Friday, October 14, 2016

SAHIH SANAD KEE BAWAJUD HADEES PER AMAL NAHI




صحتِ سند کے باوجود حدیث کے ناقابل عمل ہونے کی صورتیں:

صحتِ سند کے باوجود حدیثیں بسااوقات ناقابل عمل ہوتی ہیں، یعنی اصول روایت کی روشنی میں تووہ حدیث راوی کے عادل اور صادق ہونے اور جمیع شروطِ صحت کوجامع ہونے کی وجہ سے بالکل صحیح ہوتی ہیں؛ لیکن اصولِ درایت کی روشنی میں وہ حدیث بچند وجوہ درست نہیں ہوتی۔
جب کوئی ثقہ اور مامون شخص متصل سند سے کوئی حدیث روایت کرے تودرجِ ذیل صورتوں میں ناقابل قبول شمارکی جائے گی:
1۔حدیث کا خلافِ عقل ہونا:
پہلی صورت یہ ہے کہ حدیث موجباتِ عقلیہ یعنی عقلِ سلیم جس بات کوضروری قرار دے رہی ہو یہ حدیث اس کے خلاف ہوتورد کردی جائے گی؛ چونکہ شریعت ممکناتِ عقلیہ کوبیان کرتی ہے محالات کونہیں، مثلاً حدیث:
یعنی زنا سے پیدا ہونے والی اولاد زانی، مزنیہ اور ولد تینوں میں بدترین ہے۔ (مستدرک، كتاب العتق،حدیث نمبر:۲۸۵۳، شاملہ، الناشر:دارالكتب العلمية،بيروت)
اِس حدیث کوحاکم نیساپوری نے مستدرک:۳۱/۱۱۲، میں روایت کرکے اس کوصحیح کہا ہے اور حافظ ذھبی رحمہ اللہ نے بھی اس بارے میں ان کی موافقت کی ہے؛ مگرحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس حدیث کوعقل کی کسوٹی پرپرکھتے ہوئے رد فرمارہے ہیں، فرماتے ہیں:ترجمہ:اگریہ تینوں میں بدترین ہوتا تواس کی ماں کورجم کیئے جانے میں اتنی مہلت نہ دی جاتی کہ وہ اسے جن لے۔ (سیراعلام النبلاء:۴/۳۰۰، شاملہ،موقع یعسوب)

2۔ قرآن کے خلاف ہونا
دوسری صورت یہ کہ وہ حدیث قرآن کریم کی کسی آیت سے معارض ہوتو سمجھا جائے گا کہ اس حدیث کی یاتوکوئی بنیادہی نہیں ہے یاپھروہ منسوخ ہے یامؤوّل ہے، مثلاً حدیث:ترجمہ:کہ زنا کی اولاد سات نسل تک جنت میں نہیں جائیگی۔ (اللآلي المصنوعة في الأحاديث الموضوعة:۲/۱۶۴،شاملہ، المؤلف:جلال الدين السیوطی،الناشر:دارالكتب العليمة)
یہ حدیث قرآنِ کریم کی آیت:ترجمہ:اورکوئی بوجھ اُٹھانے والا کسی اور کابوجھ نہیں اُٹھائے گا۔ (الانعام:۱۶۴) کے صریح معارض ہے؟ اس لیے علماءِ امت نے اس کوموضوع قرار دیا ہے۔

3۔سنتِ مشہورہ کے خلاف ہونا
تیسری صورت یہ ہے کہ وہ حدیث کسی سنتِ مشہورہ سے معارض ہورہی ہوتویہ سمجھا جائے گا کہ وہ حدیث یاتومنسوخ ہے یامؤول ہے یاغیرثابت ہے،مثلاً:ترجمہ:اگرجنابت کی حالت میں کسی کی صبح ہوجائے تواس دن وہ شخص روزہ نہ رکھے، اِس کا روزہ نہیں ہوگا۔(مسنداحمدبن حنبل،مسند أبي هريرة رضي الله عنه،حدیث نمبر:۸۱۳۰، صفحہ نمبر:۲/۳۱۴، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت منقول ہے علامہ بوصیریؒ نے الزوائد میں اس کی سند کوصحیح اور رجال کوثقہ کہا ہے؛ لیکن جمہور نے اس حدیث کوسنتِ مشہورہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے ترک کردیا ہے، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اورام المؤمنین ام سلمہؓ سے کثیر طرق سے اس مضمون کی حدیثیں مروی ہیں کہ خود رسول اللہﷺ کی اس حال میں صبح ہوتی تھی اور آپﷺ غسل فرماکر نمازِ فجرپڑھانے کے لیے برآمد ہوتے تھے اور اس دن کا روزہ بھی رکھتے تھے۔(شرح معانی الآثار للامام الطحاوی، باب الرجل یصبح فی یوم من شھر رمضان جنبا ھل یصوم أم لا؟، شاملہ، موقع الإسلام)

