Tuesday, January 10, 2017

AITRAAZ : KIYA ALLAH KA DEEN SAHIH AUR ZAHIF HOSAKTA HAI ?


یہ وہ اعتراض ہے جو اکثر منکرین حدیث کی زبانوں پر ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر قرآن کی طرح حدیث بھی اللہ کا دین ہے تو اس میں صحیح اور ضعیف کا اختلاف کیوں ہے؟ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ حدیث کی طرح قرآن مجید میں بھی متواتر اور شاذ کا اختلاف موجود ہے۔

اگر آپ کے علم میں نہیں ہے تو حسن بصری متوفی 110ھ، ابن محیصن متوفی 1233ھ، اعمش اسدی متوفی 148ھ اور یزیدی بصری متوفی 202ھ کی مروی قراءات دیکھ لیں۔ اور یہ چاروں حضرات تو اتنے معروف ہیں کہ ان کی شاذ قراءات کے مصاحف بھی پبلش ہوتے ہیں۔ لیکن جس طرح شاذ قراءات کے وجود سے قرآن مجید مشتبہ نہیں قرار پاتا، اسی طرح موضوع روایات کے موجود ہونے سے مقبول احادیث پر طعن وارد نہیں ہوتا۔
 
دوسری بات یہ ہے کہ احادیث کا ایک بڑا اور غالب ذخیرہ ایسا ہے کہ جس کی صحت وضعف میں اختلاف نہیں ہے اور کم احادیث ہیں کہ جن کی صحت وضعف کی بابت ائمہ سلف کا اختلاف ہوا ہے۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ جن احادیث کی صحت وضعف میں ائمہ سلف کا اختلاف نقل ہوا ہے، وہ احادیث اصول ومبادی دین سے متعلق نہیں ہیں بلکہ جزئیات اور فروعات سے بحث کرتی ہیں لہذا دین کے اصول ومبادی کل کے کل مقبول ورایات سے ہی ثابت ہیں۔
 
چوتھی بات یہ ہے کہ ہم بار بار یہ واضح کر رہے ہیں کہ اللہ کا دین حدیث ہے یہ عوامی بیان ہے جبکہ علمی بیان یہ ہے کہ اللہ کا دین حدیث میں موجود ہے یعنی اللہ کا دین سنت ہے جو حدیث میں موجود ہے لہذا حدیث کے صحیح اور ضعیف ہونے کا مطلب دین کی صحت اور ضعف نہیں ہے بلکہ دین کی اپنے شارع کی طرف نسبت کا صحیح یا ضعیف ہونا ہے۔ اور نسبت کا صحیح یا ضعیف ہونا کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔
 
پانچویں بات یہ ہے کہ کسی حدیث کی صحت وضعف میں اختلاف مخاطبین کی جہت سے ہے نہ کہ خدا کی جہت سے۔ پس اگر قرآن مجید میں موجود اللہ کے دین اور حکم تک پہنچنے میں مجتہدین اور فقہاء کا اختلاف ہو جاتا ہے تو اس مطلب یہ تھوڑا ہے کہ شریعتیں دو ہیں۔ہم یہ کہیں گے کہ اللہ کا حکم ایک ہی ہے لیکن بعض فقہاء نے اس کو پا لیا اور بعض نہ پا سکے۔ اور اجر وثواب دونوں کے لیے ہے لیکن جس نے حکم پا لیا اس کے لیے دو گنا اجر اور جس نے نہ پایا تو اس کے لیے ایک گنا اجر ہے۔ پس جس طرح اللہ کی کتاب میں موجود حکم کو بذریعہ استدلال واستنباط پا لینے میں دو رائیں ہو سکتی ہیں، اسی طرح احادیث میں موجود اللہ کے حکم کے اثبات ونفی میں بھی دو رائیں ہو سکتی ہیں۔
 
آخری اور چھٹی بات یہ ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ کا دین کتاب اللہ اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں محفوظ ہے تو یہ من جملہ حفاظت کی بات ہوتی ہے۔ یعنی امت کے پاس وہ احادیث موجود ہیں کہ جن میں اللہ کا حکم ہے، لہذا کسی محدث نے اپنی تحقیق سے اس حکم کو پا لیا اور کوئی نہ پا سکا کہ جس طرح اللہ کی کتاب میں موجود حکم کو کسی مجتہد نے پا لیا اور کوئی اس کو نہ پا سکا۔ تو جس مجہتد نے اللہ کا حکم نہ پایا تو اس نے جو پایا ہے، وہ اللہ کا حکم نہیں ہے لیکن پھر بھی اس کے لیے ایک گنا اجر ہے۔ یہ اہم تر بات ہے اور یہی قاعدہ محدثین کے لیے بھی جاری ہوتا ہے۔

