Friday, October 14, 2016

SAHIH SANAD KEE BAWAJUD HADEES PER AMAL NAHI




صحتِ سند کے باوجود حدیث کے ناقابل عمل ہونے کی صورتیں:

صحتِ سند کے باوجود حدیثیں بسااوقات ناقابل عمل ہوتی ہیں، یعنی اصول روایت کی روشنی میں تووہ حدیث راوی کے عادل اور صادق ہونے اور جمیع شروطِ صحت کوجامع ہونے کی وجہ سے بالکل صحیح ہوتی ہیں؛ لیکن اصولِ درایت کی روشنی میں وہ حدیث بچند وجوہ درست نہیں ہوتی۔
جب کوئی ثقہ اور مامون شخص متصل سند سے کوئی حدیث روایت کرے تودرجِ ذیل صورتوں میں ناقابل قبول شمارکی جائے گی:
1۔حدیث کا خلافِ عقل ہونا:
پہلی صورت یہ ہے کہ حدیث موجباتِ عقلیہ یعنی عقلِ سلیم جس بات کوضروری قرار دے رہی ہو یہ حدیث اس کے خلاف ہوتورد کردی جائے گی؛ چونکہ شریعت ممکناتِ عقلیہ کوبیان کرتی ہے محالات کونہیں، مثلاً حدیث:
یعنی زنا سے پیدا ہونے والی اولاد زانی، مزنیہ اور ولد تینوں میں بدترین ہے۔ (مستدرک، كتاب العتق،حدیث نمبر:۲۸۵۳، شاملہ، الناشر:دارالكتب العلمية،بيروت)
اِس حدیث کوحاکم نیساپوری نے مستدرک:۳۱/۱۱۲، میں روایت کرکے اس کوصحیح کہا ہے اور حافظ ذھبی رحمہ اللہ نے بھی اس بارے میں ان کی موافقت کی ہے؛ مگرحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اس حدیث کوعقل کی کسوٹی پرپرکھتے ہوئے رد فرمارہے ہیں، فرماتے ہیں:ترجمہ:اگریہ تینوں میں بدترین ہوتا تواس کی ماں کورجم کیئے جانے میں اتنی مہلت نہ دی جاتی کہ وہ اسے جن لے۔ (سیراعلام النبلاء:۴/۳۰۰، شاملہ،موقع یعسوب)

2۔ قرآن کے خلاف ہونا
دوسری صورت یہ کہ وہ حدیث قرآن کریم کی کسی آیت سے معارض ہوتو سمجھا جائے گا کہ اس حدیث کی یاتوکوئی بنیادہی نہیں ہے یاپھروہ منسوخ ہے یامؤوّل ہے، مثلاً حدیث:ترجمہ:کہ زنا کی اولاد سات نسل تک جنت میں نہیں جائیگی۔ (اللآلي المصنوعة في الأحاديث الموضوعة:۲/۱۶۴،شاملہ، المؤلف:جلال الدين السیوطی،الناشر:دارالكتب العليمة)
یہ حدیث قرآنِ کریم کی آیت:ترجمہ:اورکوئی بوجھ اُٹھانے والا کسی اور کابوجھ نہیں اُٹھائے گا۔ (الانعام:۱۶۴) کے صریح معارض ہے؟ اس لیے علماءِ امت نے اس کوموضوع قرار دیا ہے۔

3۔سنتِ مشہورہ کے خلاف ہونا
تیسری صورت یہ ہے کہ وہ حدیث کسی سنتِ مشہورہ سے معارض ہورہی ہوتویہ سمجھا جائے گا کہ وہ حدیث یاتومنسوخ ہے یامؤول ہے یاغیرثابت ہے،مثلاً:ترجمہ:اگرجنابت کی حالت میں کسی کی صبح ہوجائے تواس دن وہ شخص روزہ نہ رکھے، اِس کا روزہ نہیں ہوگا۔(مسنداحمدبن حنبل،مسند أبي هريرة رضي الله عنه،حدیث نمبر:۸۱۳۰، صفحہ نمبر:۲/۳۱۴، شاملہ، الناشر: مؤسسة قرطبة،القاهرة)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت منقول ہے علامہ بوصیریؒ نے الزوائد میں اس کی سند کوصحیح اور رجال کوثقہ کہا ہے؛ لیکن جمہور نے اس حدیث کوسنتِ مشہورہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے ترک کردیا ہے، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اورام المؤمنین ام سلمہؓ سے کثیر طرق سے اس مضمون کی حدیثیں مروی ہیں کہ خود رسول اللہﷺ کی اس حال میں صبح ہوتی تھی اور آپﷺ غسل فرماکر نمازِ فجرپڑھانے کے لیے برآمد ہوتے تھے اور اس دن کا روزہ بھی رکھتے تھے۔(شرح معانی الآثار للامام الطحاوی، باب الرجل یصبح فی یوم من شھر رمضان جنبا ھل یصوم أم لا؟، شاملہ، موقع الإسلام)