4۔ اجماع کے خلاف ہونا

چوتھی صورت یہ ہے کہ وہ حدیث اجماع کے خلاف ہو جس سے یہ سمجھا جائے گا کہ وہ یاتومنسوخ ہے یااس کی کوئی بنیاد نہیں ہے یااس کا ظاہری مفہوم مراد نہیں؛ بلکہ اس میں ایک قسم کی تاویل ہے؛ چونکہ اگروہ حدیث واقعتاً ثابت ہو اور منسوخ یامؤول بھی نہ ہوتوممکن ہی نہیں کہ امت اس کے خلاف پرمتفق ہوجائے مثلاً حدیث:ترجمہ:کہ شراب پینے والے کوکوڑے لگاؤ؛ اگرپھربھی باز نہ آئے توچوتھی مرتبہ میں اسے قتل کردو۔ (ترمذی، کتاب الحدود عن رسول اللہﷺ ، باب ماجاء من شرب الخمر فاجلدوہ ومن عاد فی الرابعۃ فاقتلوہ، حدیث نمبر:۱۳۶۴، شاملہ، موقع الإسلام)
امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کونقل کرنے کے بعد فرمایا، شروع میں حکم ایسے ہی تھا؛ پھربعد میں منسوخ ہوگیا، محمدبن اسحاق نے محمدبن منکدر کے واسطہ سے حضرت جابر کی حدیث نقل کی ہے، فرماتے ہیں، حضوراکرمؐ نے فرمایا تھا کہ جوشخص شراب پئے اسے کوڑے لگاؤ؛ اگرچوتھی بار پی لے تواسے قتل کردو؛ پھراس کے بعد ایک شخص آپ کے پاس لایا گیا جس نے چوتھی بار شراب پی تھی توآپ نے پٹائی کرکے اُسے چھوڑدیا، قتل نہیں فرمایا، حضرت قبیصہ بن ذویب سے بھی یہی مضمون منقول ہے، اس کے بعد امام ترمذیؒ فرماتے ہیں: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ لَانَعْلَمُ بَيْنَهُمْ اخْتِلَافًا فِي ذَلِكَ فِي الْقَدِيمِ وَالْحَدِيثِ (ترجمہ:چوتھی مرتبہ شراب پینے والے کوقتل نہ کرے) پرتمام اہلِ علم کا عمل ہے اس سلسلہ میں متقدمین ومتأخرین میں سے کسی کااختلاف ہمارے علم میں نہیں ہے۔
5۔ حدیث کا شاذہونا
پانچویں صورت یہ ہے کہ کوئی ایک شخص کسی ایسی بات کے روایت کرنے میں منفرد ہو جس کا علم تمام یااکثرلوگوں کوہونا چاہیے تھا؛ پھربھی ایک ہی شخص کا روایت کرنا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ اس کی سرے سے کوئی اصل نہیں ہے؛ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کی کوئی اصل ہواور بے شمار لوگوں میں سے صرف اسی کومعلوم ہو، فقہائےکرام اس طرح کی احادیث کوشاذ سے تعبیر کرتے ہیں، حدیث قلتین، جس کے راوی حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ ہیں کہ حضوراکرمﷺ نے فرمایا: ترجمہ:پانی جب دوقلہ (دومٹکوں کے بقدر) ہوجائے تواس میں ناپاکی سرایت نہیں کرتی یعنی وہ ناپاک نہیں ہوتا۔ (ترمذی، كِتَاب الطَّهَارَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مِنْهُ آخَرُ،حدیث نمبر:۶۲،شاملہ، موقع الإسلام)
یہ حدیث گرچہ متعدد سندوں سے مروی ہے؛ لیکن تمام کامرجع دوسندیں ہیں، ایک سند ولید بن کثیر، عن محمد بن جعفر بن الزبیر عن عبداللہ بن عبداللہ عن ابن عمر اور دوسری سند الولید بن کثیر عن محمد بن عباد بن جعفر عن عبیداللہ بن عبداللہ عن ابن عمر ہے اور اس میں روایت کا اختلاف ہے؛ اسی وجہ سے بعض ناقدین نے اسپراضطراب کا حکم لگایا ہے، حافظ ابنِ قیمؒ نے تہذیب سنن ابی داؤد، صفحہ نمبر:۱/۶۲ پرکئی نقد کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے، جہاں تک شذود کا تعلق ہے تویہ حدیث حلال وحرام اور طاہروناپاک کے درمیان ایک ضابطہ کی حیثیت رکھتی ہے، پانی کی طہارت ونجاست کے تعلق سے اسکا وہی مقام ہے جوزکوٰۃ میں مالوں کے نصاب اور وسق وغیرہ کی ہے؛ پھرکیوں یہ حدیث صحابہؓ کے درمیان معروف نہیں ہوئی کیوں امت کواس حدیث کوجاننے کی زکوٰۃ کے نصاب کوجاننے سے زیادہ ضرورت تھی؛ چونکہ پاکی وناپاکی سے یہ امیروغریب کوواسطہ پڑتا ہے، اس کے مقابل زکوٰۃ کے نصاب وغیرہ کی جانکاری صاحب نصاب کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
صرف اُس روایت کو حضرت ابن عمرؓ سے ان کے صاحبزادے عبداللہ اس روایت کونقل کرتے ہیں، ان کے دیگر تلامذہ نافع، سالم، ایوب اور سعید بن جبیر وغیرہ کہاں گئےاتنی اہمیت کی حامل حدیث جوپاکی وناپاکی کے درمیان ایک ضابطہ اور رابطہ کی حیثیت رکھتی ہے اس کو اہلِ مدینہ کے درمیان خوب چرچا ہونا چاہیے تھا، اس سے پتہ چلا کہ حضرت عمرؓ کے پاس کوئی ایسی سنت سرے سے تھی ہی نہیں۔