جھوٹی حدیثیں آخر گھڑی کیوں گئیں؟
 
ان کے گھڑے جانے کی وجہ یہی تو تھی کہ حضورؐ کا قول و فعل حجت تھا اور آپؐ کی طرف ایک غلط بات منسوب کر کے جھوٹے لوگ کوئی نہ کوئی فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ اگر وہ حجت نہ ہوتا اور کسی شخص کے لیے اپنے کسی دعوے کے حق میں حدیث لانا اور نہ لانا یکساں بے فائدہ ہوتا تو کسی کو کیا پڑی تھی کہ ایک بات تصنیف کرنے کی تکلیف اٹھاتا۔ دنیا میں ایک جعل ساز وہی نوٹ تو بناتا ہے جو بازار میں قدر و قیمت رکھتا ہو۔ جس نوٹ کی کوئی قیمت نہ ہو اسے آخر کون احمق جعلی بنائے گا؟ اب اگر فرض کیجیے کہ کسی وقت جعل سازوں کا کوئی گروہ پاکستان کے ہزاروں جعلی نوٹ بنا ڈالے تو کیا اس پر کسی کا یہ استدلال کرنا صحیح ہو گا کہ پاکستان کے سارے نوٹوں کو اٹھا کر پھینک دینا چاہیے کیونکہ جعلی نوٹوں کی موجودگی میں سرے سے اس کرنسی کا ہی کوئی اعتبار نہیں ہے؟ٍٍٍٍ ملک کا ہر خیر اندیش آدمی فوراً اس فکر میں لگ جائے گا کہ ایسے جعل سازوں کو پکڑا جائے اور ملک کی کرنسی کو اس خطرے سے بچا لیا جائے۔ ٹھیک یہی اثر آغاز اسلام میں جھوٹی احادیث کا فتنہ رونما ہونے سے اسلام کے خیر اندیش لوگوں نے لیا تھا۔ وہ فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایک ایک واضح حدیث کا پتہ چلا کر اس کا نام رجال کی کتابوں میں ثبت کر دیا، ایک ایک جھوٹی حدیث کی تحقیق کر کے احادیث موضوعہ کے مجموعے مرتب کر دیئے، احادیث کی صحت و سقم جانچنے کے لیے بڑے سخت اصول قائم کر کے لوگوں کو اس قابل بنا دیا کہ صحیح اور جعلی حدیثوں میں امتیاز کر سکیں اور کسی وقت بھی کوئی جھوٹی حدیث اسلامی قانون کے مآخذ میں راہ نہ پا سکے۔ 
 
تدوین حدیث کے زمانے میں کچھ لوگوں نے اپنے مختلف النوع اغراض کے لئے حدیثیں گھڑیں اور کوشش کی کہ اپنی گھڑی ہوئی احادیث کواُسوئہ رسولؐ یعنی صحیح احادیث کے ساتھ گڈمڈ کرکے اپنے دیرینہ مقاصد کو حاصل کرلیں مگر وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے۔ شیعوں نے اہل بیت کے سیاسی تفوق کے لئے حدیثیں گھڑیں۔ اباحیت پسندوں نے اپنی راہ ہموار کرنے کے لئے اور عقلیت پسندوں نے اپنی عقلیت کو وجہ جواز فراہم کرنے کے لئے۔گھڑنے والوں نے اپنی جعلی احادیث کی ترویج کا طریقہ یہ سوچا کہ کچھ مشہور اصحاب حدیث کی صحیح اور قوی سندوں سے ان جعلی احادیث کو روایت کریں تاکہ کسی کو ان کی صحت میں شک نہ ہو۔ لیکن جوں ہی یہ روایتیں اہل علم کے سامنے آئیں ،گھڑنے والے پکڑے گئے۔ کیونکہ کسی بھی بڑے محدث کے ہزاروں شاگرد ہوا کرتے تھے۔ اب ممکن نہ تھا کہ کوئی شخص اس محدث سے ایسی حدیث روایت کرے جو ان ہزاروں شاگردوں میں سے کسی کو بھی معلوم نہ ہو اور وہ اس پر بھی اس کا اعتبار کرلیں۔ ایسے راوی پر فوراً جرح شروع ہوتی تھی۔ پچیسیوں تنقیحات ایسی تھیں کہ کسی جعلساز کے لئے نکل بھاگنے کی کوئی راہ باقی نہ بچتی۔ تھوڑی سی زد وخورد کے بعد اسے ہتھیار ڈال دینے پڑتے اور اپنی جعلسازی کا اقرار کرلینا پڑتا۔
 
پھرمحدثین نے حدیث کی صحت پرکھنے کے لئے ایسے سخت اصول و ضوابط بنائے اور ایسا کڑا معیار مقرر کیا کہ دنیا آج تک اس کی نظیر نہ لاسکی۔ کوئی دس لاکھ افراد کی زندگیاں کھنگال کر رکھ دیں۔ پھر جملہ افراد کو اس کسوٹی پر پرکھ کر کھرا کھوٹا الگ کردکھایا۔تدوین ِحدیث کے تیسرے اور چوتھے دور میں ان جعلی احادیث کا ذخیرہ بھی تالیفی شکل میں باقاعدہ علیحدہ کردیا گیا، تاکہ راہِ حق کے راہرو کے لئے کسی بھی مرحلہ میں مشکل پیش نہ آسکے!!
 
چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے "اللآلی المصنوعہ فی الا حادیث الموضوعۃ"کے عنوان سے کتاب لکھی جس میں تمام مو ضوع احادیث کو جمع کیا اور اسی طرح حافظ ابو الحسن بن عراق نے"تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الاحادیث الشنیعۃالموضوعۃ "کتاب لکھی جس میں موضوع روایات کا ذکر ہے تاکہ مسلمان موضوع احادیث سے ہوشیار رہیں۔جب مسلم علماء کا حدیث کے ساتھ اس قدر اسشتغال ہے کہ وہ موضوع اور صحیح، ضعیف اور سقیم حدیث میں تمیز کرسکتے ہیں اور انہوں نے ایسے قوانین اور اصول مرتب کیے جن کی روشنی میں احادیث صحیحہ کو پرکھا جاسکتا ہے۔تو موضوع روایات کے پائے جانے کی وجہ سے احادیث صحیحہ کی حیثیت کیسے مشکوک ہوگئی ؟
 
صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، نسائی شریف میں کوئی حدیث موضوع نہیں اور ابن ماجہ میں گو چند ایک موضوع احادیث ہیں لیکن محدثین ان کی بھی نشاندہی کی ہے۔
یہ ہے کہ واقعہ کی اصل صورت جس کی بنیاد پر  منکرین حدیث نے 'ایرانی سازش'کا بدبودار افسانہ تیار کیا ہے۔ اس استدلال کی نوعیت بالکل وہی ہے کہ کسی گھر میں چور گھس جائے تو آپ گھر والے ہی کو چور کہنے لگیں اور جب آپ سے ثبوت مانگا جائے تو آپ فرمائیں کہ ثبوت یہ ہے کہ اس کے گھر میں چور گھسے تھے ، یا کوئی پولیس پارٹی ڈاکوؤں کو گرفتار کر لائے تو آپ پولیس پارٹی ہی کو ڈاکو کہیں اور ثبوت یہ پیش کریں کہ انہوں نے ڈاکوؤں کو گرفتار کیا ہے۔ منکرین سنت کا طرز فکر ہے کہ غلط احادیث کے پھیل جانے سے سارا ذخیرۂ حدیث مشتبہ ہو گیا ہے، لہٰذا تمام احادیث کو اٹھا کر پھینک دینا چاہیے۔ انہیں اس کی پرواہ نہ تھی کہ سنت رسول کو ساقط کر دینے سے اسلامی قانون پر کس قدر تباہ کن اثر پڑے گا اور خود اسلام کی صورت کس بری طرح مسخ ہو کر رہ جائے گی۔
کیا احادیث ِموضوعہ کی موجودگی واقعی بے اطمینانی کی موجب ہے؟
میں تھوڑی دیر کے لئے اس سوال کو چھوڑ دیتا ہوں کہ وہ کون سے متداول مجموعے ہیں جن میں احادیث ِموضوعہ شامل ہوگئی ہیں۔ اگرچہ مختلف محدثین نے جو مجموعے بھی مرتب کئے ہیں، ان میں اپنی حد تک پوری چھان بین کرکے انہوں نے یہی کوشش کی ہے کہ قابل اعتماد روایات جمع کریں۔مگر اس معاملے میں صحاحِ ستہ اور موطأ کا پایہ کس قدر ہے، وہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں ہے۔ تاہم تھوڑی دیر کے لئے یہ فرض کر لیں کہ سب مجموعوں میں موضوعات نے کچھ نہ کچھ راہ پالی ہے تو غور طلب بات یہ ہے کہ وہ 'ضخیم کتابیں' جن کا ذکر منکرین حدیث کررہے ہیں، آخر ہیں کس موضوع پر؟ ان کا موضوع یہی تو ہے کہ کون کون سی حدیثیں وضعی ہیں، کون کون سے راوی کذاب اور وضاعِ حدیث ہیں، کہاں کہاں موضوع احادیث نے راہ پائی ہے، کس کتاب کی کون کون سی روایات ساقط الاعتبار ہیں، کن راویوں پر ہم اعتماد کرسکتے ہیں اور کن پر نہیں کرسکتے، 'موضوع' کو 'صحیح'سے جدا کرنے کے طریقے کیا ہیں اور روایات کی صحت، ضعف، علت وغیرہ کی تحقیق کن کن طریقوں سے کی جاسکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مستشرقین و منکرین حدیث کو موضوع احادیث کا علم ہی محدثین کی خوشہ چینی سے ہوا ہے ۔
ان ضخیم کتابوں کی اطلاع پاکر تو ہمیں امن کا ویسا ہی اطمینان حاصل ہوتا ہے جیسا کسی کو یہ سن کر ہو کہ بکثرت چور پکڑ لئے گئے ہیں، بڑے بڑے جیل خانے ان سے بھرگئے ہیں، بہت سے اموالِ مسروقہ برآمد کرلئے گئے ہیں اور سراغ رسانی کا ایک باقاعدہ انتظام موجود ہے جس سے آئندہ بھی چور پکڑے جاسکتے ہیں۔ لیکن تعجب کی بات ہوگی اگر کسی کے لئے یہی اطلاع اُلٹی بے اطمینانی کا موجب ثابت ہو اور وہ اسے بدامنی کے ثبوت میں پیش کرنے لگے۔ بے شک بڑی مثالی حالت امن ہوتی،اگر چوری کا سرے سے کبھی وقوع ہی نہ ہوتا۔ بلا شبہ اس طرح کی واردات ہوجانے سے کچھ نہ کچھ بے اطمینانی تو پیدا ہوہی جاتی ہے، لیکن مکمل حالت ِامن زندگی کے اور کس معاملے میں ہم کو نصیب ہے جو یہاں ہم اسے طلب کریں۔ جس حالت پر ہم دنیا میں بالعموم مطمئن رہتے ہیں، اس کے لئے اتنا امن کافی ہے کہ چوروں کی اکثریت پکڑ کر بند کردی جائے اور جو قلیل تعداد بھی آزاد پھر رہی ہو، اس کے پکڑے جانے کا معقول انتظام موجود ہو۔ کیا ہمارے سپریم کورٹ کے فاضل جج سنت کے معاملے میں اتنے امن پر قانع نہیں ہوسکتے؟ کیا وہ اس مکمل امن سے کم کسی چیز پرراضی نہیں ہیں جس میں سرے سے چوری کے وقوع ہی کا نام و نشان نہ پایا جائے...؟منکرین حدیث ’’صرف قرآن‘‘ مہم کے لیے، احادیث کو غیر معتبرکرنے کے لیے جتنے بھی دلائل دیں، یہ سب الٹا خود ان میں پھنستے ہیں
اس موضوع پر تفصیلی تحریر پہلے پوسٹ کی جاچکی ہے ، اس لنک سے دیکھی جاسکتی ہے