4۔ اجماع کے خلاف ہونا

چوتھی صورت یہ ہے کہ وہ حدیث اجماع کے خلاف ہو جس سے یہ سمجھا جائے گا کہ وہ یاتومنسوخ ہے یااس کی کوئی بنیاد نہیں ہے یااس کا ظاہری مفہوم مراد نہیں؛ بلکہ اس میں ایک قسم کی تاویل ہے؛ چونکہ اگروہ حدیث واقعتاً ثابت ہو اور منسوخ یامؤول بھی نہ ہوتوممکن ہی نہیں کہ امت اس کے خلاف پرمتفق ہوجائے مثلاً حدیث:ترجمہ:کہ شراب پینے والے کوکوڑے لگاؤ؛ اگرپھربھی باز نہ آئے توچوتھی مرتبہ میں اسے قتل کردو۔ (ترمذی، کتاب الحدود عن رسول اللہﷺ ، باب ماجاء من شرب الخمر فاجلدوہ ومن عاد فی الرابعۃ فاقتلوہ، حدیث نمبر:۱۳۶۴، شاملہ، موقع الإسلام)
امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کونقل کرنے کے بعد فرمایا، شروع میں حکم ایسے ہی تھا؛ پھربعد میں منسوخ ہوگیا، محمدبن اسحاق نے محمدبن منکدر کے واسطہ سے حضرت جابر کی حدیث نقل کی ہے، فرماتے ہیں، حضوراکرمؐ نے فرمایا تھا کہ جوشخص شراب پئے اسے کوڑے لگاؤ؛ اگرچوتھی بار پی لے تواسے قتل کردو؛ پھراس کے بعد ایک شخص آپ کے پاس لایا گیا جس نے چوتھی بار شراب پی تھی توآپ نے پٹائی کرکے اُسے چھوڑدیا، قتل نہیں فرمایا، حضرت قبیصہ بن ذویب سے بھی یہی مضمون منقول ہے، اس کے بعد امام ترمذیؒ فرماتے ہیں: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ لَانَعْلَمُ بَيْنَهُمْ اخْتِلَافًا فِي ذَلِكَ فِي الْقَدِيمِ وَالْحَدِيثِ (ترجمہ:چوتھی مرتبہ شراب پینے والے کوقتل نہ کرے) پرتمام اہلِ علم کا عمل ہے اس سلسلہ میں متقدمین ومتأخرین میں سے کسی کااختلاف ہمارے علم میں نہیں ہے۔
5۔ حدیث کا شاذہونا
پانچویں صورت یہ ہے کہ کوئی ایک شخص کسی ایسی بات کے روایت کرنے میں منفرد ہو جس کا علم تمام یااکثرلوگوں کوہونا چاہیے تھا؛ پھربھی ایک ہی شخص کا روایت کرنا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ اس کی سرے سے کوئی اصل نہیں ہے؛ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کی کوئی اصل ہواور بے شمار لوگوں میں سے صرف اسی کومعلوم ہو، فقہائےکرام اس طرح کی احادیث کوشاذ سے تعبیر کرتے ہیں، حدیث قلتین، جس کے راوی حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ ہیں کہ حضوراکرمﷺ نے فرمایا: ترجمہ:پانی جب دوقلہ (دومٹکوں کے بقدر) ہوجائے تواس میں ناپاکی سرایت نہیں کرتی یعنی وہ ناپاک نہیں ہوتا۔ (ترمذی، كِتَاب الطَّهَارَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،بَاب مِنْهُ آخَرُ،حدیث نمبر:۶۲،شاملہ، موقع الإسلام)
یہ حدیث گرچہ متعدد سندوں سے مروی ہے؛ لیکن تمام کامرجع دوسندیں ہیں، ایک سند ولید بن کثیر، عن محمد بن جعفر بن الزبیر عن عبداللہ بن عبداللہ عن ابن عمر اور دوسری سند الولید بن کثیر عن محمد بن عباد بن جعفر عن عبیداللہ بن عبداللہ عن ابن عمر ہے اور اس میں روایت کا اختلاف ہے؛ اسی وجہ سے بعض ناقدین نے اسپراضطراب کا حکم لگایا ہے، حافظ ابنِ قیمؒ نے تہذیب سنن ابی داؤد، صفحہ نمبر:۱/۶۲ پرکئی نقد کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے، جہاں تک شذود کا تعلق ہے تویہ حدیث حلال وحرام اور طاہروناپاک کے درمیان ایک ضابطہ کی حیثیت رکھتی ہے، پانی کی طہارت ونجاست کے تعلق سے اسکا وہی مقام ہے جوزکوٰۃ میں مالوں کے نصاب اور وسق وغیرہ کی ہے؛ پھرکیوں یہ حدیث صحابہؓ کے درمیان معروف نہیں ہوئی کیوں امت کواس حدیث کوجاننے کی زکوٰۃ کے نصاب کوجاننے سے زیادہ ضرورت تھی؛ چونکہ پاکی وناپاکی سے یہ امیروغریب کوواسطہ پڑتا ہے، اس کے مقابل زکوٰۃ کے نصاب وغیرہ کی جانکاری صاحب نصاب کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
صرف اُس روایت کو حضرت ابن عمرؓ سے ان کے صاحبزادے عبداللہ اس روایت کونقل کرتے ہیں، ان کے دیگر تلامذہ نافع، سالم، ایوب اور سعید بن جبیر وغیرہ کہاں گئےاتنی اہمیت کی حامل حدیث جوپاکی وناپاکی کے درمیان ایک ضابطہ اور رابطہ کی حیثیت رکھتی ہے اس کو اہلِ مدینہ کے درمیان خوب چرچا ہونا چاہیے تھا، اس سے پتہ چلا کہ حضرت عمرؓ کے پاس کوئی ایسی سنت سرے سے تھی ہی نہیں۔

