Thursday, December 29, 2016

ISLAM me huro ke itne fazail kiyu ?




اسلام میں حوروں کے فضائل کی غرض و غایت

سیکولر/لبرل طبقے کی طرف سے جنت میں حوروں کے وجود پر کئی حوالوں سے تنقید کی جاتی ہے۔ کبھی فضائل کی تاریخی روایات کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی کسی واعظ پر اس لیے غصہ نکالا جاتا ہے کہ وہ اپنے بیان میں حوروں کا تذکرہ کرتا ہے اور فحش انداز میں کرتا ہے۔ ۔ کیا واقعی ان مبلغ صاحب کے بیان میں حوروں کا ہی تذکرہ ہوتا ہے؟ اگر انکے کسی بیان میں کہیں حور کا ذکر آیا بھی تو وہ کیسا اور کتنا تھا؟ جنہوں نے کبھی انکو سنا ہو وہ ان باتوں کی حقیقت جانتے ہونگے کہ اس میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں ہوتا۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ یہی لبرل معترضین انتہائی فحش افسانے اور ناول شوق سے خریدتے اور پڑھتے ہیں ۔ اردو میں منٹو کے افسانے ہوں یا انگلش میں (Fifty Shades of Grey) جیسےجنسی اذیت پسندی پرناول اور پورن فلمیں انکے ہاں ادب اور فنون لطیفہ کا حصہ سمجھتی ہیں،(Naturism) عریانیت پسندی یا ہپی ازم پر لکھے گئے ایوارڈ یافتہ ناولز پڑھنے کا تذکرہ یہ بڑے فخر سے کرتے ہیں۔۔ معلوم ہوا ان لبرلز کو اصل مسئلہ یا تکلیف حوروں کے بیان سے نہیں ہے بلکہ انہیں علماء و مذہبی نظریات کا مذاق اڑانے اور توہین کرنے کا کوئی بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ ان لبرل معترضین کی طرف سے حوروں پر طنزو تنقید ایسے انداز میں کی جاتی ہے’ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید جنت صرف شہوت کی تکمیل کا اڈہ ہےاور اہل بہشت کی خوشی، سکون، دلجمعی کے لئے وہاں اس کے علاوہ کچھی بھی نہیں ہے۔ یا اہل ایمان صرف بہتر حوریں حاصل کرنے کے لیے اتنی عبادات کرتے ہیں اور جانیں تک قربان کردیتے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے جنت میں حوروں کا وجود ضرور ہے لیکن یہ مومن کا مقصد نہیں ہیں نا اسلام انکو مقصد بنا کے پیش کرتا ہے۔ انکا تذکرہ اور بیان محض جزوی ہے۔اس حقیقت اور حوروں کے فضائل کی غرض و غائیت واضح کرتی ایک تحریر
حاضر ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسلام کا تدریجی و ارتقائی اسلوب ِتربیت اور حوروں کے فضائل کی غرض و غایت
معاشر ے میں ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جو الہامی عقائد و نظریات سے شد و مد کے ساتھ اختلاف کرتے ہیں جس کی وجوہات میری ناقص رائے کے مطابق یہ ہو سکتی ہیں ۱) ان عقائد و نظریات سے کلی یا جزوی طور پر ناواقفیت۔ ۲) ان نظریات سے متضاد و متصادم نظریات سے گمراہ کن تاثر۔ ۳) تعصب و نفرت کی خلیج ۔سوشل میڈیا پر جن خیالات اور تبصروں کامیں نے مشاہدہ کیا وہ چند سوالات ہیں جو نا بالغ ذہن کی اختراع کے سوا کوئی حیثیت نہیں رکھتے جیسے:
کیا اسلام میں حوروں کے فضائل اور ترغیب جنسی میلان کی ترغیب ہے؟
کیا حوریں اس عبادت کا بدل ہیںجو دنیا میں کی جاتی ہے ؟
کیا یہ عورت کو محض جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھنا نہیں کہلاتا ؟
 مردوں کے لیے حوروں کی ترغیب و فضائل ہیں لیکن عورتوں کے لیے اس قسم کے فضائل وترغیب کیوں نہیں بیان کیے گیے ؟وغیرہ وغیرہ
 یہ تمام اشکالات اسلام کے تربیتی اسلوب کو نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے ہےں اور مؤخر الذکر تو محض بے حیائی کا عکاس اور اسلام کے تصور حیا کو یکسر نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے ہے۔ درا صل ان سطور کو لکھنے کا محرک بھی اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات اور شر انگیزی پھیلانے والے فتنہ پردازوں کی سوشل میڈیا پراس قسم کی سرگرمیاں ہی ہیں ۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ عبادت کا مقصود ِاصلی محض اللہ ہی کی رضاہے لیکن خوب ذہن نشین کر لیا جائے کہ رسول عربی ﷺ نے نہ صرف جہنم سے ڈرایا ہے بلکہ جنت کی بشارتیں بھی سنائی ہیں ۔قرآن پاک میں اللہ نے جنت کی طرف بڑھنے کا حکم فرمایا اور اس کی نعمتوں کا جا بجا تذکرہ فرمایا جن میں پاکیزہ بیویوں کا تذکرہ ان کے اوصاف اور حسن و جمال کے ساتھ فرمایا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اسلام میں حوروں کے فضائل و استحضار کی غر ض وغایت کیا ہے ؟اگر اس سوال کے تشفی بخش جواب سے یقینی آگاہی حاصل ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مذکورہ بالا اشکالات کی کوئی گنجائش باقی رہ جائے ۔اسلام میں قرن ِاول ہی سے افراد کی تربیت کا جو نظام وضع کیا گیا وہ آج کے ہر ہر فرد کے لیے بطریق ِ اولیٰ مؤثر ہے جس کا کوئی بھی متبادل نظام ِ تربیت قطعی طور پر ناکافی اور غیر مؤثر ہو گا۔اب اسلام کے نظام تزکیہ و تربیت کے اسلوب کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔اسلام کا تزکیہ و تربیت کا نظام تدریجی و ارتقائی ہے جو حکمت و بصیرت سے پُر ہے جس کے مدارج اور ارتقائی مراحل میں سے چند ایک کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔
اول۔۔۔۔ فضائل و ترغیب اور استحضار ِ عمل(عمل پر اللہ کے وعدے کا یقین):کا مقصود افراد میں ابتداًاعمال سے موانست و مناسبت ،وابستگی و رغبت اور شوق پیدا کرنا ہے ۔مثلاًنماز ہی کو لے لیجیے اس سے وابستگی او ر رغبت پیدا کرنے اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے نہ صرف قراءت و قیام ،رکوع و سجود وغیرہ کے فضائل بیان کیے گئے بلکہ اذان کے فضائل بیان کیے گئے ،اذان کے سننے اور جواب دینے پر اجرو ثواب کی نوید سنائی گئی،مؤذن کے مناقب بیان کیے گئے ۔اُٹھان پیدا کرنے کا یہ سلسلہ یہیں پہ ختم نہ ہوا بلکہ نماز میں شغف بڑھانے کے لئے وضو کو حسن و نکھاربخشا ،اس پر سنتوں اور مستحبات کا تزین کیا گیا ،وضو میں کمال پیدا کرنے کے لیے مسواک کے فضائل اور اجرو ثواب کو بیان کیا گیا ،نماز کی عظمت پیدا کرنے کے لئے وضو کر کے گھر سے جانے والا ایسا بتلایا گیا گویا احرام باندھ کر حج کو جا رہا ہے پھر نماز کے انتظا ر میں بیٹھنے کی فضیلت بیان کی گئی کہ گویا نماز کا ثواب پاتا رہتا ہے ۔یوں صحابہ کی نماز میں بے مثل ومثال شغف و تعشق، خشوع و خضوع اور حد درجہ کمال پیدا کر دیا گیا کہ ان پر نماز کے اسرارورموز اپنی پوری حقیقت کے ساتھ کھل گئے ۔
دوم۔۔۔۔ آسان سے مشکل کی طرف :اس اصول کے تحت پہلے افراد کو ظاہری سانچے میں ڈھالا گیا ازاں بعد ترہیب و ترغیب اور اُٹھان کے ذریعے دلوں کی زمین کو خوب نرم کر کے اس قابل کیا جاتا رہا کہ اس میں ہر اگلی فصل کاشت کی جا سکے جو زیادہ محنت طلب اور قدرے مشکل بھی ہو ۔ عبادات و اخلاقیات کے مراحل سے ہوتے ہوئے افراد کو معاشرت ومعیشت اور معاملات و قضا کے دین کی تکمیل تک لے جایا گیا یوں ارتقائی و تدریجی مراحل کا یہ سلسلہ ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام پر منتج ہوا۔ مثلاًایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ فلاں شخص رات کو نماز پڑھتا ہے اور صبح ہوتے ہی چوری کرتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس کی نماز اس کو عنقریب اس فعل سے روک دے گی۔تمام معاملات میں سدھار پیدا کرنا مشکل بھی ہے اور دیر طلب بھی لیکن نماز میں شغف اور خشوع و خضوع معاملات کی درستگی کی دلیل ہے۔عبادات کے دین میں استحکام کے بعدتربیت کے دائرہ کار کو اخلاقیات و معاشرت کی جانب بڑھایا تو ایسے معاشرے کی تکمیل ممکن ہوسکی جو اقوام ِعالم کے لئے نمونہ قرارپایا ۔
ذرا سوچیے ایسا کیوں نہ ہوا کہ تمام احکام شرعیہ بیک وقت نازل ہو جاتے ؟دیکھیے شراب کی حرمت اور پردے کی فرضیت کا عمر رضی اللہ عنہ کی فکر پر نازل ہونا تو ایک تکوینی امر تھا لیکن اعلان نبوت کے طویل عرصہ بعد ان احکامت کے نزول میں درحقیقت اسلام کا یہی تدریجی و ارتقائی اسلوب تربیت ہی حائل تھا گویا ان احکامات کا نزول ایک مناسب وقت کی تلاش میں تھا جیسے کسان بنجر اور سخت زمین میں بیج ہر گز نہیں ڈالتا بلکہ اس کو اس قابل بنا تا ہے کہ اس میں مطلوبہ فصل کاشت کی جا سکے بعینہ زیر تربیت عملہ کے مناسبِ احوال شرعیت مطہرہ کے احکامات متوجہ ہوتے رہے ۔انسانی تربیت کے اس نظام نے عبادات ،اخلاقیات و معاشرت اور معاملات کے دین سے ہوتے ہوئےقضا کے دین کو اپنی وسعتوں میں سمو لیا کہ ایک یہودی اور جلیل القدر صحابی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقدمہ جب عدالت کے روبرو ہو تا ہے تو قاضی کا منصفانہ و عادلانہ فیصلہ یہودی کے ضمیر کو جھنجوڑکے رکھ دیتا ہے اور اسے قبول اسلام پر مجبور کر دیتا ہے ۔ پھر مصلح عظیم ﷺنے ایک فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی اور تیس سال کی محنت شاقہ کے بعد اس دنیا سے اس حال میں پردہ فرمایا کہ ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست قائم ہو چکی تھی گویا تکمیل دین کا عمل اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا ۔ اورآیت مبارکہ۔۔۔۔(ترجمہ:آج میں نے تمھارے لیے تمھار ادین مکمل کردیا ،تم پر اپنی نعمت پوری کر دی ،اور تمھارے لئے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لئے ) پسند کر لیا ) ۔۔نازل ہوئی ۔
یاد رہے اس تمام تر تربیتی پروگرام میں محنت ِ دعوت کارفرما رہی اور آج بھی ختم نبوت کے طفیل یہی کار نبوت خیر امت کا منصب و اولین فریضہ ہے جس کی انفع صورت محض نہج نبوت پر تربیت کا یہی ارتقائی و تدریجی اسلوب ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جب تک امت مسلمہ اس فرضِ منصبی کو اجتماعی طور پر نبھاتی رہی تو مذکورہ بالا تما م امور میں دین کی بہاریں دکھائی دیتی رہیں جیسے ہی اجتماعی طور پر اس فریضے سے غفلت برتی گئی تو تربیت کا مذکورہ نظا م ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو تا چلا گیا اور نتیجتاًسب سے پہلے ریاستی نظا م میں بگاڑ آیا پھر قضا اور امور انتظام (Administration) کا دین جاتا رہا اور پھر معاشرت و معاملات کا وہ حال ہوا کہ آج ہم نہ صرف اپنی پہچان کھو بیٹھے ہیں بلکہ اغیار کی مشابہت کو قابل فخر سمجھتے ہیں اورآج امت کی حالت اس قدر پتلی ہو چکی ہے کہ محض عبادات کا دین کسی قدر نظر آتا ہے ۔
سوم ۔۔۔۔ قلبی کیفیت اور ظاہری نوعیت و مراتب کا لحاظ : اسلام قلبی کیفیت اور ظاہری نوعیت و مراتب کے اعتبار سے ہر سطح کے افراد کی تربیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک منظم اسلوب اختیار کرتا ہے ۔ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ عام لوگوں کی توبہ ظاہری گناہوں سے ہوتی ہے اور صالحین کی توبہ باطنی گناہوں اور مذموم اخلاق سے ہوتی ہے اور متقین کی توبہ شکوک و شبہات سے ہوتی ہے اور محبین کی توبہ ا ن اوامر سے ہوتی جو ان کویاد الٰہی سے غافل کر دیں اور عارفین کی توبہ اس مقام سے ہوتی جس پر وہ پہنچ چکے ہوں مگر اس سے مافوق دوسرا مرتبہ ہو جس پر ان کو پہنچنا چاہیے اور چوں کہ معرفت کے مراتب و منازل لا متناہی ہیں اس لیے عارفین کی توبہ کا منتہیٰ نہیں۔(تبلیغ دین)دوسرا یہ کہ آپﷺابوبکر ؓ کا سارا مال قبول فرما لیتے ہیں اور ایک دوسرے شخص سے اس لئے انکار فر ما یتے ہیں کہ ازاں بعد جز اع فزاع کے فتنے میں پڑ جائے گا ۔یہ تو محض نمونے کے طور پر عرض کیے ہیں لیکن حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ میں اس قسم کے واقعات کی کمی نہیں جن میں آپ ﷺ نے افراد کے ایمان ،تقویٰ،توکل اور ظاہری نوعیت و مراتب کو مد نظر نہ رکھا ہو ۔
انسان طبعاً جنس ِ مخالف کی طرف میلان و رجحان اور حب مال و جاہ کا شکار رہتاہے ۔یہی دو چیزیں انسان کی تمام تر محنت اور کاوشوں کا مرکز و محور رہی ہیں۔مصلح کبھی بھی اپنے زیر تربیت عملہ کی طبیعت و مزاج ، میلان و رجحان کو نظر انداز نہیں کرتا ۔ یاد رہے جنس ِ مخالف کی طرف میلان و رجحان اور حب مال و جاہ انسان کی روز اول ہی سے کمزوری رہی ہیں لہٰذا ہر دو جانب سے رخ کو ہٹانے کے لئے ابتداً جنت کی حوروں ، نعمتوں کو بیان کیا جاتا ہے(یعنی فضائل و ترغیب اور استحضار عمل کے ضمن میں ) اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کرنے کے لئے دنیا کی مذمت کی جاتی ہے اور مغیبات کے تذکرے کیے جاتے ہیں(یعنی احوال ِآخرت : برزخ ،جنت اور جہنم کو بیان کی جاتا ہے ) تاکہ محنت کا رخ پھر جائے مبادا دنیا کی عارضی شہوتوں ،لذتوں اور آرائش و زیبائش میں الجھ کر اپنے مقصد ِاصلی سے ہٹ جائے اور اپنے خالق حقیقی کو ناراض کر کے اپنی آخرت برباد کر لے ۔لیکن اصلاح ِ احوال ، تزکیہ نفس اور منازل ِسلوک طے کر لینے کے بعد اسی انسان میں نہ حوروں کی تمنا باقی رہتی ہے نہ جنت کی خواہش وہ محض اللہ ذوالجلال کی رضا کا متلاشی بن جاتا ہے ۔چوں کہ معاشرہ خاص و عام لوگوں کا مجموعہ ہوا کرتا ہے اور ایسا ممکن بھی نہیں کہ تمام تر افراد ایک ہی قلبی کیفیت ،نوعیت کے حامل ہوں لہٰذا اگر کوئی شخص کسی وجہ سے تربیت کے تمام ادوار سے نہ گذر سکے یا کسی وجہ سے اس کو تربیت کے مواقع میسر نہ آسکیں توترغیب و ترہیب سے کم از کم وہ فضائل (جنت کی حوروں اور دیگر نعمتوں) اور وعیدوں (جہنم کے عذاب) کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی عقلی بساط اور کیفیت قلبی کی بنیاد پر کسی نہ کسی درجے میں دین سے وابستہ رہتا ہے اور خالق حقیقی کی بندگی بجا لاتا رہتا ہے۔
#ابوالحسن