AITRAAZ : MUHADEESIN MASUM NAHI THE INSE KHATA MUMKIN HAI .




جب بھی حدیث کا دفاع کیا جائے تو منکرین حدیث عموما یہ سوال کرتے ہیں۔ تو پہلی بات یہ واضح رہے کہ صحیح بخاری کے دو گتوں کے مابین جو کچھ ہے، اس سب کو کوئی بھی منزل من اللہ نہیں کہتا۔ صحیح بخاری میں "منزل من اللہ" ہے نہ کہ کل صحیح بخاری "منزل من اللہ" ہے۔دوسری اور اہم تر بات یہ ہے کہ حدیث کو وحی کہا جاتا ہے نہ کہ صحیح بخاری کو۔ اور صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے نہ کہ صحیح بخاری کی ہر بات حدیث ہے۔ حدیث سے مراد وہ روایت ہے کہ جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قول، فعل اورتقریر موجود ہو اور صحیح بخاری میں صحابہ کے اقوال بھی ہیں اور تابعین کے بھی۔ سلف کے اقوال بھی ہیں اور ائمہ کے بھی۔
 
تیسری اور اہم تر بات یہ ہے کہ حدیث کو لفظی وحی کوئی بھی نہیں کہتا بلکہ حدیث معنوی وحی ہے۔ پس حدیث کا معنی "منزل من اللہ" ہے جبکہ حدیث کے الفاظ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہیں اگر وہ قولی سنت ہو اور اگر فعلی یا تقریری سنت ہو تو حدیث کے الفاظ صحابی کے ہوتے ہیں۔ حدیث میں اگرچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے اور بہت حد تک محفوظ بھی ہیں لیکن اصل بات یہی ہے کہ اس میں معنی محفوظ ہے۔
 
رہی بات صحیح بخاری پر نقد کی تو ائمہ فن نے اس کی روایات پر نقد کی اور ائمہ فن نے ہی اس نقد کا جواب بھی دے دیا ہے۔ اور اب اس نقد اور دفاع سے یہ متعین ہو گیا ہے کہ بخاری میں کلام کی گنجائش کہاں کہاں ہے اور اس کا جواب کیا کیا ہے؟ 
مثلا امام الدارقطنی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی حدیث پر نقد  کیا ان کی اس تنقید کی بنا پر حافظ ابن الصلاح ؒ نے فرمایا کہ صحیحین کی احادیث قطعاً صحیح ہیں سوائے چند حروف کے جن پر امام دار قطنی وغیرہ نے تنقید کی ہے اور وہ مقامات علم حدیث جاننے والوں کے نزدیک مشہور و معروف ہیں ۔ ( مقدمہ ابن الصلاح ص ۴۵)
 
