلاتے ہیں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔"
راوی حدیث حضرت ابوب کہتے ہیں کہ :۔ جب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث پہنچی تو فرمایا ""تم مجھے ایسے آدمیوں کی روایت بیان کرتے ہو جو نہ جھوٹے ہیں اور نہ تکذیب کی جا سکتی ہے البتہ کبھی سننے میں غلطی ہو جاتی ہے"(صحیح مسلم ،جنازوں کا بیان )اس کے علاوہ اور بھی کئی مثالیں ہیں۔
خلاصہ کلام:
محدثین نے جس طرح "اسناد "کو پرکھا اسی طرح "متون "کو بھی پرکھا اور صحابہ کرامؓ کے زمانے میں بھی یہ طریقہ رائج تھا جیساکہ ابھی دو مثالیں گزری ہیں ۔
(جاری ہے)

MAULVI !! AMNBIYA KE WARIS ( मौलवी दरग्त : लक्ष्ण और इलाज )

مولوی کی درگت ؛ اسباب و علاج 
**********************
قرآن کریم و احادیث نبویہ میں مولوی کا مقام و مرتبہ اظہر من الشمس ہے , یہ وہ ذات ہے جس کی وفات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانی قرار دیا ہے اور جس ذات کے بارے میں اللہ تعالی نے خود قرآن کریم کے اندر فرمایا 
( انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء ) الفاطر:
۲۸
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا 
( ان العلماء ورثۃ الانبیاء ) رواہ الترمذی وصححہ الالبانی 
اس قدر والی ذات کی آج کیا درگت بن رہی اسے الفاظ میں مکمل طور پر بیان تو نہیں کیا جاسکتا البتہ کچھ احساسات کو اجاگر کرکے آنسو بہائے جاسکتے ہیں 
طلبہ مدارس ابتدائی تعلیم کے بعد تقریبا دس سال تک علوم دینیہ کے حصول کے لئے اپنا محبوب گھر اور وطن کو چھوڑ کر اسلامک کیمپوں میں رہائش اختیار کرتے ہیں , ماں باپ کی یادوں کو بھلاکر صرف دینی تعلیم کے لئے ایک لمبے عرصے تک دال روٹی کھاکر زندگی گزارنے والے موقر و محترم طلبہ جب کسی مستند ادارے سے فارغ ہوکر سر پر عمامہ باندھ کر گھر واپس لوٹتے ہیں تو وقتی طور پر گھر کے اندر خوشی کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے , امید کی کرنیں جاگ اٹھتی ہیں اور ہر ایک کی زبان پر جدید فارغ التحصیل مولوی صاحب کا نام رہتا ہے 
کچھ ہی دنوں بعد مرور وقت کے ساتھ فکر معاش پیدا ہوتی ہے کیوں کہ تقریبا بیس سال تک والدین اور بھائیوں کے رحم و کرم پر جینے والا یہ پاکباز انسان جب فراغت کے بعد گھر پر فارغ بیٹھتے ہیں تو کسی کو اچھا نہیں لگتا ہر ایک کی یہی چاہت ہوتی ہے کہ کہیں معقول مشاہرے پر جاکر دین کی خدمات کرے لیکن مہینوں گزر جانے کے بعد بھی کوئی ایسی مناسب جگہ نہیں مل پاتی ہے جہاں پر دین کا فریضہ انجام دے کر معقول تنخواہ پاسکے الا ماشاءاللہ
کبھی معقول مشاہرہ کا اعلان بھی ہوتا ہے لیکن اس معقول کا لیول منتظمین مساجد نے اتنا کم رکھا ہے کہ ایک عام مزدور اس لیول کو کراس کرکے فخر سے کہتا ہے کہ میں مزدور ہی بہتر ہوں کیوں کہ آج کی اس تاریخ میں ایک مزدور ماہانہ سات آٹھ ہزار روپے باسانی کمالیتا ہے اور ایک عالم دین کی تنخواہ ذمہ داران مساجد نے حسب لیاقت پانچ چھ ہزار مقرر کرکے عوام کی نگاہوں میں ذلت کا باعث بنادیا ہے اور پوشیدہ طور پر یہ پیغام بھی دیا ہے کہ مولوی معاشرے کا ایک کمزور ترین , ناکارہ اور نچلی ذات ہے اس کو جس طریقے سے چاہیں استعمال کریں اور مولوی بے چارے اپنے بال بچوں کی وجہ سے مجبور ہوکر اپنے بڑوں کی نقالی کرتے ہوئے کبھی مردے کے نام پر قرآن خوانی پہ چلے جاتے ہیں کبھی قل , تیجا , دسواں , چہلم وغیرہ میں بڑے شوق سے شریک ہوجاتے ہیں اور کبھی پیٹ کی آگ کو بجھانے کے لئے محلہ محلہ ٹیفن لے کر گھومتے نظر آتے ہیں 