مہر بھائی ۔ غامدی کی ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ اس میں وہ نظریہٴ حور کا استہزاء بھی کرتا ہے اور حور سے مراد دنیا کی بیویاں مراد لیتا ہے۔ اس حوالہ سے آپ کا کیا موقف ہے

غامدی صاحب کا استدلال لغو ہے۔ سلف میں سے کسی نے بھی یہ مفہوم نہیں لیا۔ غامدی کے مطابق قرآن نے کہا ہے " وحورٌ عین" ( اور بڑی بڑے آنکھوں والی حوریں)۔ ان اس پر غامدی کا یہ موقف ہے کہ حور عین کا مطلب ہوتا ہے "آہوُ چشم" یعنی بڑی بڑی آنکھوں والی نہ کہ کوئ الگ مخلوق۔ انہیں بیویوں کی آنکھیں بڑی بڑی ہوں گی۔
اس استدلال میں دیکھیے کہ بڑی بڑی آنکھوں والیوں کا زکر ہے۔ تو اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ وہ الگ مخلوق نہیں ہوں گی ؟ کیا الگ مخلوق کی آنکھیں بڑی نہیں ہو سکتیں؟ یہ زو معنی دلیل ہے۔ یعنی
۱۔ دنیاوی بیوی کی بھی صفت آہو چشم ہو سکتی ہے
۲۔ حور کی بھی یہی صفت ہو سکتی ہے۔
تو جب یہ دلیل دونوں طرف گارگر ہے تو اس سے اپنا موقف کیسے نکال رہے ہیں؟ اور ہمارا تو اس لفظ سے استدلال ہی نہیں ہم تو یہ مانتے ہیں کہ حوروں کی آنکھیں بڑی ہوں گی۔ غامدی کے رد میں اس سے اگلی آیات کافی ہیں۔ دیکھیے آیت
Image may contain: text


اللہ نے حور کی تعریف کر کے کہا ہے کہ یہ ان اعمال کا بدلہ ہے جو وہ کرتے تھے۔ یعنی حور ایک انعام ہے اعمال کا بدلہ ہے۔ اور انعام کے طور پر اپنی ہی بیوی نہیں ملتی ۔۔۔! حور ہی ہو گی۔ جیسے حوروں کو یاقوت اور مرجان سے تشبیہ دینے کے بعد ارشاد ہے۔ آیت


تو یہ نیکی اور اعمال کا بدلہ ہے۔
اب آتے ہیں دوسری دلیل کی طرف۔ اللہ کا ارشاد ہے۔



اللہ تو کہ رہا ہے کہ ان کو اہل جنت سے پہلے کسی جن و انس نے ہاتھ نہیں لگایا ہو گا۔ یہی ایک آیت غامدی کے مفروضے کو نیست و نابود کرنے کو کافی ہے کہ دنیاوی بیویوں کو تو اس سے پہلے ان کے شوہروں نے ہاتھ لگایا ہے۔۔۔۔!
یار لوگ یہ کہ سکتے ہیں کہ "یہاں" جنت میں جانے کے بعد یا حور بننے کے بعد چھونے کا بیان ہے۔ مگر  یہ ایک مفروضہ اور قیاس ہے۔ کہ قرآن نے تو واضح کہا کہ اس سے قبل نہ کسی جن نے چھوا نا انس نے اور یہ کہ رہے ہیں کہ نہیں اس سے پہلے انسان نے چھوا تھا۔۔۔۔! اس سے مراد دنیاوی زندگی نہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ قبل سے مراد سیدھا سیدھا آئل جنت سے قبل تمام وقت مراد ہے چاہے وہ دنیا میں ہو۔ اس سے قبل کسی نے نہیں چھوا۔ جیسے قیامت کو جہنمیوں کے متعلق اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے قبل یہ عیش نعیم میں تھے۔ یہاں قبل سے مراد دنیاوی زندگی ہے۔ ا ارشاد ہے۔ آیت



ہماری تیسری دلیل بخاری کی حديث ہے کہ ہر جنتی کو دو حوریں ملیں گی۔ اب اگر کسی کی ایک شادی ہوئ ہو یا نہ ہوئ ہو اس کو کہاں سے اسی کی دو بیویاں ملیں گے۔ ارشاد ہے۔ حديث
لكل واحد منهم زوجتان يرى مخ سوقهما من وراء اللحم، من الحسن (بخاری:3245)