6۔ حدیث کا کسی ایسے مسئلہ سے متعلق ہونا جوتواتر کا متقاضی ہو

چھٹی صورت یہ ہے کہ کوئی ایک شخص کسی ایسی بات کے نقل کرنے میں منفرد ہو جس کوبطریق تواتر منقول ہونا چاہیے تھا اور اس جیسی بات عادتا تواتر کے ساتھ ہی منقول ہوا کرتی ہے؛ چنانچہ اس منفرد شخص کی یہ حدیث قبول نہیں کی جائیگی؛ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس جیسے قضیہ میں صرف یہی شخص روایت کرے، مثلاً: وہ حدیث عقائد کے باب سے تعلق رکھتی ہو، یاکسی کلام کوقرآن کی آیت بتلاتی ہو جس کا آیت ہونا تواتر سے منقول نہ ہو؛ چنانچہ قرأت شاذہ کوقرآن کا درجہ نہیں دیا جاسکتا؛ خواہ ان کی روایت صحیح اور متصل سند ہی کیوں نہ ہو۔

حدیث کی تقویت میں اصولِ درایت کا اثر

مذکورہ بالا امور سے حدیث کا ناقابل عمل یامرجوح ہونا معلوم ہوتا ہے، جب کہ کچھ قرائن اور دلائل ایسے بھی ہوتے ہیں جواصولِ درایت کی روشنی میں غیرمقبول حدیث کومقبول اور قابل عمل بنادیتے ہیں؛ چنانچہ خطیب بغدادی اپنی کتاب الکفایہ میں لکھتے ہیں:
ترجمہ:پہلی قسم جس سے حدیث کی صحت کا علم ہوتا ہے، اس کی جانکاری کی راہ ہے اگروہ روایت متواتر نہ ہو کہ جس سے علم یقینی حاصل ہوتا ہے کہ وہ روایت مقتضائے عقل کے مطابق ہو، کبھی اس کی صحت یوں معلوم ہوتی ہے کہ وہ خبرنص قرآنی یاسنت مشہورہ کے مطابق ہو یاامت نے اس روایت کودرست گردانا ہو اور اس پرعمل درآمد کیا جاتا رہا ہو۔ (الکفایۃ فی علم الروایۃ،باب الكلام في الاخبار وتقسيمها:۱/۱۷،شاملہ،الناشر: المكتبة العلمية،المدينة المنورة)

مطلب یہ ہے کہ گرچہ حدیث اخبارِ آحاد سے تعلق رکھتی ہولیکن اس کے ساتھ وہ مقتضائے عقل کے مطابق ہو یانص قرآنی کے موافق ہو، یاسنتِ متواترہ کے موافق ہو، یاامت کا اس کے مطابق اجماع ہو، یاعمومی طور پراس حدیث کولوگوں نے قبولیت کے ہاتھوں لیا ہو اور اس کے تقاضے پر عمل کیا ہو یہ تمام قرائن اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے؛ گرچہ اصولِ روایت کے مطابق اس میں کچھ خلل اورکمزوری کیوں نہ ہو۔

مجموعی گفتگو سے پتہ چلا کہ علمائے امت نے جس طرح اصولِ روایت کواپناکر حدیث کے سلسلہ اسناد کے احوال کومعلوم کیا ہے اسی طرح اصولِ درایت پر، پرکھ کراسکے متن کے قابل عمل یاناقابل عمل ہونے کا پتہ بھی چلایا ہے۔

جاری ہے
 فوزیہ جوگن نواز 

Asma' al-Rijal ( biographical evaluation )





