Wednesday, November 23, 2016

HAZRAT AYESHA R.A KI 9 UMER ME SHADI ??



اسلام لٹ گیا برباد ہوگیا توبہ توبہ نبی ﷺ کی ذات اقدس پے اتنا بڑا بہتان انہونے 9 سال کی بچی سے شادی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
بڑی سنسنی خیز بات ہے اکثر لوگ سن کر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور اپنی عقل شریف پے پردہ ڈال کر واویلا مچا دیتے ہیں یہ گھڑی ہوئی احادیث ہیں یہ ایرانی سازش ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی عرض یہ ہے کے اسلام نے کہیں بھی اس چیز کو فرضیت کے کھاتے میں نہیں ڈالا ۔۔۔۔ نکاح کے لئے جو اہم شرط رکھی ہے وہ بلوغت ہے ۔۔۔ اس کے بعد دونوں فریقین کی رضامندی ۔۔۔ باقی کے اختیارات والدین کو دئے ہیں وہ کوئی اچھا رشتہ ملنے پر اپنی بچی کا نکاح کروادیں یا اسے نا معلوم مدت تک محلے کی رونق بناکے رکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر لڑکا لڑکی راضی تھے انکے اہل وعیال والے راضی تھے تو آج 1400 سال بعد آپ کو مروڑ اٹھنے چے معنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
جب کے ان کے بڑے بھائی ملحد حضرات کا منہ تو صرف اسی بات پے گودا ہوجاتا ہے 9 سال کی بچی سے نکاح ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
ارے بھائی اس میں اتنی حیرانگی و پریشانی کی کیا بات ہے بھلا ۔۔۔؟؟ یہ کوئی دنیا کا پہلا کیس تو نہیں ہے ۔۔۔؟؟ 
یہاں تو فریقین کی رضامندی سے ایک جائز معاہدہ " نکاح " انجام پایا تھا ۔۔۔ 
آپ کے ان مغربی بابوں کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے ہاں لڑکیاں اس سے بھی کم عمری میں نا جائز تعلق قائم کرلیتی ہیں جس کی خبریں میڈیا میں آتی رہتی ہیں ۔۔۔۔ 
چند نمونے پیش خدمت ہیں امید ہے افاقہ ہوگا ۔۔۔ اور اگر غیرت کی تھوڑی بھی مقدار آپ لوگوں میں باقی ہوگی تو ان کے بارے میں بھی ضرور شور و گل کریں گے ۔۔۔۔
اس کے بعد اب یہاں ہمارے منکر حدیث پروزی بھائیوں کی طرف سے اگلا سوال داغ دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔
نہیں نہیں صرف جسمانی بلوغت شرط نہیں ہے ذھنی بلوغت ( میچوئرٹی ) بھی لازم ہے ۔۔۔
چلیں مان لیا ۔۔۔۔ 
ہمارا سوال یہ ہے کے آپ نے یہاں بھیٹھ کر کونسی دوربین ایجاد کرلی ہے جس سے 1400 پیچھے دیکھ کر بتا رہے ہیں کے امہات المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ ذھنی طور پر بالغ نہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
ذہنی بلوغت ہے کیا ۔۔۔؟؟ کیا اس کا کوئی وقت معین ہے ۔۔؟؟ اگر کوئی لڑکی اپنا شوہر ، گھر گرستی اچھے طریقے سے سنبھال لیتی ہے تو وہ آپ کے نذدیک ذہنی بالغ ہوگی یا نہیں ۔۔۔؟؟ اگر آپ کو بغض صرف سیدہ عائشہ سے ہے تو وہ بات الگ ہے ۔۔۔ باقی اسی معاشرے میں ھزاروں کسیز ایسے بھی مل جاتے ہیں جن میں ایک 30 سال کی عورت سے بھی گھر نہیں سمھالا جاتا تو کیا اس کو بھی اس نا بالغوں کی لسٹ میں ڈالا جائگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
اگر ہم ذخیرہ احادیث سے یہاں وہ احادیث و اقوال پیش کردیں جن سے انکی ذہنی بلوغت اس حد تک واضع ہوجائے صحابہ کرام اکثر آپ سے دقیق مسائل کے لئے رجوع ہوتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو قابل قبول ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
پہر پرویزی حضرات ایک "جذباتی اعتراض" یہ کرتے ہیں کہ کیا ہم میں سے کوئی اپنی 9 سال کی بیٹی یا بہن کو 50 سال کے شیخ کے نکاح میں دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ "جدید ذہن" کو یہ اعتراض "واقعی اپیل" کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اسی جدید ذہن رکھنے والوں سے سوال یہ ہے کہ اگر آج کوئی 50 سال کا شیخ انکی 19 سال کی بیٹی یا بہن کے لئے رشتہ بھیجے تو دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ان میں سے کتنے ایسے ہیں جو ہنسی خوشی رخصتی کے لئے تیار ہوجائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ اگر وہ اسے معیوب سمجھیں گے تو پھر 9 کو 19 بنانے سے کیا ملا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کم از کم 29 یا 39 تو بناؤ بھائی تاکہ بات پوری بن سکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے بڑے بھائی ملحد اسی اعتراض کو کچھ مرچ مصالہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔۔۔ کہتے ہیں 50 سال کے بڈھے کو کون اپنی 9 سال کی لڑکی کون دے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی آپ اس وقت موجود تھے آپ کو کیسے پتا چلا کے نبی ﷺ بڈھے تھے ۔۔۔۔۔۔۔؟؟ صرف عمر کو مد نظر رکھتے ہوئے عکاسی کی جا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ آپ کی اطلاع کے لئے عرض کردوں کے بالوڈ اسٹار شاھ رخ خان 45 کراس کر چکے ہیں اور سلمان خان صاحب 42 میں چل رہے ہیں اور آپ کے پی کے صاحب بھی 44 کے ہوچکے ہیں ۔۔۔ جن کی فوٹوز کو چما چاٹی کر کے آپ کی 9 سال کی بچیاں رات کو تکئے کے نیچے رکھ کر سوتی ہیں ۔۔۔۔۔ اگر کسی ملحد میں ذرا بھی غیرت ہوگی تو ان اسٹارز کی فینز اپنی ان ساری بہنوں، بیٹیوں کو کل سے ہی طعنے دینا شروع کردیں گے شرم نہیں آرہی بڈھوں پے مر مٹی ہو ۔۔۔۔۔ دنیا میں جوان مر گئے ہیں ۔۔۔۔ یہ بات الگ ہے آگے سے جواب ملے گا پپا لگتا ہے آپ سھٹیا گئے ہو اپنی عمر 60 سال ہوتے ہوئے بھی مما کو روز کہتے ہو ابھی تو میں جوان ہوں اور ان کو بڈھا کہ رہے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر وہی عرض ہے کہ 1400 پہلے ہونے والے واقعہ کو آج کے تناظر میں دیکھیں گے تو عجیب لگے گا لیکن اس دور میں یہ کوئی عجیب اور انہونی چیز نہیں تھی ورنہ معترضین کے پاس اس سے زیادہ سنہری موقعہ کیا ہوتا کہ اسے لے کر خوب پروپگنڈا کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری بات یہ کہ کم عمری میں لڑکیوں کی شادی ماضی بعید تو چھوڑیں ماضی قریب میں بھی ہوئی ہیں۔بلکہ اگر آپ کو آج بھی امریکہ کی تین ریاستوں میں لڑکی کے لیے مقرر کی گئی شادی کی عمروں کا بتایا جائے تو آپ ضرور حیران ہوں گے۔ نیچے ان تینوں ریاستوں کے نام اور لڑکی کی شادی کی کم سے کم عمر درج کی جاتی ہے:
۱۔ ریاست Massachusetts لڑکی کی کم سے کم عمر بارہ سال
۲۔ ریاست New Hampshire کم از کم عمر تیرہ سال
۳۔ ریاست New York کم سے کم عمر چودہ سال
یہ پرانی بات نہیں بلکہ آج بھی ان تینوں ریاستوں میں لڑکیوں کے لیے یہی عمر مقرر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھردیکھیں کہ جو لوگ ہمارے ملک میں لڑکیوں کی کم عمری کی شادیوں پر ٹیسوے بہاتے ہیں ان کے اپنے ملک کا یہ حال ہے۔ اور جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے ان کے ہاں لڑکیاں اس سے بھی کم عمری میں تعلق قائم کرلیتی ہیں جس کی خبریں میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ ]سنہ 2014 میں برطانیہ میں ساتویں گریڈ میں پڑھنے والی ایک لڑکی نے بارہ سال کی عمر میں ایک ناجائز بچے کی ماں بن ملک کی تاریخ میں رکارڈ قائم کیا اور اس کا نام گنیز بک میں درج کیا گیا ہے، خبر بی بی سی سمیت پورے عالمی میڈیا پر چلی تھی، آج بھی گوگل پر موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ اگرہم ماضی میں جھانکتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ:
۱۔ سینٹ آگسٹن ]350AD[نے دس سال کی لڑکی سے شادی کی ۔۔۔۔۔
۲۔ کنگ رچرڈ دوئم ]1400AD[نے سات سالہ لڑکی سے شادی کی ۔۔۔
۳۔ ھینری ہشتم ]1500AD[نے چھ سالہ لڑکی سے شادی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ برطانیہ میں سنہ 1929 تک چرچ کے وزراء قانونی طور پر 12 سالہ لڑکی سے شادی کرسکتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ قانون میں اس کی اجازت تھی۔ 1983 سے قبل تک مشہور کینن لا کے مطابق پادری بارہ سالہ لڑکیوں سے شادی کرسکتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بات شاید بہت سے لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ سنہ 1880 تک امریکی ریاست ڈیلویئر میں لڑکیوں کی شادی کی کم سے کم عمر 7 سال مقرر تھی، جبکہ کیلیفورنیا میں یہی عمر دس سال مقرر تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 بینجامن مہر 