ان جنتیوں میں سے ہر ایک کے لئے دو دو بیویاں ہوں گی،وہ حسن کی وجہ سے ان کی پنڈلیوں کی مخ گوشت میں سے دیکھ رہے ہوں گے۔

اس کے علاوہ احاديث صراحت سے موجود ہیں۔ ایک حديث میں جنتی خاتون کی فضیلت کا زکر ہے کہ دنیاوی بیوی حوروں کی سردار ہو گی اور اسے حوروں پر وہی فضیلت ہو گی جو نیچے والے کپڑے کو اوپر والے پر ہوتی ہے ( مفہوم حديث).
واللہ اعلم

Noorul Iman MEN NE HAMESHA 1 BAT SUNI HAI K JO CHEEZ HASIL KARNA MUSHKIL HO YAH JO CHEEZ INSAN KO MUTAJASSAS KAR DE INSAN USKI KHOJ MEN KUCH BHI KARNE PAR AMADAH HO JATA HAI MATLAB KABHI KABHI WAQAI ZEHAN MEN ATA BHI HAI K JANNAT KITNI KHUBSURAT HO G JAHANNUM KITNA BHAYANAK HO GA OR PHIR JO KAHA JATA HAI K AHL E JANNAT KA SAB SE BARA INAM ALLAH KA DEEDAR HO GA WAQAI MEN AGAR INSAN DILL SE KOSHISH KARE YAH AQAL KO ISTEMAL KARE TO WOH YAQEENAN ALLAH KI TARAF HI JAE GA

ہمیشہ کی طرح لاجواب بنیامین برادر


Monday, December 26, 2016

quran me her cheez ki tafsil maujud hai


اعتراض کے مختلف انداز :
1.
قرآن ہی کافی ہے، حدیث کی کیا ضرورت ہے؟
2.
قرآن میں وحی کی پیروی کرنے کا تذکرہ ہے اور وحی صرف قرآن ہے!
3.
قرآن میں کل شیء (ہر چیز) کی تفصیل اور وضاحت ہے لہٰذا حدیث کی کیا ضرورت ہے؟
4.
قرآن کی تفسیر کے لیے اگر حدیث کی ضرورت ہو تو پھر قرآن کو حدیث کا محتاج ماننا پڑے گا
!
جواب:
کیا قرآن کریم تشریح طلب ہے؟
 
کئی مقامات پر قرآن مجید میں بظاہر یہ دعویٰ نظر آتا ہے کہ اس کی آیات کریمہ جو کہ سمجھنے کے لیے آسان اور معانی کے اعتبار سے واضح ہیں، خود اپنی ہی تشریح ہیں۔ لہٰذا اس کے لیے کسی بیرونی تفسیر کی حاجت نہیں ہے، لہٰذا پیغمبری تشریحات کو اتنی اہمیت کیوں دی جائے؟
 
موضوع کے اعتبار سے مشترک بہت سی آیات کریمہ کے یکجا مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم بنیادی طور پر دو قسم کے موضوعات سے تعرض کرتا ہے۔ ایک تو وہ جن کا تعلق سادہ حقائق اور ان کے عمومی بیانات سے ہے اور جس میں سابقہ انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کی گم گشتہ امتوں کے واقعات، بنی نوع آدم پر اللہ تعالٰی کے احسانات کا ذکر، زمینوں اور آسمانوں کی تخلیق، اللہ تعالٰی کی حکمت و قدرت کے کائناتی مظاہر، جنت کی نعمتوں، دوزخ کے عذاب اور دیگر ملتے جلتے مضامین بیان کئے گئے ہیں۔
 
موضوعات کی دوسری قسم میں شریعت کے قوانین اور علتیں، اسلامی قانون کے متفرق پہلو، نظریاتی معاملات کی تفاصیل، احکام کے مصالح اور حکمتیں اور اسی قسم کے علمی موضوعات شامل ہیں۔
 
پہلی قسم کے موضوعات جن کے لیے قرآن کریم میں "ذکر" ( نصیحت، موعظت، درس) کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے یقیناً سمجھنے میں اس قدر آسان اور عام فہم ہیں کہ کوئی ناخواندہ شخص بھی کسی دوسرے کی مدد کے بغیر ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ قرآن کریم اسی قسم کے موضوعات کے بارے میں کہتا ہے۔وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ﴿القمر:٢٢﴾" اور ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان کر دیا ہے، سو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے۔" (۲۲ - ۵۴)
 
یہاں للذکر ( نصیحت حاصل کرنے کےلیے) کے الفاظ بڑھا کر قرآن کریم نے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ قرآن مجید کا عام فہم ہونا پہلی قسم کے موضوعات سے تعلق رکھتا ہے۔ بنیادی طور پر آیت کریمہ کا زور قرآن کریم سے سبق حاصل کرنے اور اسی مقصد کے لیے اس کے آسان اور عام فہم ہونے پر ہے۔
اس سے یہ مسئلہ قطعاً نہیں نکالا جا سکتا کہ قانونی نزاکتوں کے استنباط، اسلامی قوانین کی تشریحات اور نظریاتی مباحث پر بھی اس کے آسان اور عام فہم ہونے کا اسی طرح اطلاق ہوتا ہے۔ اگر اس قسم کے موضوعات کی تشریح اور تعبیر بھی ہرکس و ناکس کے لیے عام ہوتی خواہ اس کی علمی صلاحیت کتنی ہی کم کیوں نہ ہو، تو قرآن کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کتاب کی " تعلیم" اور " تفسیر" کے فرائض ہرگز تفویض نہ کرتا۔ ایسی آیات کریمہ کے حوالے سے، جو تشریح طلب ہیں خود قرآن کریم میں ارشاد ہے۔وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۖ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ ﴿العنکبوت:٤٣﴾" اور ہم ان قرآنی مثالوں کو لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں اور ان مثالوں کو بس علم والے ہی لوگ سمجھتے ہیں۔" (۴۳- ۲۹)
 
اس سے واضح ہوا کہ پہلی قسم کے موضوعات کے " آسان اور عام فہم" ہونے کا مطلب ایک ایسے پیغمبر کی ضرورت کا انکار قطعاً نہیں ہے جو قرآن کریم کے قانونی معاملات اور علمی نتائج کی تشریح کر سکے۔
٭اعتراض ٭:
 
انکارِ حدیث کے لئے سب سے اہم اور بنیادی نکتہ یہ تلاش کیا گیا ہے کہ قرآنِ مجید میں ہر مسئلہ کی تفصیل بیان کردی گئی ہے، اس لئے حدیث کی ضرورت نہیں ۔اس کے ثبوت میں قرآن مجید کی صفت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ (النحل:۸۹) یعنی اس میں ہرچیز کوکھول کھول کربیان کردیا گیا ہے، سورۂ نحل میں ہے وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ (النحل:۸۹) وَهُوَالَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا (الانعام:۱۱۴) اسی طرح قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا مَافَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ (الانعام:۳۸) کہ ہم نے قرآن میں کسی بھی چیز کا حکم بیان کرنا نہیں چھوڑا ہے؛ لہٰذا جب قرآن کریم میں اس درجہ جامعیت ہے کہ ہرچیز کوبیان کردیا گیا تواب کسی دوسری دلیل کی کیا حاجت باقی رہ جاتی ہے جوحدیث کا سہارا لیا جائے؟۔
٭تبصرہ٭ :
قرآن کریم کی جامعیت کا دعویٰ:
آیت :"وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ"۔(النحل:۸۹)
 
ترجمہ: اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب اتاری جو ہر چیز کا کھلا بیان ہے ہدایت اوررحمت ہے اورماننے والوں کے لیے خوشخبری ہے۔
 
قرآن کریم کی مذکورہ بالاآیت بتارہی ہیں کہ قرآن کریم نہایت جامع اور مکمل کتاب ہے اور اس میں ہر انسانی ضرورت کا پورا پورا حل موجود ہے،قرآن کریم کی جامعیت کا یہ دعویٰ کہاں تک حالات سے ہم آہنگ ہے؟اورزندگی کے تمام مسائل کیا اپنی پوری تفصیل کے ساتھ ہمیں اس میں ملتے ہیں یا نہیں؟ اس پر ذرا اور غور کیجئے، یہ حقیقت ہے اور اس کے تسلیم کرنے سے چارہ نہیں کہ بہت سے قرآنی احکام ایسے مجمل ہیں کہ جب تک اور کوئی ماخذ علم ان کی تفصیل نہ کرے ان کی عملی تشکیل نہیں ہوسکتی اور زندگی کے لا تعداد مسائل ایسے بھی ہیں جن کے متعلق واضح جزئی ہمیں قرآن کریم میں نہیں ملتی،پس قرآن کریم کی جامعیت کی تشریح ایسی ہونی چاہئے جس سے یہ دعویٰ واقعات سے ہم آہنگ بھی ہوسکے۔
٭قرآن کریم کی جامعیت کا صحیح مفہوم٭
 
آج تک کسی نے قرآن کریم کی جامعیت کا یہ مفہوم نہیں لیا کہ اس کی کسی آیت میں کوئی اجمال (Brevity) یا کسی بیان میں کوئی تقیید (Particularisation) نہیں ، اس نے ہر باب کی غیر متنا ہی جزئیات کا بھی احاطہ کرلیا ہے اور ہر حکم کی تمام حدود اور تفصیلات (Details) اس نے بیان کردی ہیں نہ یہ کسی کا دعویٰ ہے نہ اس کا کوئی قائل ہے،قرآن کریم کی جامعیت کا مفہوم یہ ہے کہ اس میں تمام انسانی ضرورتوں کا حل ملتا ہے اور لا تعداد جزئیات کے احکام کے اصول وکلیات اورضوابط کی شکل میں اس میں موجود ہیں، علامہ شاطبیؒ (۷۹۰ ھ) لکھتے ہیں:
 
ترجمہ: قرآن مجید مختصر ہونے کے باوجود ایک جامع کتاب ہے اور یہ جامعیت تبھی درست ہوسکتی ہے کہ اس میں کلیات کا بیان ہو۔ (الموافقات:۳/۱۳۲)
 
پس جب قرآن پاک میں ایسے اصول و کلیات ہیں جن کے تحت لا تعداد جزئیات کا فیصلہ قرآن کریم کی جامعیت کی تصدیق کرے تو یہ جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ ان مواقع پر قرآن کریم کی اصولی دعوت کیا ہے؟ وہ ان کلیات کی تفصیل کے لیے کس کی طرف رجوع کرنے کا کہتا ہے؟
 