حافظ ابن حجر ؒ نے ھدی الساری اور فتح الباری میں بھی امام دار قطنی ؒ وغیرہ کی تنقید کا جواب دیا اور امام نووی ؒ نے شرح مسلم میں بھی ان اعتراضات سے تعرض کیا ۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ہدی الساری میں صحیح بخاری کے متکلم فیہ رجال کا بھی جواب دیا اور علامہ محمد اسماعیل ابن خلفون نے بھی ’’ رفع التماری فی من تکلم فیہ من رجال البخاری ‘‘ کے عنوان سے ایک مستقل رسالہ لکھا ۔
اسی موضوع پر علامہ ابو الولید باجی کی ’’ التعدیل والتجر یح لمن خرج عنہ البخاری فی الصحیح ‘‘ بھی معروف ہے ۔ حاجی خلیفہ زر کلی اور رضا کحالہ نے ذکر کیا ہے کہ علامہ احمد ؒ بن ابراہیم ابن السبط الحلی المتوفی ۸۸۴ھ نے ’’ التوضیح للاوھام الواقعۃ فی الصحیح ‘‘کے نام سے اور علامہ جلال ؒ الدین عبدالرحمن بن عمر البلقینی المتوفی ۸۲۴ھ نے ’’ الا فھام بما وقع فی البخاری من الا بھام ‘‘کے نام سے کتابیں لکھی ہیں۔
 
حافظ ابن حزم ؒ نے صحیح مسلم میں حضرت ابن عباس کی روایت پر شدید تنقید کی جس میں حضرت ابو سفیان ؓ کی آنحضرت ﷺ کو ام حبیبہ سے نکاح کی پیشکش کا ذکر کیا ۔ جس کے جواب میں حافظ ابن کثیر ؒ نے مستقل ایک رسالہ لکھا ۔ جس کا تذکرہ خود انہوں نے البدایہ ( جلد ۴‘ ص ۱۴۵) میں کیا ہے ۔ اسی طرح صحیحین میں حضرت انس ؓ کی حدیث معراج پر اعتراضات کے جواب میں حافظ ابو الفضل ابن طاہر ؒ نے ایک مستقل رسالہ لکھا ۔ حال ہی میں امام دار قطنی کی کتاب ’’ الاستد راک والتتسع ‘‘ زیور طبع سے آراستہ ہوئی تو اس کے حواشی میں شیخ ربیع بن ھادی حفظہ اللہ نے امام موضوف کے اعتراضات کا جائزہ پیش کیااور اس سلسلے کی بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ فرمایا ۔
 
یہ عمل علم کی دنیا میں ایک ہزار سال کے عرصے میں مکمل ہو چکا۔ اب آپ صحیح بخاری پر کوئی نیا علمی اعتراض پیدا نہیں کر سکتے اور جو پیدا ہوئے تھے، ان کا جواب موجود ہے۔اور اگر کوئی شخص صحیحین کی کسی ایسی روایت پر تنقید کرتا ہے کہ جس پر أئمہ سلف میں سے کسی نے بھی کلام نہ کیا ہو تو ایسا شخص اجماع محدثین کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ جن روایات پر محدثین نے نقد نہ کی تو اس سے یہ طے ہو گیا کہ تمام محدثین کے نزدیک یہ روایات صحیح ہیں لہذا ان روایات پر کلام کرنا جمیع محدثین کے دعوی صحت کو چیلنچ کرنا ہے اور ایسا دعوی ہی ناقابل التفات ہے چہ جائیکہ اس کی تحقیق کی جائے۔
کیاامام بخاریؒ معصوم تھے؟
منکرین حدیث یہ اعتراض کرتے ہیں کہ امام بخاریؒ معصوم نہیں تھے۔ لہٰذا ان سے خطا ممکن ہے!
 
اس کا جواب یہ ہے کہ امکان خطا اور وقوع خطا میں بڑا فرق ہے۔ امکان اور چیز ہے اور وقوع اور چیز۔جیسے کوئی کہے کہ ممکن ہے آپ چور ہوں۔ مگر بغیر ثبوتِ شرعی ایسا کہنا غلط ہے۔ امام بخاریؒ نے خطا کہاں کی ہے اسے ثابت کیجیے۔منکرین حدیث کا یہ بہت ہی سطحی اعتراض ہے کہ بخاری ومسلم انسانوں نے مرتب کی ہیں تو قرآن مجید کس نے مرتب کیا ہے؟ کیا جو قرآن مجید ہمارے پاس اس وقت موجود ہے، وہ ہمیں براہ راست حضرت جبرئیل علیہ السلام سے موصول ہوا ہے؟ کیا اس قرآن مجید کو فرشتوں نے لکھ کر ایک کتاب کی صورت دی ہے؟ کیا اس قرآن مجید کو آسمانوں سے ایسے ہی نازل کیا گیا تھا کہ جس صورت میں اب یہ ہمارے پاس ہے؟
 