Tuesday, November 22, 2016

UMER- AYESHA (r.a) TAHQEEQ KE AYENE ME ?




گزشتہ تحریر میں ہم نے ماضی اور حال کی مثالوں سے تفصیل پیش کی تھی کہ حضرت عائشہ کی نو سال کی عمر میں شادی کوئی عجیب بات نہیں تھی وہ عاقلہ اور بالغہ تھیں۔ یہ دلائل سب کے سامنے ہیں لیکن پھر بھی بہت سے لوگ اپنی علمی کم مائیگی کی بناء پر ان احادیث صحیحہ پر زبان طعن دراز کرتے نظر آتے ہیں جن میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر بوقت رخصتی نو (۹) سال بیان کی گئی ہے ۔ انکے موقف کو دیکھا جائے تو انکا یہ اعتراض کسی اصول کی بناء پر نہیں اور نہ ہی اسکی بنیاد کوئی “علم ” ہے ۔ بلکہ اپنے ذززہن سے قائم کردہ ایک مفروضے اورصرف اپنی عقل کوتاہ پر بنیاد رکھ کر انہوں نے ان احادیث صحیحہ کو طعن کا نشانہ بنایا ہے ۔
عمر امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق انکے نقطہ نظر اور اعتراضات پرتبصرہ پیش کرنے سے پہلے یہ عرض کردیں کہ شادی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر چھ سال اور رخصتی کے وقت نو سال کوئی اجتہادی مسئلہ نہیں ہے کہ اس میں یہ غور کیا جائے کہ مسئلہ کا کونسا پہلو صحیح ہے اور کونسا غلط؟ یہ تو ایک ٹھوس حقیقت ہے جسے مانے بغیر چارہ نہیں ہے۔ اسکے ٹھوس ہونے کی چند وجوہات ہیں۔

١.عمر سے متعلق خود عمر والے کی صراحت :۔
عمر سے متعلق خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صراحت موجود ہے۔یہ صراحت بخاری اور مسلم دونوں میں ہے جنکو قرآن کریم کے بعد صحیح ترین کتابیں مانا گیا ہے۔ حدیث دیکھئے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح جب ہوا تو میری عمر چھ سال کی تھی ، پھر ہم مدینہ ( ہجرت کرکے ) آئے اور بنی حارث بن خزرج کے یہاں قیام کیا ۔ یہاں آکر مجھے بخار چڑھا اوراس کی وجہ سے میرے بال گرنے لگے ۔ پھر مونڈھوں تک خوب بال ہوگئے پھر ایک دن میری والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا آئیں ، اس وقت میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی انہوںنے مجھے پکا را تو میں حاضر ہوگئی ۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ ان کا کیا ارادہ ہے ۔ آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑکر گھر کے دروازہ کے پاس کھڑا کر دیا اور میرا سانس پھولا جارہاتھا ۔ تھوڑی دیر میں جب مجھے کچھ سکون ہوا تو انہوں نے تھوڑا سا پانی لے کر میرے منہ اور سر پر پھیرا ۔ پھر گھر کے اندر مجھے لے گئیں ۔ وہاں انصار کی چند عورتیں موجود تھیں ، جنہوںنے مجھے دیکھ کر دعا دی کہ خیر وبرکت اور اچھا نصیب لے کر آئی ہو ، میری ماں نے مجھے انہیں کے حوالہ کردیا اور انہوں نے میری آرائش کی ۔ اس کے بعد دن چڑھے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اورانہوں نے مجھے آپ کے سپرد کردیا میری عمر اس وقت نو سال تھی ۔
صحیح البخاری ، کتاب مناقب الانصار
رواه البخاري (3894) ومسلم (1422
)
اس روایت میں صراحت کے ساتھ عمر کا بیان آیا ہے
کیا ہشام بن عروہ اس حدیث کے تنہا راوی ہیں ؟
بعض حضرات دعوی کرتے ہیں کہ مذکورہ بالا روایت کی صرف ایک ہی سند ہے ۔ حالانکہ متعدد سندوں سے یہ روایت منقول ہے۔ مشہور ترین سند ھشام کی ہے (ھشام بن عروة عن ابیه عن عائشة ) یہ: صحیح ترین روایت بھی ہے کیونکہ یہ عروہ بن زبیر سے آرہی ہے اور عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے احوال سے سب سے زیادہ واقف تھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا انکی خالہ تھیں
دوسری سند: سندِ اعمش ہے (اعمش عن ابراھیم عن الاسود عن عائشة ) یہ سند مسلم میں ہے۔ حدیث نمبر: 1422
تیسری سند: سندِ محمد بن عمرو ہے (محمد بن عمرو عن یحی بن عبد الرحمن بن حاطب عن عائشة )یہ سند ابو داؤد میں ہے۔ حدیث نمبر: 4937
مزید یہ کہ شیخ ابو اسحاق حوینی نے عروہ بن زبیر اور ھشام بن عروہ دونوں کے متابعین بھی جمع کئے ہیں
متابعین عروہ بن زبیر : اسود بن یزید، قاسم بن عبد الرحمن، قاسم بن محمد بن ابی بکر، عمرہ بنت عبد الرحمن، یحی بن عبد الرحمن بن حاطب
متابعین ھشام بن عروہ: ابن شہاب زہری، ابو حمزہ میمون
اس کے ساتھ ساتھ کہ شیخ حوینی نے مدنی،مکی وغیرہ ان رواة کو بھی جمع کیا ہے جو ھشام بن عروہ سے اس حدیث کو نقل کرتے ہیں
مدنی رواة: ابو الزناد عبد اللہ بن ذکوان، عبد الرحمن بن ابی الزناد، عبد اللہ بن محمد بن یحی بن عروہ
مکی رواة: سفیان بن عیینہ، جریر بن عبد الحمید؟
بصری رواة: حماد بن سلمہ، حماد بن زید، وھییب بن خالد وغیرہ
خلاصہ یہ کہ راویوں کی اتنی بڑی تعداد اس شبہ کے ازالہ کیلئے کافی ہے کہ ھشام بن عروہ تنہا اس روایت کو بیان کرنے والے ہیں ۔۔
کیا ہشام بن عروہ کا حافظہ آخر عمر میں بگڑ گیا تھا؟
بخاری کی مذکورہ بالا روایت پر دوسرا الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ ھشام بن عروہ کا حافظہ آخر عمر میں بگڑ گیا تھا۔ یہ الزام علماء فن رجال میں صرف ابن قطانؒ لگاتے ہیں، ان کے علاوہ اور کوئی ایسی بات نہیں کہتا۔ مگر ابن قطانؒ کا یہ الزام درست نہیں ہے۔ ہشام بن عروہ پہ تبصرہ فرماتے ہوئے امام ذہبی بیان فرماتے ہیں
ترجمہ: ہشام بن عروہ بڑے آدمی ہیں، حجہ ہیں، امام ہیں، بوڑھاپے میں حافظہ بگڑا تو تھا مگر ہمہ وقت بگڑا نہیں رہتا تھا، ابن قطان نے انکے بارے میں جو بات کہی ہے اسکا کوئی اعتبار نہیں، حافظہ بگڑا ضرور تھا مگر ایسا نہیں بگڑا تھا جیسا انتہائی بوڑھے لوگوں کا بگڑ جاتا ہے۔ وہ صرف چند باتیں بھولے تھے،اور اِس میں کوئی خرابی نہیں ، بھول سے کون محفوظ ہے؟ آخر عمر میں جب ھشام بن عروہ عراق آئے تھے تو آپ نے اہل علم کے ایک بڑے مجمع میں احادیث بیان کی تھیں، اس مجمع میں چند ہی احادیث ایسی تھیں جنکو آپ صحیح سے بیان نہ کرسکے تھے (اکثر آپ نے درست بیان کی تھیں ) اس طرح کی صورت حال کا سامنا دیگر بڑے لوگوں کو بھی اپنی آخری عمر میں کرنا پڑا تھا جن میں امام مالک، امام شعبہ امام وکیع جیسے دیگر بڑے نام آتے ہیں۔ اس الزام سے صرف نظر کیجئے۔ بڑے بڑے ائمہ کو کمزور راویوں کے درجے میں لانے سے بچیں۔ ہشام بن عروہ شیخ الاسلام تھے۔
(”
ميزان الاعتدال ” (4/301-302) .