یہ علم راویانِ حدیث کی سوانحِ عمری اورتاریخ ہے، اس میں راویوں کے نام، حسب ونسب، قوم ووطن، علم وفضل، دیانت وتقویٰ، ذکاوت وحفظ، قوت وضعف اور ان کی ولادت وغیرہ کا بیان ہوتا ہے، بغیراس علم کے حدیث کی جانچ مشکل ہے، اس کے ذریعہ ائمہ حدیث نے مراتب روات اور احادیث کی قوت وضعف کا پتہ لگایاہے۔

نقدِ اسناد کے مراحل

نقدِ اسناد کے لیے باحث کوپانچ مراحل سے گزرناپڑے گا:

١. نقدِ اسناد کے لیے جوبات سب سے پہلے پیشِ نظر رکھنی ہوگی وہ یہ ہے کہ رجال اسناد کی تعیین وتشخیص کرلی جائے؛ کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے ایک ہی طبقے کے راویوں کے نام، کنیت اور ان کی نسبت کبھی ایک ہوتی ہے، جس کی بناء پران کے درمیان امتیاز کرنا دشوار ہوجاتا ہے، اس کے لیے کتبِ رجال کی مدد لی جائے گی؛ پھراس راوی کے شیخ یاشاگرد وغیرہ کے احوال کے ذریعہ اس راوی کی تشخیص کی جائے گی، اس کے بعدیہ معلوم ہوکہ یہ کتب ستہ کا راوی یاضعیف راوی یااس کا تعلق کسی خاص شہر سے یاخاص طبقہ سے تومتعلقہ فنون کی کتاب سے؛ ورنہ عام کتب رجال کے ذریعہ جوحروف معجم پرترتیب دی گئی ہیں راوی کی تشخیص وتعیین کی جائے گی۔

٢. دوسرے رجالِ اسناد کی عدالت اور ضبط کی تحقیق کا مرحلہ ہے؛ چونکہ کسی بھی حدیث کے اصطلاحی اعتبار سے صحیح ہونے کے لیے اس میں پانچ شرطوں کا متحقق ہونا ضروری ہوتا ہے:(۱)راوی کا عادل ہونا (۲)راوی کا ضابط یعنی حدیث کو محفوظ رکھنے والا ہونا (۳)اسی طرح راوی اور اس کے شیخ اور راوی اُس کے شاگرد کے درمیان سند کا متصل ہونا (۴)حدیث کا شذوذ سے محفوظ ہونا (۵)حدیث کا کسی باطنی علت سے محفوظ ہونا۔

راوی کے عادل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ راوی مسلمان، عاقل، بالغ ہو، فسق اور انسانی شرافت کے خلاف امور اور بدعات سے اجتناب وپرہیز کرتا ہو۔
ضابط ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کوجیسے سنی تھی بغیر کسی کمی زیادتی کے ویسے ادا کرے؛ خواہ سینے میں محفوظ کرے یاسفینے (نوشتہ) میں، جس راوی میں یہ دونوں اوصاف جس کمال درجہ کے ہوں گے وہ اسی قدر ثقہ درجہ کا حامل ہوگا۔راوی کے اوصاف پر ایک نہایت جامع اور وجیز (وجیز کہتے ہیں جلدی سے سمجھ میں آنے والےمختصر کلام کو) بحث پیش ہے۔

"
راوی کے وہ تمام اوصاف جوبلحاظ روایت اس کی قبولیت کا معیار بن سکتے ہیں دواصولی صفات کی طرف راجع ہوتے ہیں، عدالت اور ضبط؛ اگرروایت کے راوی عادل ہوں جن میں عدالت کا فقدان یانقصان نہ ہو اور ادھر وہ ضابط ہوں جن میں حفظ وضبط اور تیقظ وبیداری کانقصان وفقدان نہ ہو اور قلت عدالت وضبط سے جوکمزوریاں راوی کولاحق ہوتی ہیں ان سے راوی پاک ہوں اور ساتھ ہی سندمسلسل اور متصل ہو تووہ روایت صحیح لذاتہ کہلائے گی، جواوصاف راوی کے لحاظ سے روایت کااعلی مرتبہ ہے؛ کیونکہ اس میں عدالت وضبط مکمل طریق پر موجود ہے، جوراویوں کوثقہ اور معتبر ثابت کرتا ہے؛ اس لیے اس دائرہ میں حدیث کی یہ قسم بنیادی اور اساسی کہلائے گی، اس کے بعدجوقسم بھی پیدا ہوگی وہ ان اوصاف کی کمی بیشی اور نقصان یافقدان سے پیدا ہوگی، اس لیے وہ اسی خبر کی فرع کہلائے گی، مثلاً اگرراوی ساقط العدالت ہوتو اس نقصانِ عدالت یافقدانِ عدالت سے پانچ اُصولی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں؛ جنھیں مطاعن حدیث کہا جاتا ہے:
(
۱)کذب (۲)تہمت کذب (۳)فسق (۴)جہالت (۵)بدعت: یعنی راوی کاذب ہویاکذب کی تہمت لیئے ہوئے ہو یافاسق ہو یاجاہل ونادان ہو یابدعتی ہو توکہا جائے گا کہ وہ عادل نہیں، اس لیے اس کی روایت کا کوئی اعتبار نہیں؛ اسی طرح اگرراوی ضابط نہ ہوتو اس نقصان حفظ یافقدانِ حافظہ سے بھی پانچ ہی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں 