حسب لیاقت اور موجودہ وقت میں ایک مخصوص مقررہ رقم , کیا یہ نبیوں کے وارثین پر ظلم نہیں ہے اور کیا اہل مساجد سمجھ بیٹھے ہیں کہ قیامت کے دن ہم سے بازپرس نہیں ہوگی , کیا لوگوں سے ملنا جلنا نبیوں کا طریقہ نہیں رہا ہے , کیا بغیر ٹوپی مارکیٹ کی طرف نکل جانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کو بنیاد بنا کرکے اس ذات مقدس کو نشانہ بنایا جاسکے ؟؟؟
جو ہستی پانچوں وقت کی امامت پابندی سے کرائے , درس و تدریس کا نظام سنبھالے , خطبے جیسے عظیم ذمہ داری کو نبھائے , محلے کے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ بھی دے , لوگوں کا تزکیہ بھی کرے وہ مصلیان اور دیگر لوگوں کی نظروں میں اس قدر گرے ہوئے ہیں , آخر اس وقت ذمہ داران کی غیرت کہاں مر جاتی ہے جب مولوی صاحب کے ہاتھوں میں ٹیفن تھماکر اہل باری کا گھر بھیجا جاتا ہے اگر کوئی حالات کے تھپیڑوں سے مجبور ہوکر دیار غیر پہنچا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں اپنی مرضی کے موافق استعمال کیا جائے !!
میں انہی حالات کے پیش نظر معزز و محترم علماء سے گزارش کروں گا کہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کی طرف بھی دھیان دیں , ٹیکنیکلی معلومات بھی رکھیں , تجارتی و کاروباری میدان میں بھی اتریں , سلف صالحین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ دعوت دین کے ساتھ ضروریات زندگی کی تکمیل کے لئے اپنا کچھ عمدہ ہنر بھی کام میں لاتے تھے , صنعتی و تجارتی لائن سے بھی بخوبی واقف ہوتے تھے یا پھر گورمنٹ کی طرف سے دینی کاج کو آگے بڑھانے کے لئے مقرر ہوتے تھے اس دور میں بھی دھیرے دھیرے کچھ بیداری آرہی ہے الحمد للہ اور ہمارے کچھ معزز احباب اس طرف بھی آگے بڑھ رہے ہیں جو ہمارے لئے قابل نمونہ ہیں جو الحمد للہ دعوت دین کے ساتھ ساتھ تجارتی و عصری لائن سے بھی جڑے ہوئے ہیں !
ہماری کچھ کوتاہیوں اور مجبوریوں کی وجہ سے جاہل , نا اہل , علم ناشناس , علماء کی قدر و منزلت سے نابلد نظماء غلط فائدہ اٹھانے کی کوششیں کررہے ہیں یہ الگ موضوع ہے کہ جو حالات چل رہے ہیں وہ قرب قیامت کا پیش خیمہ ہے 
یہ جاہل اور نا اہل منتظمین مساجد و مدارس میں اونچے عہدوں پر فائز ہونے کی وجہ سے کتنے مخلص و باصلاحیت علماء ان کمپنیوں کا رخ کر رہے ہیں جن کا کارو بار سود پر مبنی ہوتا ہے جس کی طرف کچھ دنوں پہلے ہمارے بعض قابل قدر بھائی نے اپنے گراں قدر مضمون میں اشارہ کیا تھا اور یہ احساس دلایا تھا کہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کس قدر ضروری ہے اور اس طرح کے کئی قیمتی مضامین ہماری نظروں سے گزر جاتے ہیں اور ہم خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے ہیں المہم ہمارے بعد ہماری نئی نسل آرہی ہے لہذا انہیں بھی دینی و عصری دونوں تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کریں تاکہ دنیا وآخرت میں سرخرو ہوسکے 
( میری اس ناقص رائے سے ہر ایک کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے بس حالات کو دیکھتے ہوئے کچھ باتیں نوک قلم پہ آگئی ہیں باقی گروپ میں معزز علماء موجود ہیں ضرور ہمیں اپنی آراء سے نوازیں گے """:جزاکم اللہ خیرا """"


KYA HADEES YA ITAAT RASUL (S.A.W) KI ZARURAT NAHI ?





