Saturday, April 14, 2018

معراج۔۔۔ جسمانی یا خوابی۔۔۔!




معراج۔۔۔ جسمانی یا خوابی۔۔۔!
ان دنوں کُچھ بے عقل، عقل پرست آپ کو یہ باور کرواتے نظر آئیں گۓ کہ معراج دراصل خواب میں ہوا تھا، کُچھ یہ کہیں گۓ کہ اصل میں ہجرت مدینہ ہی معراج ہے۔۔۔ ! جبکہ ہم کُچھ دلائل کا زکر کیے دیتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ معراج دراصل جسمانی تھا۔
سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُسورہ الاسراء : 1
وہ کتنی پاکیزہ ہستی ہے جو اپنے بندے کو رات کے تھوڑے سے وقت میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ،جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ، لے گئی تاکہ ہم اسے کچھ نشانات و عجائبات کا مشاہدہ کرائیں۔ بے شک وہ بہت ہی سننے دیکھنے والا ہے۔
پہلی دلیل:
سبحان کا لفظ اس امر کی دلیل ہے کہ یہ خواب اور کشف کی طرح کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ تسبیح کا لفظ ہی امور عظیمہ کے لئے بولا جاتا ہے، اگر یہ واقعہ خواب کا ہوتا پھر یہ کوئی بڑائی یا عظمت کی بات نہ ہوتی۔
دوسری دلیل:
اسریٰ کا لفظ بھی بیداری کی حالت پر بولا جاتا ہے جیسا کہ
حضرت لوط علیہ السلام کو ارشاد ہوتا ہے ”فأسر بأهلك بقطع من الليل واتبع أدبارهم ولا يلتفت منكم أحد وامضوا حيث تؤمرون“ (الحجر 15:65)
پس آپ اپنے گھر والوں کو رات کے کسی حصے میں لے کر نکل جائیں اور خود ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے اور پس جہاں تمہیں حکم دیا جاتا ہے چلے جاؤ
(سورۃ ھود 11:81) میں بھی حضرت لوط علیہ السلام کو یہی ارشاد ہوتا ہے.
حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ کا حکم ہوتا ہے ”ولقد أوحينا إلى موسى أن أسر بعبادي فاضرب لهم طريقا في البحر يبسا لا تخاف دركا ولا تخشى“ (طه 20:77)
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جا، پھر ان کے لیے دریا میں لاٹھی مار کر خشک رستہ بنا دو پھر تم کو نہ تو فرعون کے آپکڑنے کا خوف ہو گا اور نہ غرق ہونے کا ڈر
فأسر بعبادي ليلا إنكم متبعون“ (الدخان 44:23)
حکم ہوا کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل پڑو، تمہارا پیچھا کیا جائے گا
وأوحينا إلى موسى أن أسر بعبادي إنكم متبعون“ (الشعراء 26:52)
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جاؤ کہ تمہارا پیچھا کیا جانے والا ہے
درج بالا سب مقامات پر اسری کو روح اور جسد کے مجموعے پر بولا گیا ہے.
اور قاضی عیاض فرماتے ہیں لانہ لایقال فی النوم اسریٰ (شفاص 191) کہ یہ واقعہ معراج جسم کے ساتھ ہے کیونکہ اسریٰ کا لفظ خواب پر نہیں بولا جاتا۔
تیسری دلیل:
(عبد) فان العبد عبارۃ عن مجموع الروح و الجسد(تفسیر ابن کثیر )
عبد کہتے ہی روح مع الجسد کو ہیں۔ جس روح کے ساتھ جسم نہ ہو، اسے عبد نہیں کہتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ معراج جسمانی تھا۔ یہ تین دلیلیں تو سورہ بنی اسرائیل کی آیت سے ہیں ۔
چوتھی دلیل:
قرآن سے ہی چوتھی دلیل معراج جسمانی کی سورۃ النجم میں ہے:
ما ذا غ البصر و ما طغیٰ (معراج کی رات) آسمان پر نبی کی آنکھ نے واقعات دیکھنے میں کوئی غلطی یا بے احتیاطی نہیں کی۔
یعنی جو کچھ دیکھا بچشم جسم دیکھا ہے یہ بھی دلیل ہے کہ معراج جسمانی تھا۔ کیونکہ خواب یا کشف کا تعلق دماغ یا دل سے ہے، نہ کہ آنکھ سے۔ اور لفظ بصر جسمانی نگاہ کے لئے آتا ہے، خواب یا دل کے دیکھنے کو بصر نہیں کہتے۔
پانچویں دلیل: ۔
اس آیت کی تفسیر ترجمان قرآن حضرت ابن عباس رحمۃ اللہ علیہ نے یوں کی ہے۔
حدثنا الحميدي حدثنا سفيان حدثنا عمرو عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس قال هي رؤيا عين أريها رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة أسري به إلى بيت المقدس قال والشجرة الملعونة في القرآن قال هي شجرة الزقوم“ (صحيح البخاری كتاب مناقب الأنصار باب المعراج روایت نمبر 3888)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس فرمایا کہ اس میں رؤیا سے مراد آنکھ سے دیکھنا ہے . جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کو معراج کی رات میں د کھایا گیا تھا جس میں آپ کو بیت المقدس تک لے جایا گیا تھا اور قرآن مجید میں”الشجرۃ الملعونۃ“سے مراد تھوہڑ کا درخت ہے۔
چھٹی دلیل:
بخاری شریف میں ہی باب حدیث الاسرا میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے لما کذبنی قریش قمت فی الحجر فجلی اللہ لی بیت المقدس فطغت اخبرھم عن آیاتہ وانا انظر الیہ
کہ جب کفار مکہ نے میرے اس سفر کو جھٹلایا اور مجھ سے بیت المقدس کے متعلق سوال شروع کر دیے تو اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے بیت المقدس کر دیا میں اسے دیکھ کر بتاتا جا رہا تھا۔
یعنی کفار نے اس معراج کے جسم کے ساتھ ہونے کا ہی انکار کیا تھا ورنہ خواب کی بات کو جھٹلانے کا کوئی تک ہی نہیں تھا کیونکہ خوابوں میں کئی مرتبہ عام انسان بھی اپنے آپ کو پرواز کرتے اور آسمان پر جاتے ہوئے بھی دیکھ سکتا ہے۔ اس پر کوئی تعجب نہیں ہوتا۔ کفار کو تعجب تو تب ہوا جب آپ نے کہا کہ میں اس جسم کے ساتھ گیا تھا۔ کفار کا یہ رد عمل ہی اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جسم کے ساتھ معراج کا دعویٰ کیا تھا۔
ساتویں دلیل:
اس حدیث کے تحت فتح الباری میں بحوالہ بیہقی فی الدلائل فرماتے ہیں :
کہ کفار نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس رات کے سفر کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ سچے ہیں۔ تو پھر انہوں نے تعجب سے کہا کہ تو ایک ہی رات میں شام سے ہو کر واپس آنے کی بھی تصدیق کرتا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں تو اس سے بڑی بات کی بھی تصدیق کرتا ہوں کہ ان کے پاس آسمان سے بھی پیغام آتے ہیں۔
غور فرمائیے خواب پر کسی کو تعجب کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، تعجب تو ہوتا ہی تب ہے کہ جب کوئی یہ کہے کہ میں اس جسم کے ساتھ وہاں سے ہو کر واپس آ گیا ہوں۔
آٹھویں دلیل:
اسی حدیث کے تحت فتح الباری میں بحوالہ مسند ابو یعلیٰ فرماتے ہیں ۔ ام ھانی کہتی ہیں کہ کفار نے بیت المقدس کے متعلق سوال کرنے شروع کر دیے جسے آپ دیکھ کر بتا رہے تھے تو پھر کفار نے پوچھا کہ ہمارا ایک قافلہ شام سے آ رہا ہے وہ کہاں ملا۔ آپ نے فرمایا کہ فلاں مقام پر ملا لیکن ان کا ایک اونٹ گم تھا اور آپ نے ان کے اونٹوں کی تعداد بھی بتائی جس کی کفار نے آکر تصدیق کی۔
یعنی کفار کو آپ کے جسمانی سفر پر اعتراض تھا تب ہی قافلہ کے بارے میں پوچھا۔ روحانی سفر پر کبھی کسی نے اعتراض کیا ہی نہیں۔
نویں دلیل:
کہ آپ کو آسمان کے سفر سے پہلے بیت المقدس تک کا سفر کرایا گیا یعنی کچھ حصہ زمین کا سفر باقی آسمان کا سفر۔ کیونکہ آسمان کے سفر کو اگر خانہ کعبہ سے ہی شروع کرا دیا جاتا تو کافر بالکل انکار کر دیتے جس کی تصدیق نہ ہو سکتی۔ جب آپ نےمکہ سے بیت المقدس کے سفر کے حالات بتا دیے تو ان کو اسے ٹھیک ماننا پڑا تاکہ سفر کے دوسرے حصہ جو آسمان کا سفر تھا اس کی بھی تصدیق کریں۔ چنانچہ مومنوں کے لیے ایمان میں اضافہ کا سبب ہوا۔ اگر یہ خواب میں ہی ہوا ہوتا تو اس تصدیق وغیرہ کے چکر کی ضرورت ہی نہ تھی۔
دسویں دلیل:
تفسیر ابن کثیر میں حضرت ابو سفیان سے مروی ہے ایک واقعہ لکھا ہے (بحوالہ ابو نعیم فی دلائل النبوۃ) کہ ہمیں قیصر روم نے اپنے دربار میں طلب کیا اس وقت ابھی ابو سفیان مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ میں نے دوران گفتگو قیصر سے کہا کہ اگرچہ اس سے پہلے کبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹ نہیں سنا البتہ اب اس نے ایک ایسی بات کی ہے جس کو سچ کہا ہی نہیں جا سکتا۔ وہ کہتا ہے کہ میں ایک ہی رات میں مسجد خانہ کعبہ سے مسجد اقصیٰ تک جا کر واپس آیا ہوں۔ دربار قیصر میں ایک پادری بیٹھا تھا فورا بول اٹھا اس رات کا مجھے علم ہے۔ قیصر نے پوچھا وہ کیسے؟ پادری نے کہا میں ہمیشہ مسجد کے دروازے بند کر کے سویا کرتا تھا۔ میں نے اس رات تمام دروازے بند کر دئے مگر ایک دروازہ بند نہ ہوا۔ میں نے ملازمین وغیرہ کی امداد سے بند کرنا چاہا لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ بالآخر مستری کو بلایا گیا۔ اس نے کہا اس پر بالائی دیوار کا بوجھ پڑ گیا ہے۔ اس لیے اب اسے حرکت نہیں دے سکتے۔ صبح غور کریں گے۔ چنانچہ دروازہ کھلا ہی چھوڑ دیا۔ صبح آیا تو مسجد کے دروازے کے کنارے ایک پتھر میں سوراخ دیکھا اور اس میں سواری باندھنے کے آثار معلوم ہوتے تھے۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا آج رات دروازہ بند نہ ہونے کی یہی وجہ تھی رات یہاں کوئی خدا کا نبی آیا ہے جس نے یہاں نماز پڑھی ہے اور دروازہ میں کوئی نقص نہ تھا۔
تلک عشرۃ کاملۃ


No comments:

Post a Comment