Saturday, April 14, 2018

کیا واقعہ معراج سائنسی طور پر غلط ہے؟





کیا واقعہ معراج سائنسی طور پر غلط ہے؟
واقعہ معراج پر ملحدین کے سائنسی اعتراضات اور ان کے جوابات
تدوین و ترتیب۔۔۔احید حسن
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
کہا جاتا ہے کہ موجودہ سائنس انسانی شعور کے ارتقاء کا عروج ہے لیکن سائنس دان اور دانشور یہ حقیقت تسلیم کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ انسان قدرت کی ودیعت کردہ صلاحیتوں کا ابھی تک صرف پانچ فیصد حصہ استعمال کرسکا ہے ۔قدرت کی عطا کردہ بقیہ پچانوے فیصد صلاحیتیں انسان سے پوشیدہ ہیں ۔ وہ علم جو سو فیصد صلاحیتوں کا احاطہ کرتا ہو،اُسے پانچ فیصد ی محدود ذہن سے سمجھنا ناممکن امر ہے۔واقعہ معراج ایک ایسی ہی مسلمہ حقیقت ہے اور علم ہے جو سائنسی توجیہ کا محتاج نہیں ہے۔
یہی باتیں جب مخبر ِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی دور میں قریش کے سامنے ارشاد فرمائیں تو ناقابلِ یقین اور بعید از ممکنات تھیں۔
سورہ بنی اسرائیل میں لفظ ”سبحان الذی“ سے ابتداءخود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ غیر معمولی واقعہ تھا جو فطرت کے عام قوانین سے ہٹ کر واقع ہوا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی قدرت کا کرشمہ دکھانا مقصود تھا۔ لہٰذا رات کے ایک قلیل حصے میں یہ عظیم الشان سفر پیش آیا۔ اور یہ وقت زمان و مکان کی فطری قیود سے آزاد تھا۔ اس بات کا سمجھنا آج کے انسان کے لیے نسبتاً آسان ہے۔
بیت الحرام (مکہ) سے مسجد ِ اقصیٰ (فلسطین) کا زمین کا سفر جسے اسراءکہا جاتا ہے ، سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے براق پر کیا۔ براق، برق (بجلی) سے مشتق ہے جس کی سُرعت ِ رفتار سائنس دانوں نے ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ بتائی ہے۔ جب برق کی یہ سرعت ہوسکتی ہے تو بُراق جو اللہ تعالیٰ کا راکٹ تھا اس کی تیز رفتاری اور سبک سری پر کیوں شک کیا جائے؟ غرض سفرِ معراج اللہ جل جلالہ اور خالقِ کائنات کی غیر محدود قوت اور قدرت ِ کاملہ کا مظاہرہ تھا جس نے انسان کو ایک نیا نظریہ دیا اور تاریخ پر اپنا مستقل اثر چھوڑا۔ آج کی خلائی تسخیر، چاند پر اترنے کی کامیاب کوشش سب واقعہ معراج سے تعلق رکھتی ہیں۔
واقعہ معراج اگر خواب ہوتا تو اس میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ خواب میں اکثر انسان مافوق الفطرت اور محیرالعقول باتیں دیکھتا ہی ہے۔ خواب کو نہ آج تک کسی نے اس درجہ اہمیت دی اور نہ وہ اس کا مستحق ہے۔
آئن سٹائن کا نظریہ اضافت یا تھیوری آف ریلیٹویٹی دو حصوں پر مبنی ہے ۔ ایک حصہ " نظریہ اضافیت خصوصی"(Special Theory of Relativity) کہلاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ " نظریہ اضافیت عمومی " (General Theory of Relativity) کے نام سے پہچانا جاتا ہے ۔ خصوصی نظریہ اضافیت کو سمجھنے کے لیے ہم ایک مثال کا سہارا لیں گے۔
فرض کیجئے کہ ایک ایسا راکٹ بنا لیا گیا ہے جو روشنی کی رفتار (یعنی تین لاکھ کلومیٹر فی سکینڈ)سے ذرا کم رفتار پر سفر کرسکتا ہے ۔ا س راکٹ پر خلا ء بازوں کی ایک ٹیم روانہ کی جاتی ہے ۔راکٹ کی رفتار اتنی زیادہ ہے کہ زمین پر موجود تمام لوگ اس کے مقابلے میں بے حس وحرکت نظر آتے ہیں ۔ راکٹ کا عملہ مسلسل ایک سال تک اسی رفتار سے خلاء میں سفر کرنےکے بعد زمین کی طرف پلٹتا ہے اوراسی تیزی سے واپسی کا سفر بھی کرتا ہے مگر جب وہ زمین پر پہنچتے ہیں تو انہیں علم ہوتا ہے کہ یہاں تو ان کی غیر موجودگی میں ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے ۔اپنے جن دوستوں کو وہ لانچنگ پیڈ پر خدا حافظ کہہ کر گئے تھے ،انہیں مرے ہوئے بھی پچاس برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور جن بچوں کو وہ غاؤں غاؤں کرتا ہوا چھوڑ گئے تھے وہ سن رسیدہ بوڑھوں کی حیثیت سے ان کا استقبال کررہے ہیں ۔وہ شدید طور پر حیران ہوتے ہیں کہ انہوں نے تو سفر میں دو سال گزارے لیکن زمین پر اتنے برس کس طرح گزر گئے ۔اضافیت میں اسے " جڑواں تقاقضہ" (Twins Paradox) کہا جاتا ہے اور اس تقاقضے کا جواب خصوصی نظریہ اضافیت "وقت میں تاخیر" (Time Dilation) کے ذریعے فراہم کرتا ہے۔ جب کسی چیز کی رفتار بے انتہاء بڑھ جائے اور روشنی کی رفتار کے قریب پہنچنےلگے تو وقت ساکن لوگوں کے مقابلے میں سست پڑنا شروع ہوجاتا ہے ،یعنی یہ ممکن ہے کہ جب ہماری مثال کے خلائی مسافروں کے لئے ایک سکینڈ گزرا ہو تو زمینی باشندوں پر اسی دوران میں کئی گھنٹے گزر گئے ہوں۔
اسی مثال کا ایک اور اہم پہلو یہ ہےکہ وقت صرف متحرک شے کے لئے آہستہ ہوتا ہے ۔لہٰذا اگر کوئی ساکن فرد مذکورہ راکٹ میں سوار اپنے کسی دوست کا منتظر ہے تو ا س کے لیے انتظار کے لمحے طویل ہوتے چلے جائیں گے ۔یہی وہ مقام ہے جہاں آکر ہم نظریہ اضافیت کے ذریعے واقعہ معراج کی توجیہ میں غلطی کرجاتے ہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب آنحضرت ﷺ معراج کے سفر سے واپس آئے تو حجرہ مبارک کے دروازے پرلٹکی ہوئی کنڈی اسی طرح ہل رہی تھی جیسے کہ آپ ﷺ چھوڑ کر گئے تھے۔گویا اتنے طویل عرصے میں زمین پر ایک لمحہ بھی نہیں گزرا ۔اگر خصوصی نظریہ اضافیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس واقعے کی حقانیت جاننے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہو گا کہ اصلاً زمین پر آنحضرت ﷺ کی غیر موجودگی میں کئی برس گزر جانے چاہئیں تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
نظریہ اضافیت ہی کا دوسرا حصہ یعنی "عمومی نظریہ اضافیت " ہمارے سوا ل کا تسلی بخش جواب دیتا ہے ۔عمومی نظریہ اضافیت میں آئن سٹائن نے وقت (زمان)اور خلاء (مکان)کو ایک دوسرے سے مربوط کرکے زمان ومکان (Time and Space)کی مخلوط شکل میں پیش کیا ہے اور کائنات کی اسی انداز سے منظر کشی کی ہے ۔کائنات میں تین جہتیں مکانی (Spatial Dimensions) ہیں جنہیں ہم لمبائی ،چوڑائی اور اونچائی (یاموٹائی )سے تعبیر کرتےہیں ،جب کہ ایک جہت زمانی ہے جسے ہم وقت کہتے ہیں ۔ اس طرح عمومی اضافیت نے کائنات کو زمان ومکان کی ایک چادر (Sheet)کے طور پر پیش کیا ہے ۔
تمام کہکشائیں ،جھرمٹ ،ستارے ،سیارے ،سیارچے اور شہابئے وغیرہ کائنات کی اسی زمانی چادر پر منحصر ہیں اور قدرت کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے تابع ہیں ۔ انسان چونکہ اسی کائنات مظاہر کا باشندہ ہے لہٰذا اس کی کیفیت بھی کچھ مختلف نہیں ۔آئن سٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کے تحت کائنات کےکسی بھی حصے کو زمان ومکان کی اس چادر میں ایک نقطے کی حیثیت سے بیان کیا جاسکتا ہے ۔اس نظریے نے انسان کو احساس دلایا ہےکہ وہ کتنا بے وقعت اور کس قدر محدود ہے ۔
کارل ساگان (Carl Sagan) جو ایک مشہورامریکی ماہر فلکیات ہے ،اپنی کتاب "کائنات" (Cosmos) میں ایک فرضی مخلوق کا تصور پیش کرتا ہے جو صرف دو جہتی ( Two Dimensional) ہے۔ وہ میز کی سطح پر پڑنے والے سائے کی مانندہیں ۔ انہیں صرف دو مکانی جہتیں ہی معلوم ہیں ۔ جن میں وہ خود وجود رکھتے ہیں یعنی لمبائی اور چوڑائی ۔چونکہ وہ ان ہی دو جہتوں میں محدود ہیں لہٰذا وہ نہ تو موٹائی یا اونچائی کا ادراک کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کے یہاں موٹائی یا اونچائی کا کوئی تصور ہے ۔وہ صرف ایک سطح (Surface) پرہی رہتے ہیں ۔ایسی ہی کسی مخلوق سے انسان جیسی سہ جہتی (Three Dimensional) مخلوق کی ملاقات ہو جاتی ہے ۔راہ ورسم بڑھانے کے لئے سہ جہتی مخلوق ،اس دو جہتی مخلوق کو آواز دے کر پکارتی ہے ۔اس پر دوجہتی مخلوق ڈر جاتی اور سمجھتی ہے کہ یہ آواز اس کے اپنے اندر سے آئی ہے۔
سہ جہتی مخلوق ،دوجہتی سطح میں داخل ہوجاتی ہے تاکہ اپنا دیدار کرا سکے مگر دو جہتی مخلوق کی تمام تر حسیات صرف دو جہتوں تک ہی محدود ہیں ۔اس لیے وہ سہ جہتی مخلوق کے جسم کا وہی حصہ دیکھ پاتی ہے جواس سطح پر ہے ۔وہ مزید خوف زدہ ہو جاتی ہے ۔اس کا خوف دور کرنے کے لیے سہ جہتی مخلوق ،دو جہتی مخلوق کو اونچائی کی سمت اٹھا لیتی ہے اور وہ اپنی دینا والوں کی نظر میں "غائب " ہوجاتا ہے جبکہ وہ اپنے اصل مقام سے ذرا سا اوپر جاتا ہے ۔سہ جہتی مخلوق اسے اونچائی اور موٹائی والی چیزیں دکھاتی ہے اور بتاتی ہےکہ یہ ایک اور جہت ہے جس کا مشاہدہ وہ اپنی دو جہتی دنیا میں رہتے ہوئے نہیں کرسکتا تھا۔آخرکار دو جہتی مخلوق کو اس کی دنیا میں چھوڑ کر سہ جہتی مخلوق رخصت ہو جاتی ہے ۔اس انوکھے تجربے کے بارے میں جب یہ دوجہتی مخلوق اپنے دوستوں کو بتاتی ہے اور کہتی ہے کہ اس نے ایک نئی جہت کا سفر کیا ہے جسے اونچائی کہتے ہیں ،مگر اپنی دنیا کی محدودیت کے باعث وہ اپنے دوستوں کو یہ سمجھانے سے قاصر ہے کہ اونچائی والی جہت کس طرف ہے ۔اس کے دوست اس سے کہتے ہیں کہ آرام کرو اور ذہن پر دباؤ نہ ڈالو کیونکہ ان کے خیال میں اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔
ہم انسانوں کی کیفیت بھی دوجہتی سطح پر محدود اس مخلوق کی مانند ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ ہماری طبعی قفس (Physical Prison) چہار جہتی ہے اور اسے ہم وسیع و عریض کائنات کے طو پر جانتے ہیں ۔ہماری طرح کائنات میں روبہ عمل طبعی قوانین بھی ان ہی چہار جہتوں پر چلنے کے پابند ہیں اور ان سے باہر نہیں جا سکتے ۔یہی وجہ ہے کہ عالم بالا کی کائنات کی تفہیم ہمارے لیے ناممکن ہے او ر اس جہاں دیگر کے مظاہر ہمارے مشاہدات سےبالاتر ہیں ۔
اب ہم واپس آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف ۔عالم دنیا یعنی قابل مشاہدہ کائنات اور عالم بالا یعنی ہمارے مشاہدے و ادراک سے ماوراء کائنات دو الگ زمانی و مکانی چادریں ہیں ۔یہ ایک دوسرے کے قریب توہو سکتی ہیں لیکن بے انتہاء قربت کے باوجود ایک کائنات میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا دوسری کائنات میں ہونے والے عمل پر نہ اثر پڑے گا اور نہ اسے وہاں محسوس کیا جائے گا۔
حضور اکرم ﷺ زمان ومکان کی کائناتی چادر کے ایک نقطے پر سے دوسری زمانی ومکانی چادر پر پہنچے اور معراج کے مشاہدات کے بعد (خواہ اس کی مدت کتنی ہی طویل کیوں نہ رہی ہو)آنحضرت ﷺ زمان ومکان کی کائناتی چادر کے بالکل اسی نقطے پر واپس پہنچ گئے جہاں آپ ﷺ معراج سے قبل تھے۔ او ریہ وہی نقطہ تھا جب آنحضرت ﷺ کو دروازے کی کنڈی اسی طرح ہلتی ہوئی ملی جیسی کہ وہ چھوڑ کر گئے تھے۔گویا معراج کے واقعے میں وقت کی تاخیر کی بجائے زمان ومکان میں سفر والا نظریہ زیادہ صحیح محسوس ہوتا ہے۔
واقعہ معراج بعض لوگوں کی سمجھ میں اس لیےنہیں آتا کہ وہ کہتے ہیں کہ
ایسے فضائی سفر میں پہلی رکاوٹ کشش ثقل ہے کہ جس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے غیر معمولی وسائل و ذرائع کی ضرورت ہے کیونکہ زمین کے مدار اور مرکز ثقل سے نکلنے کے لیے کم از کم چالیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار کی ضرورت ہے ۔
دوسری رکاوٹ یہ ہے کہ زمین کے باہر خلا میں ہوا نہیں ہے جبکہ ہوا کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا ۔