بلاشبہ انسانوں نے ہی اس قرآن مجید کو یاد کیا، انسانوں نے ہی اس قرآن مجید کو نقل کیا، انسانوں نے ہی اس کو لکھا ہے، انسانوں نے اس کے حرکات اور اعراب لگائے، انسانوں نے اس کے نقطے، رموز اور اوقاف ایجاد کیے، انسانوں نے اس کو رکوعوں اور پاروں میں تقسیم کیا، انسانوں نے ہی اس کو کتابی صورت دی، تو کیا انسانی کام میں غلطی نہیں ہو سکتی؟ اگر محض اعتراض وارد کر دینے سے اگر کوئی کلام مشکوک ٹھہرتا تو سب سے پہلے اللہ کی کتاب مشکوک قرار پاتی کہ خود قرآن پر بھی سینکڑں اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔منکرین حدیث میں سے کتنے ہیں کہ جنہوں نے قرآن مجید کا دفاع کیا ہو؟ امر واقعہ یہ ہے کہ ملحدین اور مستشرقین نے قرآن مجید پر جو کیچڑ اچھالا ہے، اس کا بھی علمی وتحقیقی جواب سینکڑوں کتب ومقالات کی صورت میں اگر کسی نے دیا ہے تو یہ وہی لوگ ہیں جو حدیثوں پر ایمان رکھنے والے ہیں۔منکرین حدیث کو حدیث اور محدثین پر اعتراضات سے ہی آج تک فرصت نہیں ملی ۔
 
استفادہ تحریرحافظ زبیر

KYA SUNNAT SIRF " TAWTUR AMLI" SE SABIT HOTI HAI ?



فکر ِاصلاحی وغامدی کا ایک تجزیہ:
حدیث و سنت کے حوالے سے مولاناامین احسن اصلاحی وغامدی صاحبان  کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ سنّت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کی وہ تفصیل ہے جو قرآن کی طرح تواتر ِعملی سے ثابت ہوتی ہے، لہٰذا قطعی الثبوت ہے، قرآن کی طرح اہم، اس کے قالب کیلئے مثل روح اور اسی کی طرح حجت ہے۔ اس کا انکار قرآن کا انکار ہے اور وہ حدیث پر مُہیمن ہے۔باقی حدیث ان کے نزدیک سنت کا تحریری ریکارڈ ہے جو تواتر سے ثابت نہ ہونے کی بنا پر ' خبر واحد' کا درجہ رکھتی ہے ۔ ظنی الثبوت ، مجموعہ رطب و یابس اور صحت کے لحاظ سے ناقابل اعتماد ہے لہٰذا فہم قرآن کے حوالے سے بنیادی اور کلی طور پر اس پر انحصار نہیں کیا جا سکتا ۔ (مولانا امین احسن اصلاحی ، مبادیٴ تد بر حدیث ، باب اول و دوم خصوصاً ص ۱۹ ،۲۸ ،۳۸ ،۴۱ ، فاران فاؤنڈیشن لاہور ، ۲۰۰۰ء ... مولانا امین احسن اصلاحی ، مبادیٴ تدبر قرآن ، ص ۵۲ ، ۱۶۹ و مابعد ، دارالاشاعت الاسلامیہ لاہو ر ، ۱۹۷۱ء ... مولانا امین احسن اصلاحی ، تدبر قرآن ، جلد اوّل مقدمہ ، ص ب و مابعد ، مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور ، ۱۹۷۶ء)
زمینی حقائق یہ ہیں کہ سنت محض ' تواتر عملی' سے ثابت ہی نہیں ہوتی لہٰذا جس چیز کو یہ  ' سنت' کہہ رہے ہیں وہ محض ایک نظری بات ہے اور نظری لحاظ سے تو سنت کی حجیت پرساری اُمت متفق ہے کہ اس پر تو مدارِ ایمان ہے کہ خود قرآن کی رو سے حضور کی اطاعت واجب ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال فرما جانے کے بعد آپ کی وہ سنت کہاں ہے جس کی اطاعت کی جائے ؟اس بارے میں جمہور اُمت کا موقف یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت جاننے کا ذریعہ وہ صحیح احادیث ہیں جو ثقہ راویوں سے مروی ہیں، جب کہ کچھ 
منکرین حدیث اور ہمارے یہ متجددین ایسا نہیں سمجھتے ۔یہ حدیث کو خبر واحد ، ظنی الثبوت اور مجموعہ رطب و یابس کہہ کر اسے اہمیت نہیں دیتے اور سنت اسی کو مانتے ہیں جو صرف تواتر عملی سے ثابت شدہ ہو۔

سنت کا ثبوت - تواتر عملی کی پہیلی :
سنت کے جاننے کا ذریعہ کیا ہے ؟غامدی صاحب کے استاد اصلاحی صاحب کے نزدیک اس کا جواب ہے' تواتر عملی' ... وہ لکھتے ہیں
 "
جس طرح قرآن قولی تواتر سے ثابت ہے، اسی طرح سنت امت کے عملی تواتر سے ثابت ہے مثلاً ہم نے نماز اور حج وغیرہ کی تمام تفصیلات اس وجہ سے نہیں اختیارکیں کہ ان کو چند راویوں نے بیان کیا بلکہ یہ چیزیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام نے، ان سے تابعین پھر تبع تابعین نے سیکھا ۔ اس طرح بعد والے اپنے اگلوں سے سیکھتے چلے آئے ۔( اصلاحی ، مبادیٴ تدبر حدیث ، ص ۲۸)
 