جوروایت کوبے اعتبار بنادیتی ہیں:

(
۱)فرطِ غفلت (۲)کثرتِ غلط (۳)مخالفتِ ثقات (۴)وہم (۵)سوء حفظ: یعنی راوی غفلت شعار اورلااُبالی ہو، جس میں تیقظ اور احتیاط اور بیدار مغزی نہ ہو یاکثیرالاغلاط ہو یاثقہ لوگوں سے الگ نئی اور مخالف بات کہتا ہو یاوہمی ہو اسے خود ہی اپنی روایت میں شبہ پڑجاتا ہو یاحافظہ خراب ہو، بات بھول جاتا ہو توکہا جائے گا کہ یہ راوی ضبط وحفظ میں مضبوط نہیں، اس لیے اس کی روایت کا کچھ اعتبار نہیں؛ لیکن اس نقصانِ عدالت وضبط یاان دس مطاعن کے درجات ومراتب ہیں؛ اگران صفاتِ عدل وضبط میں کوئی معمولی سی کمی ہو؛ مگرروایت کے اور طریقوں اور سندوں کی کثرت سے ان کی کمزوریوں کی تلافی ہوجائے تواس حدیث کوصحیح لغیرہ کہیں گے؛ اگریہ تلافی اور جبر نقصان نہ ہو اور وہ معمولی کمزوریاں بدستور قائم رہ جائیں توحدیث حسن لذاتہ کہلائے گی؛ اگراس حالت میں بھی کثرتِ طرق سے تلافیٔ نقصان ہوجائے توحدیث حسن لغیرہ کہلائے گی اور اسی نسبت سے اُن کے اعتبار اور حجیت کا درجہ قائم ہوگا؛ پس اوصاف رواۃ کے لحاظ سے حدیث کی چار اساسی قسمیں نکل آئیں:
(١.)صحیح لذاتہ (۲)صحیح لغیرہ (۳)حسن لذاتہ (۴)حسن لغیرہ اور ان میں بھی بنیادی قسم صرف صحیح لذاتہ ہے جواپنے دائرہ میں سب سے اُونچی قسم ہے"۔
(فضل الباری، مولانا شبیراحمدعثمانیؒ:۱/۹۸۔ مقدمہ ، از مولانا قاری محمدطیب صاحبؒ)

٣. تیسرے مرحلہ میں ہمیں یہ تحقیق کرنا ہوگا کہ راوی کا اس کے شیخ سے سماع ثابت ہے یانہیں ہے کہ جس کے ذریعہ سند کے اتصال کا پتہ چل سکے، حدثنا، اخبرنا اور سمعت وغیرہ کے صیغے صراحتہ سماع پر دلالت کرتے ہیں، اس سے سند کے اتصال کا ثبوت ہوجائے گا، عَنْ وغیرہ سے روایت کرنے کی صورت میں اگرراوی معتمد ہے توکوئی بات نہیں؛ ورنہ کتبِ رجال کی مراجعت سے راوی اور شیخ کے درمیان سماع وعدمِ سماع کا ثبوت ہوجائے گا۔

٤. اس کے بعد چوتھا مرحلہ حدیث پرحکم لگانے کا ہے کہ راوی کی عدالت وضبط اور سند کے اتصال وغیرہ کی جانچ کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے کہ آیا یہ روایت صحیح درجہ کی ہے یاحسن کی یایہ حدیث ضعیف یاموضوع وغیرہ ہے،؟

حدیث پر احکام کے نفاد کا طریقہ:

اس کے لیے حافظ ابنِ حجرؒ نے تقریب التہذیب میں جوروات کی درجہ بندی کی ہے، ثقہ وضعیف ہونے کے اعتبار سے درجات قائم کیے ہیں، اِن الفاظِ جرح وتعدیل کوپیشِ نظر رکھ کرحدیث پراحکام کے نافذ کرنے کا طریقہ بیان کیا ہے اور کتب ستہ اور ان جیسی کتابوں کے روات کی درجہ بندی کی گئی ہے وہ درج ذیل ہے:
۱۔پہلےدرجہ کو حافظ نے صحابہ کرامؓ کے لیے مختص کیا ہے کہ ان کی تحقیق یاتفتیش کی کوئی ضرورت نہیں یہ بالکل اس سے ماوراء ہیں۔