تیسری رکاوٹ ایسے سفر میں اس حصے میں سورج کی جلادینے والی تپش ہے کہ جس حصے پر سورج کی مستقیماً روشنی پڑ رہی ہے اور اس حصے میں مار ڈالنے والی سردی ہے کہ جس میں سورج کی روشنی نہیں پڑرہی ۔
اس سفر میں چوتھی رکاوٹ وہ خطر ناک شعاعیں ہیں کہ فضائے زمین سے اوپر موجود ہیں مثلاً کاسمک ریز Cosmic Rays الٹراوائلٹ ریز Ultra Violet Rays اور ایکس ریز X-Rays ۔ یہ شعاعیں اگر تھوڑی مقدار میں انسانی بدن پر پڑیں تو بدن کے آرگانزم Organism کے لیے نقصان وہ نہیں ہیں لیکن فضائے زمین کے باہر یہ شعاعیں بہت تباہ کن ہوتی ہیں ۔ (زمین پر رہنے والوں کے لیے زمین کے اوپر موجود فضا کی وجہ سے ان کی تابش ختم ہوجاتی ہے) ۔
ایک اور مشکل اس سلسلے میں یہ ہے کہ خلامیں انسان بے وزنی کی کیفیت سے دوچار ہوجاتا ہے اگر چہ تدریجاً بے وزنی کی عادت پیدا کی جاسکتی ہے لیکن اگر زمین کے باسی بغیر کسی تیاری اور تمہید کے خلامیں جا پہنچیں تو بے وزنی سے نمٹنا بہت ہی مشکل یا ناممکن ہے ۔
آخری مشکل اس سلسلے میں زمانے کی مشکل ہے اور یہ نہایت اہم رکاوٹ ہے کیونکہ دور حاضر کے سائنسی علوم کے مطابق روشنی کی رفتار ہر چیز سے زیادہ ہے اور اگر کوئی شخص آسمانوں کی سیر کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہو۔
ہمارا مشاہد ہ ہے کہ روشنی کی رفتار سے بہت کم رفتار پر زمین پر آنے والے شہابئے ہوا کی رگڑ سے جل جاتے ہیں اور فضاء ہی میں بھسم ہو جاتے ہیں تو پھر یہ کیوں کرممکن ہے کہ حضور ﷺ اتنا طویل سفر پلک جھپکنے میں طے کرسکے ۔
مندرجہ بالا اعتراضات کی وجہ سے ہی ان کے دماغوں میں یہ شک پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ معراج خوب میں ہوئی اور یہ کہ حضور ﷺ غنودگی کی حالت میں تھے اور پھر آنکھ لگ گئی اور یہ تما م واقعات عالم رؤیا میں آپ ﷺ نے دیکھے یا روحانی سفر درپیش تھا۔جسم کے ساتھ اتنے زیادہ فاصلوں کو لمحوں میں طے کرنا ان کی سمجھ سے باہر ہے ۔اسراء کے معنی خواب کے نہیں جسمانی طور پر ایک جگہ سے دوسری جگہ لےجانے کےلیے ہیں ۔
ہم جانتے ہیں کہ فضائی سفر کی تمام ترمشکلات کے باوجود آخر کار انسان علم کی قوت سے اس پر دسترس حاصل کرچکا ہے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل ہوچکی ہیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دور کے سفر سے مربوط ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ مسئلہ معراج عمومی اور معمولی پہلو نہیں رکھتا بلکہ یہ اللہ کی لامتناہی قدرت و طاقت کے ذریعے ممکن ہوا اور انبیاء کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے جب انسان یہ طاقت رکھتا ہے کہ سائنسی ترقی کی بنیاد پر ایسی چیزیں بنالے کہ جو زمینی مرکز ثقل سے باہر نکل سکتی ہیں، ایسی چیزیں تیار کرلے کہ فضائے زمین سے باہر کی ہولناک شعاعیں ان پر اثر نہ کرسکیں اور مشق کے ذریعے بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے ۔ یعنی جب انسان اپنی محدود قوت کے ذریعے یہ کام کرسکتا ہے تو پھر کیا اللہ اپنی لامحدود طاقت کے ذریعے یہ کام نہیں کرسکتا؟
چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍ بِالْبَصَرِ﴿ القمر: 50﴾
" اور ہمارا حکم ایسا ہے جیسے ایک پلک جھپک جانا"
سائنسدان جانتے ہیں کہ ایٹم کے بھی 100 چھوٹے چھوٹے ذرات ہیں (Sub Atomic Particles) ،ان میں سے ایک نیوٹرینو (Neutrino) ہے جو تما م کائنات کے مادے میں سے بغیرٹکرائے گزر جاتا ہے ،مادہ اس کے لیے مزاحمت پیدا نہیں کرتا اور نہ ہی وہ کسی مادی شے سے رگڑ کھاتا ہے ،وہ بہت چھوٹا ذرہ ہے اور نہ ہی وہ رگڑ سے جلتا ہے کیونکہ رگڑ تو مادے کی اس صورت میں پیدا ہوگی جب کہ وہ کم ازکم ایٹم کی کمیت کا ہوگا۔۔(یادر ہے کہ ابھی حال ہی میں سرن لیبارٹری میں تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے23 ستمبر 2011 کو یہ اعلان کیا ہےکہ تجربات سے یہ ثابت ہوگیاہے کہ نیوٹرینو کی رفتار روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہے)
جبرائیل ؑ نے آپ ﷺ کو براق پر سوار کیا ۔براق ،برق سے نکلا ہے ،جس کے معنی بجلی ہیں ،جس کی رفتار 186000 میل فی سیکنڈ ہے ۔اگر کوئی آدمی وقت کے گھوڑے پر سوار ہو جائے تو وقت اس کے لیے ٹھہر جاتا ہے یعنی اگر آپ 186000 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلیں تو وقت رک جاتا ہے کیونکہ وقت کی رفتار بھی یہی ہے ۔وقت گر جائےگا۔کیونکہ وقت اور فاصلہ مادے کی چوتھی جہت ہےاس لیے جو شخص اس چوتھی جہت پر قابو پالیتا ہے کائنات اس کے لیے ایک نقطہ بن جاتی ہے ۔وقت رک جاتا ہے کیونکہ جس رفتار سے وقت چل رہا ہے وہ آدمی بھی اسی رفتار سے چل رہا ہے ۔حالانکہ وہ آدمی اپنے آپ کو چلتا ہوا محسوس کرے گا لیکن کائنات اس کے لیے وہیں تھم جاتی ہے جب اس نے وقت اور فاصلے کو اپنے قابو میں کر لیا ہو ۔اس کے لیے چاہے سینکڑوں برس اس حالت میں گزر جائیں لیکن وقت رکا رہے گااور جوں ہی وہ وقت کے گھوڑے سے اترے گا وقت کی گھڑی پھر سے ٹک ٹک شروع کردے گی،وہ آدمی چاہے پوری کائنات کی سیر کرکے آجائے ،بستر گرم ہوگا،کنڈی ہل رہی ہوگی اور پانی چل رہا ہوگا۔
بجلی کا ایک بلب ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کے فاصلے پر رکھ دیں ۔سوئچ دبائیں تو ایک سیکنڈ میں وہ بلب جلنے لگے گا۔یہ برقی رو کی تیز رفتاری ہے اور پھر ہوا کی تیز رفتاری بھی اس کی ایک مثال ہوسکتی ہے ۔ اب معراج شریف میں چاہے ہزار برس صرف ہو گئے ہوں یا ایک لاکھ برس،وقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ورنہ یہ شبہ اور اشکا ل پیش آسکتا ہے کہ اتنی طویل و عظیم مسافت ایک رات میں کیسے طے ہوگئی ۔اللہ جلّ جلالہ کی قدرتیں لاانتہاء ہیں ،وہ ہر بات پر قادر ہے کہ رات کو جب تک چاہے روکے رکھے ،اگر وہ روکے تو کوئی اس کی ذات پاک کے سوا نہیں جو دن نکال سکے ۔ قرآن پاک میں فرمایا:
قُلْ أَرَأ َيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّ
ـهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللَّـهِ يَأْتِيكُم بِضِيَاءٍ ۖ أَفَلَا تَسْمَعُونَ﴿ 71﴾ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن جَعَلَ اللَّـهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَـٰهٌ غَيْرُ اللَّـهِ يَأْتِيكُم بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ ۖأَفَلَا تُبْصِرُونَ ﴿ القصص: 72 تا 71﴾
"آپ کہیے کہ بھلا یہ تو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ اگر قیامت تک تم پر رات کو مسلط کردے تو اس کے سوا کون روشنی لاسکتا ہے ؟ آپ کہیے کہ بھلا یہ تو بتلاؤ کہ اگر اللہ چاہے تو قیامت تک تم پر دن ہی دن رہنے دے تو کون رات لا سکتا ہے اس کے سوا،جس میں تم آرام پاؤ"
تو حق تعالیٰ کو پوری قدرت ہے وہ اگر چاہے تو وقت کو روک سکتا ہے پھر جب انسانی صنعت سے خلائی جہاز چاند ،زہرہ اور مریخ تک پہنچ سکتے ہیں تو خدائی طاقت اور لا انتہاء قدرت رکھنے والے کے حکم سے کیا اس کے رسول ﷺ شب معراج میں آسمانوں کو طے کرکے سدرۃ المنتہیٰ تک نہیں پہنچ سکتے ؟ہے کوئی سوچنے والا؟پھرایک اور طریقے سے غورکریں کہ جوسواری ،بُراق آپ کے لیے بھیجی گئی تھی ،اس کی تیزرفتاری کا کیا عالم تھا۔روایت میں تصریح کے ساتھ درج ہے کہ اس کا ایک قدم حد نظر تک پڑتا تھاجو روشنی کی رفتار سے ہزارہا درجہ زیادہ ہے ۔ہماری نظروں کی حد نیلگوں خیمہ ہے جو آسمان کے نام سے موسوم ہے تو یہ کہنا پڑے گا کہ بُراق کا پہلاقدم پہلےآسمان پر پڑا اور چونکہ آسمان ازروئے قرآن پاک سات ہیں ،اس لیے سات قدم میں ساتوں آسمان طے ہوگئے ،پھر اس سےآگے کی مسافت بھی چند قدم کی تھی ۔
حاصل کلام یہ کل سفررات کے بارہ گھنٹوں میں سے صرف چندمنٹ میں طے ہوگیا اوراسی طرح واپسی بھی ،تو اب بتائیے کہ اس سرعت سیر کےساتھ ایک ہی رات میں آمد ورفت ممکن ٹھہری یا غیر ممکن ؟اب فرمایا جائےکہ کیا اشکال باقی رہا؟
علاوہ ازیں ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ایک گھر میں بیک وقت بلب جل رہے ہیں، پنکھے (سیلنگ فین) سے ہوا صاف ہورہی ہے ، ریڈیو سُنا جارہا ہے ، ٹیلی وژن دیکھا جارہا ہے ، ٹیلی فون پر گفتگو ہورہی ہے ، فریج میں کھانے کی چیزیں محفوظ کی جارہی ہیں، ائیرکنڈیشنڈ سے کمرہ ٹھنڈا ہورہا ہے ، ٹیپ ریکارڈر پر گانے ٹیپ ہورہے ہیں، گرائنڈر میں مسالے پس رہے ہیں، استری سے کپڑوں کی شکنیں دور ہورہی ہیں، سی ڈی پلیئرز پر فلمیں دیکھی جارہی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ کسی نے بڑھ کر مین سوئچ آف کردیا، پھر کیا تھا لمحوں میں ہر چیز نے کام کرنا بند کردیا۔ معلوم ہوا یہ تمام کرنٹ کی کارفرمائی تھی۔ یہی حال کارخانوں کا ہے۔ کپڑا بُنا جارہا ہے ، جیسے ہی بجلی غائب ہوئی تانے بانے بُننے والی کلیں رُک گئیں، جونہی کرنٹ آیا ہر چیز پھر سے کام کرنے لگی۔ آج کا انسان ان روزمرہ کے مشاہدات کے پیشِ نظر واقعہ معراج کی روایات کی صداقت کا ادراک کرسکتا ہے۔ روایتیں ملتی ہیں کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم جب سفرِ معراج سے واپس تشریف لائے تو بستر کی گرمی اسی طرح باقی تھی، وضو کا پانی ہنوز بہہ رہا تھاکنڈی ابھی ہل رہی تھی۔چودہ سو سال پہلے اس پر یقین لانا ناممکنات میں سے تھا لیکن آج یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ کرنٹ کے کرشمے نے ثابت کردیا کہ لمحوں میں کیا کچھ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح معراج کی شب نظامِ زمان و مکان معطل ہوگیا تھا، وقت رُک گیا تھا۔ کیا یہ خالقِ کائنات، نظامِ زمان و مکان کے بنانے والے کے لیے کچھ مشکل تھا؟ ۔یہ مسئلہ خالص یقین واعتقاد کا ہے ،بس اس پر ایمان لانا اور اس کی حقیقت وکیفیت کو علم ِ الہٰی کے سپر د کردینا ہی عین عبادت ہےاور ویسے بھی نبوت ،وحی اور معجزوں کے تمام معاملات احاطہ عقل وقیاس سے باہر کی چیزیں ہیں جو شخص ان چیزوں کو قیاس کے تابع اور اپنی عقل وفہم پر موقوف رکھے اورکہے کہ یہ چیز جب تک عقل میں نہ آئے میں ا س کو نہیں مانوں گا ،توسمجھنا چاہیے کہ وہ شخص ایمان کے اپنے حصہ سے محروم رہا۔ اللہ رب العزت ہمیں قرآن و سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
دوسری طرف ناسا (NASA) کے سینکڑوں سائنس دان ایسی مشینیں اور خلائی جہاز تیارکرنے میں سردھڑ کی بازی لگارہے ہیں، جو روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے انسان کو خلائوں میں لے جاسکے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ایسا ہوجائے تو وہ کائنات میں چھپی حقیقتوں کو اور ان کے پیچھے کا رفرماقوت یعنی اللہ کی ذات کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ ممکن ہے اس سے بہت ساری حقیقتیں بے نقاب ہوبھی جائیں ۔ سفر معراج کی صداقت بھی تسلیم ہوجائے ۔ مگر اللہ کی ذات کا دیدار توصرف اہل جنت ہی کرپائیںگے۔
نظریہ اضافیت کے مطابق اگر کوئی شے روشنی کی رفتار سے سفر کرنے لگے تو اس کے لئے وقت صفر ہوجائے گا۔ آئن اسٹائن کے مطابق اگر کوئی شے روشنی کی رفتار سے سفر کرنے لگے تو وہ توانائی یا روشنی کی لہروں میں تبدیل ہوجائے گی۔
اگر انسان خواب یا نیند کے حواس کو بیداری میں منتقل کرنا سیکھ لے تو وہ زمانِ متواتر کی قید سے آزاد ہوجائے گا اور اپنی خواہش کے مطابق زمان و مکان میں سفر کرسکے گا ۔