یہ آیاتِ قرآنی ان منکرین حدیث کے لیے ہیں جو آپ ﷺ کی ذات کو قابل اطاعت نہیں سمجھتے بلکہ صرف اللہ کی تعلیمات اور قرآن کا پیغام دینے والا سمجھتے ہیں۔۔ ان کے نزدیک آپﷺ کا کام کلام الہٰی کی ترسیل تھا جو انہوں نے سرانجام دے دیا اب صرف قرآن سے ہی ہدایت کے لیے رجوع کرنا چاہیے اور حدیث یا اطاعت رسول ﷺ کی ضرورت نہیں۔۔!!!
---------------------------------------------------------
البقره
1. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌo
البقره، 2: 104
’’اے ایمان والو! (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے) رَاعِنَا مت کہا کرو بلکہ (ادب سے) اُنْظُرْنَا
(ہماری طرف نظرِ کرم فرمائیے) کہا کرو اور (ان کا ارشاد) بغور سنتے رہا کرو، اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہےo‘‘
2. إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلاَ تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِo
البقرة، 2: 119
’’(اے محبوبِ مکرّم!) بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اہلِ دوزخ کے بارے میں آپ سے پرسش نہیں کی جائے گیo‘‘
3. رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الحَكِيمُo
البقرة، 2: 129
’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہےo‘‘
4. وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌقَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَo
البقرة، 2: 143، 144
’’اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم (پرکھ کر) ظاہر کر دیں کہ کون (ہمارے) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی پیروی کرتا ہے (اور) کون اپنے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور بے شک یہ (قبلہ کا بدلنا) بڑی بھاری بات تھی مگر ان پر نہیں جنہیں اﷲ نے ہدایت (و معرفت) سے نوازا، اور اﷲ کی یہ شان نہیں کہ تمہارا ایمان (یونہی) ضائع کردے، بے شک اﷲ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہےo (اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں، سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں، پس آپ اپنا رخ ابھی مسجدِ حرام کی طرف پھیر لیجئے، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو پس اپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو، اور وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے ضرور جانتے ہیں کہ یہ (تحویلِ قبلہ کا حکم) ان کے رب کی طرف سے حق ہے، اور اﷲ ان کاموں سے بے خبر نہیں جو وہ انجام دے رہے ہیںo‘‘
5. كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَo
البقرة، 2: 151
’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھےo‘‘
6. تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَلَوْ شَاءَ اللّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَـكِنِ اخْتَلَفُواْ فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ وَلَوْ شَاءَ اللّهُ مَا اقْتَتَلُواْ وَلَـكِنَّ اللّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُo
البقرة، 2: 253
’’یہ سب رسول (جو ہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے کسی سے اﷲ نے (براهِ راست) کلام فرمایا اور کسی کو درجات میں (سب پر) فوقیّت دی (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جملہ درجات میں سب پر بلندی عطا فرمائی)، اور ہم نے مریم کے فرزند عیسیٰ (ں) کو واضح نشانیاں عطا کیں اور ہم نے پاکیزہ روح کے ذریعے اس کی مدد فرمائی، اور اگر اﷲ چاہتا تو ان رسولوں کے پیچھے آنے والے لوگ اپنے پاس کھلی نشانیاں آ جانے کے بعد آپس میں کبھی بھی نہ لڑتے جھگڑتے مگر انہوں نے (اس آزادانہ توفیق کے باعث جو انہیں اپنے کیے پر اﷲ کے حضور جوابدہ ہونے کے لیے دی گئی تھی) اختلاف کیا پس ان میں سے کچھ ایمان لائے اور ان میں سے کچھ نے کفر اختیار کیا، (اور یہ بات یاد رکھو کہ) اگر اﷲ چاہتا (یعنی انہیں ایک ہی بات پر مجبور رکھتا) تو وہ کبھی بھی باہم نہ لڑتے، لیکن اﷲ جو چاہتا ہے کرتا ہےo‘‘
آل عمران
7. وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَأَنَاْ مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَo
آل عمران، 3: 81
’’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا: کیا تم نے اقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوںo‘‘
8. لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍo
آل عمران، 3: 164
’’بے شک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےo‘‘
9. وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌo
آل عمران، 3: 179
’’اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لیے) چن لیتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائو اور اگر تم ایمان لے آئو، اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لیے بڑا ثواب ہےo‘‘
النساء
10. فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَـؤُلاَءِ شَهِيدًاo
النساء، 4: 41
’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گےo‘‘
11. وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًاo
النساء، 4: 64
’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo‘‘
12. يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُم بُرْهَانٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًاo
النساء، 4: 174
’’اے لوگو! بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے (ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صورت میں ذاتِ حق جل مجدہٗ کی سب سے زیادہ مضبوط، کامل اور واضح) دلیلِ قاطع آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف (اسی کے ساتھ قرآن کی صورت میں) واضح اور روشن نُور (بھی) اتار دیا ہےo
المائدة
13. يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُواْ عَن كَثِيرٍ قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌo يَهْدِي بِهِ اللّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَيُخْرِجُهُم مِّنِ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍo
المائدة، 5: 15، 16
’’اے اہلِ کتاب! بے شک تمہارے پاس ہمارے (یہ) رسول تشریف لائے ہیں جو تمہارے لیے بہت سی ایسی باتیں (واضح طور پر) ظاہر فرماتے ہیں جو تم کتاب میں سے چھپائے رکھتے تھے اور (تمہاری) بہت سی باتوں سے در گزر (بھی) فرماتے ہیں۔ بے شک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)o اﷲ اس کے ذریعے ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے پیرو ہیں، سلامتی کی راہوں کی ہدایت فرماتا ہے اور انہیں اپنے حکم سے (کفر و جہالت کی) تاریکیوں سے نکال کر (ایمان و ہدایت کی) روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں سیدھی راہ کی سمت ہدایت فرماتا ہےo‘‘
الأنعام
14. قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لاَ يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللّهِ يَجْحَدُونَo
الأنعام، 6: 33
’’(اے حبیب!) بے شک ہم جانتے ہیں کہ وہ (بات)یقینا آپ کو رنجیدہ کررہی ہے کہ جو یہ لوگ کہتے ہیں۔ پس یہ آپ کو نہیں جھٹلارہے لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) ظالم لوگ اﷲ کی آیتوں سے ہی انکار کررہے ہیںo‘‘
الأعراف
15. الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَo
الأعراف، 7: 157
’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور اُن سے اُن کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) - جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے - ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیںo
الانفال
16. فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمَى وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاَءً حَسَناً إِنَّ اللّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌo
الانفال، 8: 17
’’(اے سپاہیانِ لشکرِ اسلام!) ان کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کر دیا اور (اے حبیب محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے اور یہ (اس لیے) کہ وہ اہلِ ایمان کو اپنی طرف سے اچھے انعامات سے نوازے، بے شک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہےo‘‘
17. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَo
الانفال، 8: 24
’’اے ایمان والو! جب (بھی) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے قلب کے درمیان (شانِ قربتِ خاصہ کے ساتھ) حائل ہوتا ہے اور یہ کہ تم سب (بالآخر) اسی کی طرف جمع کیے جاؤ گےo‘‘
18. وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَo
الانفال، 8: 33
’’اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوںo‘‘
التوبة
19. قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَo
التوبة، 9: 24
’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتاo‘‘
20. وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَo
التوبة، 9: 59
’’اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم مزید) عطا فرمائے گا۔ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اسی کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے۔ اگر یہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا) o‘‘
21. يَحْلِفُونَ بِاللّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ وَاللّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَن يُرْضُوهُ إِن كَانُواْ مُؤْمِنِينَo
التوبة، 9: 62
’’مسلمانو! (یہ منافقین) تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی رکھیں حالاں کہ اللہ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) زیادہ حقدار ہے کہ اسے راضی کیا جائے اگر یہ لوگ ایمان والے ہوتے (تو یہ حقیقت جان لیتے اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو راضی کرتے، رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے راضی ہونے سے ہی اللہ راضی ہو جاتا ہے کیوں کہ دونوں کی رضا ایک ہے)o‘‘
22. خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاَتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌo
التوبة، 9: 103
’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور انہیں (ایمان و مال کی پاکیزگی سے) برکت بخش دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہےo‘‘
23. لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌo
التوبة، 9: 128
’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیںo‘‘
يونس
24. قُل لَّوْ شَاءَ اللّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلاَ أَدْرَاكُم بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَo
يونس، 10: 16
’’فرما دیجئے: اگر اللہ چاہتا تو نہ ہی میں اس (قرآن) کو تمہارے اوپر تلاوت کرتااور نہ وہ (خود) تمہیں اس سے باخبر فرماتا، بے شک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کرچکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتےo‘‘
25. قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَo
يونس، 10: 58
’’فرما دیجئے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیںبہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیںo‘‘
الحجر
26. لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَکْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَo
الحجر، 15: 72
’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیںo‘‘
الإسراء
27. سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُo
الإسراء، 17: 1
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندہ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo‘‘
28. وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًاo
الإسراء، 17: 79
’’اور رات کے کچھ حصہ میں (بھی قرآن کے ساتھ شب خیزی کرتے ہوئے) نماز تہجد پڑھا کریں یہ خاص آپ کے لیے زیادہ (کی گئی) ہے، یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے)o‘‘
الکهف
29. قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًاo
الکهف، 18: 110
’’فرمادیجئے: میں تو صرف (بخلقتِ ظاہری) بشر ہونے میں تمہاری مثل ہوں (اس کے سوا اور تمہاری مجھ سے کیا مناسبت ہے ذرا غور کرو) میری طرف وحی کی جاتی ہے (بھلا تم میں یہ نوری استعداد کہاں ہے کہ تم پر کلامِ الٰہی اتر سکے) وہ یہ کہ تمہارا معبود ، معبود یکتا ہی ہے پس جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرےo‘‘
طه
30. طٰهٰo مَا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىo
طه، 20: 1، 2
’’طا ھا، (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o (اے محبوبِ مکرّم!) ہم نے آپ پر قرآن (اس لیے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑجائیںo‘‘
الانبياء
31. وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَo
الانبياء، 21: 107
’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کرo‘‘
النور
32. لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌo
النور، 24: 63
’’(اے مسلمانو!) تم رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذاتِ گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)، بے شک اللہ ایسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ میں (دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے) چپکے سے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے امرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آ پہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گاo‘‘
الشعراء
33. الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُo وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَo
الشعراء، 26: 218.219
’’جو آپ کو (رات کی تنہائیوں میں بھی) دیکھتا ہے جب آپ (نمازِ تہجد کے لیے) قیام کرتے ہیںo اور سجدہ گزاروں میں (بھی) آپ کا پلٹنا دیکھتا (رہتا) ہےo‘‘
الاحزاب
34. النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ وَأُوْلُواْ الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَى أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا كَانَ ذَلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًاo
الاحزاب، 33: 6
’’یہ نبیِ (مکرّم) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں اور آپ کی ازواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔ اور خونی رشتہ دار اللہ کی کتاب میں (دیگر) مومنین اور مہاجرین کی نسبت (تقسیمِ وراثت میں) ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں سوائے اس کے کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرنا چاہو، یہ حکم کتابِ (الٰہی) میں لکھا ہوا ہےo‘‘
35. لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًاo
الاحزاب، 33: 21
’’فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونہِ (حیات) ہے ہر شخص کے لئے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہےo‘‘
36. مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًاo
الاحزاب، 33: 40
’’محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اﷲ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں (یعنی سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے) اور اﷲ تعالیٰ سب چیزوں کا جاننے والا ہے (اسے علم ہے کہ ختم رسالت اور ختم نبوت کا وقت آگیا ہے)o‘‘
37. هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًاo
الاحزاب، 33: 43
’’وہی ہے جو تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی، تاکہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لے جائے اور وہ مومنوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہےo‘‘
38. يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاo وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًاo
الاحزاب، 33: 45، 46
’’اے نبِیّ (مکرّم) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)o‘‘
39. إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاo
الاحزاب، 33: 56
’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِّ (مکرمّ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo۔‘‘
سبا
40. وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَo
سبا، 34: 28
’’اور (اے حبیبِ مکرّم) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ (آپ) پوری انسانیت کے لئے خوشخبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں لیکن اکثر لوگ نہیں جانتےo‘‘
فاطر
41. إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خلَا فِيهَا نَذِيرٌo
فاطر، 35: 24
’’بے شک ہم نے آپ کو حق و ہدایت کے ساتھ، خوشخبری سنانے والا اور (آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور کوئی امّت (ایسی) نہیں مگر اُس میں کوئی (نہ کوئی) ڈر سنانے والا (ضرور) گزرا ہےo‘‘
يٰس
42. يسo وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِo إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَo
يٰس، 36: 1-3
’’یا سین (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o حکمت سے معمور قرآن کی قَسمo بے شک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیںo‘‘
الفتح
43. إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًاo لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًاo وَيَنصُرَكَ اللَّهُ نَصْرًا عَزِيزًاo
الفتح، 48: 1-3