۲۔دوسرادرجہ ان لوگوں کے لیے مختص کیا ہے جوعلماء جرح وتعدیل اور ائمہ نقد کی حیثیت رکھتے ہیں، ان لوگوں کوحافظ أوثق الناس، ثقۃ ثقۃ ثقۃ متقن جیسے مبالغہ کے صیغے یاتاکیدی تعبیر استعمال کرتے ہیں۔ اِن لوگوں کی حدیث نمبر ایک کی صحیح لذاتہ ہوتی ہے۔

۳۔تیسرا درجہ ان لوگوں کا ہے جن کوثقہ کہنے پردوسرے لوگ یعنی ائمہ جرح وتعدیل متفق ہوں؛ چنانچہ ان لوگوں کوحافظ صاحبؒ ثقۃ، متقن، حجۃ، حافظ، ثبت وغیرہ بغیرتکرار کے صیغوں کا استعمال کرتے ہیں؛ انھیں لوگوں میں وہ بھی شامل ہیں، جن کے صحابی ہونے میں اختلاف ہوا ہے۔ اس مرتبہ والوں کی حدیث نمبردو کی صحیح لذاتہ ہوتی ہے۔

۴۔چوتھا مرتبہ ان لوگوں کا ہے جن کے ثقہ کہنے پردوسرے درجہ کے ائمہ جرح وتعدیل تقریباً متفق ہوتے ہیں، کسی ایک دو نے اختلاف کیا ہوا ہوتا ہے، اس اختلاف کے پیشِ نظر حافظ صاحب انھیں کچھ ہلکی تعبیر سے موسوم کرتے ہیں صدوق، لاباس بہ، لیس بہ بأس۔ اس مرتبہ والوں کی حدیث نمبر تین کی صحیح لذاتہ ہوتی ہے۔

۵۔پانچواں درجہ ان لوگوں کا ہے جن کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل نے اختلاف کیا ہوا ہے، بعض توثیق اور بعض تضعیف کرتے ہیں، تضعیف کی بھی کوئی بنیاد ہوتی ہے، ایسے لوگوں کوحافظ صاحب صدوق یھم، صدوق یخطئی، صدوق لہ أوھام، صدوق یخطیٔ کثیراً جیسے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس مرتبہ والوں کی حدیث نمبر ایک کی حسن لذاتہ ہوتی ہے۔

۶۔چھٹا مرتبہ ان رجال کے لیے ہے جوقلیل الحدیث ہوتے ہیں (یعنی ان کی احادیث ایک سے دس کے درمیان ہوتی ہے) اور ان پرکوئی ایسی جرح بھی نہیں ہوتی کہ جس کی وجہ سے ان کی احادیث چھوڑی جائیں؛ اگرایسے لوگوں کوکوئی متابعت مل جاتی ہے توان کوحافظ صاحب مقبول اور جن کی متابعت نہیں کی گئی ہوتی ہے ان کو لین الحدیث کہتے ہیں۔ اس مرتبہ میں دوشقیں ہیں مقبول اور لین الحدیث مقبول کی حدیث نمبردوکی حسن لذاتہ ہوتی ہے اورلین الحدیث کی نمبر تین کی حسن لذاتہ ہوتی ہے۔

۷ ۔ساتواں مرتبہ ان لوگوں کے لیے جن سے روایت کرنے والے ایک سے زائد ہوتے ہیں؛ مگران کی توثیق کسی نے نہیں کی ہوتی، ایسے لوگوں کو حافظ صاحب مستور، مجھول الحال، لایعرف حالہ سے تعبیر کرتے ہیں، اس مرتبہ میں حافظ صاحب نے عموماً ان لوگوں کوشامل کیا ہے جن کوامام بخاریؒ نے اپنی تاریخ اور ابن ابی حاتم نے الجرح والتعدیل میں ذکر کیا ہوتا ہے اور وہ تابعین سے نیچے کے طبقے کے ہوتے ہیں، یااُن کے تعلق ابن ابی حاتم، ابن مدینی اورابن القطان نے مجہول کہا ہوتا ہے؛ کیونکہ یہ لوگ مجہول العین اور مجہول الحال دونوں پر مجہول کا اطلاق کرتے ہیں۔ اس مرتبہ کے لوگوں کی احادیث کے بارے میں توقف کیا جائے؛ تاآنکہ ان کا حل واضح ہوجائے؛ بایں طور کہ اس کا کوئی متابع یاشاہد مل جائے؛ لہٰذا یہ حدیث حسن لغیرہ کی نمبر ایک شمار ہوگی۔