نور کی لہریں جو ہمیں اطلاعات فراہم کرتی ہیں، ظاہر میں مادی اشیاء کی تخلیق کرتی ہیں۔
چنانچہ آہستہ آہستہ سب حقائق کا تجربہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور آج کل کے خلائی سفر کرنے والے سترہ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سیر کرتے ہیں، ابھی یہ بھی ابتدائی حیثیت ہے، مستقبل قریب میں خلائی مسافروں کا سفر نہایت تیز رفتار ہوگا، وہ بہت حیرت انگیز ہوگا، کیونکہ ستاوں کی درمیانی مسافت کو بہت تیزی سے طے کر لیں گے، جس کا تصور بھی ہمارے لئے مشکل ہے۔
گارڈن کوپر کا زمین کے اردگرد 90 منٹ میں 22 چکر لگانا ایسے نئے دور کا پیغام ہے جسے آئن سٹائن نے اپنے نظریئے اضافت کی بناء پر پہلے ہی صحیح مان لیا تھا، یہ خلائی سفر گارڈن کوپر نے 90 منٹ میں طے کر لیا، اور گارڈن کوپر کی عمر اس خلائی سفر میں کم ہو گئی۔
اب تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سفرِ معراج اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان پر اٹھایا جانا اورقرب قیامت میں نازل ہونا ایک حقیقت ثابتہ بن چکا ہے، وان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون (اور تیرے رب کے ہاں ایک دن ایک ہزار سال جتنا ہے جن کو تم شمار کرتے ہو) کی تفسیر تجربہ میں آگئی، ایک فلاسفر نے لکھا ہے کہ
خلائی کشتی کے ذریعے ایک سے دوسرے کہکشاں تک آنا جانا ممکن الوقوع ہے اور وہاں کے حساب سے پچپن سال اور زمین کے حساب سے تین لاکھ سال گزر چکے ہوں گے“ یہ اس نے بڑے تھکا دینے والے تجربے کے عبد حساب لگایا ہے
ٹائم ٹریولز یا وقت میں سفر کا تذکرہ بہت ہوتا ہے۔ یہ ایک دلچسپ موضوع ہے جس پر بنی فلمیں عام لوگوں کے لیے سائنس فکشن ہی ہوتی ہیں۔ کیا یہ کہانی سے بڑھ کر بھی کچھ ہے؟ کیا وقت میں سفر ممکن ہے؟
آئیں پہلے آسان لفظوں میں سمجھیں کہ وقت میں سفر Time travel کیا ہے۔
ہمیں جو کچھ بھی نظر آتا ہے وہ روشنی کا کسی چیز سے منعکس ہو کر اس کا عکس ہماری آنکھ کے ذریعے اعصاب تک لے جانے کی وجہ سے ہے۔ روشنی کی رفتار ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل یا تقریباً تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے جس کی وجہ سے ہمیں اطراف کے مناظر فوراً نظر آجاتے ہیں۔ اگر کوئی چیز زمین سے تین لاکھ کلومیٹر دور ہے تو اس سے منعکس ہونے والی روشنی کی کرن ہماری آنکھوں تک ایک سیکنڈ میں پہنچے گی، اس طرح ہمیں وہ چیز ایک سیکنڈ پہلے والی نظر آئے گی۔ سورج کا فاصلہ زمین سے 150 ملین کلومیٹر ہے اور اس کی کرن ہم تک تقریباً آٹھ منٹ میں پہنچتی ہے، دوسرے لفظوں میں ہمیں جو سورج نظر آتا ہے وہ آٹھ منٹ پہلے کا ہوتا ہے۔
ٹائم ٹریول کو سمجھنے کے لیے فرض کریں، اگر ہم روشنی کی دگنی رفتار سے سورج جتنے فاصلے پر موجود کسی ستارے یا سیّارے پر جا کر پلٹ آئیں تو ہمارا جانا چار منٹ میں اور واپسی بھی چار منٹ میں ہوگی اور کُل سفر آٹھ منٹ میں ہوگا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہوگی کہ زمین پر پہنچ کر ہم خود اپنے آپ کو واپسی کا سفر کرتے دیکھیں گے! وجہ اس کی یہ ہوگی کہ کیونکہ روشنی کی وہ کرنیں جو ہم سے ٹکرا کے منعکس ہو کر ہماری متحرّک تصاویر images لے کر زمین کی طرف آ رہی تھیں، اُن کو تو قدرتی طور پر ہماری آنکھ تک پہنچنے میں آٹھ منٹ لگنے ہیں جبکہ ہم اُن سے پہلے (چار منٹ میں) روشنی کی دگنی رفتار کی وجہ سے زمین پر آگئے. اس طرح ہمارے متحرّک عکس قدرتی وقت (آٹھ منٹ) میں ہماری آنکھوں میں داخل ہوں گے، جس کی وجہ سے ہم خود کو دیکھ رہے ہوں گے۔ یہی مستقبل یا وقت میں سفر ہے، اسی کو ٹائم ٹریول Time Travel کہا جاتا ہے، یعنی روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز رفتار سفرجس میں حال present پیچھے رہ جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ انسان وقت میں سفر کرسکے؟ دیکھیے اس دور کے قابل ترین سائنسدان مسٹر ہاکنگ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔
Quote: ‘I do believe in time travel. Time travel to the future. Time flows like a river and it seems as if each of us is carried relentlessly along by time’s current. But time is like a river in another way. It flows at different in different places and that is the key to travelling into the future. This idea was first proposed by Albert Einstein over 100 years ago.
میں وقت میں، مستقبل میں سفر پر یقین رکھتا ہوں۔ وقت ہم سب کو ساتھ میں لیے دریا کی طرح بہتا ہے، لیکن یہ ایک اور طرح سے دریا کی طرح بہتا ہے، یہ مختلف جگہوں پہ مختلف رفتار سے بہتا ہے اور یہی وقت میں سفر کی کلید ہے۔ یہ تصوّر 100 سال پہلے آئن اسٹائن نے دیا۔
وقت میں سفر کے لیے سائنس دان ایک تصّور پر ریسرچ کر رہے ہیں جس میں ایک تصورّاتی خلائی راستہ ہے جو کسی پُر پیچ راستے یاپگڈنڈی پر شارٹ کٹ ہوگا۔ اس مختصر راستے کو Wormhole وورم ہول کا نام دیاگیا ہے۔
WORMHOLES: These space-time tubes act as shortcuts connecting distant regions of space-time. By journeying through a wormhole, you could travel between the two regions faster than a beam of light would be able to if it moved through normal space-time. As with any mode of faster-than-light travel, wormholes offer the possibility of time travel.
http://www.pbs.org/wnet/hawking/strange/html/wormhole.html
وَرم ہول: یہ اسپیس ٹائم ٹیوب Space Time Tube ہے جو کائنات کے دور دراز علاقوں کو ملانے والا ایک چھوٹا راستہ یعنی شارٹ کٹ ہے۔ اس میں سفر کرتے ہوئے آپ روشنی کی اس بیم سے زیادہ رفتار سے سفر کریں گے جو اسپیس ٹائم میں سفر کرتی ہے۔ کسی بھی پیرائے میں وورم ہول میں روشنی سے زیادہ رفتار سے سفر کا مطلب وقت میں ممکنہ سفر ہوسکتا ہے۔
سائنس دانوں کے مطابق نظریاتی طور پر روشنی سے تیز سفر ممکن نہیں لیکن یہ نظریہ اب تک کے حاصل علم کے مطابق ہی ہے۔ کائنات کے ہر لحظہ پھیلنے میں ایک نئے عامل اندھیری توانائی Dark Energy کی ممکنہ موجودگی سے یہ بات بھی ثابت ہوسکتی ہے کہ روشنی سے بھی تیز حرکت ممکن ہے۔ ایک سائنسی نظریہ یہ بھی ہے کہ کائنات روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار سے ہر لحظہ پھیل رہی ہے، جس کے بموجب رفتار کا لامحدود ہونا بھی ممکنات میں ہے۔ یعنی ہم منطقی طور پر رفتار کو روشنی تک محدود نہیں کرسکتے۔
مندرجہ بالا حوالے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وقت میں سفر یعنی وقت کو پیچھے چھوڑتے ہوئے آگے بڑھنا فی الحال تھیوری میں قابل عمل جدید سائنسی نظریہ ہے جس پر کسی کو اعتراض نہیں، بس انسان کا مسئلہ اس کی علمی اور عملی استعداد ہے جو کہ فی الوقت محدود ہے۔ یعنی اس سفر کے سائنسی لوازمات کے لیے بے حساب علم اور استعداد کی ضرورت ہے۔
اب اس طرف توجّہ دیں کہ اس کائنات کے خالق نے وقت میں سفر کی نہ صرف عملی مثال قائم کی بلکہ اپنے کلام میں اس کا تذکرہ بھی کردیا ۔ یہ مثال 14 سو سال قبل سفر معراج میں عملاً دکھائی گئی۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایک سپر سائنس یا سپر علم ہمیشہ سے کائنات میں کارفرما ہے جس کی عملی استعداد لامحدود ہے جو ہر کام کرگزرنے کی لامحدود قوّت رکھتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے،
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گئی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔ ( بنی اسرائیل، آیت1)
گویا سفر ِمعراج میں کائنات میں رواں عظیم تر اور ہر انسانی سائنس کو مغلوب کر دینے والی سائنس کی قوّت کا ایک مظاہرہ ہوا جس کو جدید انسانی سائنس ابھی سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
حوالہ جات:
واقعہ معراج اور سائنس ۔۔۔!
تحریر۔۔۔طیبہ ضیاء چیمہ،مکتوب امریکہ،نوائے وقت
http://www.nawaiwaqt.com.pk/columns/06-Jun-2013/210076
ٹائم ٹریول اور واقعہ معراج – مجیب الحق حقی
مجیب الحق حقی 05/02/2017 8609 مناظر ہیڈ لائنز واقعہ معراج، انسان، ٹائم ٹریول
https://daleel.pk/2017/02/05/29058
http://www.roohanidigest.net/%D9%88%D9%82%D8%AA-%D8%B3%D8%…/
http://urdu.chauthiduniya.com/2013/06/mairaj-un-nabi
https://plus.google.com/10095501304471143…/posts/gW9Wn9rS5kT
معراج اور صاحبِ معراج ﷺ مع سائنسی انکشافات از عبداللہ مدنی
http://www.jasarat.com/unicode/detail.php…
http://hakimkhalid.blogsome.com/2009/07/20/p230/
http://urdu.makarem.ir/compilation/book.php…
http://quraniscience.com/2011/12/واقعہ-معراج مصطفی-صلی-اللہ-علیہ-وسلم/


معراج۔۔۔ جسمانی یا خوابی۔۔۔!




معراج۔۔۔ جسمانی یا خوابی۔۔۔!
ان دنوں کُچھ بے عقل، عقل پرست آپ کو یہ باور کرواتے نظر آئیں گۓ کہ معراج دراصل خواب میں ہوا تھا، کُچھ یہ کہیں گۓ کہ اصل میں ہجرت مدینہ ہی معراج ہے۔۔۔ ! جبکہ ہم کُچھ دلائل کا زکر کیے دیتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ معراج دراصل جسمانی تھا۔
سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُسورہ الاسراء : 1
وہ کتنی پاکیزہ ہستی ہے جو اپنے بندے کو رات کے تھوڑے سے وقت میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ،جس کے ماحول کو ہم نے بابرکت بنایا ، لے گئی تاکہ ہم اسے کچھ نشانات و عجائبات کا مشاہدہ کرائیں۔ بے شک وہ بہت ہی سننے دیکھنے والا ہے۔
پہلی دلیل:
سبحان کا لفظ اس امر کی دلیل ہے کہ یہ خواب اور کشف کی طرح کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ تسبیح کا لفظ ہی امور عظیمہ کے لئے بولا جاتا ہے، اگر یہ واقعہ خواب کا ہوتا پھر یہ کوئی بڑائی یا عظمت کی بات نہ ہوتی۔
دوسری دلیل:
اسریٰ کا لفظ بھی بیداری کی حالت پر بولا جاتا ہے جیسا کہ
حضرت لوط علیہ السلام کو ارشاد ہوتا ہے ”فأسر بأهلك بقطع من الليل واتبع أدبارهم ولا يلتفت منكم أحد وامضوا حيث تؤمرون“ (الحجر 15:65)
پس آپ اپنے گھر والوں کو رات کے کسی حصے میں لے کر نکل جائیں اور خود ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور تم میں سے کوئی مڑ کر نہ دیکھے اور پس جہاں تمہیں حکم دیا جاتا ہے چلے جاؤ
(سورۃ ھود 11:81) میں بھی حضرت لوط علیہ السلام کو یہی ارشاد ہوتا ہے.
حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ کا حکم ہوتا ہے ”ولقد أوحينا إلى موسى أن أسر بعبادي فاضرب لهم طريقا في البحر يبسا لا تخاف دركا ولا تخشى“ (طه 20:77)
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جا، پھر ان کے لیے دریا میں لاٹھی مار کر خشک رستہ بنا دو پھر تم کو نہ تو فرعون کے آپکڑنے کا خوف ہو گا اور نہ غرق ہونے کا ڈر
فأسر بعبادي ليلا إنكم متبعون“ (الدخان 44:23)
حکم ہوا کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل پڑو، تمہارا پیچھا کیا جائے گا
وأوحينا إلى موسى أن أسر بعبادي إنكم متبعون“ (الشعراء 26:52)
اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جاؤ کہ تمہارا پیچھا کیا جانے والا ہے
درج بالا سب مقامات پر اسری کو روح اور جسد کے مجموعے پر بولا گیا ہے.
اور قاضی عیاض فرماتے ہیں لانہ لایقال فی النوم اسریٰ (شفاص 191) کہ یہ واقعہ معراج جسم کے ساتھ ہے کیونکہ اسریٰ کا لفظ خواب پر نہیں بولا جاتا۔
تیسری دلیل:
(عبد) فان العبد عبارۃ عن مجموع الروح و الجسد(تفسیر ابن کثیر )
عبد کہتے ہی روح مع الجسد کو ہیں۔ جس روح کے ساتھ جسم نہ ہو، اسے عبد نہیں کہتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ معراج جسمانی تھا۔ یہ تین دلیلیں تو سورہ بنی اسرائیل کی آیت سے ہیں ۔
چوتھی دلیل:
قرآن سے ہی چوتھی دلیل معراج جسمانی کی سورۃ النجم میں ہے:
ما ذا غ البصر و ما طغیٰ (معراج کی رات) آسمان پر نبی کی آنکھ نے واقعات دیکھنے میں کوئی غلطی یا بے احتیاطی نہیں کی۔
یعنی جو کچھ دیکھا بچشم جسم دیکھا ہے یہ بھی دلیل ہے کہ معراج جسمانی تھا۔ کیونکہ خواب یا کشف کا تعلق دماغ یا دل سے ہے، نہ کہ آنکھ سے۔ اور لفظ بصر جسمانی نگاہ کے لئے آتا ہے، خواب یا دل کے دیکھنے کو بصر نہیں کہتے۔
پانچویں دلیل: ۔
اس آیت کی تفسیر ترجمان قرآن حضرت ابن عباس رحمۃ اللہ علیہ نے یوں کی ہے۔
حدثنا الحميدي حدثنا سفيان حدثنا عمرو عن عكرمة عن ابن عباس رضي الله عنهما وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس قال هي رؤيا عين أريها رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة أسري به إلى بيت المقدس قال والشجرة الملعونة في القرآن قال هي شجرة الزقوم“ (صحيح البخاری كتاب مناقب الأنصار باب المعراج روایت نمبر 3888)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس فرمایا کہ اس میں رؤیا سے مراد آنکھ سے دیکھنا ہے . جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کو معراج کی رات میں د کھایا گیا تھا جس میں آپ کو بیت المقدس تک لے جایا گیا تھا اور قرآن مجید میں”الشجرۃ الملعونۃ“سے مراد تھوہڑ کا درخت ہے۔
چھٹی دلیل:
بخاری شریف میں ہی باب حدیث الاسرا میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے لما کذبنی قریش قمت فی الحجر فجلی اللہ لی بیت المقدس فطغت اخبرھم عن آیاتہ وانا انظر الیہ
کہ جب کفار مکہ نے میرے اس سفر کو جھٹلایا اور مجھ سے بیت المقدس کے متعلق سوال شروع کر دیے تو اللہ تعالیٰ نے میرے سامنے بیت المقدس کر دیا میں اسے دیکھ کر بتاتا جا رہا تھا۔
یعنی کفار نے اس معراج کے جسم کے ساتھ ہونے کا ہی انکار کیا تھا ورنہ خواب کی بات کو جھٹلانے کا کوئی تک ہی نہیں تھا کیونکہ خوابوں میں کئی مرتبہ عام انسان بھی اپنے آپ کو پرواز کرتے اور آسمان پر جاتے ہوئے بھی دیکھ سکتا ہے۔ اس پر کوئی تعجب نہیں ہوتا۔ کفار کو تعجب تو تب ہوا جب آپ نے کہا کہ میں اس جسم کے ساتھ گیا تھا۔ کفار کا یہ رد عمل ہی اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جسم کے ساتھ معراج کا دعویٰ کیا تھا۔
ساتویں دلیل:
اس حدیث کے تحت فتح الباری میں بحوالہ بیہقی فی الدلائل فرماتے ہیں :
کہ کفار نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس رات کے سفر کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ سچے ہیں۔ تو پھر انہوں نے تعجب سے کہا کہ تو ایک ہی رات میں شام سے ہو کر واپس آنے کی بھی تصدیق کرتا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں تو اس سے بڑی بات کی بھی تصدیق کرتا ہوں کہ ان کے پاس آسمان سے بھی پیغام آتے ہیں۔
غور فرمائیے خواب پر کسی کو تعجب کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، تعجب تو ہوتا ہی تب ہے کہ جب کوئی یہ کہے کہ میں اس جسم کے ساتھ وہاں سے ہو کر واپس آ گیا ہوں۔
آٹھویں دلیل:
اسی حدیث کے تحت فتح الباری میں بحوالہ مسند ابو یعلیٰ فرماتے ہیں ۔ ام ھانی کہتی ہیں کہ کفار نے بیت المقدس کے متعلق سوال کرنے شروع کر دیے جسے آپ دیکھ کر بتا رہے تھے تو پھر کفار نے پوچھا کہ ہمارا ایک قافلہ شام سے آ رہا ہے وہ کہاں ملا۔ آپ نے فرمایا کہ فلاں مقام پر ملا لیکن ان کا ایک اونٹ گم تھا اور آپ نے ان کے اونٹوں کی تعداد بھی بتائی جس کی کفار نے آکر تصدیق کی۔
یعنی کفار کو آپ کے جسمانی سفر پر اعتراض تھا تب ہی قافلہ کے بارے میں پوچھا۔ روحانی سفر پر کبھی کسی نے اعتراض کیا ہی نہیں۔
نویں دلیل:
کہ آپ کو آسمان کے سفر سے پہلے بیت المقدس تک کا سفر کرایا گیا یعنی کچھ حصہ زمین کا سفر باقی آسمان کا سفر۔ کیونکہ آسمان کے سفر کو اگر خانہ کعبہ سے ہی شروع کرا دیا جاتا تو کافر بالکل انکار کر دیتے جس کی تصدیق نہ ہو سکتی۔ جب آپ نےمکہ سے بیت المقدس کے سفر کے حالات بتا دیے تو ان کو اسے ٹھیک ماننا پڑا تاکہ سفر کے دوسرے حصہ جو آسمان کا سفر تھا اس کی بھی تصدیق کریں۔ چنانچہ مومنوں کے لیے ایمان میں اضافہ کا سبب ہوا۔ اگر یہ خواب میں ہی ہوا ہوتا تو اس تصدیق وغیرہ کے چکر کی ضرورت ہی نہ تھی۔
دسویں دلیل:
تفسیر ابن کثیر میں حضرت ابو سفیان سے مروی ہے ایک واقعہ لکھا ہے (بحوالہ ابو نعیم فی دلائل النبوۃ) کہ ہمیں قیصر روم نے اپنے دربار میں طلب کیا اس وقت ابھی ابو سفیان مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ میں نے دوران گفتگو قیصر سے کہا کہ اگرچہ اس سے پہلے کبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جھوٹ نہیں سنا البتہ اب اس نے ایک ایسی بات کی ہے جس کو سچ کہا ہی نہیں جا سکتا۔ وہ کہتا ہے کہ میں ایک ہی رات میں مسجد خانہ کعبہ سے مسجد اقصیٰ تک جا کر واپس آیا ہوں۔ دربار قیصر میں ایک پادری بیٹھا تھا فورا بول اٹھا اس رات کا مجھے علم ہے۔ قیصر نے پوچھا وہ کیسے؟ پادری نے کہا میں ہمیشہ مسجد کے دروازے بند کر کے سویا کرتا تھا۔ میں نے اس رات تمام دروازے بند کر دئے مگر ایک دروازہ بند نہ ہوا۔ میں نے ملازمین وغیرہ کی امداد سے بند کرنا چاہا لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ بالآخر مستری کو بلایا گیا۔ اس نے کہا اس پر بالائی دیوار کا بوجھ پڑ گیا ہے۔ اس لیے اب اسے حرکت نہیں دے سکتے۔ صبح غور کریں گے۔ چنانچہ دروازہ کھلا ہی چھوڑ دیا۔ صبح آیا تو مسجد کے دروازے کے کنارے ایک پتھر میں سوراخ دیکھا اور اس میں سواری باندھنے کے آثار معلوم ہوتے تھے۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا آج رات دروازہ بند نہ ہونے کی یہی وجہ تھی رات یہاں کوئی خدا کا نبی آیا ہے جس نے یہاں نماز پڑھی ہے اور دروازہ میں کوئی نقص نہ تھا۔
تلک عشرۃ کاملۃ


*معجزہ معراج*





*معجزہ معراج*
تحریر........... ابو طلحہ سندھی
معجزہ عجز سے نکلا ہے جسکا معنیٰ ہے عاجز کردینے والا یعنی جو عقل انسانی کوعاجز کردے
اور اصطلاح شرع میں کسی نبی کا ایسا فعل جو عقل انسانی کو عاجز کردے اسے معجزہ کہتے ہیں دوسرے لفظوں میں اسکی تعریف یوں بھی کی گئی ہے " وہ عجیب و غریب کام جو عادةً ناممکن ہو یعنی جسکا عادةً ہونا ممکن نہ ہو اور ظاھری عادات واسباب کے خلاف اور بالاتر ہو اگر ایسا کام کسی نبی سے صادر ہو تو اسے معجزہ کہتے ہیں"
مثلاً درخت عادةً چلتے نہیں، پہاڑ حرکت نہیں کرتے،پھتر بولتے نہیں،جانور کلام نہیں کرتے،مردہ زندہ نہیں ہوا کرتے،چاند کسی کے اشارہ سے پھٹا نہیں کرتا، ڈوبا پوا سورج واپس آیا نہیں کرتا،انسانی انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہوا نہیں کرتے،لاٹھی سانپ بن نہیں سکتی،پھتر سے زندہ اونٹنی نکل نہیں سکتی اور آن واحد میں فرش سے عرش تک کوئی جا نہیں سکتا یہی نظامِ فطرت اور قانونِ قدرت ہے اور یہی اشیاء کی عادت ہے
لیکن اگر کسی نبی علیہ السلام کے حکم سے درخت چلنے لگ جائیں،پہاڑ حرکت میں آجائیں،پتھر بولنے اور کلمہ پڑھنے لگ جائیں،جانور نبی علیہ السلام سے فریاد کرنے لگیں،مردہ زندہ ہوجائیں،اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہو جائے،ڈوبا ہوا سورج واپس آجائے،انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہو جائیں،لاٹھی سانپ بن جائے تو یہ سارے کام ظاھری عادات و اسباب کے خلاف اور بالاتر ہیں اسی کو معجزہ کہا جاتا ہے
چونکہ معجزہ نبی کی نبوت کا دلیل ہوا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو معجزہ عطا فرمایا ان معجزات کو دیکھ کر لوگ نبی کی نبوت کی طرف مائل ہوتے ہیں اور انکی نبوت کا یقین کرلیتے ہیں اور جو حقیقت پسند ہوتے ہیں جنکے سینوں میں تعصب نہیں ہوتا وہ سچا نبی مان کر ایمان لے آتے ہیں
لیکن جو ازلی بدبخت اور پیدائشی بدنصیب ہوتے ہیں جنکے آنکھوں میں تعصب کےپردے ہوتے ہیں وہ ان معجزات کو دیکھ کر بھی ایمان کی دولت سے محروم رہتے ہیں
مثلاً حضرت ابراھیم علیہ السلام پر بھڑکتے آگ کے شعلوں کو پھول بنتا دیکھ کر بھی نمرود بدبخت ایمان سے محروم رہا
عصائے موسیٰ علیہ السلام کو اژدھا بنتا دیکھ کر اور ید بیضاء کی روشنی دیکھ کر بھی فرعون کی آنکھوں میں کفر وشرک کی سیاہی میں نورِ ایمان کی چمک پیدا نہ ہوسکی
ھمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی کے اشارے سے آسمان پر چاند کے دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی ابولھب اور ابو جھل کے دل کفر کی سیاہی سے نہ نکل سکے اور انکے دلوں میں ایمان کی شعائیں داخل نہ ہوسکیں کیونکہ وہ ازلی بدبخت اور بدنصیب تھے
پھر اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو انکی امت کے مزاج اس دور کے ماحول اور انکی عقل و فھم کی مناسبت سے معجزات عطا فرمائے
مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں جادو عروج پر تھا جادو اور ساحرانہ کارنامے اپنی ترقی کی اعلیٰ ترین منزل پر پنہنچے ہوئے تھے تو جادو کے توڑ کیلئے اللہ تعالیٰ نے آپکو عصا کا معجزہ عطا فرمایا یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دیتے تو بہت بڑا اژدھا بن جاتا جسکے کے آگے سارے جادوگروں کا جادو ناکام ہو جاتا
حضرت عیسٰی علیہ السلام جس دور میں دنیا میں تشریف لائے اس وقت علمِ طب انتھائی ترقی پر پنہنچا ہوا تھا اس دور کے اطباء نے بڑے بڑے امراض کا کامیاب علاج کرکہ اپنی فنی مھارت سے انسانوں کو حیران کر رکھا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس دور کے ماحول کی مناسبت اور ان طبیبوں کے کمال کا توڑ کرنے کیلئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مادرزاد(پیدائشی) اندھوں کو بینا کرنے،کوڑہ والوں کو کوڑہ کی بیماری سے شفا دینے اور مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ عطا فرمایا
آپکے یہ معجزات دیکھ کر اسوقت کے طبیبوں اور حکیموں کے ھوش اڑ گئے اور حیران و ششدر ہوکر رہ گئے بالآخر ان معجزات کو انسانی کمالات سے بالاتر جان کر آپکی نبوت کا اقرار کیا
اسی طرح حضرت صالح علیہ السلام کا دور سنگ تراشی اور مجسمہ سازی کا دور تھا اور اس فن کا بہت چرچہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے اسکے مقابلے میں آپکو یہ معجزہ عطا فرمایا کہ آپ نے اپنی قوم کے اصرار پر پھاڑ کی ایک چٹان کی طرف اشارہ کیا تو وہ چٹان شق ہوئی اور اس میں سے ایک بہت خوبصورت اور تندرست اونٹنی باھر نکل آئی
پھتر سے مجسمہ بنانا آسان تھا لیکن پھتر سے زندہ اونٹنی نکالنا یہ بہت بڑا کمال اور انسانی طاقت سے بالاتر تھا
اسی طرح جب ھمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تب شعرو شاعری کا دور دورہ تھا عرب میں بڑے بڑے فصیح و بلیغ شعراء تھے جو بیٹھے بیٹھے بڑے بڑے قصیدے لکھ لیا کرتے تھے شعر وشاعری کے مقابلوں کیلئے بڑے بڑے میلے لگاکرتے تھے ان میں ایک سے بڑھکر ایک نامور ادیب اور شاعر موجود تھا انکو اپنی شعرو شاعری اور فصاحت و بلاغت پر اتنا ناز تھا کہ اپنے سوائے دوسروں کو اعجمی یعنی گونگا سمجھتے تھے
تو اللہ تعالیٰ نے آپکو دیگر بیشمار معجزات کے ساتھ ساتھ اس ماحول کی مناسبت سے فصاحت و بلاغت سے بھرپور قرآن پاک کا معجزہ عطا فرمایا جسکے آگے انکی ساری فصاحت و بلاغت اورفن شاعری دھرے کا دھرہ رہ گیا اور قرآن پاک نے عرب کے ان تمام فصحاء و بلغاء کو چیلنج دیتے ہوئے فرمایا
وَ اِن
ۡ کُنۡتُمْ فِیۡ رَیۡبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّنۡ مِّثْلِہٖ ۪ وَادْعُوۡا شُہَدَآءَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیۡنَ﴿بقرہ۲۳
اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے اپنے( اس خاص ) بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آؤ اور اللّٰہ کے سوا اپنے سب حمائتیوں کو بلالو اگر تم سچے ہو.