’’(اے حبیبِ مکرم!) بیشک ہم نے آپ کے لئے (اسلام کی) روشن فتح (اور غلبہ) کا فیصلہ فرمادیا۔ (اس لئے کہ آپ کی عظیم جدّوجہد کامیابی کے ساتھ مکمل ہوجائے)oتاکہ آپ کی خاطر اللہ آپ کی امّت (کے اُن تمام افراد) کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دے (جنہوں نے آپ کے حکم پر جہاد کئے اور قربانیاں دیں) اور (یوں اسلام کی فتح اور امّت کی بخشش کی صورت میں) آپ پر اپنی نعمت (ظاہراً و باطناً) پوری فرما دے اور آپ (کے واسطہ سے آپ کی امّت) کو سیدھے راستہ پر ثابت قدم رکھےo اور اﷲ آپ کو نہایت باعزت مدد و نصرت سے نوازےo‘‘
44. إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاo لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًاo إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًاo
الفتح، 48 :8-10
’’بے شک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لیے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اﷲ کی صبح و شام تسبیح کروo (اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہو گا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے اﷲ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گاo‘‘
الحجرات
45. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌo يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَo إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌo إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَoوَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌo
الحجرات، 49: 1-5
’’اے ایمان والو! (کسی بھی معاملے میں) اﷲ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) سے آگے نہ بڑھا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو (کہ کہیں رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بے ادبی نہ ہوجائے)، بے شک اﷲ (سب کچھ) سننے والا خوب جاننے والا ہےo اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہوo بے شک جو لوگ رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اﷲ نے تقویٰ کے لیے چُن کر خالص کر لیا ہے۔ ان ہی کے لیے بخشش ہے اور اجرِ عظیم ہےo بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر (آپ کے بلند مقام و مرتبہ اور آدابِ تعظیم کی) سمجھ نہیں رکھتےo اور اگر وہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ہی ان کی طرف باہر تشریف لے آتے تو یہ اُن کے لئے بہتر ہوتا، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہےo‘‘
الطور
46. وَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ تَقُومُo وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِo
الطور، 52: 48، 49
’’اور (اے حبیبِ مکرّم! اِن کی باتوں سے غمزدہ نہ ہوں) آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر جاری رکھئے بیشک آپ (ہر وقت) ہماری آنکھوں کے سامنے (رہتے) ہیں۔ اور آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے جب بھی آپ کھڑے ہوںo اور رات کے اوقات میں بھی اس کی تسبیح کیجئے اور (پچھلی رات بھی) جب ستارے چھپتے ہیںo‘‘
النجم
47. وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىo مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىo وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىo اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ يُّوْحٰیo عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىo ذُوْ مِرَّةط فَاسْتَوٰیo وَ هُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعَلٰیo ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰیo فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىo مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰیo أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَىo وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَة اُخْرٰیo عِندَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَىo عِنْدَهَا جَنَّة الْمَاْوٰیoإِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىo مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰیo لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىo
النجم، 53 :1-18
’’قسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی جب وہ (چشم زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترےo تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی تمہیںاپنے فیضِ صحبت سے صحابی بنانے والے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکےo اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتےo اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہےo ان کو بڑی قوّتوں و الے (رب) نے (براہِ راست) علمِ (کامل) سے نوازاo جو حسنِ مُطلَق ہے، پھر اُس (جلوہ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایاo اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)o پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہو گیاo پھر (جلوہ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ والہ وسلم میںصِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)o پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائیo (اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھاo کیا تم ان سے اِس پر جھگڑتے ہو کہ جو انہوں نے دیکھاo اور بے شک انہوں نے تو اُس (جلوہ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)o سِدرۃ المنتھیٰ کے قریبo اسی کے پاس جنت المآْویٰ ہےo جب نورِ حق کی تجلیّات سِدرَۃ (المنتہیٰ) کو (بھی) ڈھانپ رہی تھیں جو کہ (اس پر) سایہ فگن تھیںo اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)o بے شک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیںo‘‘
الصف
48. وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَ