Saturday, April 14, 2018

*معجزہ معراج*





*معجزہ معراج*
تحریر........... ابو طلحہ سندھی
معجزہ عجز سے نکلا ہے جسکا معنیٰ ہے عاجز کردینے والا یعنی جو عقل انسانی کوعاجز کردے
اور اصطلاح شرع میں کسی نبی کا ایسا فعل جو عقل انسانی کو عاجز کردے اسے معجزہ کہتے ہیں دوسرے لفظوں میں اسکی تعریف یوں بھی کی گئی ہے " وہ عجیب و غریب کام جو عادةً ناممکن ہو یعنی جسکا عادةً ہونا ممکن نہ ہو اور ظاھری عادات واسباب کے خلاف اور بالاتر ہو اگر ایسا کام کسی نبی سے صادر ہو تو اسے معجزہ کہتے ہیں"
مثلاً درخت عادةً چلتے نہیں، پہاڑ حرکت نہیں کرتے،پھتر بولتے نہیں،جانور کلام نہیں کرتے،مردہ زندہ نہیں ہوا کرتے،چاند کسی کے اشارہ سے پھٹا نہیں کرتا، ڈوبا پوا سورج واپس آیا نہیں کرتا،انسانی انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہوا نہیں کرتے،لاٹھی سانپ بن نہیں سکتی،پھتر سے زندہ اونٹنی نکل نہیں سکتی اور آن واحد میں فرش سے عرش تک کوئی جا نہیں سکتا یہی نظامِ فطرت اور قانونِ قدرت ہے اور یہی اشیاء کی عادت ہے
لیکن اگر کسی نبی علیہ السلام کے حکم سے درخت چلنے لگ جائیں،پہاڑ حرکت میں آجائیں،پتھر بولنے اور کلمہ پڑھنے لگ جائیں،جانور نبی علیہ السلام سے فریاد کرنے لگیں،مردہ زندہ ہوجائیں،اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہو جائے،ڈوبا ہوا سورج واپس آجائے،انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہو جائیں،لاٹھی سانپ بن جائے تو یہ سارے کام ظاھری عادات و اسباب کے خلاف اور بالاتر ہیں اسی کو معجزہ کہا جاتا ہے
چونکہ معجزہ نبی کی نبوت کا دلیل ہوا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو معجزہ عطا فرمایا ان معجزات کو دیکھ کر لوگ نبی کی نبوت کی طرف مائل ہوتے ہیں اور انکی نبوت کا یقین کرلیتے ہیں اور جو حقیقت پسند ہوتے ہیں جنکے سینوں میں تعصب نہیں ہوتا وہ سچا نبی مان کر ایمان لے آتے ہیں
لیکن جو ازلی بدبخت اور پیدائشی بدنصیب ہوتے ہیں جنکے آنکھوں میں تعصب کےپردے ہوتے ہیں وہ ان معجزات کو دیکھ کر بھی ایمان کی دولت سے محروم رہتے ہیں
مثلاً حضرت ابراھیم علیہ السلام پر بھڑکتے آگ کے شعلوں کو پھول بنتا دیکھ کر بھی نمرود بدبخت ایمان سے محروم رہا
عصائے موسیٰ علیہ السلام کو اژدھا بنتا دیکھ کر اور ید بیضاء کی روشنی دیکھ کر بھی فرعون کی آنکھوں میں کفر وشرک کی سیاہی میں نورِ ایمان کی چمک پیدا نہ ہوسکی
ھمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی کے اشارے سے آسمان پر چاند کے دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی ابولھب اور ابو جھل کے دل کفر کی سیاہی سے نہ نکل سکے اور انکے دلوں میں ایمان کی شعائیں داخل نہ ہوسکیں کیونکہ وہ ازلی بدبخت اور بدنصیب تھے
پھر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو انکی امت کے مزاج اس دور کے ماحول اور انکی عقل و فھم کی مناسبت سے معجزات عطا فرمائے
مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں جادو عروج پر تھا جادو اور ساحرانہ کارنامے اپنی ترقی کی اعلیٰ ترین منزل پر پنہنچے ہوئے تھے تو جادو کے توڑ کیلئے اللہ تعالیٰ نے آپکو عصا کا معجزہ عطا فرمایا یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دیتے تو بہت بڑا اژدھا بن جاتا جسکے کے آگے سارے جادوگروں کا جادو ناکام ہو جاتا
حضرت عیسٰی علیہ السلام جس دور میں دنیا میں تشریف لائے اس وقت علمِ طب انتھائی ترقی پر پنہنچا ہوا تھا اس دور کے اطباء نے بڑے بڑے امراض کا کامیاب علاج کرکہ اپنی فنی مھارت سے انسانوں کو حیران کر رکھا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس دور کے ماحول کی مناسبت اور ان طبیبوں کے کمال کا توڑ کرنے کیلئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مادرزاد(پیدائشی) اندھوں کو بینا کرنے،کوڑہ والوں کو کوڑہ کی بیماری سے شفا دینے اور مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ عطا فرمایا
آپکے یہ معجزات دیکھ کر اسوقت کے طبیبوں اور حکیموں کے ھوش اڑ گئے اور حیران و ششدر ہوکر رہ گئے بالآخر ان معجزات کو انسانی کمالات سے بالاتر جان کر آپکی نبوت کا اقرار کیا
اسی طرح حضرت صالح علیہ السلام کا دور سنگ تراشی اور مجسمہ سازی کا دور تھا اور اس فن کا بہت چرچہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے اسکے مقابلے میں آپکو یہ معجزہ عطا فرمایا کہ آپ نے اپنی قوم کے اصرار پر پھاڑ کی ایک چٹان کی طرف اشارہ کیا تو وہ چٹان شق ہوئی اور اس میں سے ایک بہت خوبصورت اور تندرست اونٹنی باھر نکل آئی
پھتر سے مجسمہ بنانا آسان تھا لیکن پھتر سے زندہ اونٹنی نکالنا یہ بہت بڑا کمال اور انسانی طاقت سے بالاتر تھا
اسی طرح جب ھمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تب شعرو شاعری کا دور دورہ تھا عرب میں بڑے بڑے فصیح و بلیغ شعراء تھے جو بیٹھے بیٹھے بڑے بڑے قصیدے لکھ لیا کرتے تھے شعر وشاعری کے مقابلوں کیلئے بڑے بڑے میلے لگاکرتے تھے ان میں ایک سے بڑھکر ایک نامور ادیب اور شاعر موجود تھا انکو اپنی شعرو شاعری اور فصاحت و بلاغت پر اتنا ناز تھا کہ اپنے سوائے دوسروں کو اعجمی یعنی گونگا سمجھتے تھے
تو اللہ تعالیٰ نے آپکو دیگر بیشمار معجزات کے ساتھ ساتھ اس ماحول کی مناسبت سے فصاحت و بلاغت سے بھرپور قرآن پاک کا معجزہ عطا فرمایا جسکے آگے انکی ساری فصاحت و بلاغت اورفن شاعری دھرے کا دھرہ رہ گیا اور قرآن پاک نے عرب کے ان تمام فصحاء و بلغاء کو چیلنج دیتے ہوئے فرمایا
وَ اِن
ۡ کُنۡتُمْ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثْلِہٖ ۪ وَادْعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیۡنَ﴿بقرہ۲۳
اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے( اس خاص ) بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آؤ اور اللّٰہ کے سوا اپنے سب حمائتیوں کو بلالو اگر تم سچے ہو.
قرآن پاک کے اس چیلنج کو عرب کے ان بڑے بڑے فصیح و بلیغ شعراء نے سنا اور انہوں نے سر توڑ کوششیں کیں لیکن چودہ سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ وہ لوگ قرآن کے مثل ایک سورت تو کیا ایک آیت بھی نہ بناسکے
قرآن پاک کے آگے انکی ساری فصاحت وبلاغت انکے سارے علوم و کمالات ہیچ ہوگئے
بالآخر لاچار ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے "ماھٰذا کلام البشر" یعنی یہ کسی بشر کا کلام نہیں ہوسکتا
تیرے آگے یوں ہی دبے لچے
فصحاء عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زبان نہیں
نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں لھٰذا آپکا دور نبوت بھی قیامت تلک ہے
اور ایک نبی کے کمالات اپنے دورِ نبوت کے تمام انسانوں کے کمالات سے بڑھکر ہوتے ہیں
اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ آگے چل کر حضرت انسان بہت ترقی کریگا سائنس اور ٹیکنالاجی میں اتنی تیزی سے ترقی کریگا کہ چاند تک پنہنچ جائیگا تیز رفتار ھوائی جہازوں کے ذریعے بہت کم وقت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پنہنچنے کے کمالات کر دکھائے گا
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہوا میں اڑنے یا چاند تک پنہنچے والا انسان یہ دعویٰ کر بیٹھے کہ میرا کمال نبی کے کمال سے بڑھکر ہے لھٰذا اللہ تعالیٰ نے آپکو معراج جیسا محیرالعقول(عقلوں کو حیران کردینے والا) معجزہ عطا فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ایک قلیل وقت میں مسجدالحرام سے مسجد اقصیٰ تک پھر وہاں سے ساتوں آسمانوں بلکہ اس سے بھی آگے لامکاں تک جا پنہنچے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا جنت و جھنم کو بھی ملاحظہ فرمایا ساتوں آسمانوں کی سیر کی، اتنا طویل سیر سفر کرنے کے بعد واپس آئے تو بستر بھی گرم تھا اور وضو کا پانی بھی جاری تھا
اب انسان کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے اتنا تیز رفتار سفر نہیں کرسکتا
اب انسان چاند تو کیا سورج تک بھی پنہنچ جائے آسمانوں تک پنہنچنے کا دعویٰ کرے پھر بھی ھمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کا مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ ھمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج اس سے بھی آگے تک ہے
الغرض معراج میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم معجزہ ہے کہ تاقیامت کوئی بھی انسان اس سے بڑھ کر کمالات دکھاکر اسکا توڑ نہیں کرسکتا.


No comments:

Post a Comment