قرآن پاک کے اس چیلنج کو عرب کے ان بڑے بڑے فصیح و بلیغ شعراء نے سنا اور انہوں نے سر توڑ کوششیں کیں لیکن چودہ سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ وہ لوگ قرآن کے مثل ایک سورت تو کیا ایک آیت بھی نہ بناسکے
قرآن پاک کے آگے انکی ساری فصاحت وبلاغت انکے سارے علوم و کمالات ہیچ ہوگئے
بالآخر لاچار ہوکر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے "ماھٰذا کلام البشر" یعنی یہ کسی بشر کا کلام نہیں ہوسکتا
تیرے آگے یوں ہی دبے لچے
فصحاء عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منہ میں زبان نہیں
نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں لھٰذا آپکا دور نبوت بھی قیامت تلک ہے
اور ایک نبی کے کمالات اپنے دورِ نبوت کے تمام انسانوں کے کمالات سے بڑھکر ہوتے ہیں
اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ آگے چل کر حضرت انسان بہت ترقی کریگا سائنس اور ٹیکنالاجی میں اتنی تیزی سے ترقی کریگا کہ چاند تک پنہنچ جائیگا تیز رفتار ھوائی جہازوں کے ذریعے بہت کم وقت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پنہنچنے کے کمالات کر دکھائے گا
کہیں ایسا نہ ہو کہ ہوا میں اڑنے یا چاند تک پنہنچے والا انسان یہ دعویٰ کر بیٹھے کہ میرا کمال نبی کے کمال سے بڑھکر ہے لھٰذا اللہ تعالیٰ نے آپکو معراج جیسا محیرالعقول(عقلوں کو حیران کردینے والا) معجزہ عطا فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے ایک قلیل وقت میں مسجدالحرام سے مسجد اقصیٰ تک پھر وہاں سے ساتوں آسمانوں بلکہ اس سے بھی آگے لامکاں تک جا پنہنچے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا جنت و جھنم کو بھی ملاحظہ فرمایا ساتوں آسمانوں کی سیر کی، اتنا طویل سیر سفر کرنے کے بعد واپس آئے تو بستر بھی گرم تھا اور وضو کا پانی بھی جاری تھا
اب انسان کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے اتنا تیز رفتار سفر نہیں کرسکتا
اب انسان چاند تو کیا سورج تک بھی پنہنچ جائے آسمانوں تک پنہنچنے کا دعویٰ کرے پھر بھی ھمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات کا مقابلہ نہیں کر سکتا کیونکہ ھمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج اس سے بھی آگے تک ہے
الغرض معراج میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم معجزہ ہے کہ تاقیامت کوئی بھی انسان اس سے بڑھ کر کمالات دکھاکر اسکا توڑ نہیں کرسکتا.


شب معراج، فزکس اور سامی مذاہب کا تصور ِ ز ماں








شب معراج، فزکس اور سامی مذاہب کا تصور ِ ز ماں
آئن سٹائن سے بہت پہلے کی بات ہے جب سائنس یہ مانتی تھی کہ کائنات قدیم ہے۔ ٹائم ایبسولیوٹ (مطلق) ہے۔ سپیس (مطلق) ایبسولیوٹ ہے۔ اُس وقت سامی مذاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام) کے ماننے والے سائنس کی اِس بات سے انکاری تھے اور کبھی کسی مذہبی نے یہ کوشش نہیں کی تھی کہ سائنس کا کائنات کے بارے میں یہ ماننا کہ ’’کائنات قدیم ہے، ازل سے ہے، زمانہ مطلق ہے، مکان مطلق ہے‘‘ وغیرہ کو محض اس لیے تسلیم کر لیا جائے کہ یہ سائنس کہہ رہی ہے۔ اس موضوع پر،فلسفی لائبنز اور بابائے سائنس نیوٹن کے درمیان کتنے ہی مناظرے ہوئے جن میں لائبنز کا مؤقف سامی مذاہب والوں جیسا تھا کہ ’’کائنات کی ایک خاص وقت میں ابتدأ ہوئی اور یہ کبھی ختم بھی ہوسکتی ہے‘‘۔ اور نیوٹن جسے ہم بجا طور پر بابائے مادیات بھی کہہ سکتے ہیں، کا یہ مؤقف تھا کہ ’’کائنات قدیم ہے، یہ ازل سے ہے اور ہمیشہ رہیگی اور زمان و مکاں مطلق یعنی ایبسولیوٹ ہیں‘‘۔ نیوٹن اور لائبنز کے مباحث فزکس اور فلسفہ کے طلبہ کے لیے ہمیشہ دلچسپی کا باعث رہے ہیں۔ خاص طور پر نیوٹن کا بالٹی والا تجربہ (Bucket Experiment) بہت مشہور ہے، جس کے بعد کہتے ہیں کہ لائبنز بحث ہارگیا تھا اور نیوٹن کا مکانِ مطلق ثابت ہوگیاتھا۔ ویسے ایک بات ہے، ڈیکارٹ کا مشہور تھاٹ ایکسپری منٹ جس میں وہ کائنات کا ہر تصور مفقود کرکے ’’میں سوچتاہوں سو میں ہوں‘‘ کا نتیجہ اخذ کرتاہے، خلا (سپیس) کے تصور کو ذہن سے غائب کردینے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اسی تجربے میں وہ خود کو ایک آئینے کے سامنے غائب (Invisible) تصورکرنے میں کامیاب ہوجاتاہے اور یہ خیال قائم کرتاہےکہ ’’باڈی‘‘ کے بغیر’’ مائنڈ‘‘ کا تصور ممکن ہے لیکن’’ مائینڈ‘‘ کےبغیر ’’باڈی‘‘ کا تصور ممکن نہیں۔وہ اس تھاٹ ایکسپریمنٹ کو مزید وسیع تناظر میں اس طرح انجام دیتاہے کہ پوری کائنات کو ،بشمول اپنے جسم، حتیٰ کہ سَر اور دماغ کو بھی غائب تصورکرتاہے۔ تب وہ اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ ’’تمام تصورات‘‘ کے خاتمے کے بعد ایک تصورباقی رہتاہے اور وہ یہ ہے کہ، ’’میں ایک سوچتی ہوئی ہستی ہوں‘‘۔ میں نے جب کبھی بھی ڈیکارٹ کے اِس تجربے کو آزمایا، ہمیشہ کالی کالی خلا کا ایک تصور بھی میری نام نہاد ’’مطلق مَیں‘‘ (Absolute I) کے تصور کے ساتھ موجود رہا۔ میں نے اس الجھن کی تصدیق کے لیے دوسرے لوگوں کو ڈیکارٹ کا تھاٹ ایکسپری منٹ بار بار پرفارم کے لیے کہا اور ہمیشہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ’’تاریک سپیس‘‘ کا تصوربہرصورت موجود رہتاہے۔ ہم ایک پتھر سے لے کر ایک ہاتھی تک ، اپنے ہاتھوں پیروں سے لے کر سر اور پھر دماغ تک، سیارۂ زمین سے لے کر ساری کائنات کے ہر ہر آبجیکٹ تک ہر ہر تصور کو ہم باری باری غائب ہوتاہوا دیکھ سکتے ہیں۔لیکن ہم جب مادی اشیأ کو غائب (Disappeared) دیکھتے ہیں تو ، جہاں وہ تھیں، یعنی تاریک خلا، وہ جگہ تصور سے نکالی نہیں جاسکتی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سپیس ہمارے منطقی فہم کا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے ذہن (مائینڈ) کا لازمی حصہ ہے۔غالباً بالکل ویسے، جیسے ’’مَیں‘‘ کا تصور ہمارے ذہن کا لازمی حصہ ہے ، ویسے ہی خلا (سپیس) بھی ذہن کا لازمی حصہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو سپیس کا مطلق ہونا اور بھی زیادہ مشکوک ہوجاتاہے اور یہ فقط ہمارے ذہن کی ایک کمی یا بیماری کے درجے کی چیز رہ جاتی ہے، کیونکہ ہمیں ’’مَیں‘‘ کے تصور کا بھی خالصتاً موضوعی تجربہ حاصل ہوتا ہے ۔ معروض میں، ’’میری مَیں‘‘ کا کوئی ثبو ت موجود نہیں۔ خیر! نیوٹن نے لائبنز کو بکٹ ایکسپری منٹ پرفارم کرکے دکھایا۔ یہ تجربہ کچھ اِس طرح ہے، آپ ایک بالٹی لیں۔ اس کو پانی سے آدھا بھر لیں۔پھر اسے ایک رسی کی مدد سےکسی چھت کےساتھ لٹکا دیں۔ اب بالٹی کو گھمانا شروع کریں۔ رسی میں بل آنا شروع ہوجائینگے۔ کچھ دیر بعد رَسی تَن جائینگی۔ تب آرام سے بالٹی کو چھوڑ دیں۔ رسی کے بل فوراً کھلنا شروع ہوجائینگے۔ بالٹی بھی گھومنے لگ جائیگی۔ بالٹی میں موجود پانی مقعر (Concave)شکل اختیار کرلے گا۔ یعنی پانی درمیان سے نیچے کی طرف دب جائیگا اور کناروں سے اوپر کو اُٹھ جائیگا۔ کچھ دیر بعد جب بالٹی کی گردش رُک جائیگی تب بھی پانی کی شکل برقرار رہے گی۔ نیوٹن سوال کرتاہے کہ پانی کی گردش کس شئے کے ساتھ ریلیٹو(Relative) ہے؟ آپ کچھ دیر سوچ کر جواب دینگے کہ ، پانی ہمارے ساتھ ریلیٹو ہے۔ یعنی بیرونی چیزوں کے ساتھ۔ تب نیوٹن آپ سے مکرر سوال کریگا کہ اگر آپ اسی بالٹی کو دُور بہت دُور ایسے تاریک خلاؤں میں تصور کریں جہاں لاکھوں میل تک کوئی ایک چھوٹا سا پتھر بھی نہ ہو ، تب اسی گھومتے ہوئے پانی کی حرکت کس شئے سے ریلیٹو ہوگی؟ کیونکہ اگر کسی شئے کے ساتھ ریلیٹو نہ ہو تو ہم یہ نہیں بتاسکتے کہ پانی گھوم رہا ہے۔ اگر ریلیٹو ہوگی تو ہم بتاسکینگے کہ پانی گھوم رہاہے۔
کہتے ہیں، اس سوال کے بعد لائبنز خاموش ہوگیا تھا۔ بعد میں اِس تجربے میں کئی نقائص نکالے گئے جو دیگر لوگوں کا کام ہے۔ نیوٹن نے اَٹھارویں صدی میں وفات پائی اور اسکے نظریات کو جس اعتقادی سطح کی حتمیت حاصل رہی اُس سے کسی اہل ِ علم کو انکار نہیں۔ نیوٹن کی مطلق اور قدیم کائنات کا زور 1905 تک رہا، جب آئن سٹائن نے آکر قدیم کائنات کا تصور ختم کردیا۔آئن سٹائن نے زمان و مکاں کے مطلق ہونے کا تصور تو درکنار، سِرے سے زمان و مکاں کے ایسے وجود کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کردیا جو متفقہ ہو۔ اُس نےزمان و مکاں کو شاہد اور ناظر تک محدود کردیا۔ کائنات کا ایک آغاز ہے یعنی بگ بینگ، اور کائنات ایک دن ختم ہوجائے گی وغیرہ وغیرہ، یہ سب نظریات بیسویں صدی کے اوائل میں سائنس نے تسلیم کیے۔ سامی مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے ماننے والوں نے ہمیشہ کائنات کو قدیم تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔ وہ یہ کہتے تھے کہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے۔کائنات خدا کے کُن کہنے سے بنی ہے۔ وقت مطلق نہیں ہے۔ کائنات وقت کے ایک خاص لمحے میں بنائی گئی ہے اور مکانی فاصلے حقیقت میں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ مذہب کا یہ نظریہ سائنس کو چُبھتا تھا یعنی آج کے تناظر میں دیکھاجائے تو سامی مذاہب اور خصوصاً اسلام کا نظریۂ آفرینش اُس وقت بھی جدید ترین تصور پیش کررہا تھا جبکہ سائنس قدامت پسندانہ خیالات کی حامل تھی۔ یہ مسلمانوں کے عالی دماغ ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے کائنات کے قدیم اور حادث ہونے کے مباحث کو عہدِ حاضر جیسی مقبولیت عطا کی اور اپنے وقت میں تمام اکیڈمکس کے علمی موضوعات کا مرکزبنادیا۔ غرض قران کا یہ نظریہ کہ کائنات ایک خاص وقت میں بنائی گئی اور یہ ایک خاص وقت میں ختم بھی ہوجائے گی ، نہ صرف اُس وقت کے سائنسی نظریہ کے مقابلے میں جدید تھا بلکہ آج بھی ویسے کا ویسا ہی تازہ اور طاقتورہے۔ قران ایک ایسی عجب کتاب ہے کہ بعض آیات تو فی الواقعہ وقت سے بہت پہلے کھلم کھلا پیش گوئی کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں جن کے ثبوت بعد میں ہم دیکھتے ہیں تو انگشت بدندان رہ جاتے ہیں۔ مثلاً قرانِ پاک میں ایک آیت ہے، ’’ستاروں کے محل وقوع کی قسم! اگر تم جان لو کہ یہ کیا ہے تو تم بے اختیار پکار اُٹھو کہ اللہ نے بہت عظیم قسم اُٹھائی ہے‘‘ ’’بوڈز لا‘‘ میں جب ستاروں کا محل وقوع پہلی بار معلوم ہوا یا ، بعد میں ریڈ اور بلیو شفٹ نے دُور دُور کی کہکشاؤں کا ایک ایک میل کے حساب سے فاصلہ بتادیا تو کسی کو یہ خیال کیوں نہ آیا کہ ایک ایسی ہستی بھی ہے جو ستاروں کے محل ِ وقوع کی قسم کھاتی ہے اور چیلنج کرکے کہتی ہے کہ ’’انّہُ لَو تعلمونَ لقسمٌ عظیم‘‘ ؟ ہم نے تو سنا ہے کہ اُس دور میں کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ستارے اور سیّارے دراصل زمین کی طرح کےبڑے بڑے اجسام ہیں۔ ہم نے تو سناہے کہ لوگ انہیں جھلمل کرتے چھوٹے چھوٹے سلمی ستارے سمجھتے تھے یا یہ مانتے تھے کہ یہ جنّتیں ہوسکتی ہیں، دوزخیں ہوسکتی ہیں،، دیوتا، دیویاں ، عالم ِ امثال کے اجزأ، ملائکہ وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے تو سنا ہے کہ لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ان میں کچھ ستارے ہمارے سورج کی طرح ہیں، پھر ان کے سیارے بھی ہیں۔ تو پھر قران نے ایسی باتیں کس طرح کردیں؟ مثلاً لَا