قرآن کریم نے اپنے احکام وارشاد کے ساتھ ساتھ ایک عظیم شخصیت کا تعارف بھی کرایا ہے اوراس کو اپنے ساتھ لازم کیا ہے، قرآن کریم مسلمانوں کو اس کے عمل سے اسوۂ حسنہ کی دعوت دیتا ہے، یہ ایک ایسی اصل عظیم ہے جس کے تحت ہزاروں مجملات کی تفصیل اور لاکھوں جزئیات کا حل مل جاتا ہے،قرآن کریم کی اس دعوت کے تحت اس اسوہ حسنہ کی تعمیل عین قرآن پاک کی تعمیل شمار ہوگی،یہ کلیدی آیات ہیں جن کے تحت لا تعداد مسائل حل ہوجاتے ہیں.
چند آیات ملاحظہ کیجئے۔
(
۱)"لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ"۔ )الاحزاب:۲۱)
ترجمہ: بے شک تمہارے لیے رسول اللہﷺ کی ذات میں بہترین نمونہ موجود ہے۔
(2)"
یَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ"۔ (النساء:۵۹)
ترجمہ: اے ایمان والوحکم مانو اللہ کا اورحکم مانو(اس کے) رسول کا۔
(3)"
مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ"۔ (النساء:۸۰)
ترجمہ: جو اللہ کے رسول کی اطاعت کرتا ہے پس بیشک وہ اللہ کی اطاعت کرچکا۔
یہاں رسول کی اطاعت صیغہ مضارع (Presentt) سے بیان فرمائی جو رہتی دنیا تک جاری رہے گی اوراللہ کے اطاعت کو ماضی (Past) سے تعبیر فرمایا کہ مومن ایمان لانے کے ساتھ ہی اسی اصول کو تسلیم کرچکا تھا کہ زندگی کی ہر ضرورت میں رسول کی اطاعت کی جائے گی اوراسی کے تحت وہ اطاعت رسول کررہا ہے، یہ وہ کلیدی آیات (Key Verses) ہیں جن کے تحت جمیع جزئیات حدیث آجاتی ہیں اورقرآن کریم جمیع تعلیمات رسول پر حاوی قرار پاتا ہے۔
٭اگر احادیث حجت نہیں ہیں تو مندرجہ ذیل سوالات کا جواب ہمیں کہاں سے ملے گا؟ ٭
 
٭ قرآن میں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نماز کی حالت میں کھڑے ہونے، رکوع کرنے اور سجدہ کرنے کا ذکر بھی قرآن میں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ نماز میں پہلے کھڑے ہوں یا پہلے رکوع کریں یا پہلے سجدہ کریں؟ لغت میں ’’رکوع‘‘ کا معنی ہے جھکنا، سوال یہ ہے کہ آگے جھکیں، یا دائیں جھکیں یا بائیں جھکیں؟ پھر رکوع کی حالت میں ہاتھ کہاں ہوں؟ اسی طرح سجدہ کیسے کریں؟ سجدہ ایک کریں یا دو کریں؟ 
 
٭ قرآن میں زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نہ دینے والوں کو سخت عذاب کی دھمکی بھی دی گئی ہے جس جس قسم کے لوگوں پر زکوٰۃ خرچ کرنی ہے، انھیں بھی بتا دیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ زکوٰۃ کم از کم کتنے مال پر فرض ہے؟ کتنے فیصد فرض ہے؟ اور کب کب فرض ہے؟
 
٭ قرآن میں جن جانوروں کو حرام اور جن کو حلال قرا ردیا گیا ہے، انکے علاوہ بقیہ جانور حلال ہیں یا حرام؟ مثلا کتا، بلی، گیڈر، بھیڑیا، چیتا، شیر، تیندوا، بندر، ریچھ، ہرن، چیتل، سانبھر، بارہ سنگھا، بھینسا، خرگوش، کوا، چیل، باز، شکرہ، کبوتر، مینا، فاختہ وغیرہ وغیرہ۔ قرآن کریم نے میتۃ یعنی از خود مر جانے والے جانور کوحرام قرار دیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ مچھلی جب پانی سے باہر آتی ہے تو مر جاتی ہے، تو اس کا کیا حکم ہے۔ اس کی حلت کو قرآن سے ثابت فرمائیے یا مچھلی کھانا چھوڑیے ۔
 
٭ قرآن میں حکم ہے کہ مسلمان جنگ میں کفار کا جو مالِ غنیمت حاصل کریں، اس کے پانچ حصے کر کے ایک حصہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے نام پر الگ نکال دیا جائے جو یتیموں، مسکینوں اور حاجت مندوں وغیرہ میں بانٹ دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ باقی چار حصے کیا کیے جائیں؟ تمام مجاہدین پر برابر برابر بانٹ دیئے جائیں یا فرق کیا جائے؟ اگر ان سب کو برابر دیں تو کیوں دیں؟ اور اس کا ثبوت قرآن میں کہاں ہے؟ اور اگر فرق کریں تو کس حساب سے فرق کریں؟ قرآن سے اس کا حساب بتایے اور اگر سالار کی رائے پر چھوڑ دیں تو قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ سالار کی رائے پر چھوڑ دیں؟ 
 
٭ قرآن میں حکم ہے کہ چوری کرنے والے مرد اور عورت کے ہاتھوں کو کاٹ دو۔ اب سوال یہ ہے کہ دونوں ہاتھ کاٹیں یا ایک ہاتھ؟ اور اگر ایک ہاتھ کاٹیں تو داہنا کاٹیں یا بایاں؟ پھر اسے کاٹیں تو کہاں سے کاٹیں؟
 
٭ قرآن میں یہ ارشاد ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو۔ سوال یہ ہے کہ جمعہ کے دن کب پکارا جائے؟ کس نماز کے لیے پکارا جائے؟ کن الفاظ کے ساتھ پکارا جائے؟ جس نماز کے لیے پکارا جائے، وہ نماز کیسے پڑھی جائے؟
اس طرح کے ہر شعبے اور موضوع پر سینکڑوں اٹھائے جاسکتے ہیں ، ان سوالات کو ایک بار غور سے پڑھ لیجئے اور بتائیے کہ اگر قرآن میں ساری تفصیلات موجود ہیں تو انکی تفصیلات کہاں ہیں ؟ قرآن کہتا ہے کہ﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ (سورۃ الاحزاب 21) آپ بتائیے اس سلسلے میں 'رسول اللہ ﷺ کا عمل کیا تھا؟ اور اس عمل کی تفصیلات کہاں سے ملیں گی؟ اگر قرآن میں ملیں گی تو کس سورہ، کس پارے، کس رکوع اور کن آیات میں؟ اور حال یہ ہے کہ جو مسائل پیش آتے ہیں،ان کے متعلق قرآن میں رسول اللہ ﷺ کا اُسوہ ملتا ہی نہیں۔ اور اگر کہیں ملتا بھی ہے تو آپ اسے 'ایرانی سازش' کہہ کر اس پر تقدس کا خول چڑھا کر لوگوں کو بیوقوف بنانے لگ جاتے ہیں ۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی چاہنے والے بے چارے کریں تو کیا کریں؟
٭غلام احمد پرویز صاحب کا ایرانی سازش سے استفادہ ٭
 
پرویز صاحب چوری کی سزاؤں کے بارے میں سنت اور احادیث پر انحصار کرتے ہیں لیکن سنت کو ماخذ قانون بھی نہیں مانتے۔ملاحظہ فرمائیے لکھتے ہیں "
 "
چوری کی سزا قطع ید ہے یہ زیادہ سے زیادہ سزا ہے جو قرآن نے متعین کی ہے کس قدر چوری اور کن حالات میں چوری کے جرم میں مجرم اس سزا کا مستحق ہوگا اور کن حالات میں اس سے کم سزا کا سزاوار ہوگا۔ اس کے متعلق فقہ اور روایات دونوں میں تفصیلی مباحث موجود ہیں۔ روایات (مسلم اور بخاری) میں ہے کہ دینار سے کم کی چوری میں اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ فقہ میں اس کو نصاب کہتے ہیں بعض کے نزدیک نصاب ایک دینار ہے اور بعض کے نزدیک ربع (ایک چوتھائی) دینار ی یہ تو رہا مقدار کا سوال۔ اب لیجیے احوال و ظروف کو، فقہ کی رو سے چور کو اس تک قطع ید کی سزا نہیں دی جائے گی جب اس نے کسی محفوظ جگہ سے نہ چرایا ہو ‘‘۔ (قرآنی فیصلے ص ۱۶۶)
پھر اس کے بعد مال محفوظ کی تعریف میں ’’سارق کسے کہتے ہیں‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت نسائی کی ایک روایت اور روایت حضرت عمرؓ کا قول اور امام ابن حزم کا ایک قول بطور حجت پیش فرماتے اور نتیجہ یہ پیش فرماتے ہیں کہ: "پہاڑوں پر آوارہ چرنے پھرنے والے جانوروں میں سے اگر کوئی جانور لے جائے تو وہ چور نہیں ہوتا۔ بھوکا شخص باغ سے پھل توڑ کر کھالے تو وہ بھی چور نہیں ہوتا۔ قحط کے زمانے میں چوری کرنے والا بھی چور نہیں ہوتا۔ لہٰذا ان پر قطعِ ید کی حد جاری نہیں ہوگی۔ البتہ قاضی جرم کی نوعیت کے مطابق اسے سزا دے سکتا ہے"۔ (قرآنی فیصلے ص ۱۶۶)
جب احادیث پرویز صاحب کے موقف کی تائید میں ہوں تو ان کا استعمال ایمان کا تقاضہ بن جاتا ہے جب پرویز صاحب کے موقف کی تردید ہو رہی ہو تو احادیث کو عجمیوں کی اختراع اور ایرانی سازش قرار پاتی ہے۔
٭خلاصہ ٭:
 
قرآن کریم نے کچھ احکام نہایت وضاحت اورصراحت سے بیان کئے ہیں جیسے قانون وراثت، قانون شہادت، قانون حدود، ایمانیات اوراخلاقیات۔ مگر کچھ احکام ایسے بھی ہیں اور یہ بہت سے ہیں جنہیں قرآن کریم نے مجمل طور پر بیان کیا ہے،قرآن کریم میں ان کی پوری کیفیت ادا نہیں ملتی، پھر قرآن پاک میں کچھ ایسے اشارات ہیں جن کی تفصیل اس میں نہیں ہے اور پھر کچھ مشکلات ہیں جن کی وضاحت کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے اور پھر اصول قرآنی کی ایسی توسیعات بھی ہیں جن کی پوری جزئیات کا بیان یہاں نہیں ملتا اورنہ یہ عملاً ممکن ہے۔ انہی تفاصیل کے لیے قرآن کے ساتھ حضور ﷺ کو معلم بنا کے بھیجا گیا اور قرآن میں ہی کہا گیا کہ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَيْهِمْ (النحل:۴۴) یعنی ہم نے آپ کی طرف یہ قرآن اتارا ہے تاکہ جومضامین لوگوں کے پاس بھیجے گئے ہیں، آپ ان کوکھول کرسمجھادیں۔
منكرين حديث اس آیت کا انکار کرتے ہوئے كتاب كو ہی  مفصّل،مُبِين، مُبَيّن اور تبيان كہتے ہيں ۔ لیکن دوسری طرف اللہ تعالىٰ كى تبيين كے بعد خود تفسيريں بھی لكھتے ہیں ۔ ايك مقام اور دوسرے مقام كے درميان جو خلیج رہ جاتى ہے، اسے پُر كرنے كے لئے وہ اپنے ذہن و اجتہاد سے كام ليتے ہيں ، ربط ِمضامين اور استنباط ِنتائج ميں قرآنى آيات كو اپنے فہم اور سمجھ كے مطابق چلاتے ہيں ۔ انکا ہر فرقہ اسی بين، مفصل اور مبين قرآن كو كھینچ تان كركے اپنے ذہنى تصورات پرمنطبق كرنے كى كوشش كرتا ہے- كيا آج لاہور ہى ميں بلاغ القرآن والوں اور طلوعِ اسلام والوں كى يہى كيفيت نہيں ہے؟
 
يہ تو رہى منكرين حديث كے مختلف فرقوں كى كيفيت، خود پرويز صاحب كى كيفيت يہ ہے كہ وہ اس ميں مفصل ، مبين، مبين قرآن كى آيات كو فضاے دماغى ميں اُٹھنے والى ہر لہر كے ساتھ اپنے تازہ ترين ذ ہنى مزعومات پر كھینچ تان كے ذريعہ منطبق كرتے رہے ہيں - ان كے وسيع خار زار تضادات كى آخر اس كے سوا كيا وجہ ہوسكتى ہے؟اگر ان كے نزديك "اللہ كى تبیانا لکل شئی كے بعد، مزيد كسى تبيين كے كوئى معنى نہيں ہيں تو پهر 'مفكر ِقرآن' صاحب كى يہ 'تفسير مطالب الفرقان'، يہ 'قرآنى فيصلے'، يہ 'قرآنى قوانين'، يہ 'تبويب القرآن'، يہ 'لغات القرآن'، يہ'مفہوم القرآن' يہ سلسلہ ہائے 'معارف القرآن' وغيرہ كتب ، اگر قتل اوقات (Time Killing) كى خاطر بهى نہيں تهى، تو پهر پيٹ كے جہنم كو ايندهن فراہم كرنے كى پيشہ وارانہ ضرورتوں ہى كا تقاضا تها؟ 
 
كتاب لے كر تشریح پیغمبر كو نہ لينا، نہ صرف يہ كہ تعليم بلا عمل، كتاب بلاپيغمبر اور قرآن بلا محمد كے نرالے مسلك كو اختيار كرنا ہے بلكہ اسى منصب ِرسالت كى تكذيب كرنا بهى ہے جس كا تقاضا ہى يہ ہے كہ رسول كتاب كى تشريح و تفسیر اورتبیین و توضيح كرے- اس كا انكار نفس رسالت ہى كا انكار ہے۔

waswasa : chand ayaat se istedlaal ke sirf QURAN hi ki payervi ka hukm hai




اعتراض : جب قرآن میں حکم ہے کہ " اتبعوا ما انزل اللہ الیکم من ربکم ولا تتبعو ا من دونہ اولیاء ( ۳ : ۷ ) صرف اس چیز کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کی گئی ہے۔ اور اس کے علاوہ کسی ولی کا اتباع مت کرو۔پھر کسی اور کی پیرو کیوں ؟
جواب :
 
یہ بات درست ہے کہ قرآن مجید میں جہاں "نازل کرنے" کے ساتھ "کتاب" یا "ذکر" یا "فرقان" وغیرہ کی تصریح کی گئی ہے۔ صرف اسی جگہ ما انزل اللہ سے مراد قرآن ہے۔ لیکن کیا صرف اللہ نے کتاب ہی نازل فرمائی ؟ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ:
و انزل اللہ علیک الکتاب والحکمۃ و علّمک ما لم تکن تعلم (آیت: ۱۱۳۳)"اور اللہ نے تیرے اوپر نازل کی کتاب اور حکمت اور تجھے سکھایا وہ کچھ جو تو نہ جانتا تھا"
واذکروا نعمۃ اللہ علیکم و ما انزل علیکم من الکتاب والحکمۃ یعظکم بہ (آیت:۲۳۱۱) " اور یاد رکھو اپنے اوپر اللہ کے احسان کو اور اس کتاب اور حکمت کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے۔ اللہ تمہیں اس کا پاس رکھنے کی نصیحت فرماتا ہے"
 
اسی بات کو سورۂ احزاب میں دہرایا گیا ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر کی خواتین کو نصیحت فرمائی گئی ہے کہ:واذکرن ما یتلیٰ فی بیوتکن من ایٰت اللہ والحکمۃ (آیت:۳۴) 
 
اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر کتاب کے علاوہ ایک چیز "حکمت" بھی نازل کی گئی تھی جس کی تعلیم آپ لوگوں کو دیتے تھے۔ اس کا مطلب آخر اس کے سوا کیا ہے کہ جس دانائی کے ساتھ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم قرآن مجید کی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام کرتے اور قیادت و رہنمائی کے فرائض انجام دیتے تھے، وہ محض آپ کی آزادانہ ذاتی قوتِ فیصلہ (Private Judgment) نہ تھی بلکہ یہ چیز بھی اللہ نے آپ پر نازل کی تھی۔ نیز یہ کوئی ایسی چیز تھی جسے آپ خود ہی استعمال نہ کرتے تھے بلکہ لوگوں کو سکھاتے بھی تھے (یعلمکم الکتاب و الحکمۃ)۔ اور ظاہر ہے کہ یہ سکھانے کا عمل یا تو قول کی صورت میں ہو سکتا تھا یا فعل کی صورت میں۔ اس لیے امت کو آنحضرتؐ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وہ دو چیزیں ملی تھیں۔ ایک کتاب۔ دوسری حکمت، حضورؐ کے اقوال میں بھی اور افعال کی صورت میں بھی۔
 
ان تصریحات کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن جب ہمیں دوسری سب چیزوں کو چھوڑ کر صرف ما انزل اللہ کی پیروی کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس سے مراد محض قرآن ہی کی پیروی نہیں ہوتی بلکہ اس حکمت اور نور اور اس میزان کی پیروی بھی ہوتی ہے جو قرآن کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل کی گئی تھی اور جس کا ظہور لا محالہ حضورؐ کی سیرت و کردار اور حضورؐ کے اقوال و افعال ہی میں ہو سکتا تھا۔ اسی لیے قرآن کہیں یہ کہتا ہے کہ ما انزل اللہ کی پیروی کرو (مثلاً آیت ۳۰۷ میں) اور کہیں یہ ہدایت کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرو (مثلاً آیات ۳۱:۳۔ ۳۳، ۲۱ اور ۱۵۶:۷ میں)۔ اگر یہ دو مختلف چیزیں ہوتیں تو ظاہر ہے کہ قرآن کی ہدایات متضاد ہو جاتیں۔

اعتراض:"
ان تمام اعمال میں جو حضورﷺ نے ۲۳ سالہ پیغمبرانہ میں کیے وہ اسی ما انزل اللہ کا جو کتاب اللہ میں موجود ہے ، اتباع کرتے تھے اور امت کو بھی یہی حکم ملا کہ اسی کا اتباع کرے۔ جہاں اتبعوا ما انزل اللہ الیک من ربکم ( ۳ : ۷ ) وہاں یہ بھی اعلان ہوا کہ حضورﷺ بھی اسی کا اتباع کرتے ہیں۔ قل ان اتبع ما یو حٰی الی من ربی ( ۷ : ۲۳) ۔ نہ معلوم آپ کن وجوہات کی بنا پر کتاب اللہ کے قانون کو نامکمل قرار دیتے ہیں"۔

تبصرہ:
 
آپ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر صرف وہی وحی آتی تھی جو قرآن میں موجود ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو صرف اسی کی پیروی کا حکم تھا۔ حالانکہ خود قرآن سے یہ ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر قرآن کے علاوہ بھی وحی کے ذریعہ سے احکام نازل ہوتے تھے ۔تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے ہماری تحریر" کیا حضور ﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟ پھر 'قل ان اتبع ما یوحی الی 'بذات خود حدیث کے الہامی ہونے کی دلیل ہے ، یہ واضح کرتی ہے کہ حضور ﷺ کی ہر بات وحی کے تابع ہوتی تھی ۔ 
 
دوسری بات آپ یہ فرماتے ہیں کہ امت کو صرف قرآن کی پیروی کا حکم ہے حالانکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ امت کو رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کا حکم بھی ہے:
قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ (آل عمران:311)"اے نبی کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو، اللہ تم سے محبت فرمائے گا (آل عمران:31)"۔
 
ورحمتی وسعت کل شئ فساکتبھاللذین یتقون ویؤتون الزکوٰۃ والذین ہم باٰیتنا یؤمنون الذین یتبعون الرسول النبی الامی الذی یجودنہ مکتوباً عندھم فی التوراۃ االانجیل (الاعراف : 156-157) "میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے اور اس رحمت کو میں ان لوگوں کے لیے لکھ دوں گا جو تقویٰ کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں، جو پیروی کرتے ہیں اس رسولِ نبیِ اُمی کی جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں (الاعراف:156-157)"۔
 
ان آیات میں رسول کی پیروی کرنے کے حکم کو تاویل کے خراد پر چڑھا کر یہ معنی نہیں پہنائے جا سکتے کہ اس سے مراد دراصل قرآن کی پیروی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، اگر واقعی مقصود یہی ہوتا کہ لوگ رسول کی نہیں بلکہ قرآن کی پیروی کریں تو آخر کیا وجہ ہے کہ آیت نمبر 1 میں اللہ تعالیٰ نے فاتبعوا کتاب اللہ کہنے کے بجائے فاتبعونی کے الفاظ استعمال فرمائے؟ کیا آپ کی رائے میں یہاں اللہ میاں سے چوک ہو گئی ہے؟پھر آیت نمبر2میں تو اس تاویل کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اس میں آیات خداوندی پر ایمان لانے کا ذکر الگ ہے اور نبی امی صلی اللہ علیہ و سلم کے اتباع کا ذکر الگ۔
 
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے فرائض رسالت کی جو تفصیل بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ آپ اللہ کی کتاب پہچانے والے ہیں۔ اس کتاب کی تشریح و توضیع کرنے والے ہیں، اس کے مطابق کام کرنے کی حکمت سکھانے والے ہیں، افراد اور جماعت کا تزکیہ کرنے والے ہیں، مسلمانوں کے لیے نمونۂ تقلید ہیں، وہ رہنما ہیں جس کی پیروی خدا کے حکم سے واجب ہے، امر و نہی اور تحلیل و تحریم کے اختیارات رکھنے والے شارع (Law Giver) ہیں، قاضی ہیں اور حاکم مطاع ہیں۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ تمام مناصب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول ہونے کی حیثیت سے حاصل تھے اور منصب رسالت پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مامور ہونے کا مطلب ہی یہ تھا کہ آپ ان مناصب پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور کیے گئے۔ اس باب میں قرآن کے واضح ارشادات میں پہلے نقل کر چکا ہوں جنہیں دہرانے کی حاجت نہیں۔
کیا کتاب اللہ کا قانون نامکمل تھا؟
 
یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جو علم قانون کے ایک مسلم قاعدے کو نہ سمجھنے کی وجہ سے آپ کو لاحق ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں یہ قاعدہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ قانون سازی کا اختیار اعلیٰ جس کو حاصل ہو وہ اگر ایک مجمل حکم دے کر یا ایک عمل کا حکم دے کر، یا ایک اصول طے کر کے اپنے ماتحت کسی شخص یا ادارے کو اس کی تفصیلات کے بارے میں قواعد و ضوابط مرتب کرنے کے اختیارات تفویض کر دے تو اس کے مرتب کردہ قواعد و ضوابط قانون سے الگ کوئی جز نہیں ہوتے بلکہ اسی قانون کا ایک حصہ ہوتے ہیں۔ قانون ساز کا اپنا منشا یہ ہوتا ہے کہ جس عمل کا حکم بھی میں نے دیا ہے، ذیلی قواعد بنا کر اس پر عمل درآمد کا طریقہ مقرر کر دیا جاۓ، جو اصول اس نے طے کیا ہے اس کی مطابق مفصل قوانین بنائے جائیں اور جو مجمل ہدایت اس نے دی ہے اس کے منشا کو تفصیلی شکل میں واضح کر دیا جائے۔ اسی غرض کے لیے وہ خود اپنے ماتحت شخص یا اشخاص یا اداروں کو قواعد و ضوابط مرتب کرنے کا مجاز کرتا ہے۔یہ ذیلی قواعد بلاشبہ اصل ابتدائی قانون کے ساتھ مل کر اس کی تشکیل و تکمیل کرتے ہیں۔ مگر اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ قانون ساز نے غلطی سے ناقص قانون بنایا تھا اور کسی دوسرے نے آ کر اس کا نقص دور کیا بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ قانون ساز نے اپنے قانون کا بنیادی حصہ خود بیان کیا اور تفصیلی حصہ اپنے مقرر کیے ہوۓ ایک شخص یا ادارے کے ذریعے سے مرتب کرا دیا۔
حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے تشریعی کام کی نوعیت:
 
اللہ تعالیٰ نے اپنی قانون سازی میں یہی قاعدہ استعمال فرمایا ہے۔ اس نے قرآن میں مجمل احکام اور ہدایات دے کر، یا کچھ اصول بیان کر کے، یا اپنی پسندو ناپسند کا اظہار کر کے یہ کام اپنے رسول ﷺ کے سپرد کیا کہ وہ نہ صرف لفظی طور پر اس قانون کی تفصیلی شکل مرتب کریں بلکہ عملاً اسے برت کر اور اس کے مطابق کام کر کے بھی دکھا دیں۔ یہ تفویضِ اختیارات کا فرمان خود قانون کے متن (یعنی قرآن مجید) میں موجود ہے۔
 "
اور (اے نبی) ہم نے یہ ذکر تمہاری طرف اس لیے نازل کیا ہے کہ تم لوگوں کے لیے واضح کر دو اس تعلیم کو جو ان کی طرف اتاری گئی ہے۔(النمل:44)
 
اس صریح فرمانِ تفویض کے بعد آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قولی اور عملی بیان، قرآن کے قانون سے الگ کوئی چیز ہے۔ یہ درحقیقت قرآن ہی کی رو سے اس کے قانون کا ایک حصہ ہے۔ اس کو چیلنج کرنے کے معنی خود قرآن کو اور خدا کے پروانۂ تفویض جو چیلنج کرنے کے ہیں۔یہ اگرچہ آپ کے نکتے کا پورا جواب ہے، لیکن میں مزید تفہیم کی خاطر چند مثالیں دیتا ہوں جن سے آپ یہ سمجھ سکیں گے کہ قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شرح و بیان کے درمیان کس قسم کا تعلق ہے۔
11.
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا کہ وہ پاکیزگی کو پسند کرتا ہے۔ واللہ یحب المطھرین (التوبہ:10) اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کی کہ اپنے لباس کو پاک رکھیں۔ وثیابک فطھر (المدثر:4) حضور ﷺ نے اس منشا پر عمل درآمد کے لیے استنجا اور طہارتِ جسم و لباس کے متعلق مفصل ہدایات دیں اور ان پر خود عمل کر کے بتایا۔
22.
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اگر تم کو جنابت لاحق ہو گئی تو پاک ہوۓ بغیر نماز نہ پڑھو (النساء:43، المائدہ:6)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ جنابت سے کیا مراد ہے۔ اس کا اطلاق کن حالتوں پر ہوتا ہے اور کن حالتوں پر نہیں ہوتا اور اس سے پاک ہونے کا طریقہ کیا ہے۔
33.
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنا منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھولو، سر پر مسح کرو اور پاؤں دھوؤ، یا ان پر مسح کرو (المائدہ:6) نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ منہ دھونے کے حکم میں کلی کرنا اور ناک صاف کرنا بھی شامل ہے۔ کان سر کا ایک حصہ ہیں اور سر کے ساتھ ان پر بھی مسح کرنا چاہئیے۔ پاؤں میں موزے ہوں تو مسح کیا جائے اور موزے نہ ہوں تو ان کو دھونا چاہیے۔ اس کے ساتھ آپ نے تفصیل کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ وضو کن حالات میں ٹوٹ جاتا ہے اور کن حالات میں باقی رہتا ہے۔ 
44.
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روزہ رکھنے والا رات کو اس وقت تک کھا پی سکتا ہے جب تک فجر کے وقت کالا تاگا سفید تاگے سے ممیز نہ ہو جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ اس سے مراد تاریکیِ شب کے مقابلہ میں سپید ۂ صبح کا نمایاں ہونا ہے۔
55.
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کی چیزوں میں بعض اشیاء کے حرام اور بعض کے حلال ہونے کی تصریح کرنے کے بعد باقی اشیاء کے متعلق یہ عام ہدایت فرمائی کہ تمہارے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کی گئی ہیں (المائدہ:4) نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے قول اور عمل سے اس کی تفصیل بتائی کہ پاک چیزیں کیا ہیں جنہیں ہم کھاسکتے ہیں اور ناپاک چیزیں کون سی ہیں جن سے ہم کو بچنا چاہیے۔
66.
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے وراثت کا قانون بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میت کی نرینہ اولاد کوئی نہ ہو اور ایک لڑکی ہو تو وہ نصف ترکہ پائے گی اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زائد لڑکیاں ہوں تو ان کو ترکے کا دو تہائی حصہ ملے گا (النساء:11)۔ اس میں یہ بات واضح نہ تھی کہ اگر دو لڑکیاں ہوں تو وہ کتنا حصہ پائیں گی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے توضیح فرمائی کہ دو لڑکیوں کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا دو سے زائد لڑکیوں کا مقرر کیا گیا ہے۔
7.
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے دو بہنوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنے سے منع فرمایا (النساء:233)۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ پھوپھی، بھتیجی اور خالہ بھانجی کو جمع کرنا بھی اسی حکم میں داخل ہے۔
8.
قرآن مردوں کو اجازت دیتا ہے کہ دو دو، تین تین ، چار چار عورتوں سے نکاح کر لیں (النساء:33) یہ الفاظ اس معاملہ میں قطعاً واضح نہیں ہیں کہ ایک مرد بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں نہیں رکھ سکتا۔ حکم کے اس منشاء کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمائی اور جن لوگوں کے نکاح میں چار سے زائد بیویاں تھیں ان کو آپ نے حکم دیا کہ زائد بیویوں کو طلاق دے دیں۔
99.
قرآن حج کی فرضیت کا عام حکم دیتا ہے اور یہ صراحت نہیں کرتا کہ اس فریضہ کو انجام دینے کے لیے آیا ہر مسلمان کو ہر سال حج کرنا چاہیے یا عمر میں ایک بار کافی ہے، یا ایک سے زیادہ مرتبہ جانا چاہیے (آل عمران:97)۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی تشریح ہے جس سے ہم کو معلوم ہوا کہ عمر میں صرف ایک مرتبہ حج کر کے آدمی فریضۂ حج سے سبکدوش ہو جاتا ہے۔
10.
قرآن سونے اور چاندی کے جمع کرنے پر سخت وعید فرماتا ہے۔ سورۂ توبہ کی آیت 344 کے الفاظ ملاحظہ فرما لیجئے۔ اس کے عموم میں اتنی گنجائش بھی نظر نہیں آتی کہ آپ روز مرہ کے خرچ سے زائد پیسہ بھی اپنے پاس رکھ سکیں، یا آپ کے گھر کی خواتین کے پاس سونے یا چاندی کا ایک تار بھی زیور کے طور پر رہ سکے۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں جنہوں نے بتایا کہ سونے اور چاندی کا نصاب کیا ہے اور بقدر نصاب یا اس سے زیادہ سونا چاندی رکھنے والا آدمی اگر اس پر ڈھائی فی صدی کے حساب سے زکوٰۃ ادا کر دے تو وہ قرآن مجید کی اس وعید کا مستحق نہیں رہتا۔
 
ان چند مثالوں سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کے تفویض کردہ تشریعی اختیارات کو استعمال کر کے قرآن کے احکام و ہدایات اور اشارات و مضمرات کی کس طرح شرح و تفسیر فرمائی ہے۔ یہ چیز چونکہ خود قرآن میں دئیے ہوئے فرمانِ تفویض پر مبنی تھی اس لیے یہ قرآن سے الگ کوئی مستقل بالذات نہیں ہے بلکہ قرآن کے قانون ہی کا ایک حصہ ہے۔

payervi kis ki ? kitab allah ki ya rasul s.a.w ki ?




قرآن نے جگہ جگہ اطاعت ِ رسول كا حكم ديا ہے لیکن منكرين حديث رسول كى حيثيت ايك ڈاكیے سے زيادہ نہيں سمجهتے، حیثیت ِرسالت كو صرف 'پيغام پہنچا دينے' كى حد تك محدود جانتے ہيں ، حالانكہ تبليغ رسالت ايك الگ فريضہ ہے اور اطاعت رسول ايك الگ چيز ہے۔اطاعت رسول، منكرين حديث كے لئے بہت بڑى وجہ پريشانى ہےچنانچہ وہ اس كى تاويل يہ كرتے ہيں كہ اطاعت ِرسول كا معنى، اطاعت ِخداوندى ہى ہے جس كى عملى شكل كتاب اللہ كى پيروى ہے- ليكن يہ بات پهر ان كے لئے دردِ سر بن جاتى ہے كہ قرآنِ كريم ميں اتباعِ قرآن كا الگ ذكر ہے اور اطاعت ِرسول كا الگ حكم ہے اور اس پر مستزاد يہ كہ قرآنِ مجيد كو كہيں بهى اُسوئہ حسنہ نہيں كہا گيا، جبكہ رسول اللہ (كى زندگى) ميں اہل مسلمان كے لئے بہترين اُسوہ كا ذكر كيا گيا ہے ليكن منكرين حديث يہاں دليل كى بجائے، ضد اورہٹ دهرمى سے كام ليتے ہوئے باصرار يہ كهے چلے جاتے ہيں كہ رسول كى اطاعت، اصلاً اللہ ہى كى اطاعت ہے اور اللہ كى اطاعت كى عملى صورت صرف يہ ہے كہ كتاب اللہ كى پيروى كى جائے- يوں يہ لوگ اللہ كى اطاعت كى عملى صورت ميں ، اطاعت ِرسول كى اس كڑى كو خارج كرديتے ہيں جس كى وساطت سے كتاب اللہ ، اہل ايمان كوملى ہے-
 واقعاتى صورتِ حال يہ ہے كہ محمد رسول اللہﷺہمارے پاس پہلے آئے، ہم ان كى رسالت پر ايمان لائے، تب ان ہى كے كہنے پر (حديث رسول كى بنياد پر) ہم نے قرآن كو قرآن تسليم كيا ہے- اب يہ كس قدر عجيب بات ہے كہ محمد رسول اللہﷺ كى جس زبان پر اعتماد كرتے ہوئے ہم نے قرآن كو قرآن مانا ہے، اُسى زبان كوايمان بالقرآن كے فوراً بعد ہم نظر انداز كرديں اور خداے كائنات كى طرف سے مامور من اللہ نمائندہ ہونے كى حيثيت سے جو سركارى تشريح، زبان ترجمان وحى نے فرمائى ہے وہ يكسر مہمل اور بے معنى ہوكر رہ جائے۔
پرويز صاحب فرماتے ہيں :
 "اطاعت اور حكومت صرف خدا كى ہوسكتى ہے، كسى انسان كى نہيں - ليكن خدا تو ہمارے سامنے (محسوس شكل ميں ) نہيں ہوتا، ہم اس كے احكام كو براہ راست سن نہيں سكتے، اس لئے اس كى اطاعت كس طرح كى جائے؟ اس كے لئے اس نے خود ہى بتا ديا كہ يہ اطاعت اس كى كتاب كى مدد سے كى جائے، جسے اس نے نازل كيا ہے۔( طلوع اسلام ، اکتوبر 1956ء ،ص51)
 يہى منكرين حديث كى وہ اصل گمراہى ہے جس پر وہ ضد اور ہٹ دهرمى سے ڈٹے ہوئے ہيں - سوال يہ ہے كہ اللہ تعالىٰ نے قرآن ميں يہ بات كہاں فرمائى ہے كہ : "اس كى اطاعت، اس كتاب كى مدد سے كى جائے جسے اس نے نازل كيا ہے-" كيا قرآن نے كہيں بهى يہ كہا ہے كہ من يتبع القرآن فقد أطاع الله "جس نے كتاب اللہ كى پيروى كى ، اس نے اللہ كى اطاعت كى-"
آخر خود سوچئے كہ يہ خداوند قدوس اور اس كى كتاب پربہتان تراشى ہے يا مزاج شناسى اُلوہيت؟
رسول - مامور من اللہ شارحِ قرآن:
كتاب كے ساتھ الله تعالىٰ نے اپنے نبى كو بهيجا ہے تو اس كا مقصد كيا ہے؟ قرآن يہ بيان كرتا ہے كہ:
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ‌ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ...﴿٤٤٤﴾...سورۃ النحل)"اور ہم نے (اے رسول!) تيرى طرف يہ ذكر نازل كيا، تاكہ تُو لوگوں كے لئے اُس چيز كى وضاحت كر دے جو ان كى طرف اُتارى گئى-"
 يہ آيت جس طرح ان منكرين نبوت كى حجت كے لئے قاطع تهى جوخدا كا 'ذكر' بشر كے ذريعہ سے آنے كو نہيں مانتے تهے، اسى طرح آج يہ ان منكرين حديث كى حجت كے لئے بهى قاطع ہے جو نبى كى توضيح و تشريح كے بغير صرف 'ذكر' كولے لينا چاہتے ہيں - وہ خواہ اس بات كے قائل ہوں كہ (1) نبى نے تشريح و توضيح كچھ بهى نہيں كى، صرف 'ذِكر' پيش كرديا تها (2)يا اس كے قائل ہوں كہ ماننے كے لائق صرف 'ذكر' ہے نہ كہ نبى كى تشريح (3) يا اس كے قائل ہوں كہ اب ہمارے لئے صرف 'ذِكر' كافى ہے، نبى كى تشريح كى كوئى ضرورت نہيں ۔(4)يا اس بات كے قائل ہوں كہ اب صرف 'ذِكر' ہى قابل اعتماد حالت ميں باقى رہ گيا ہے، نبى كى تشريح يا تو باقى ہى نہيں رہى يا باقى ہے بهى تو بهروسے كے لائق نہيں ہے- 
 غرض ان چاروں باتوں ميں سے وہ جس بات كے بهى قائل ہوں ، ان كا مسلك بہرحال قرآن كى اس آيت سے ٹكراتا ہے-
 اگر وہ پہلى بات كے قائل ہيں تو اس كے معنى يہ ہيں كہ نبى نے اس منشا ہى كو فوت كرديا جس كى خاطر ذكر كو فرشتوں كے ہاتھ بهيجنے يا براہ راست لوگوں تك پہنچا دينے كى بجائے اسے واسطہ تبليغ بتايا گيا تها-اگر وه دوسرى اور تيسرى بات كے قائل ہيں تو اس كا مطلب يہ ہے كہ اللہ مياں نے (معاذ الله) يہ فضول حركت كى كہ اپنا 'ذكر' ايك نبى كے ذريعہ بهيجا كيونكہ نبى كى آمد كا حاصل بهى وہى ہے جو نبى كے بغير صرف ذكر كے مطبوعہ شكل ميں نازل ہوجانے كا ہوسكتا تها۔اگر وہ چوتهى بات كے قائل ہيں تودراصل يہ قرآن اور نبوتِ محمدى دونوں كے نسخ كا اعلان ہے جس كے بعد اگر كوئى مسلك معقول باقى رہ جاتا ہے تو وہ ان لوگوں كا مسلك ہے جو ايك نئى نبوت اور نئى وحى كے قائل ہيں - اس لئے كہ اس آيت ميں اللہ تعالىٰ خود قرآنِ مجيد كے مقصد ِنزول كى تكميل كے لئے نبى كى تشريح كو ناگزير ٹھہرا رہا 
ہے اور نبى كى ضرورت ہى اس طرح ثابت كررہا ہے كہ وہ ذكر كے منشا كى توضيح كرے-

اب اگر منكرين حديث كا يہ قول صحيح ہے كہ نبى كى توضيح و تشريح دنيا ميں باقى نہيں رہى ہے تو اس كے دو نتيجے كهلے ہوئے ہيں :
پہلا يہ كہ نمونہٴ اتباع كى حيثيت سے، نبوتِ محمدى ختم ہوگئى اور ہمارا تعلق محمدﷺكے ساتھ صرف اس طرح كا رہ گيا جيسا ہود، صالح اور شعيب علیہم السلام كے ساتھ ہے كہ ہم ان كى تصديق كرتے ہيں ، ان پر ايمان لاتے ہيں ، مگر ان كا كوئى اسوہ ہمارے پاس نہيں ہے جس كا ہم اتباع كريں - يہ چيز ايك نئى نبوت كى ضرورت ، آپ سے آپ ثابت كرديتى ہے- صرف ايك بے وقوف آدمى ہى اس كے بعد ختم نبوت پراصرار كرسكتا ہے- 
 دوسرا نتيجہ يہ ہے كہ اكيلا قرآن نبى كى تشريح و تبیین كے بغير خود اپنے بهيجنے والے كے قول كے مطابق ہدايت كے لئے ناكافى ہے، اسلئے قرآن كے ماننے والے خواہ كتنے ہى زور سے چيخ چيخ كر اسے بجائے خود كافى قرار ديں ، مدعى سست كى حمايت ميں گواہانِ چست كى بات ہرگز نہيں چل سكتى اور ايك نئى كتاب كے نزول كى ضرورت آپ سے آپ، خود قرآن كى رُو سے ثابت ہوجاتى ہے- قاتلهم الله اس طرح يہ لوگ حقيقت ميں انكارِ حديث كے ذريعے دين كى جڑ كهود رہے ہيں ۔"( تفہیم القرآن، ج2، ص543 تا 545)

اس بحث كو مختصر كرتے ہوئے، آخر ميں ، جناب پرويز صاحب ہى كا ايك اقتباس نذرِ قارئين كررہا ہوں :
 "اس ميں شبہ نہيں كہ دنيا ميں كتب ِسماوى اور حضرات انبيا كرام كى تشريف آورى كا سلسلہ اس غرض و غايت كے لئے ہے كہ دنيا ميں انسان خدا كا فرماں بردار بن كر جئے- گويا انسانى زندگى كا مقصود بالذات' اطاعت ِخداوندى 'ہى ہے، ليكن چونكہ خدا ہر ايك كے سامنے نہيں آتا، نہ ہرايك سے كلام كرتا ہے- اس لئے انسانوں كو پتہ كيسے چلے كہ كس كام ميں اس كى اطاعت ہے اور كس ميں معصيت- اس كے لئے اس نے اپنے پيغامات علىٰ التواتر دنيا ميں بهيجے اور ان پر كاربند ہونے كا حكم فرمايا، تو گويا كتابوں پرعمل پيرا ہونا درحقيقت اطاعت ِخدا ہى تها ليكن جيسا كہ اوپر ذكر آچكا ہے، كتاب بلاتعميل يہ واضح نہيں كرسكتى كہ اس كے احكام پر كس شكل اور كس نوعيت سے عمل پيرا ہونا چاہئے- اس لئے انسانوں ميں رسول منتخب كئے گئے تاكہ وہ ان احكام پر خود عمل پيرا ہوكر دوسروں كے لئے ايك اُسوہ قائم كريں ، لہٰذا حكم ديا گيا كہ رسول كى اطاعت كرو- مقصودِ آخرى يا منتہىٰ اگرچہ اطاعت ِخدا ہى تها، ليكن بجائے اس كے كہ اس اطاعت كى شكل ہر ايك كى اپنى مرضى يا زيادہ سے زيادہ فہم و ادراك پر چهوڑا جاتا، حكم دے ديا كہ اپنى رائے كو دخل نہ دو، بلكہ جس طرح سے يہ رسول كركے دكهاتا ہے يا كرنے كا حكم ديتا ہے اس كے مطابق كرتے جاوٴ، يہى اطاعت خدا ہوجائے گى : ﴿مَّن يُطِعِ الرَّ‌سُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّ
ـهَ...﴿٨٠﴾...سورۃ النساء﴾ "جس نے رسول كا حكم مانا اس نے گويا خدا كى اطاعت كى-"
 چنانچہ انبياءِ سابقہ كے حالات سے پتہ چلتا ہے كہ انہوں نے بهى اپنى اپنى قوم كو خدا كى اطاعت كا جو سبق ديا تو انہى الفاظ ميں كہ ہمارى يعنى رسولوں كى اطاعت كرو- سورة الشعراء ميں سب سے پہلے حضرت نوح
سے يہ الفاظ مذكور ہيں : ﴿فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُونِ﴾ "اللہ سے ڈرو اور ميرى تابعدارى كرو-"
بعينہ
يہى الفاظ حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط اور حضرت شعيب  كى زبان سے، اسى جگہ مذكور ہيں ، چنانچہ اسى حقيقت ِعظمىٰ كو قرآن نے اجتماعى طور پر بطورِ حصر، ان الفاظ ميں بيان فرمايا ہے:﴿وَماَ أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللهِ﴾ "ہم نے ہر رسول كو اس لئے بهيجا كہ خدا كے حكم سے اس كى اطاعت كى جائے-"
 گويا رسول كى اطاعت ، خدا كے حكم سے ہے، ليكن اطاعت اس كى ضرور ہے، يہى وجہ ہے كہ اللہ تعالىٰ نے كہيں يہ حكم ديا ہے كہ﴿اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّ‌بِّكُمْ...﴿٣﴾...سورۃ الاعراف﴾ "اُس كى پيروى كرو جو تمہارے رب كى طرف سے اتارا گيا ہے-"
اور كہيں نجات و سعادت كو اتباع رسول عربى كے ساتھ مشروط كيا گياہے، چنانچہ حضرت موسىٰ 
كى دعا كے جواب ميں فرمايا كہ تمہارى قوم ميں سے ہمارى رحمت ان كے ساتھ ہوگى: ﴿الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّ‌سُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَ‌اةِ وَالْإِنجِيلِ...﴿١٥٧﴾...سورۃ الاعراف﴾ "جو اتباع كريں گے اس رسول و نبى اُمى كا جس كا ذكر يہ لوگ اپنے ہاں تورات اور انجيل ميں لكها ہوا پاتے ہيں -"
 تو اس كا مطلب يہ نہيں كہ (نعوذ باللہ) ان احكام ميں تضاد ہے كہ كہيں قرآن كے حكم كا اتباع ہے اور كہيں رسول كے اتباع كا- بلكہ اصل يہ ہے كہ رسول كا اتباع ہى قرآن كا اتباع ہے كيونكہ رسول كو خود حكم ديا گيا ہے كہ﴿وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ مِن رَّ‌بِّكَ...﴿٢﴾...سورۃ الاحزاب﴾ "اور جو تمہارے ربّ كى طرف سے تم پروحى كى جاتى ہے، اس كا اتباع كرو-"
 لہٰذا ان احكام كى موجودگى ميں اب يہ كسى كى اپنى مرضى و منشا كے ماتحت نہ رہا كہ جس طرح جى چاہے قرآن كا اتباع كرلے بلكہ قرآن كا اتباع ہو ہى اس شكل ميں سكتا ہے جس شكل ميں رسول نے كيا يا كرنے كا حكم ديا۔( معارف، اپریل 1935ء ، ص280 تا 282)
 قدرے اور آگے چل كر پرويز صاحب لكهتے ہيں - اور نبى اكرمﷺكے مجسمہ تعميل قرآن اور اُسوہٴ حسنہ كى حيثيت سے يوں استدلال كرتے ہيں :
 "چونكہ اس تعميل اور نمونہ كے بغير خدا كى اطاعت ممكن نہ تهى، اس لئے جہاں قرآنِ كريم ميں ﴿أَطِيعُوا اللَّ
ـهَ﴾ آيا ہے، اس كے ساتھ ہى ﴿وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ﴾ بهى آيا ہے- كہيں ايك جگہ بهى اكيلا ﴿أَطِيعُوا اللَّـهَ﴾ نہيں آيا اور چونكہ ﴿وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ﴾ ميں اطاعت خداوندى خود بخود آجاتى ہے، اس لئے خالى ﴿أَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ﴾ قرآن ميں بعض جگہ آيا ہے، مثلاً ﴿وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْ‌حَمُونَ ﴿٥٦﴾...سورۃ النور﴾ "رسول كى اطاعت كرو تاكہ تم پر رحم كيا جائے-" اور جہاں جہاں ﴿أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّ‌سُولَ﴾ آيا ہے ، وہاں درحقيقت ﴿أَطِيعُوا اللَّـهَ﴾ سے مراد اطاعت ِرسول ہى ہے۔( معارف ، اپریل 1935ء ، ص 282 تا 283)
يہ اقتباسات، منكرين حديث كے خلاف لكهے جانے والے اس مقالے سے مقتبس ہيں جو اس دور ميں پرويز صاحب نے لكها، جب وہ ذہنا ً اور قلبا ً حديث ِنبوى اور سنت ِرسول سے منحرف ہوچكے تهے ليكن مسلم عوام اور علماے كرام ميں مقبوليت(Popularity) پالينے كے لئے وہ اپنے قلم سے ان ہى خيالات كو پيش كرنے پر مجبور تهے جو عامة الناس ميں اور علماء كرام ميں سلفا ً و خلفا ً مقبول تهے- ان خيالات كے اظہار كى غرض و غايت خواہ كچھ بهى ہو ليكن يہ خيالات بہرحال درست، صحيح، مطابق قرآن اور موافق اسلام تهے، ليكن جب بعد ميں اس بنيادى مسئلہ ميں پرويز صاحب نے قلا بازى لگائى تو پهر ان كا تكيہ كلام ہى يہ بن گياكہ__ "رسول كى اطاعت بهى كتاب كى پيروى كے ذريعہ ہوگى" اور مغربى معاشرت كے جملہ عادات و اطوار اور اشتراكيت كا پورا نظام اور فرنگى تہذيب كا ہر فكر اور فلسفہ جو من پسند ٹھہرا، اسے يہ كہہ كر قبول كرليا كہ "يہ مطابق قرآن ہے-" اور يوں اللہ تعالىٰ كے دين كى تكميل ہوئى۔
خلاصہ:
 كتاب اللہ كے ساتھ، حضرت محمدﷺكا تعلق دو طرح كا ہى ممكن ہے:اوّلاً _ يہ كہ كتاب آپ پر اللہ كى طرف سے نازل ہوئى ہو اور آپ بحیثیت ِرسول اس كتاب كى تبیین كے ذمہ دار ہوں - ہمارے نزديك كتاب اللہ كے ساتھ رسول اللهﷺكے تعلق كى يہى نوعيت ہے۔
 ثانياً_ يہ كہ كتاب آپ كى تصنيف ہو اور آپ خود اس كتاب كے مصنف ہوں - كتاب اللہ كے ساتھ آپ كے اس تعلق كے قائل كفارِ عرب تهے- تاہم اگر كتاب اللہ كے ساتھ حضور اكرم ﷺ كا تعلق، تصنیف اور مصنف كا تعلق ہى مانا جائے تب بهى اس تبیین و تفسیر كو قبول كئے بغير چارہ نہيں جو خود مصنف نے پيش كى ہے- خود مصنف كى اپنى تشريح كو چهوڑ كر كسى كا اپنى توضيح كرنا يا كسى تيسرے فرد كى تبیین كو تبیین مصنف كے مقابلے ميں قبول كرنا انتہائى نامعقول طرزِعمل ہے-
 قرآن كريم كى رو سے حضورِ اكرمﷺ اُسوئہ حسنہ بهى ہيں ، مگر ہرطرح كے تمام انسانوں كے لئے نہيں بلكہ صرف ان افراد كے لئے ،"جو اللہ اور يومِ آخرت كى اميد ركهتے ہيں اور يادِخداوندى كو بكثرت مستحضر ركهتے ہيں -" ﴿لِّمَن كَانَ يَرْ‌جُو اللَّ
ـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ‌ وَذَكَرَ‌ اللَّـهَ كَثِيرً‌ا ﴿٢١﴾...سورۃ الاحزاب﴾ اس آيت كى وضاحت ميں کسی زمانے میں خود پرويز صاحب نے لکھا تھا :
 "يہ آيت آپ اپنى تفسير ہے يعنى ايك شخص جو خدا سے بہت ڈرتا ہے اور اسے يقين ہے كہ جو كچھ اس دنيا ميں كيا جاتا ہے، ايك دن خدا كے حضور پہنچ كر اس كى جوابدہى ضرور ہوگى- اب جس شخص كا يہ ايمان و يقين ہو لامحالہ وہ يہى چاہتا ہے كہ اسے معلوم ہوجائے كہ وہ كون سى شاہراہ حقيقت ہے جس پرگامزن ہوكر وہ اس منزل مقصود كو پالے گا اور ادہر ادهر ضال ومغضوب (ذليل و خوار) نہيں ہوتا پهرے گا- اس لئے فرمايا كہ تردّد كى كيا ضرورت ہے، رسول كى زندگى كا نمونہ سامنے ہے، اس ہادئ صراط مستقیم كے نقوش قدم موجود ہيں - بلا خوف و خطر ان نشانوں پر چلتے جاوٴ، كسى قسم كا بهى خوف وخطر نہ ہوگا۔( معارف ، اپریل 1935ء ، ص279 تا 280)