6۔ حدیث کا کسی ایسے مسئلہ سے متعلق ہونا جوتواتر کا متقاضی ہو

چھٹی صورت یہ ہے کہ کوئی ایک شخص کسی ایسی بات کے نقل کرنے میں منفرد ہو جس کوبطریق تواتر منقول ہونا چاہیے تھا اور اس جیسی بات عادتا تواتر کے ساتھ ہی منقول ہوا کرتی ہے؛ چنانچہ اس منفرد شخص کی یہ حدیث قبول نہیں کی جائیگی؛ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس جیسے قضیہ میں صرف یہی شخص روایت کرے، مثلاً: وہ حدیث عقائد کے باب سے تعلق رکھتی ہو، یاکسی کلام کوقرآن کی آیت بتلاتی ہو جس کا آیت ہونا تواتر سے منقول نہ ہو؛ چنانچہ قرأت شاذہ کوقرآن کا درجہ نہیں دیا جاسکتا؛ خواہ ان کی روایت صحیح اور متصل سند ہی کیوں نہ ہو۔

حدیث کی تقویت میں اصولِ درایت کا اثر

مذکورہ بالا امور سے حدیث کا ناقابل عمل یامرجوح ہونا معلوم ہوتا ہے، جب کہ کچھ قرائن اور دلائل ایسے بھی ہوتے ہیں جواصولِ درایت کی روشنی میں غیرمقبول حدیث کومقبول اور قابل عمل بنادیتے ہیں؛ چنانچہ خطیب بغدادی اپنی کتاب الکفایہ میں لکھتے ہیں:
ترجمہ:پہلی قسم جس سے حدیث کی صحت کا علم ہوتا ہے، اس کی جانکاری کی راہ ہے اگروہ روایت متواتر نہ ہو کہ جس سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے کہ وہ روایت مقتضائے عقل کے مطابق ہو، کبھی اس کی صحت یوں معلوم ہوتی ہے کہ وہ خبرنص قرآنی یاسنت مشہورہ کے مطابق ہو یاامت نے اس روایت کودرست گردانا ہو اور اس پرعمل درآمد کیا جاتا رہا ہو۔ (الکفایۃ فی علم الروایۃ،باب الكلام في الاخبار وتقسيمها:۱/۱۷،شاملہ،الناشر: المكتبة العلمية،المدينة المنورة)

مطلب یہ ہے کہ گرچہ حدیث اخبارِ آحاد سے تعلق رکھتی ہولیکن اس کے ساتھ وہ مقتضائے عقل کے مطابق ہو یانص قرآنی کے موافق ہو، یاسنتِ متواترہ کے موافق ہو، یاامت کا اس کے مطابق اجماع ہو، یاعمومی طور پراس حدیث کولوگوں نے قبولیت کے ہاتھوں لیا ہو اور اس کے تقاضے پر عمل کیا ہو یہ تمام قرائن اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے؛ گرچہ اصولِ روایت کے مطابق اس میں کچھ خلل اورکمزوری کیوں نہ ہو۔

مجموعی گفتگو سے پتہ چلا کہ علمائے امت نے جس طرح اصولِ روایت کواپناکر حدیث کے سلسلہ اسناد کے احوال کومعلوم کیا ہے اسی طرح اصولِ درایت پر، پرکھ کراسکے متن کے قابل عمل یاناقابل عمل ہونے کا پتہ بھی چلایا ہے۔

جاری ہے
 فوزیہ جوگن نواز 

No comments:

Post a Comment