ہم نے کئی اہل علم کو بھی یہ اعتراض دہراتے دیکھا حالانکہ وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ ایک عظیم راوی کی حیثیت کو مشکوک کرنا، اس سے منسوب تمام ذخیرۂ حدیث کو عوام کی نظر میں بے اعتبار کرنے پر منتج ہو سکتا ہے ۔اگر وہ اس اڑتے ہوئے نعرے پر اعتبار فرمانے کے بجائے رجال و تراجم کی کتب کی طرف رجوع کر تے تو اس بے سروپا اعتراض کی حقیقت اور ایک جلیل القدر راویِ حدیث کی مکمل تصویر سامنے آسکتی تھی ۔۔ اس طرح کی ا یک رخی تصویریں پیش کرنا کسی طرح بھی مسلم علمی روایت کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔
اہل غلو کی شاید یہ مجبوری ہوتی ہے کہ انھیں صرف اپنے مطلب کی بات سے غرض ہوتی ہے اور کسی کونے کھدرے سے کوئی بات دریافت ہوجائے تو وہ ٹڈے کی ٹانگ پر ہاتھی کا خول چڑھا لیتے ہیں۔

احادیث عمر عائشہ اور تاریخ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور انکے معاصرین سے منقول روایات ان تاریخی کتابوں سے بھی میل کھاتی ہیں جن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوانحی خاکے درج ہیں, اِن میں اور اُن میں ذرا اختلاف نہیں ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ تمام تاریخی اور سوانحی کتابوں میں یہ بات موجود ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش زمانہ اسلام میں ہوئی ہے، بعثت نبوی کے چار یا پانچ سال بعد۔
امام بیہقیؒ حدیث: لم اعقل ابوی الا وھما یدینان الدین پہ تبصرہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
وعائشة رضي الله عنها وُلدت على الإسلام ؛ لأن أباها أسلم في ابتداء المبعث ، وثابت عن الأسود عن عائشة رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم تزوجها وهي ابنة ست ، وبنى بها وهي ابنة تسع ، ومات عنها وهي ابنة ثمان عشرة ، لكن أسماء بنت أبي بكر ولدت في الجاهلية ثم أسلمت بإسلام أبيها… وفيما ذكر أبو عبد الله بن منده حكاية عن ابن أبي الزناد أن أسماء بنت أبي بكر كانت أكبر من عائشة بعشر سنين ، وإسلام أم أسماء تأخر ، قالت أسماء رضي الله عنها : قدمت عليَّ أمي وهي مشركة . في حديث ذكرته ، وهي قتيلة ، مِن بني مالك بن حسل ، وليست بأم عائشة ، فإن إسلام أسماء بإسلام أبيها دون أمها ، وأما عبد الرحمن بن أبي بكر فكأنه كان بالغا حين أسلم أبواه ، فلم يتبعهما في الإسلام حتى أسلم بعد مدة طويلة ، وكان أسن أولاد أبي بكر ” انتهى باختصار .
السنن الكبرى ” (6/203)
امام ذہبیؒ:
عائشة ممن ولد في الإسلام ، وهي أصغر من فاطمة بثماني سنين ، وكانت تقول : لم أعقل أبوي إلا وهما يدينان الدين ” انتهى .
سير أعلام النبلاء ” (2/139) .
حافظ ابن حجرؒ:
ولدت – يعني عائشة – بعد المبعث بأربع سنين أو خمس ” انتهى .
الإصابة ” (8/16)
ان میں یہ بھی مذکور ہے کہ ہجرت کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر آٹھ سال تھی۔ یہ بات بھی احادیث میں مذکور بات سے مکمل میل کھاتی ہے
ان کتابوں میں یہ بھی مذکور ہےکہ حضورﷺ کے وصال کےوقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ اس سے بھی یہ بات پتہ چلی کہ ہجرت کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر نو سال تھی۔

٢.سال وفات سے استدلال
تاریخی، سوانحی اور سیرت کی کتابوں میں یہ مذکور ہے انتقال کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر 63‍ سال تھی۔ سال وفات: سن ستاون 57 ہجری ہے، اس سے بھی معلوم ہوا کہ ہجرت کے وقت آپؓ کی عمر چھ سال تھی(پس مجموعی طور سے تاریخی کتابوں سے جو عمریں نکلیں وہ تین ہوگئیں۔ نو سال، آٹھ سال اور چھ سال )اگر آپ کسر کو حذف کردیں جیسا کہ عربوں کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ سن ولادت اور سن وفات کو گنتے نہیں ہیں تو ایسے میں آپؓ کی عمر ہجرت کے وقت آٹھ سال ہوگی، اور نو مہینے بعد رخصتی کے وقت آپؓ کی عمر نو سال ہوگی۔
٣. عمروں کے درمیان فرق سے استدلال
مذکورہ بالا حساب اس وقت بھی درست بیٹھتا ہے جب آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی عمروں کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ حضرت اسماء ؓ حضرت عائشہؓ سے کتنی بڑی تھیں۔ امام ذہبی لکھتے ہیں:
وكانت – يعني أسماء – أسن من عائشة ببضع عشرة سنة ” انتهى . ” سير أعلام النبلاء ” (2/188)
ترجمہ: حضرت اسماء حضرت عائشہ سے کچھ سال بڑی تھیں
ابو نعیم لکھتے ہیں:
عن أسماء أنها ولدت : ” قبل مبعث النبي صلى الله عليه وسلم بعشر سنين ” انتهى .
بعثت نبوی سے دس سال پہلے حضرت اسماء کی ولادت ہوئی ۔
پہلا حوالہ دوسرے حوالے کی وضاحت کررہا ہے۔ ان دو حوالوں سے یہ بات معلوم ہوئی کہ دونوں بہنوں کے درمیان چودہ پندرہ سال کا فرق تھا۔پس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سال ولادت چار پانچ ہجری ہوا
کیا حضرت اسما حضرت عائشہ سے صرف دس سال بڑی تھیں؟ :
اب ہم بعض لوگوں کے اس دعوے کا جائزہ لیں گے کہ حضرت اسماءؓ اور حضرت عائشہؓ کے درمیان جو فرق تھا وہ دس سال کا تھا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ دس سال فرق والی روایت سندا صحیح نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر ہم اسکو سندا صحیح مان بھی لیں تو اس روایت کا مطلب وہ بیان کیا جانا چاہئے جو بخاری اور مسلم کی روایات سے لگا کھاتا ہو، نہ کہ یہ کہ اس مشکوک روایت کی وجہ سے بخاری و مسلم کی صحیح روایات کو ساقط کردیا جائے۔ غرض اِس کو اُن کے تابع کیا جائے گا ناکہ اُن کو اِس کے آئیے اس روایت کا حال دیکھتے ہیں۔ دو سندوں سے منقول ہے یہ روایت

پہلی سند : رواه ابن عساكر في ” تاريخ دمشق ” (69/10) قال : أخبرنا أبو الحسن علي بن أحمد المالكي ، أنا أحمد بن عبد الواحد السلمي ، أنا جدي أبو بكر ، أنا أبو محمد بن زبر ، نا أحمد بن سعد بن إبراهيم الزهري ، نا محمد بن أبي صفوان ، نا الأصمعي ، عن ابن أبي الزناد قال : فذكره .
دوسری سند : رواه ابن عبد البر في ” الاستيعاب في معرفة الأصحاب ” (2/616) قال : أخبرنا أحمد بن قاسم ، حدثنا محمد بن معاوية ، حدثنا إبراهيم بن موسى بن جميل ، حدثنا إسماعيل بن إسحاق القاضي ، حدثنا نصر بن علي ، حدثنا الأصمعي قال : حدثنا ابن أبي الزناد ، قال : قالت أسماء بنت أبي بكر ، وكانت أكبر من عائشة بعشر سنين أو نحوها .
منصف اہل علم جب اس روایت میں غور کریں گے تو ان پر یہ بات ظاہر ہوگی کہ اس روایت کے ظاہر پر عمل کرنا اور اِس کی وجہ سے تمام صحیح روایات کو پس پشت ڈال دینا علم و تحقیق کے نام پر زیادتی ہے ظلم ہے۔ ایسا تین وجہوں سے ہے
پہلی وجہ : عبد الرحمن بن ابی الزناد منفرد ہیں۔ صرف یہی دس سال کا فرق بیان کرتے ہیں۔ ( انکا کوئی متابع نہیں ) جبکہ اس کے خلاف نقطہ نظر کے دلائل جو اوپر مذکور ہوچکے ہیں وہ ایک تو بکثرت ہیں، دوسرے متعدد لوگوں سے منقول بھی ہیں۔ اور یہ مشہور و معروف بات ہے کہ کثرت کو قلت پر ترجیح ہوتی ہے

دوسری وجہ: اکثر اہل علم نے عبد الرحمن بن ابی الزناد کی تضعیف کی ہے۔ ان کے بارے میں ائمہ فن کے اقوال دیکھئے
قول الإمام أحمد فيه : مضطرب الحديث . وقول ابن معين : ليس ممن يحتج به أصحاب الحديث . وقول علي بن المديني : ما حدث بالمدينة فهو صحيح ، وما حدث ببغداد أفسده البغداديون ، ورأيت عبد الرحمن – يعنى ابن مهدى – خطط على أحاديث عبد الرحمن بن أبى الزناد ، وكان يقول فى حديثه عن مشيختهم ، ولقنه البغداديون عن فقهائهم ، عدهم ، فلان وفلان وفلان . وقال أبو حاتم : يكتب حديثه ولا يحتج به . وقال النسائي : لا يحتج بحديثه . وقال أبو أحمد بن عدى : وبعض ما يرويه ، لا يتابع عليه
تهذيب التهذيب ” (6/172)
لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ امام ترمذیؒ نے سنن ترمذی میں عبد الرحمن بن ابی الزناد کی توثیق کی ہے تو تنہا حضرت امام ترمذیؒ کی یہ توثیق اِس مفصل جرح اور تضعیف کے خلاف ہے جو ائمہ فن کے حوالے سے ابھی اوپر مذکور ہوئی۔ ائمہ فن کی یہ تضعیف امام ترمذی کی توثیق پر مقدم ہوگی خاص طور سے اس وقت تو ضرور مقدم ہوگی جب عبد الرحمن بن ابی الزناد تن تنہا ایک ایسی بات بیان کریں (دس سال کا فرق ) جو احادیث اور تاریخی کتابوں میں مذکور بات کے یکسر خلاف ہو

تیسری وجہ: عبد الرحمن بن ابی الزناد کی سند سے آنے والی صحیح ترین روایت کے الفاظ دیکھئے: و کانت اکبر من عائشة بعشر سنین او نحوھا
ترجمہ: اسماءؓ عائشہؓ سے دس سال بڑی تھیں یا اس کے قریب قریب
یہ ‌” او نحوھا” کے الفاظ بذات خود دلالت کررہے ہیں کہ راوی کو عمر ٹھیک ٹھیک یاد نہیں ہے۔ اس سے بھی روایت میں ضعف آتا ہے۔
(
خلاصہ کلام): مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں اہل انصاف علماء، دانشوران اور اسکالرز کیلئے ہرگز مناسب نہیں کہ وہ عبد الرحمن بن ابی الزناد کی مشکوک روایت کی وجہ سے صحیح روایات اور مضبوط دلائل کو رد کردیں، پس پشت ڈال دیں۔۔

: نوٹ: واضح رہے مذکورہ بالا تاریخی روایتیں جو ہم نے اوپر نقل کی ہیں اِن کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمارا اعتماد اور استدلال کی بنیاد ان تاریخی روایتوں پر ہے۔ نہیں! حاشا و کلا! ہمارے استدلال کی بنیاد تو سند صحیح سے منقول روایات ہیں، مگر چونکہ یہ تاریخی روایات سند صحیح سے منقول روایات سے میل کھا رہی تھیں اس لئے ہم نے صرف تائیدی طور سے نقل کیا ہے۔
 بینجامن  مہر 

salaat ( namaaz) ka tariqa quran se



قرآن اور صلوۃ۔۔۔۔

الله تعالی نے قرآن میں نماز پڑھنے کا حکم دیا، اس پر عمل کر کے نبی ﷺ نے دکھایا کہ اس صلوۃ کے حکم کا مطلب یہ ہے اور اسے ایسے پورا کرنا ہے۔ بعد میں ایک طبقہ اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ نہیں اس کا مطلب یہ نہیں بلکہ یہ ہے۔۔۔ اور چودہ سو سال سے صحابہ، تابعین ، تبع تابعین اور پھر ان کے بعد آنے والے سبھی غلط سمجھتے رہے۔ مختلف قسم کی ڈکشنریاں نکال کر اپنے مطالب اخذ کرنے لگ جاتے ہیں کہ "ڈکشنری" میں اس کا مطلب یہ بھی ہے اور یہ بھی ہے۔ اب اس کا کونسا مطلب لیا جاۓ گا اس کا فیصلہ بھی خود کرنے لگا جاتے ہیں۔ 
ہمارے لئے نبی ﷺ کی حديث حجت ہے اور نماز کا طریقہ جو نبی ﷺ کے زمانے سے رائج ہے وہی اصل ہے۔ اس پر سیر حاصل گفتگو کئ پوسٹس میں ہو چکی ہے۔ یہاں ہم قرآن سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور قرآن کی تفسیر اس حوالے سے ہم مان رہے ہیں وہ ان منکرین حدیث کو کیوں کھٹکتی ہے؟ جب ہمارا فہم معیار نہیں تو ان کا کیوں ہے؟
گو کہ تمام قران ہی رسول پرنور کی زبان سے ادا ہوا۔ اور ان کی نماز پڑھنے کی یہ سنت جاریہ تمام مساجد میں عموماَ اور حرم شریف میں ہر روز پانچ بار دیکھی جاسکتی ہے
آئیے دیکھتے ہیں کہ نمازیں کتنی ہیں اور پڑھی کیسے جاتی ہے اور نماز میں کیا پڑھا جاتا ہے اور اس " تعدادَ نماز "، " کس طرح " اور " کیا پڑھا جائے " ان تین باتوں‌کی تعلیم رسول پاک (ص) اور آپ (ص) سے پہلے نبیوں کو اللہ تعالی کی طرف سے کن آیات سے تعلیم ہوئی۔ پھر دیکھتے ہیں کہ نماز کے مزید احکامات کس طرح تعلیم ہوئے۔ جن کی تعلیم رسولِ کریم نے خود اپنی سنت سے عملی طور پر کی اور اس کو سنت جاریہ بنا دیا۔