۸۔اٹھواں مرتبہ ان لوگوں کا ہے جن کے متعلق کسی امام معتبر کی توثیق نہیں ہوئی ہے؛ بلکہ ائمہ جرح وتعدیل کی جانب اس کے ضعیف ہونے کا اطلاق موجود ہوتا ہے، یہ تضعیف مبہم ہی کیوں نہ ہو؛ اُن کوحافظضعیف، لیس بالقوی کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس مرتبہ کی حدیث ضعیف کہلاتی ہے اور تعدد طرق کی صورت میں بلند ہوکر حسن لغیرہ تک پہونچ جاتی ہے اس وقت یہ نمبردو کی حسن لغیرہ ہوگی۔

۹۔نواں درجہ ان رجال کا ہے جن سے روایت کرنے والا صرف ایک راوی ہوتا ہے اوران کی کسی نے توثیق نہیں کی ہوتی ہے، دراصل یہ لوگ اصحابِ حدیث ہوتے ہی نہیں۔ اس مرتبہ کے لوگوں کی حدیث بھی ضعیف ہوتی ہے اور تعدد طرق کی صورت میں بلند ہوکر حسن لغیرہ تک پہونچ جاتی ہے؛ مگریہ نمبرتین کی حسن لغیرہ ہوتی ہے

۱۰۔یہ درجہ ان لوگوں کا ہے جن کے متعلق ائمہ جرح وتعدیل نے سخت جرحیں کی ہوئی ہیں؛ یہاں تک کہ ان کے حدیث کے لکھنے یاان سے روایت کرنے سے بھی منع کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو حافظ متروک کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس مرتبہ کے لوگوں کی حدیث ضعیف جدا (بہت ضعیف) کہلاتی ہے۔
۱۱۔گیارہواں مرتبہ ان لوگوں کا ہے جوکذب کے ساتھ متہم ہوتے ہیں، یعنی حدیثِ رسول میں توان کا کذب ثابت نہیں ہوتا؛ البتہ عام بول چال میں وہ دروغ گوئی کے مرتکب ہوتے ہیں، ان لوگوں کوحافظ متھم بالکذب سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس مرتبہ کے لوگوں کی حدیث متروک کہی جاتی ہے۔

۱۲۔یہ ان بدبختوں کا درجہ ہے جوحدیثِ رسولﷺ میں جھوٹ کے مرتکب ہوتے ہیں؛ چنانچہ حافظ ان کووضاع یا کذاب کہتے ہیں۔ ان کی روایات موضوعات واباطیل کہلاتی ہیں؛ اگرایسا شخص توبہ بھی کرے توتوبہ کےبعد بھی اس کی حدیث قبول نہیں کی جاتی۔

حافظ ابنِ حجرؒ کی مذکورہ بالا ترتیب کوپیشِ نظر رکھ کر اسی کے مطابق حکم لگایا جاسکتا ہے، مثلاً اگرسند کے تمام روات دوسرے، یاتیسرے، یاچوتھے مرتبہ سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ کہہ سکتے ہیں اسنادہ صحیح اس کی سند صحیح ہے اور اگرسند میں کوئی راوی پانچویں یاچھٹے مرتبہ کا ہے توآپ کہہ سکتے ہیں اسنادہ حسن اس کی سند حسن ہےاور اگرسند میں کوئی راوی ساتویں یاآٹھویں مرتبہ کا ہے تو آپ کہیں گے اسنادہ ضعیف اس کی سند ضعیف ہے؛ اگر سند میں کوئی راوی دسویں مرتبہ کا ہے توآپ کہیں گے اسنادہ ضعیف جداً اس کی سند بہت ضعیف ہے؛ اگرسند میں کوئی راوی گیارہویں مرتبہ کا ہے توکہیں گے اسنادہ متروک اس کی سند متروک ہے؛ اگرسند میں کوئی راوی بارہویں مرتبہ کا ہے توکہیں گے اسنادہ موضوع۔

اس سے پتہ چلا کہ نتیجہ ہمیشہ کمزور کے تابع ہوتا ہے؛ پھراگر پانچویں اور چھٹے مرتبہ والے راویوں کوان ہی جیسا یااُن سے اچھے روات کی متابعت مل جائے توان پربھی صحیح کا حکم لگایا جائے گا، یہ صحیح لغیرہ ہوگی؛ اگرساتویں آٹھویں اور نویں مرتبہ والوں کومتابعت مل جائے تواُن کی سند ضعیف سے اٹھکر حسن لغیرہ کوپہونچ جائے گی؛ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے اسنادہ حسن۔

دسویں سے لےکر بارہویں مرتبہ تک کے لوگوں کوتعدد طرق سے کوئی فائدہ نہیں پہونچتا، ان کی سند میں کوئی قوت نہیں ہوتی؛ اگر راوی کےذکرتقریب التہذیب میں (جو کہ کتب ستہ اور اس کے بعض ملحقات کے راویوں کی درجہ بندی پرمشتمل ہے ) نہ ہوتو پھرکتبِ رجال سے اس راوی کے احوال کونکال کروہ راوی حافظ کےقائم کردہ مراتب میں سے جس مرتبہ سے میل کھاتا ہواس کے مطابق اس راوی کے حدیث کا درجہ متعین کیا جائے گا۔