ٱلشَّمۡسُ يَنۢبَغِى لَهَآ أَن تُدۡرِكَ ٱلۡقَمَرَ وَلَا ٱلَّيۡلُ سَابِقُ ٱلنَّہَارِ‌ۚ وَكُلٌّ۬ فِى فَلَكٍ۬ يَسۡبَحُونَ (٤٠) وَءَايَةٌ۬ لَّهُمۡ أَنَّا حَمَلۡنَا ذُرِّيَّتَہُمۡ فِى ٱلۡفُلۡكِ ٱلۡمَشۡحُونِ (٤١) وَخَلَقۡنَا لَهُم مِّن مِّثۡلِهِۦ مَا يَرۡكَبُونَ (٤٢) نہ سورج کی مجال ہے وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آ سکتی ہے اور ہر ایک، ایک آسمان میں تیرتا پھرتا ہے (۴۰) اور ان کے لیے یہ بھی نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو فُلکِ مشحون (بھری کشتی ) میں سوار کیا (۴۱) اور اُن کے لیے اسی طرح کی اور بھی (کشتیاں) بنائیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں (۴۲) اس سے زیادہ واضح الفاظ میں کیسے بتایا جائے کہ زمین کے علاوہ بھی سیارے ہیں، جن پر ہماری نسل کے لوگ سوار ہیں ؟ مزید یہ کہ کل کو ایسے سیارے بھی ہونگے جہاں ہماری اولادیں آباد ہونگی؟ کیا یہ بات قران نے پندرہ سوسال پہلے نہیں بتائی؟ 2023 میں پہلا انسانی مِشن مریخ پر جارہاہے۔ اس منصوبے پر کئی سالوں سے کام ہورہاہے۔ یہ ایسا مِشن ہے جو مریخ کو آباد کرنے کی غرض سے بھیجا جارہاہے۔ مشن کا نام ہے ’’مارس ون، ون وے مِشن‘‘ جس کا مطلب ہے کہ وہاں جو لوگ جارہے ہیں وہ کبھی واپس نہ آنے کے لیے جائینگے۔ جب ناسا نے درخواستیں مانگیں تو دنیا بھر سے چھ ہزار لوگوں نے درخواستیں بھیجیں، جن میں سے صرف سو لوگوں کو منتخب کیا گیا۔ ان میں سے بھی صرف دو جوڑے جائینگے، لیکن تربیّت سوکے سو لوگوں کو دی جارہی ہے۔یہ لوگ وہاں جاکر شیشے کی ایک عمارت بنا کر اُس میں رہینگے۔ شیشے کی اس عمارت میں پودے اُگائے جائینگے اور یوں اس میں آکسیجن ہوگی۔ ذراسوچیں تو! دوہزار تئیس ہم سے کتنی دُور ہے؟ آج دوہزار سولہ ہے۔ یعنی کُل سات سال بعد ۔ مریخ پر جانے والوں کے دورانِ سفر کُل سات ماہ صرف ہونگے۔ یہ اتنا ہی سفر ہے جتنا ارسطو کے زمانہ میں بخارا سے بغداد تک کا ہوگا۔ یعنی آج سے آٹھ سال بعد ہم مریخ کے نئے باشندوں کی ویڈیوز دیکھ رہے ہونگے کہ وہ کس طرح مریخ پر رہ رہے ہیں۔ اگر ایک بار یہ مِشن کامیاب ہوگیا تو یقیناً جلد ہی دوسرا مشن بھیجا جائیگا ، پھر تیسرا اور مریخ پر ہی کیا موقوف ۔ مِشن پر مشن نکلینگے اور ایک سے ایک عمدہ سیارہ دریافت کرکے انسان اُسے آباد کردینگے۔ تب اگر کوئی مسلمان یہ آیت پڑھے گا کہ، نہ سورج کی مجال ہے ہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے آ سکتی ہے اور ہر ایک، ایک آسمان میں تیرتا پھرتا ہے (۴۰) اور ان کے لیے یہ بھی نشانی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو فُلکِ مشحون (بھری کشتی) میں سوار کیا (۴۱) اور اُن کے لیے اسی طرح کی اور بھی (کشتیاں) بنائیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں (۴۲) تو کیا تب بھی یہ کہا جائیگا کہ سائنس نے ایک کارنامہ سرانجام دیا، جبکہ مذہب نے اُس کی پیش گوئی کا سہرا اپنے سر باندھ لیا؟ جب اسلام یہ سب کچھ بتا رہا تھا سائنس کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا۔ اسلام نے حسّی تجربے سے نفرت کرنے والی دنیا کو ، جسے اقبال نے، ’’خوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر‘‘ کہا ہے، اِس کائنات کی تسخیر کے کام پر آمادہ کیا۔ ستاروں کی چالوں سے فال نکالنے والی دنیا کو اس مایا جال سے نکالا اور ستاروں کی تسخیر پر آمادہ کیا۔ معراجِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی لیے اقبال نے ہمیشہ رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے بیان کے ساتھ ساتھ انسانی عظمت کے بیان کے طور پر بھی لیا ہے، عشق کی اِک جست نے طے کردیا قصہ تمام اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں یہی نہیں بلکہ اسلام کی اس شہ پر کہ ’’اگر تم کائنات کے کناروں سے نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ! لیکن تم نکل نہ سکوگے ، ہاں اگر تمہارے پاس بہت زیادہ توانائی ہو تو نکل سکتے ہو‘‘۔ (قران) اسی بنا پر اقبال نے ہرمؤمن کے لیے معراج کی شرط لازم قرار دے دی، مؤمن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے گویا فتویٰ صادر کردیا کہ جو معراج نہیں کرپاتا وہ مؤمن ہی نہیں۔ اب ذرا پھر سے سابقہ مضمون کے ساتھ اس تمام کنسٹرکشن کو جوڑیے! مذہب اتنا ماڈرن تھا اور سائنس کی قدامت پسندی مذہب کو ہرگز قبول نہیں تھی۔چاہے وہ سائنس نیوٹن جیسے جیّد سائنسدان کی طرف سے وارد ہوئی اور ایک دنیا نے اسے مان لیا لیکن مذہب اور خاص طور پر اسلام نے بالکل نہ مانا۔ پھر جب سائنس نے مذہب کے نظریات کو بالآخر ۱۹۰۵ میں قبول کرلیا تو کسی ایک بھی مذہبی نے یہ الزام نہیں لگایا، ’’میاں! شرم کرو! تم لوگ تو سائنسدان ہو۔ یہ تو ہمارے نظریات ہیں۔ تم لوگ ہمارے خیالات کی تائید کررہے ہو۔ اب کل کو اگر ہم نے یہ کہا کہ سائنسدانوں نے بھی مذہبی خیالات کی تائید کردی ہے تو پھر تم شور مچاؤگے کہ مذہبی لوگ سائنسی ترقی کو اپنی جھولی میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ دیکھ لو! تم لوگوں نے وہی بات مان لی ہے جو ہم اِتنی صدیوں سے کہتے آرہے ہیں‘‘۔ یقین جانیے! کسی مذہبی نے سائنسدانوں کو ایسا طعنہ نہیں دیا۔ اس کے برعکس مذہبی لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ ’’چلو! دیر آید درست آید‘‘ یا ’’صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آجائے تو اُسے بھولا نہیں کہتے‘‘۔ لیکن وائے حسرت کہ آج دنیا بھر میں ایسی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ یہ ڈھنڈورا پیٹا جاتاہے کہ ’’سائنس جب بھی کوئی نئی بات دریافت کرتی ہے تو مذہب اُس کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش شروع کردیتاہے‘‘۔ گزشتہ دنوں جب ’’جی ویو‘‘ کی دریافت کا اعلان ہوا اور مذہبی لوگوں نے اس لیے خوشی کا اظہار کیا کہ اس سے ’’سپیس ٹائم فیبرک‘‘ کا حتمی ثبوت مل گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ مذہب کے وہ تمام نظریات جو صدیوں قبل سپیس ٹائم کے فولڈ ہوجانے کے بارے میں ہیں وہ فی الواقعہ درست ہیں اور جیسے بگ بینگ کو تسلیم کرتے ہوئے سائنسدانوں نے اپنے قدیم جاھلانہ تصور کو ترک کردیا ،ممکن ہے اب یہ ثابت ہوجانے کے بعد کہ وقت اور خلا لچکدار ہیں، سائنسدان اِس مرتبہ ندیدے لوگوں والی ڈھٹائی نہ کریں اور کھلے دل سے مان لیں کہ ’’بھئی! مذہب بیچارہ تو ہمیں صدیوں بلکہ ہزاروں سال سے کہتا آرہا ہے کہ سپیس ٹائم فولڈ ہوسکتی ہے۔ ہم ہی تھے کہ ڈٹے ہوئے تھے اور مذہب کی ہربات کا انکارکرتےتھے‘‘۔ محترم قارئین! آپ نے بھی فیس بک پر اور عام زندگی میں ایسے گرم دماغ نوجوانوں سے ملاقات کی ہوگی جن کی طبیعت شدت پسندی مذہبیوں سے ملتی جلتی ہے اور جو چھُوٹتے ہی سب سے پہلے مذہب کو گالی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اِس مذہب کی ایسی تیسی، جو کوئی سائنسی ایجاد یا دریافت ہوتی ہے ، یہ فوراً اپنی بائیبل اور قران اُٹھا کر آجاتاہے کہ، یہ دیکھو! یہ دیکھو! یہ بات تو ہمارے ہاں پہلے سے لکھی ہوئی تھی‘‘۔ یہ نہایت متشدد، غیر سائنسی لوگ ہیں۔ انہیں یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ مذہب نے بیسویں صدی کے آغاز سے پہلے کبھی سائنس کی کسی بات کے بارے میں یہ نہیں کہا کہ ’’یہ ہمارے ہاں پہلے سے لکھی ہوئی تھی‘‘۔ ہمیشہ مخالفت ہی کی۔ ظاہر ہے یہ مخالفت اور بھی طویل رہتی ، بلکہ اب تک باقی رہتی اگر سائنس بالآخر یہ قبول نہ کرلیتی کہ مذہب صدیوں سے جو کہتا آرہا تھا وہی درست ہے۔یہ دوست ایسا کیوں نہیں سوچتے کہ سائنس نے بالآخر مذہب کی بات قبول کرلی نہ کہ مذہب نے سائنس کی۔ واقعۂ معراج مسلمانوں کے پاس پندرہ سو سال سے موجود ہے۔ واقعہ معراج کے علاوہ بھی سپیس ٹائم فولڈ ہونے کے کئی واقعات ہیں۔ جن میں اصحاب ِ کھف کا واقعہ، حضرت عزیز علیہ السلام کا واقعہ وغیرہ اسلامی عقائد کا حصہ ہیں۔ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں بھی سپیس ٹائم فولڈ ہوجانے کے بے شمار واقعات کا ذکر ہے۔ جناب ِ عادل صدیقی نے بتایا کہ، ’’صرف سامی مذاہب ہی نہیں ، سناتن دھرم جس کو ہم ھندو مت کہتے ہیں اس میں بھی ٹائم اینڈ سپیس ٹریول کا ذکر ملتا ہے ۔ ھندو دھرم کے مطابق تین ازمنہ ہیں ۔ بھوت کال ، ورتمان اور بھاوِش کال ، مہابھارت کے ساتھ ساتھ ھندوؤں کے چار میں سے تین ویدوں ( رِگ وید ، سام وید اور یجُر وید ــــــ چوتھا وید اتھروا وید ہے جو مختلف تاریک شکتیوں کو جگانے کے لئے جاپے جانے والے شلوکوں پر مبنی ہے ) میں ٹائم ٹریول کا ذکر اس شدت سے کیا گیا ہے کہ ٹائم ٹریول سے متعلق اشلوکوں کو ویدوں سے نکال دیا جائے تو ان شلوکوں کے بغیر اگلی بات بالکل بلائنڈ ہو جائے گی ۔ اس کے بعد زرتشتیوں کی مقدس کتاب یاشنا میں پہلے باب کا 46 واں بند ’’اوستا‘‘ کے متعلق ہے جس میں زرتشت زمانہ ماقبل تاریخ میں جا کر اہورا مزدا کے ساتھ مل کر کچھ ایڈجسٹمنٹس کر کے زمانہءحال میں واپس آتے ہیں ۔ بدھ مت کی مقدس کتاب تری پتیکا میں بدھ کے 1000 نوری سال کے سفر کا روشنی کی رفتار پر سفر کرنے کا قصہ بیان کیا گیا ہے ، میرا سوال یہ ہے کہ ان تمام بڑے مذاہب میں کسی بھی مشین یا اوزار کے استعمال کا ذکر نہیں ہے سوائے اسلام میں برّاق کی سواری کے ، چلیں یہاں ایک منطقی بات تو کی گئی کہ آقا کریم ﷺ نے ایک سواری کو استعمال کیا ، مگر عقل انسانی دلیل مانگتی ہے کہ وہ سواری جسے براق کہا گیا وہ ایک معجزاتی سواری ہے یا اصل میں بھی کہیں موجود ہے ؟ ‘‘ غرض سپیس ٹائم فولڈ ہوجانے کی تصدیق سائنس نے اب کی ہے، لیکن یہ خیال صدیوں سے موجود ہے۔ جب تک مذہب اصرار کرتا رہا کہ ہاں ایسا ہوسکتا ہے، ہاں مکان اور زمانہ سمٹ جاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔ تب تک سائنس نے تسلیم نہ کیا۔ اور نہ ہی کبھی سائنس اِس طرف آنے والی تھی۔ وما کادُو! یفعلون۔ کیونکہ سائنس پر نیوٹن کے مطلق مکان (Absolute Time)اور مطلق زمانے (Absolute Time) کا راج تھا۔’’ارتھر ایڈنگٹن‘‘ نے جب رائل سوسائٹی آف سائنسز کے سائنسدانوں کے سامنے آئن سٹائن کے ’سپیسٹائم فیبرک‘ کا ماڈل رکھا تو وہ بھڑک اُٹھے، غصے میں آگئے۔ سب کا ایک ہی مؤقف تھا کہ ’’تم نیوٹن!!!! ہمارے عظیم نیوٹن کے نظریہ کا انکار کرتے ہو؟؟ لاحول ولا قوۃَ۔ یہ تو سراسربلاسفیمی ہوگی‘‘۔ ارتھر اڈنگٹن کی زندگی پر بننے والی فلم میں دکھایا گیا ہے اُس نے بالآخر یہ کہہ کر فنڈز منظورکروائے، ’’جرمن ہمارے دشمن ہیں۔ نیوٹن کی گریوٹی انگریزوں کا سرمایہ ہے۔ اگر میں نے ایک جرمن سائنسدان کو غلط ثابت کردیا تو جنگ کے اِن نازک دنوں میں جرمنوں کے لیے یہ ایک کاری ضرب ہوگی‘‘ یہ کہہ کر ایڈنگٹن نے فنڈز لیے، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ آئن سٹائن کی گریوٹی میں جان ہے اور یہ فِکر سچ ثابت ہوجانی ہے، اور وہی ہوا۔ ایڈنگٹن نے افریقہ جاکر سورج گرہن کے دوران روشنی کی شعاعوں کا سورج کے گریوٹی ویل (Gravity Well) میں مُڑنا دریافت کرلیا۔اور یوں ایک انگریز سائنسدان کے تجربے کی وجہ سے ایک جرمن سائنسدان جیت گیا۔ تب سے نیوٹن کی گریوٹی کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ کر دنیائے سائنس نے آئن سٹائن کی گریوٹی کو اختیار کرلیا۔ دنیا یکلخت بدلنے لگ گئی۔ کائنات کی قدامت، زمان و مکاں کا مطلق ہونا یہ سب نظریات ، قدیم سائنس بن گئے۔جبکہ مذہب کے ساتھ ملتی جلتی باتیں کرنے والی نئی سائنس ماڈرن سائنس بن کر راج کرنے لگی۔ ابھی دو پیرے قبل جب میں جناب ِ عادل صدیقی صاحب کا اقتباس پیش کررہا تھا تو اس اقتباس میں انہوں نے ’’البرّاق‘‘ کے فی الواقعہ اختباری ہونے پر سوال اُٹھایا۔ ناسا کے زیرِ انتظام ایک مشین (شِپ) بنانے کی کوشش کی جارہے ہی جس کا نام ہے، ’’سپیسٹائم ورپ ڈرائیو‘‘۔ یہ شِپ سپیسٹائم میں فولڈ پیدا کردے گی، جس سے سپیسٹائم میں روشنی کی رفتار سے کہیں زیادہ تیزسفر ممکن ہوسکے گا۔ چونکہ گریوٹیشنل ویو کی اپنی رفتار ہی روشنی کے برابر ہے اس لیے اس شِپ کا سفر آئن سٹائن کے قانون کی وائلیشن بھی نہ کریگا کہ کوئی شئے روشنی کی رفتار پر یا اس سے زیادہ پر سفر نہیں کرسکتی اور یہ شِپ روشنی کی رفتار سے کئی گنا زیادہ رفتار پر سفر بھی کریگی ۔ ’’سپیس ٹائم ورپ ڈرائیو‘‘ خود سپیسٹائم کی موج پر سوار ہو کر چلےگی اس لیے قانون کی وائیلیشن نہیں ہوسکتی۔اس کو ’’الکُو بیرے ڈرائیو‘‘ بھی کہتے ہیں۔ الکُوبیرے (Alcubierre) اُس سائنسدان کا نام ہے جس نے اس مشین کو ڈیزائن کیا۔
اگر یہ شِپ کامیابی سے بنا لی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ’’البراق‘‘ کی قدرے کمزور قسم وجود میں آجائے گی۔ اِسی طرح ’’رونالڈ میلیٹ‘‘ (Ronald Mallett) تھیوریٹکل فزکس کے ایک امریکی پروفیسر سالہال سے ایسی ٹائم مشین بنانے میں مصروف ہیں جو روشنی کی رفتار سے زیادہ پر سفر کرے گی۔ ان کا طریقہ نہایت سادہ ہے اور منطقی اعتبار سے قابل ِ عمل بھی۔ رونالڈ میلیٹ سپیس ٹائم فیبرک میں بھنور پید اکرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ رونالڈ کے تجربہ کو سمجھنے کے لیے آپ ایک مثال پر غور کریں، آپ کے سامنے چائے کا ایک بھرا ہوا کپ پڑاہے۔ آپ چائے کے کپ میں چمچ گھمانا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ ہی دیر میں چائے گھومنا شروع ہوجائے گی اور آپ دیکھیں گے کہ کپ میں موجود چائے میں ایک ننھا سا بھنور پیدا ہونا شروع ہوجائے گا۔آپ اگر چمچ کو اور تیز گھمائیں تو بھنور گہرا ہوجائے گا اور بَکِٹ ایکسپری منٹ والی بالٹی کی طرح چائے بھی مقعر (Concave) شکل اختیار کرلے گی۔ اب اگر آپ چنے کا ایک دانہ چائے کے کپ میں پھینک دیں تو کیا ہوگا؟ آپ کو چنے کا دانہ تیزی کے ساتھ گھومتا ہوا نظر آئے گا۔ اور آپ دیکھیں گے کہ چنا اُس گہرے بھنور کے چکر کاٹ رہاہوگا جسے وقتی طورپر آپ بلیک ہول سمجھ سکتے ہیں۔ خود سٹیفن ہاکنگ کے بقول فطرت میں بنی بنائی ٹائم مشین صرف بلیک ہولز ہی ہیں۔ چائے میں پیدا ہونے والے اس بھنور کو سپیسٹائم پر کام کرنے والے سائنسدانوں مثلاً سٹیفن ہاکنگ یا رونالڈ وغیرہ جیسے لوگوں کی طرف سے ’’و رم ہول‘‘ (Wormhole)کا نام دیا جاتاہے، یعنی کینچوے کا سوراخ۔ خیر! آپ اپنے چائے کے کپ میں چنے کے ایک دانے کی تیز گردش دیکھ رہے ہیں۔ آپ کو یقیناً یہی محسوس ہوگا کہ اصل میں دانہ گھوم رہاہے۔ لیکن آپ جانتے کہ دانہ نہیں گھوم رہا بلکہ چائے گھوم رہی ہے۔ یہ چائے سپیسٹائم فیبرک ہے ۔ اگر سپیس ٹائم فیبرک کو اِسی طرح گھما دیا جائے تو اس میں سفر کرتے ہوئے آبجیکٹس کی رفتار بھی سپیس ٹائم فیبرک کی موج کی رفتار کے برابر ہوجائے گی جو مسافر کے لیے روشنی کی رفتار ہوگی لیکن اس کے ناظر کے لیے روشنی کی رفتار سے کئی گنا زیادہ۔ رونالڈ کی ٹائم مشین میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اُسے ’’الکُبیرے‘‘ کی ورپ ڈرائیو کی طرح بے پناہ توانائی کی ضرورت نہیں ہے۔رونالڈ روشنی کی شعاعوں کو کام میں لارہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ روشنی کی شعاع کو مختلف طریقوں سے منعکس یا منعطف کرکے ہم اس کے مومینٹم میں تبدیلی لاسکتے ہیں جس سےروشنی کی شعاع کی فریکوئنسی بڑھ جاتی ہے یا کم ہوجاتی ہے۔ رونالڈ نے بے شمار آئینوں اور شیشوں کی مدد سے بار بار روشنی کی شعاعوں کی فریکوئنسیاں بدلی ہیں۔ اس طرح وہ روشنی کی شعاعوں کے ذریعے ہی ایسی طاقت حاصل کرنا چاہتاہے جو سپیس ٹائم فیبرک میں بھونچال پیدا کردے۔ نیچے رونالڈ کی مشین روشنی کی شعاعوں کی تصویر دی گئی ہے۔ الکُوبیرے کی ورپ ڈرائیو ہو یا رونالڈ کی ’’چائے کے کپ‘‘ والی مشین ، دونوں کے ذکر سے میرا مدعا یہ ہے کہ، سائنسی دنیا کے لوگ روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار پر سفر کرنے والی مشینیں بنانے میں مصروف ہیں۔ گویا وہ خیال کہ روشنی کی رفتار کا حصول انسان کے لیے ناممکن ہے اور اس لیے اِن کا ذکر ہی بند کیا جائے، غلط ثابت ہورہاہے۔ روشنی کی شعاع سے زیادہ رفتار کے تصور کا ذکر میرے اِس مضمون کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ اس طرح کہ، عموماً سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی کے ٹائم ڈائلیشن کا ذکر کرتے ہوئے مجھے یہ سوال سننے کو ملتاہے کہ ، واقعۂ معراج میں جس طرح کا ٹائم ڈائیلیشن واقع ہوا ہے وہ تو سپیشل تھیوری کے ڈائلیشن سے اُلٹ ہے۔ آئن سٹائن کے ٹائم ڈائلیشن میں دوجُڑواں بھائیوں کا پیراڈاکس مشہور ہے۔ دو جڑواں بھائیوں میں سے ایک روشنی کی رفتار کے قریب کی رفتار سے خلا میں چلا جاتاہے جبکہ دوسرا بھائی زمین پر رہ جاتاہے۔ جب پہلا بھائی ایک سال بعد خلاسے واپس آتاہے تو دوسرا بھائی سوسال کا ہوچکاہے۔ اگر سپیشل تھیوری کا ڈائیلیشن یہ ہے تو پھر واقعۂ معراج کا ڈائیلیشن واقعی اس کے برعکس ہے۔ کیونکہ معراج میں رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ وقت گزارا ہے ، اگرچہ آپ کے جسم پر مرورِ زمانی کے آثار نہیں تھےلیکن پھر بھی، آپ نے ایک لمبا عرصہ گزارا ہے جبکہ زمین پر لوگوں کا ایک پل بھی نہیں گزرا۔ سو واقعہ معراج ٹوِن پیراڈکس یا آئن سٹائن کے ٹائم ڈائلیشن کے اُلٹ ہے۔ یہ وضاحت کرنے کے بعد سوال کرنے والا یہ پوچھتاہے کہ پھر معراج مصطفیٰ کے واقعہ کو سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی کے ٹائم ڈائلیشن سے ثابت کرنا کیونکر درست ہوسکتاہے؟ یہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ روشنی کی رفتار کے قریب تک سفر کرنے سے ٹوِن پیراڈکس واقعہ ہوگا۔ روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار پر سفر کرنے سے ٹائم ڈائلیشن کی نوعیت بدل جائیگی۔خود سٹیفن ہاکنگ کے بقول ماضی میں جانے کے لیے روشنی کی رفتار سے زیادہ رفتار پر سفر کرنا ضروری ہے، اس لیے ماضی میں سفر ممکن نہیں۔ میں اکثر کہا کرتاہوں کہ قران میں رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’نورٌ علی نُور‘‘ کے الفاظ بطور خاص استعمال ہوئے ہیں۔میں ذاتی طور پر نورٌ علی نُور کو روشنی ضرب روشنی کے مترادف سمجھتاہوں۔ یا روشنی کی رفتار ضرب روشنی کی رفتار۔ یہ وہ مقام ہے جس پر مادہ توانائی میں بدل جاتاہے۔ اس مقام پر ٹائم ڈائلیشن کی نوعیت اور قسم کیا ہوگی میں کوئی اندازہ لگانے کے قابل نہیں ہوں البتہ معراج کا ٹائم ڈائلیشن سپیسٹائم کے ڈائلیشن کے الٹ ہوکر بھی کیسے سمجھ میں آسکتاہے اس کے لیے میرے پاس ایک اینالوجی ہے۔ البراق بالکل ویسے ہے جیسے ایک بہت بڑی سُوئی کا تصور۔ یہاں سُوئی سے مراد گھڑی والی سُوئی ہے۔ جسے انگلش میں ’’ہینڈ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ سُوئی اتنی بڑی ہے کہ اِس کا ایک سِرا زمین پر ہے اور دوسرا سرا دُور بہت دُور خلاؤں تک چلا گیا ہے۔ بالکل ویسے جیسے آج کل ’’سپیس ٹائم ایلیویٹر‘‘ کے تصور پر، بے شمارلوگ خود ناسا کی آشیرواد کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ (نوٹ: سپیس ٹائم ایلیویٹر پر میری الگ سے ایک پوسٹ موجود ہے)۔ اُس ایلیویٹر سے بھی لمبی سُوئی ہے یہ، جو ہم اپنے تھاٹ ایکسپری منٹ میں سوچ رہے ہیں۔ اگر اس سُوئی کو ذرا سی بھی حرکت دی جائے تو کیا ہوگا؟ اِس کا جو سرا زمین پر ہے وہ ایک سیکنڈ میں فقط ایک انچ سفر طے کریگا اور اِس کا دوسرا سرا جو دُور خلاؤں میں موجود ہے وہ لاکھوں کلومیٹر کا فاصلہ اُسی ایک سیکنڈ میں طے کرلیگا۔ یہ فقط ایک تاثر سمجھانے کی کوشش ہے۔ اس سُوئی کا فزکس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ایسی کوئی سُوئی ٹائم مشین کا متبادل نہیں ہوسکتی کیونکہ سُوئی کے ہر نقطے پر الگ الگ ریڈی اَس پیدا ہورہاہے اور اس لیے ایک نقطہ دوسرے پر متصل ہے نہ کہ منفصل۔ اگر مفصل ہوتا تو راز کھُل جاتا کہ زمینی سرا آسمانی سرے تک ، انفارمیشن کو فی الاصل توانائی کو اُس رفتار کے ساتھ نہیں پہنچا رہا جسے ہم روشنی کی رفتار سے زیادہ سمجھ رہے ہیں۔یہ بات ایک ٹرین کے ڈبوں کی طرح ہے۔ اگر پچھلے ڈبے کو زور سے دھکا لگے تو پہلے ڈبے تک اس کا اثر فوری نہیں پہنچتا۔ انفارمیشن کو جتنا وقت درکار ہے وہ اُتنا ہی وقت لیتی ہے۔ اس لیے اپنے سائنسدان دوستوں کے لیے مکررعرض کرتاہوں کہ میری یہ مثال ٹائم ڈائلیشن کے لیے نہیں بلکہ ایک تاثر سمجھانے کے لیے ہے۔ وہ تاثر جس میں زمین پر رہتے لوگوں کا وقت نہ گزرے جبکہ البرّاق کا مسافر سالہاسال گزارکر لوٹ آئے اور ویسے کا ویسا رہے، یعنی بُوڑھا نہ ہو۔ کارل ساگان نے اپنی مشہورکتاب’’کاسموس‘‘ میں جو اندازے بتائے ہیں ان کے مطابق اگر انسان روشنی کی رفتار کا ایک بٹا دس حاصل کرلے تو اکیس سال کے عرصہ میں وہ ہماری کہکشاں(ملکی وے) کے وسط سے چکرلگا کر واپس زمین پر آجائیگا لیکن اس وقت تک زمین پر ہزاروں سال گزرچکے ہونگے۔ اور وہ شخص انچاس سال میں پوری کائنات کا چکر لگا کر واپس زمین پر آسکتاہے۔لیکن اس وقت تک زمین فنا ہوچکی ہوگی۔یہ سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی والا ٹائم ڈائلیشن ہے۔ اس طرح کا ٹائم ڈائلیشن مذہب کے متعدد واقعات میں ملتاہے۔ حضرت عزیر علیہ السلام اور اصحاب کھفؓ کا ٹائم ڈائلیشن سپیشل تھیوری آف ریلیٹوٹی کا ٹائم ڈائلیشن ہے۔ اس کے برعکس معراج کا ٹائم ڈائلیشن بالکل مختلف ہے۔ واقعۂ معراج میں جس طرح کا ٹائم ڈائلیشن ہوا ہے یہ کئی جہانوں کے دروازے کھول رہاہے جن میں سب سے اہم ’’مستقبل سے گزر‘‘ کا نظریہ ہے۔ رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ معراج کے دوران سالہال گزارے ہیں اور احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ آپ ماضی کی بجائے مستقبل میں سفرکرتے ہوئے آگے بڑھے ہیں کیونکہ آپ نے جنت میں اُن لوگوں کو دیکھاہے جو ابھی زمین پر موجود تھے اور بقید ِ حیات تھے، جس سے ثابت ہوتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقبل دیکھا ہے۔ آپ نے بہت آگے تک کا مستقبل دیکھاہے اور یقیناً سارے مستقبل کو عبور کرکے آپ ’’ابدی حال‘‘ کے دروازے پر پہنچے ہیں جسے سدرۃ المنتہیٰ کہا جاتاہے۔ایک حدیث کے مطابق خدا خود زمانہ ہے، چنانچہ آپ سدرۃ المنتہیٰ کے بعد ’’حال‘‘ میں داخل ہوئے ہیں۔ اصلی حال، خالص حال ، ابدی حال۔ اسی لیے فلسفی، خدا کے ٹائم کو ’’پیورٹائم‘‘ قراردیتے ہیں، جو خود حال ہے لیکن اس سے کتنے ہی بِگ بینگز کے پھول کھلتے اور نئی نئی کائناتوں کے سُوتے پھوٹتے ہیں۔ جو خود ہرطرح کے دورانیے سے پاک ہے لیکن اسی حال کے نقطۂ مرکزی سے مستقبل اور ماضی تخلیق ہوتے ہیں۔ ان بے شمار جہانوں میں اس کی شان مختلف ہے۔ ہر کائنات اُس کے اُسی ایک پَل میں ایسے موجود ہے جیسے روشنی کی موج میں ایک فوٹان۔ وہ حال ہے، یعنی ماضی اور مستقبل کا نقطۂ اتصال۔ وہ دائم ہے لیکن غیر فعال نہیں۔ کُلَّ یومٍ ھو فی شان کے مصداق وہ اپنے زمانے میں دائم رہتے ہوئے بھی ایک سکینڈ کے دس کی طاقت مائنس بتیسویں حصے میں کائناتوں کی کائناتیں تخلیق کرسکتاہے اور کرررہاہے۔ رسول اطہر صلی اللہ وعلیہ وسلم، اُس حال میں داخل ہوئے۔ آپ کے لیے مستقبل سے گزر کرنا لازمی تھا ، اگرچہ معمولی کام تھا۔ چنانچہ آپ مستقبل سے گزرے۔ آپ ساتویں صدی عیسویں، آٹھویں صدی عیسوی، نوی، دسویں، گیارہویں، بارہویں ، علی ھذالقیاس، ہرصدی سے گزرے۔ آپ دوہزار سولہ سے گزرے۔ آپ کا گزر ہرصدی کے ہرسال کے ہردن میں سے تھا۔ آپ ہردن کو نارمل انسانوں کی طرح گزارتے ہوئے گزرے۔آپ نے اپنے عہد کے سامنے بچھا سارا مستقبل دیکھا۔ آپ قیامت تک کے حال سے واقف ہوگئے۔ آپ نےکائنات کے خاتمے کے بعد کا مستقبل دیکھا۔ غرض وہ مقام جہاں سب سے طاقتور فرشتے کے پر جلتے تھے، جسے ہر ہر بِگ بینگ کے ابتدائی ذرّے کی سپر پوزیشن کو کولیپس کرنے والے شاہد (آبزرور) کا مقام کہا جانا چاہیے۔ وہ مقام جہاں لامتناہی ڈائمیشنز میں بیک وقت رہنے والا سب سے بڑا ذہن (ذاتِ حق) موجود ہے۔وہ مقام جو ابدی حال ہے اور جہاں سے کروڑوں نئے نئے بگ بینگز کے شگوفے پھوٹتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں بھی پہنچے۔ یہ سارا سفر مکمل کرکے واپس لوٹے تو ابھی دروازے کی کُنڈی ویسے کی ویسے ہِل رہی تھی۔ پانی ویسے کا ویسے بہہ رہا تھا۔یہ سپیشل تھیوری آف ریلیوٹی کا ٹائم ڈائلیشن نہیں ہے۔ یہ فقط سپیس ٹائم فیبرک کا’’ فولڈ‘‘ نہیں ہے۔ یہ روشنی ضرب روشنی کی رفتار کا مقام ہے۔ یہ کسی ایک بگ بینگ سے بنائی گئی کائنات کا مکمل سفر نہیں جو انچاس سال میں کوئی بھی انسان کرسکتاہے۔ جب کبھی بھی واقعۂ معراج کا ذکر ایسے احباب کے سامنے ہو جو سائنسی طرز فکر کو ہرشئے پر ترجیح دیتے ہیں تو ان کا پہلا اور آخری سوال ایک ہی ہوتاہے کہ کسی انسان کے پاس بغیر مشین یا ٹیکنالوجی کے اتنی زیادہ توانائی کیسے آسکتی ہے کہ وہ روشنی کی رفتار ہی حاصل کرسکے کجا کے نُورٌ علی نُور کی رفتار کا حاصل کرنا ۔ لیکن حقیقت میں یہ وہ مقام ہے جہاں سائنس سے زیادہ فلسفہ ، نفسیات او رپیراسکالوجی کا جہان شروع ہوتاہے۔ عام طور پر اکیڈمکس کے نزدیک پیراسائیکالوجی ہومیو پتھک کی طرح بے بنیاد چیز ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ سائیکالوجی میں انسان کی علمی کاوشیں ابھی کسی کوپرنیکن انقلاب کی منتظر و محتاج ہیں ۔ جبکہ پیرا سائیکالوجی کا تو نام ہی جادوگروں جیسا ہے۔کسی انسان کے پاس مشین کے بغیر اتنی توانائی کہاں سے آسکتی ہے کہ وہ معراج جیسی طاقت حاصل کرلے؟ اس سوال کا جواب ہے، استحکام ِ خودی سے۔ یہی وہ استحکام ِ خودی ہے جس کا استعمال کرکے نیٹشے اپنے رجعتِ ابدی سے پیدا ہونے حَبْس کو توڑتا ، ایک سپرمین کو تخلیق کرتا اور کائنات کو اسکے سامنے بے بس قراردینے کے لیے تیار ہوجاتاہے۔ استحکام ِ خودی کا نظریہ فزکس، حیاتیات اور شعور کی سائنس کو یکجا کرکے توانائی کے مراکز تک رسائی حاصل کرنے کا نام ہے۔ جب یورینیم کا ایٹم ، پھاڑا نہیں گیا تھا تب تک انسان کو معلوم نہیں تھا کہ محض ایک چمچ مادہ سے اتنی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے جو لاکھوں کی آبادی کے شہروں کو آن ِ واحد میں تباہ کردے۔ ایٹم کے نیوکلیس کی یہ عظیم ترین توانائی کل تک غیب تھی۔ آج ہمارے قابوں میں ہے۔ ہم فزکس کے مطالعہ کے دوران جانتے ہیں کہ توانائی کی کچھ ایسی قسمیں بھی ہیں جن کا راز ابھی تک صرف اور صرف راز ہے۔ جیسا کہ کائنات کی تہتر فیصد توانائی کو ’’ڈارک انرجی‘‘ کہا جاتاہے اور اس کی کسی بھی صفت سے انسان ابھی تک واقف نہیں کہ ڈارک انرجی کیا ہے اور کیسی ہے؟ اسی طرح اینٹی میٹر کہاں ملیگا؟ جس کا ایک گرام اگر ہمارے پاس ہو تو ہم ایک کار کے ذریعے خط اُستوأ پر سفر کرتے ہوئے زمین کے دس ہزار چکر لگا سکتے ہیں یا اپالو ففٹین جیسا ایک راکٹ خلا میں بھیج سکتے ہیں۔ یا انفلشین کے وقت اتنی توانائی کہاں سے آئی؟ جس نے ایک نہایت باریک ذرّے سے جو یقیناً خود بھی سپرپوزیشن پر ہوگا، ایک سیکنڈ کے دس کی طاقت مائنس بتیسویں حصے میں کائنات کا سارا مادہ پیدا کردیا؟ یا کشش ثقل کی عظیم ترین توانائی کہاں غائب ہو جاتی ہے کہ جب محسوس کرنے لگو تو ایک تنکے برابر نہیں اور دُور سے دیکھو تو اس نے پوری کائنات کو پکڑ رکھاہے۔یا ڈارک میٹر کیا ہے اور اس کے پارٹکلز کیا ہیں وغیرہ وغیرہ۔ غرض توانائی اور ریڈی ایشنز کی ابھی لامحدود قسمیں اَن ایکسپلورڈ ہیں۔ سو جیسے اِن توانائیوں کے راز پنہاں ہیں ویسے اور بھی کچھ توانائیاں ہیں جو ابھی تک فزکس اور نفسیات کی نظروں سے بالکل پوشیدہ ہیں۔ ان میں سے بعض ایسی بھی ہیں جن کے بارے میں ہم بھی اوراہل ِ سائنس بھی تجسس کا ایک شائبہ سا رکھتے ہیں لیکن جانتا کوئی نہیں کہ وہ کیا ہے۔ مثلاً ، اگر دو پالتوجانور چند سال ایک دوسرے کے ساتھ رہیں تو وہ ایک دوسرے کی شناخت کیسے مقررکرلیتے ہیں؟ اگر اُن میں سے ایک کو دور بھیج دیا جائے اورپھر کچھ سال کے بعد واپس لایا جائے تو وہ پھر سے ایک دوسرے کو کیسے پہنچان لیتے ہیں؟ اس سے بھی بڑھ کر جو فی الواقعہ توانائی ہے وہ ’’درندوں اور سبزی خوروں‘‘ کے تعلق میں دیکھی گئی ہے۔ اِسے ہم اپنے طور پر ’’پریڈیٹرزٹیلی پیتھی‘‘ کا نام دے سکتے ہیں۔ جب ایک درندہ رات کی تاریکی میں بھی اپنے شکار کو عقب سے گھورتاہے تو اس کا شکار بے چین ہوجاتاہے۔ وہ کسی نہ کسی طرح جان جاتاہے کہ اس کی جان خطرے میں ہے۔ کُتے اچانک خلا میں کسی طرف منہ کرکے بھونکنے لگ جاتے ہیں یا کسی ان دیکھی چیز کو دیکھ کر چارپائی کے نیچے چھُپ جاتے ہیں۔ کتنی ہی ایسی نامعلوم توانائیاں ہیں جنہیں ابھی تک سائنسی دنیا سے نظر التفات نہ مل سکی۔ اگر یورینیم کا ایک چمچ یکلخت توانائی کے بارے میں ہمارا کانسیپٹ تبدیل کرسکتاہے تو پھر ہم آسانی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی بہت سی توانائیاں ہمارے لیے ڈارک انرجیز ہیں۔ اور ان میں سے کوئی بھی بھوت پریت کی طرح غیر منطقی نہیں بلکہ بگ بیگ والے پہلے ذرّے میں کہیں سے آجانے والی توانائی جیسی لاجک سے آراستہ ہیں۔ رسول ِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کا رہن سہن، کھانا پینا، کردار کی پختگی،صداقت، امانت ، تکالیف کو سہنا اور دوسروں کے لیے عمر بھر تگ و دو، ایسے عناصر ہیں جن سے بقول قران، رومیؒ اور اقبالؒ ایسی ہی توانائیاں حاصل ہوتی ہیں جن کی پیمائش شاید فزکس کے بس میں ہی نہ ہو لیکن جو بقول قران ’’سلطان‘‘ ہیں اور جن کی مدد سے ہم کائنات کے کناروں سے نکل کر صاحب ِ لولاک بن سکتے ہیں۔ یہ یقیناً نفسیات کی ڈومین ہوسکتی ہے لیکن نفسیات ابھی بچی ہے۔ انسان کو کتنے رازوں کا مجموعہ بنایا گیا ہے اس پر تو کبھی کسی نے نگاہ ہی نہیں کی۔ کائنات میں کتنے راز ہیں ابھی تک انسان اِس مخمصے کو سلجھانے میں لگا ہوا ہے۔ یہ بالکل دوسال کے بچے والی حرکت ہے جو تتلی کو سمجھنا چاہتاہے، اپنی ذات کی پرواہ کیے بغیر۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