تعداد نماز اورکس کس وقت:

فجر، مغرب اور عشاء کی نماز کا حکم:
سورۃ هود:10 , آیت:114 اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجئے۔ بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لئے نصیحت ہے۔

نماز فجر اور عشاء‌کی تعلیم و حکم:
سورۃ النور:23 , آیت:58 اے ایمان والو! چاہئے کہ تمہارے زیردست (غلام اور باندیاں) اور تمہارے ہی وہ بچے جو (ابھی) جوان نہیں ہوئے (تمہارے پاس آنے کے لئے) تین مواقع پر تم سے اجازت لیا کریں: (ایک) نمازِ فجر سے پہلے اور (دوسرے) دوپہر کے وقت جب تم (آرام کے لئے) کپڑے اتارتے ہو اور (تیسرے) نمازِ عشاء کے بعد (جب تم خواب گاہوں میں چلے جاتے ہو)، (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے کے ہیں، ان (اوقات) کے علاوہ نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر، (کیونکہ بقیہ اوقات میں وہ) تمہارے ہاں کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، اسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہے

پانچوں نمازوں کی تعلیم اور حکم،:
سورۃ الاسراء / بني إسرآءيل:16 , آیت:78 آپ سورج ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی) نماز قائم فرمایا کریں اور نمازِ فجر کا قرآن پڑھنا بھی (لازم کر لیں)، بیشک نمازِ فجر کے قرآن میں (فرشتوں کی) حاضری ہوتی ہے (اور حضوری بھی نصیب ہوتی ہے)

ظہر اور عصر کی نماز کی تعلیم اور اسکاحکم:
سورۃ الروم:29 , آیت:18 اور ساری تعریفیں آسمانوں اور زمین میں اسی کے لئے ہیں اور (تم تسبیح کیا کرو) سہ پہر کو بھی (یعنی عصر کے وقت) اور جب تم دوپہر کرو (یعنی ظہر کے وقت)