مولانا نے نماز اور حج کی مثال پیش کی ہے کہ وہ تواتر عملی سے ثابت ہوتے ہیں ۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ نماز اور حج کے بارے میں بنیادی احکام تو قرآن مجید میں بھی موجود ہیں ، ہمیں نشاندہی کی جائے کہ وہ کون سے تفصیلی (فروعی) احکام ہیں جو تواتر عملی سے ثابت ہوتے ہیں ؟ اور یہ بھی بتایا جائے کہ پچھلی صدیوں میں مسلمانوں نے نماز اور حج کے بارے میں جو بدعتیں ایجاد کر لی ہیں اور جو نسل در نسل منتقل ہو رہی ہیں کیا وہ بھی سنت ِثابتہ ہیں ؟( کہ آپ کی تعریف کی رو سے تو وہ سنت ثابتہ ہی ہونی چاہئیں!) اور اگر وہ سنت ثابتہ نہیں ہیں تو کیوں نہیں ہیں ؟ اور اس امر کی وضاحت بھی کی جائے کہ سنت ثابتہ اور بدعت میں فرق کیسے کیاجائے گا ؟۔
 
مولانا چونکہ ذہین آدمی تھے اس لیے انہوں نے خود ہی محسوس کر لیا کہ ' تواتر عملی' کی جو تعریف انہوں نے کی ہے، اس میں وہ پھنس جائیں گے لہٰذا انہوں نے اگلے پیرا گراف میں اس دلدل سے نکلنے کی کوشش کی اور کہا
 "
یہاں اس امرکو بھی ذہن نشین رکھیے کہ امت کے عملی تواتر سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاے راشدین اور صحابہ کا عمل ہے جیسا کہ ارشاد ہے "« فعليکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين المهديين»"(کہ دین کا مرکز یہی گروہ ہے۔ اس وقت جو بھیڑ ایسے اعمال کی حامل ہے جو قرآن و سنت سے صریحاً متناقض ہیں تو یہ سب اہل بدعت ہیں"۔( ایضاً: ص ۲۹)
 
لیجئے پچھلے پیراگراف میں تواتر عملی کی جو صورت انہوں نے بیان کی تھی، اس پیراگراف میں انہوں نے اس کی خود ہی تردید کر دی۔ یہ صریح تناقض ہے جس کی کوئی تاویل نہیں کی جا سکتی ۔ پچھلے پیرا گراف میں انہوں نے کہا تھا کہ سنت قرآن کی طرح تواتر عملی سے ثابت ہے جسے آپ سے صحابہ کرام نے ان سے تابعین پھر تبع تابعین نے اور اس طرح ہر نسل پہلی نسل سے قرآن کی طرح لیتی رہی ۔ اب بعد والے پیراگراف میں انہوں نے تسلیم کر لیا کہ بعد والی نسلوں میں تو بدعات داخل ہو گئی تھیں لہٰذا سنت کا تواتر ِعملی صرف ' ایک نسل ' تک محدودہے یعنی حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ تک اور سارے صحابہ تک بھی نہیں صرف خلفاءِ راشدین تک اور اس کی دلیل بھی کیا دی ؟ فعليکم بسنتی... الحديث یعنی ایک خبر واحد جو ظنی الثبوت اور ان کے نزدیک ناقابل اعتماد ہے۔
 
یعنی تاثر آپ نے یوں دیا کہ ' تواتر ِعملی' گویا ایک سمندر ہے پھر جب بات کا پیچھا کیا تو بات دریاؤں ، نہروں ، ندی نالوں سے ہوتی ہوئی اس منبع تک پہنچ گئی جہاں سوئی کی طرح ایک دہانے سے پتلی سے دھار نکل رہی تھی۔
سوال یہ ہے کہ اگر' تواتر عملی' محض حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ بلکہ صرف خلفاء راشدین تک محدودہے تو اسے قرآن کے تواتر عملی کی طرح حجت کیسے کہا جا سکتا ہے؟ کہ قرآن کا تواتر تو آج بھی جاری ہے۔ پھراس ایک نسل یا چند افراد کے تواتر پر وہ نتائج کیسے مرتب ہو سکتے ہیں جو قرآن کے نسل درنسل تواتر پر مرتب ہوتے ہیں ؟
 