 ٥. پانچواں مرحلہ حدیث کا شذوذ اور علت سے محفوظ ہونے کا ہے۔شدوذ کہتے ہیں کہ کوئی ثقہ راوی اپنی روایت میں اپنے سے زیادہ ثقہ یااپنے جیسے یااپنے سے فروتر متعدد ثقات کی حدیث کی مخالفت کرے اور علت سے مراد یہ ہے کہ سند کے بظاہر صحیح ہونے کے باوجود اس میں باطنی طور سے کوئی ایسی علت ہو جوحدیث کوناقابل قبول بناتی ہو، یہ علت کبھی سند میں ہوتی ہے اور کبھی متن میں اور کبھی دونوں میں، شذوذبھی درحقیقت علت ہی کی ایک صورت ہے، علت کی شناخت ہونے کے بعد اس کی مختلف صورتیں ملتی ہیں، جن کوالگ الگ نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے، مثلاً شاذ، منکر، مرسل خفی، مزید فی متصل الاسانید، مقلوب، مصحف، مدرج، مضطرب وغیرہ اور کچھ ایسی صورتیں بنتی ہیں جن کوکوئی نام نہیں دیاجاسکتا، علماءِ علل کا ضمیر اس کے معلول ہونے کی گواہی دیتا ہے؛ مگروہ اس کی نوعیت بیان نہیں کرسکتے، علت کی شناخت دشوار گزار کام ہوتا ہے علمِ علل کا موضوع ثقہ محدثین کی روایات ہوتی ہیں، ثقہ کی حدیث عموماً صحیح ہوتی ہے، اس میں وہم کا پکڑنا ماہرینِ علل کا ہی کام ہوسکتا ہے، ہرکس وناکس کے بس کی یہ چیز نہیں، بس احادیث کی علت وغیرہ کوجاننے کے لیے ان کتابوں سے رجوع کیا جائے گا جنہیں اس فن کے ماہر علماء نے لکھا ہے، اس طرح کی احادیث کا سب سے بڑا مجموعہ امام دارِقطنی (۳۸۵ھ) کی کتاب العلل الواردۃ فی الاحادیث النبویۃ ہے اس کی ترتیب مسانید صحابہ پر ہے۔

اس کے علاوہ اس فن کی اہم ترین کتاب ابن ابی حاتم کی علل الحدیث ہے جس میں فقہی ترتیب پراحادیث کوجمع کیا گیا ہے، اس میں ابن ابی حاتم نے اپنے والد ابوحاتم رازی اور ماموں ابوزرعہ راوی سے پوچھ کراحادیث کی علتوں کوجمع کیا ہے۔تیسری بہت اہم کتاب امام ترمذی کی کتاب العلل الکبیر ہے جس کوقاضی ابوطالب نے جامع ترمذی کے ابواب پرمرتب کردیا ہے، اس میں امام ترمذی خود بھی علتیں بیان کرتے ہیں اور عموماً امام بخاریؒ اور امام دارمی کے حوالہ سے علتیں بیان کرتے ہیں؛ اس کے علاوہ امام احمد کی کتاب العلل امام بخاری کیالتاریخ الکبیر ابوبکر بزار کی المسند المعلل اور طبرانی کی المعجم الأوسط وغیرہ کی بھی مراجعت کرلینی چاہئے، اس بارے میں نصب الرایہ للزیلعی اور التلخیص الحبیر لابن حجر وغیرہ کوبھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔

یہ مختصرقواعدِ حدیث ہروقت ذہن میں رہنے چاہئیں، انسانی بساط اور عام بشری سوچ کے تحت جواحتیاطی تدابیر ہوسکتی تھیں وہ محدثین کرام نے طے کیں اور یہ اصول بھی تقریباً استقرائی ہیں جوائمہ فن نے قواعدِ شریعت کی روشنی میں طے کیئے ہیں، ان میں کئی پہلو اختلافی بھی ہیں، جن میں ائمہ کی رائے مختلف رہی ہے؛ لیکن یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ تنقید کے بنیادی اصولوں میں سب ائمہ فن متفق رہے ہیں؛ بلکہ بجاطور پر کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں نے تحقیق روایات اور تنقیح اسناد میں دنیا کو ایک نئے علم سے آشنا کیا اور وہ اصول بتائے جن کی روشنی میں پچھلے پہلووں کی باتوں کے جائز طور پر وارث ہوسکیں اور اُن کی صحت پر پوری طرح سے اعتماد کیا جاسکے۔