عصر کی نماز کی تعلیم اور اسکا حکم:
سورۃ البقرۃ:1 , آیت:238 سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی، اور اﷲ کے حضور سراپا ادب و نیاز بن کر قیام کیا کرو
ا۔ وضو کرنے کا طریقہ:
سورۃ المآئدۃ:4 , آیت:6 اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کیلئے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (کا بھی) ٹخنوں سمیت، اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی رفعِ حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس (پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے) ہاتھوں کا مسح کر لو۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ
تکبیر کی تعلیم:
سورۃ الاسراء / بني إسرآءيل:16 , آیت:111 وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّہ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَم يَكُن لَّہُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّہُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلَّ وَكَبِّرْۃُ تَكْبِيرًا
اور فرمائیے کہ سب تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں جس نے نہ تو (اپنے لئے) کوئی بیٹا بنایا اور نہ ہی (اس کی) سلطنت و فرمانروائی میں کوئی شریک ہے اور نہ کمزوری کے باعث اس کا کوئی مددگار ہے (اے حبیب!) آپ اسی کو بزرگ تر جان کر اس کی خوب بڑائی (بیان) کرتے رہئے ( كَبِّرْۃُ تَكْبِيرًا)
سورۃ البقرۃ:1 , آیت:185 شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لئے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو( وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ ) اور اس لئے کہ تم شکر گزار بن جاؤ
سورۃ الحج:21 , آیت:37 لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ كَذَلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ
ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقوٰی پہنچتا ہے، اس طرح (اﷲ نے) انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم (وقتِ ذبح) اﷲ کی تکبیر لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ کہو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی ہے، اور آپ نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں
سورۃ العنکبوت:28 , آیت:45 اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ
(
اے حبیبِ مکرّم!) آپ وہ کتاب پڑھ کر سنائیے جو آپ کی طرف (بذریعہ) وحی بھیجی گئی ہے، اور نماز قائم کیجئے، بیشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، اور واقعی اﷲ کا ذکر سب سے بڑا ہے، اور اﷲ ان (کاموں) کو جانتا ہے جو تم کرتے ہو
نماز زبان سے کیسے ادا کی جائے، اس کی تعلیم:
سورۃ الاسراء / بني إسرآءيل:16 , آیت:110 فرما دیجئے کہ اﷲ کو پکارو یا رحمان کو پکارو، جس نام سے بھی پکارتے ہو (سب) اچھے نام اسی کے ہیں، اور نہ اپنی نماز (میں قرات) بلند آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ پڑھیں اور دونوں کے درمیان (معتدل) راستہ اختیار فرمائیں
سورۃ فاتحہ کو دہرانے کی تعلیم:
سورۃ الحجر:14 , آیت:87 اور بیشک ہم نے آپ کو بار بار دہرائی جانے والی سات آیتیں (یعنی سورۃ فاتحہ) اور بڑی عظمت والا قرآن عطا فرمایا ہے
سورۃ الحجر:14 , آیت:88 ساتوں آسمان اور زمین اور وہ سارے موجودات جو ان میں ہیں اﷲ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، اور (جملہ کائنات میں) کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح (کی کیفیت) کو سمجھ نہیں سکتے، بیشک وہ بڑا بُردبار بڑا بخشنے والا ہے
قیام، رکوع اور سجود کی تعلیم:
سورۃ البقرۃ:1 , آیت:125 اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لئے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک (صاف) کر دو
رکوع و سجود کی مزید تعلیم:
سورۃ الحج:21 , آیت:77 اے ایمان والو! تم رکوع کرتے رہو اور سجود کرتے رہو، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور (دیگر) نیک کام کئے جاؤ تاکہ تم فلاح پا سکو
سورۃ البقرۃ:1 , آیت:43 اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کرو
سورۃ المآئدۃ:4 , آیت:55 بیشک تمہارا (مددگار) دوست تو اﷲ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اﷲ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں
سورۃ التوبۃ:8 , آیت:112 (یہ مومنین جنہوں نے اللہ سے اُخروی سودا کر لیا ہے) توبہ کرنے والے، عبادت گذار، (اللہ کی) حمد و ثنا کرنے والے، دنیوی لذتوں سے کنارہ کش روزہ دار، (خشوع و خضوع سے) رکوع کرنے والے، (قربِ الٰہی کی خاطر) سجود کرنے والے، نیکی کاحکم کرنے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی (مقرر کردہ) حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور ان اہلِ ایمان کو خوشخبری سنا دیجئے
مزید دیکھئے رکوع اور سجود کی تعلیم کی مد میں
سورۃ الفتح:47 , آیت:29۔ سورۃ آل عمران:2 , آیت:113 ۔ سورۃ النسآء:3 , آیت:102 ۔ سورۃ الاعراف:6 , آیت:206 ۔ سورۃ الرعد:12 , آیت:15 ۔ سورۃ الحجر:14 , آیت:98 ۔ سورۃ النحل:15 , آیت:49 ۔ سورۃ الاسراء / بني إسرآءيل:16 , آیت:107 ۔ سورۃ مريم:18 , آیت:58 ۔ سورۃ الحج:21 , آیت:18 ۔سورۃ الفرقان:24 , آیت:64 ۔ سورۃ فصلت / حٰم السجدۃ:40 , آیت:37 ۔ سورۃ الفتح:47 , آیت:29 ۔ سورۃ النجم:52 , آیت:62 ۔ سورۃ الانسان / الدھر:75 , آیت:26 ۔ سور العلق:95 , آیت:19
سبحان رب العظیم کی تعلیم:
سورۃ الواقعۃ:55 , آیت:74 فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ
سو اپنے ربِّ عظیم کے نام کی تسبیح کیا کریں
سبحان رب الاعلی کی تعلیم:
سورۃ الاعلیٰ:86 , آیت:1 سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى
اپنے رب کے نام کی تسبیح کریں جو سب سے بلند ہے
تشھید کی تعلیم:
سورۃ آل عمران:2 , آیت:18 شَهِدَ اللّهُ أَنَّهُ لاَ إِلَ۔هَ إِلاَّ هُوَ وَالْمَلاَئِكَةُ وَأُوْلُواْ الْعِلْمِ قَآئِماً بِالْقِسْطِ لاَ إِلَ۔هَ إِلاَّ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اﷲ نے اس بات پر گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی (اور ساتھ یہ بھی) کہ وہ ہر تدبیر عدل کے ساتھ فرمانے والا ہے، اس کے سوا کوئی لائقِ پرستش نہیں وہی غالب حکمت والا ہے
منافقوں‌کی شہادت کہ شناخت کی تعلیم:
سورۃ المنافقون:62 , آیت:1 إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (اے حبیبِ مکرّم!) جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقیناً اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اُس کے رسول ہیں، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یقیناً منافق لوگ جھوٹے ہیں
درود کی تعلیم:
سورۃ الاحزاب:32 , آیت:56 إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو
ان حوالہ جات کو چیک کرلیں، اور قران سے ہدایت حاصل کیجئے۔ اللہ تعالی اور قرآن کہ ہم تک رسول پاک کی زبان اور سنت کے ذریعے پہنچا ہی ہدایت کا سرچشمہ ہے۔
سورۃ آل عمران:2 , آیت:4 (جیسے) اس سے قبل لوگوں کی رہنمائی کے لئے (کتابیں اتاری گئیں) اور (اب اسی طرح) اس نے حق اور باطل میں امتیاز کرنے والا (قرآن) نازل فرمایا ہے، بیشک جو لوگ اﷲ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ان کے لئے سنگین عذاب ہے، اور اﷲ بڑا غالب انتقام لینے والا ہے
بینجامن  مہر