اہم ترین سوال یہ کہ اگر یہ تواتر صرف عہد ِصحابہ تک محدود تھا تو پھر آج یہ تواتر ہمیں کیسے معلوم ہو گا ؟ اس تواتر کی ہم تک منتقلی کا ذریعہ کیا ہے ؟ تواتر عملی کی سند کہاں ہے؟ چودہ صدیوں میں ایک عمل ہر صدی میں امت مسلمہ میں رائج رہا ہے اور میں اور آپ اس وقت چودھویں صدی میں ہیں تو ہمارے پاس پہلی تیرہ صدیوں میں جھانک کر دیکھنے کا کیا ذریعہ ہے کہ یہ عمل ان صدیوں میں بھی امت مسلمہ میں رائج تھا یا نہیں؟ اور اگر اس میں بدعتیں رائج ہوئیں تو اب ان میں تفریق کرنے کا ذریعہ یا معیار کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ تواتر عملی کو جانے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے خبر کا ذریعہ۔ آپ  اسے تاریخ کہہ لیں یا روایت اس سے آپ کی جان نہیں چھوٹنے والی۔کسی عمل کا تواتر علمی سے ثابت ہونا بغیر خبر کے ممکن ہی نہیں ہے۔ لہذا جو حدیث کی خبر سے بھاگے ہیں، ان کے گلے تاریخ پڑ گئی ہے اور اب تواتر عملی تاریخ سے ثابت کرنے چلے ہیں۔ تو جناب خبر اصل ہوئی یا آپ کا تواتر عملی؟!!
پھر اس سے بڑھ کر یہ لوگ اس سنت کو جو ان کی مزعومہ ' تواتر عملی' سے ثابت ہو، احادیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مہیمن(نگران) قرار دیتے ہیں۔ اصلاحی صاحب کے الفاظ میں
 "
اگر روایات کے ریکارڈ میں ان (سنن ثابتہ) کی تائید موجود ہے تو یہ اس کی مزید شہادت ہے ۔ اگر وہ عملی تواتر کے مطابق ہے تو فبہا اور اگر دونوں میں فرق ہے تو ترجیح بہرحال اُمت کے عملی تواتر کو حاصل ہو گی۔"
 
اور بات صرف ترجیح کی نہیں ، بلکہ اگر کسی حدیث کامضمون ان کی رائے میں اس 'سنت ِثابتہ' کے خلاف ہو تو اسے ردکر دیا جائے گا۔ چنانچہ کہتے ہیں
 "
اگر کسی معاملے میں اخبارِ احاد ایسی ہیں کہ عملی تواتر کے ساتھ ان کی مطابقت نہیں ہو رہی ہے تو ان کی توجیہ تلاش کی جائے گی ۔ اگر توجیہ نہیں ہو سکے گی تو بہرحال انہیں مجبوراً چھوڑا جائے گا اس لیے کہ وہ ظنی ہیں اور سنت ان کے بالمقابل قطعی ہے (مبادی ٴتدبر حدیث ، ص ۲۸)
 '
سنت ِثابتہ' اور 'تعامل اُمت' کو احادیث پر مُہیمن بنانے کی زَد بالآخر کہاں پڑتی ہے اس پر بھی ذرا غور فرما لیجئے ۔ اس وقت مسلم معاشرے میں مختلف دینی شعبوں میں بہت سے بدعتیں رائج ہیں اور بہت جگہ اکثریت ان میں مبتلا ہے ۔اب حدیث کوحجت ِشرعی سمجھنے والوں کے پاس تو ان بدعات کو ردّ کرنے اور سنت کو پہچاننے کے لیے ثقہ راویوں کی روایت کردہ صحیح احادیث موجود ہیں لیکن تواتر عملی اور تعامل امت کو ہی سنت کے جاننے کا ذریعہ سمجھنے والوں کے پاس ایسا کوئی پیمانہ موجود نہیں ۔ انکے اس فلسفے کی بنا پر یہ تمام بدعتیں حجت ِشرعی ٹھہرتی ہیں اور حدیث سے باہر ان کو پرکھنے کی ان کے پاس کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ 
1
۔ احادیث و سنن ( جو ثقہ راویوں سے مروی اور صحیح المتن ہوں (آسان الفاظ میں صحیح کی شرائط پر پوری اتریں)) وہ سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ان پر عمل ضروری ہے ۔
2
۔ محض تواتر عملی یا تعامل امت سے کوئی سنت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ تواتر عملی سے سنت کا اثبات محض ایک یوٹوپیا (تخیل) ہے اور اُمت میں کبھی کسی نے یہ موقف نہیں اپنایا ۔
3
۔ مولانا اصلاحی/غامدی صاحبان  کا یہ موقف جمہور اُمت کی رائے کے بالکل برعکس ہے۔ جمہوراُمت کا موقف یہ ہے کہ وہ حدیث و سنن کے صحیح اورثقہ راویوں سے مروی ریکارڈ کو سنت کا مظہر سمجھ کر متبرک اور مقدس گردانتی ہے۔ وہ اسلاف کی ان محنتوں کی قدر کرتی ہے جو انہوں نے اسماء الرجال ، جرح و تعدیل ، تدوین حدیث اور روایت و درایت کے اُصولوں کو مرتب کرکے کی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ اس سارے قیمتی ذخیرہٴ علم کی بنا پر قابل اعتماد راویوں سے روایت کردہ صحیح احادیث سے سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم معلوم ہو جاتی ہے لہٰذا ان احادیث پر عمل ضروری ہے ۔